تفسیر تدبر قرآن میں دعوتی پہلو
اگرچہ مولانااصلاحی کی شخصیت کی تعمیر میں مولانا فراہی کا بہت بڑا حصہ ہے مگر تفسیر تدبر قرآن کو مولانا فراہی کے خیالات کا اعادہ نہیں کہا جاسکتا ۔اس تفسیر کی اپنی مجتہدانہ شان ہے اور یہ مولانا اصلاحی کی پوری زندگی کے غور و فکر کا نتیجہ ہے ۔ خود مولانا اصلاحی کے الفاظ میں ‘‘میں نے قرآن کریم کی ایک ایک سورۃ پر ڈیرے ڈالے ہیں ایک ایک آیت پر فکری مراقبہ کیا ہے اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک ادبی یا نحوی اشکال کی حل کے لیے ہر اس پتھر کے الٹنے کی کوشش کی ہے جس کے نیچے سے کسی سراغ کے ملنے کی توقع ہوئی ہے ۔ ’’
قرآن مجید کے تفسیری سرمایے میں ‘‘ تدبر قرآن ’’ اپنے پیش کردہ تصور ِنظم کے حوالے سے معروف ہے اور یہ تصور اس قدر غالب ہے کہ اس نے اس تفسیر کی بہت سی دیگر خوبیوں کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے اس تحریر میں ہماری کوشش ہے کہ اس تفسیر کی ایک اور امتیاز ی خصوصیت یعنی دعوتی پہلو کو نمایا ں کیا جائے۔ مولانا کے پیش نظر صرف قرآن مجید کے نظم کو کھولنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی دعوت کو بھی قاری تک پہنچانے کی پوری سعی کرنا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سعی میں مولانا امین احسن اصلاحی پوری طرح کامیاب ہیں۔ مثلا ً جہاں مولاناقرآن مجید کے توحید کے بارے میں استدلال کو بیا ن کرتے ہیں تو اس کو آفاقی ، انفسی اور تاریخی استدلال میں تقسیم کرکے تصورِ تو حید کو قاری کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایک مترجم یا مفسر قرآن مجید کے مطلب یا مفہوم کو بس سید ھا سیدھا بیان کردے تو یہ بھی کافی ہے، مگر مولانااصلاحی اس بات کی شعوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے صرف ترجمے اور تفسیر کو منتقل کرنے پہ اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن مجید کے پیغام اور اس کی ہدایت کو بھی قاری تک منتقل کر سکیں۔
قرآن مجید ایک کتاب ہدایت ہے جس کا بنیادی مقصد انسانوں کو اس ہدایت پر لانا ہے جس کو پا کر وہ اخروی کامیابی حاصل کر سکیں ۔ قرآن مجید کے تمام مضامین اسی بنیادی نکتے کے گرد گھومتے ہیں، اس کے لیے جا بجا قرآن مجید نے دعوتی اسلو ب اختیا رکیا ہے تا کہ انسانی قلوب کو مخاطب بنایا جا سکے۔ تبدیلی کا آغاز دلوں سے ہوتا ہے اور دعوت بھی در دل پہ ہی دستک دیتی ہے۔قرآن مجید کی دعوت کو اگر ایک منطقی ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تو لوگ بلا تردد یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کس چیز کو بطور پیغام لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہے، کن اساسات پر وہ اپنی بات لوگوں سے منوانا چاہتا ہے، لوگوں کے سامنے وہ کن اخلاقی قدروں کو اجاگر کر رہا ہے، قانون کی سطح پر اس کے مطالبات کیا ہیں اور کس طرح کی شخصیت کی تشکیل اس کے پیش نظر ہے۔ قرآن کریم کے مضامین اگر اس طرح واضح کر دیے جائیں تو پوری دنیا کے لوگو ں کے لیے مروجہ اسلوب میں قرآن مجید کے مضامین کو سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا جو کہ عالمی دعوت کے پہلو سے بھی ایک مفید امر ہے ۔اس حوالے سے تفسیر تدبر قرآن کا تصور ِ نظم بھی بلاشبہ بہت کار آمد اور مفید امر ہے جو بذات خو د قرآن سے جوڑنے اور اس کی دعوت کو دلوں میں اتارنے میں بہت موثر ہے۔
تدبر کے مقدمے میں ‘‘دعوت’’
دعوتی پہلو سے تدبر کا دیباچہ بہت کام کی چیز ہے اس میں دعوتی پہلو بہت نمایا ں ہے۔مثلاً مولانا کے ارشادات کا مفہوم ہے کہ قرآن مجید سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ اس کوبر تر کلام مانا جائے۔یہ اللہ کا کلام ہے۔اس میں ابدی فلاح کا پیغام ہے۔یہ انسان کی رشد و ہدایت کا سامان ہے۔اس نے صدیوں تک ایک عظیم امت کی رہنمائی کی ہے اور اس کے پیغام نے اس زمین پر اس ریاست کو وجود بخشاجس سے بڑھ کر کسی عادلانہ ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس میں دی گئی شریعت اسے عبادت کا ڈھنگ سکھاتی،اس کے خاندان کے استحکام کا ذریعہ بنتی،اس کے معاشرے کی اصلاح کرتی اور اس کی ریاست کو سراپا خیر بنا دیتی ہے۔اس کا طرز استدلال اس کے ذہن کو مطمئن اور اس کے دل کو منور کر دیتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔خاکی وجود ہو یا اس کے اندر موجود روح،عقل و فہم کی صلاحیت ہو یا دوسرے انسانوں سے متعلق ہونے والے اخلاقی رویے، قرآن مجید میں ان سب کی پاکیزگی ،اصلاح اور بالیدگی کاسامان موجود ہے۔ غرض یہ کہ اپنے منتہاو مقصود کے اعتبار سے،یہ نفوس انسانی کے تزکیے کا ذریعہ ہے اور جو نفوس اس کتاب کی روشنی میں اپنا تزکیہ کر لیں گے،ان کے لیے خدا وند عالم نے جنت تیار کر رکھی ہے،اس طرح یہ وہ کتاب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کے لیے ابدی جنت کا پیغام ہے۔قرآن کا جو طالب علم اس کتاب کی اس اہمیت کو سمجھتا ہے، وہی اس قلب اور اس ذہن کے ساتھ اس کتاب کی طرف بڑھے گا،جس کے بعد یہ کتاب اس کے لیے اپنی ہدایت کے دروازے کھول دیتی ہے۔صاحب ِتدبر قرآن نے قرآن مجید کے تزکیہ نفس اور ہدایت کے اس پیغام کو اپنے اسلوب کے ذریعے عام کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔
تدبر قرآن کے مقدمے میں ‘‘قرآن کے طالبوں کے لیے چند ہدایات ’’ کے تحت پورے کا پورا مضمون دعوتی پہلو کا حامل ہے اس میں سے چند اقتباسات بطور مثال پیش ہیں۔
نیت کی پاکیزگی
(قرآ ن کریم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ) ‘‘سب سے پہلی چیز نیت کی پاکیزگی ہے ۔ نیت کی پاکیزگی سے میرا مطلب یہ ہے کہ آدمی قرآن کو صرف طلب ہدایت کے لیے پڑھے ۔ اگر طلب ہدایت کے سوا کوئی اور غرض سامنے ہو گی تو وہ نہ صرف قرآن کے فیض سے ہی محروم رہے گا بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ قرآن سے جتنا دور وہ اب تک رہا ہے اس سے بھی کچھ زیادہ دور ہٹ جائے ۔اگر آدمی قرآن پر اس لیے خامہ فرسائی کرے کہ لوگ اسے مفسر قرآن سمجھنے لگیں اور وہ کوئی تفسیر لکھ کر جلد سے جلد شہرت اور نفع حاصل کر لے تو ممکن ہے کہ اس کی یہ غرض حاصل ہو جائے لیکن قرآن کے علم سے وہ محروم ہی رہے گا اس طرح اگر آدمی کے کچھ اپنے نظریات ہوں اور وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرے کہ اس کے ان نظر یات کے لیے قرآن سے کچھ دلائل ہاتھ آجائیں تو ممکن ہے وہ قرآن سے کچھ الٹی سیدھی دلیلیں گھڑنے میں کامیاب ہو جائے لیکن ساتھ ہی وہ اپنی اس حرکت کے سبب سے اپنے اوپر قرآن کا دروازہ باکل بند کر لے گا۔’’
قرآن کو ایک برتر کلام مانا جائے
‘‘ دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن مجید کو ایک اعلی اور برتر کلام ما ن کر اس پر غور کرنے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ بظاہر یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ایک کتاب کے متعلق اس کے سمجھنے سے پہلے ہی یہ حسن ظن قائم کر لیا جائے کہ وہ نہایت ہی عظیم اور بر تر کتاب ہے لیکن غور کیجیے تو قرآن کے متعلق یہ پیشگی حسن ظن کوئی عجیب بات نہیں ہے قرآن مجید اپنے پیچھے ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے کوئی شخص اس کتاب پر ایمان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو لیکن اس حقیقت سے وہ انکا ر نہیں کر سکتا کہ جتنا بڑا انقلا ب دنیا میں اس کتاب نے برپا کیا ہے اتنا بڑا انقلاب کسی کتاب نے بھی نہیں برپاکیا۔ اس نے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انسانی زندگی کے ہر گوشے کو نہایت گہرے طور پر متاثر کیا ہے ۔ اس نے لوگو ں کے سوچنے کے انداز بدل ڈالے ، افکار و نظریات بدل ڈال ، تہذیب و تمدن بدل ڈالے ، آئین و قانون بدل ڈالے ، مذاہب و ادیان بدل ڈالے ۔ اتنی ہمہ گیر و عالم گیر تبدیلیاں لانے والی کتاب کسی شخص کے نزدیک اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی لیکن کسی کے نزدیک بھی غیر اہم نہیں ہو سکتی وہ یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ اس کتاب کے اندر وہ کیا چیز چھپی ہوئی ہے جس کے ذریعے سے اس نے اس دنیا کی کایا پلٹ دی۔ وہ یہ ضرور سمجھناچاہے گا کہ آخر اس میں وہ کیا جادو پوشیدہ ہے کہ عربوں کی قوم جس کو اونٹ چرانے کے سوا اور کسی بات کا بھی سلیقہ نہ تھا اس کو پڑھ کر دفعتاً شتر بانی کے درجے سے تر قی کر کے جہاں بانی کے مرتبے پر پہنچ گئی۔ وہ یہ ضرور معلوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ آخر اس کے اند ر وہ کیا حکمت کا خزانہ بند ہے کہ جو قوم زیادہ سے زیادہ امرا لقیس اور زہیر کے درجے کے آدمی مشکل سے پیدا کر تی تھی اس کے اندر ابوبکر صدیق اور عمر کے مرتبے کے لوگ پیدا ہونے لگے ۔
مسلمانوں کا المیہ کہ وہ قرآن کواصل میں برتر کلام نہیں مانتے
‘‘ جو اس کے ماننے والے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ اسے محض حرام و حلا ل کے جاننے کا ایک فقہی ضابطہ سمجھتے ہیں چنانچہ فقہ کے احکام علیحد ہ مرتب ہو جانے کے بعد ان کی نگاہوں میں اگر اس کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے تو صرف تبرک کے نقطہ نظر سے باقی رہ گئی ہے بہت سے لوگ اس کو بس متبرک کلمات اور دعاؤں کا مجموعہ سمجھتے ہیں جن کا ورد تو ضروری ہے لیکن وہ اس کو غور و فکر کا محل نہیں سمجھتے ۔ بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے یا ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور جب بھی وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اسی قسم کی غرض کے لیے متوجہ ہوتے ہیں بہت سے لوگ اس کو دفع آفات و بلیات کا تعویذ سمجھتے ہیں اور ان کی ساری دل چسپی اس کے ساتھ بس اسی پہلو سے ہوتی ہے ۔اس طرح کی غلط فہمیوں میں پڑ ے ہوئے مسلمان ناممکن ہے کہ قرآن کریم سے وہ فائدہ اٹھا سکیں جس کے لیے فی الحقیقت وہ نازل ہوا ہے ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہے کہ ان کو ایک توپ دی گئی کہ وہ اس کے ذریعے سے شیطان کے قلعے مسمار کریں لیکن وہ اس کو مچھر مارنے کی مشین سمجھ بیٹھے ۔’’
قرآن کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کا عزم
‘‘قرآن حکیم سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر قرآن کے تقاضوں کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کو بدلنے کا مضبوط ارادہ موجود ہو۔ایک شخص جب قرآن مجید کو گہری نگاہ سے پڑھتا ہے تو وہ ہر قدم پر یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کے تقاضے اس کی اپنی خواہشوں اور چاہتوں سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں گاتو مجھے ذہنی اور فکر ی اعتبار سے نیا جنم لینا پڑے گا۔ اسے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں اپنے اعمال و اخلاق کو قرآن کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کروں گا تو میرا اپنا ماحول میرے لیے بالکل اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اپنے وسائلِ معاش کو قرآن کے ضابطہ حلال وحرام کی کسوٹی پر
پر کھوں تو آج جو عیش مجھے حاصل ہے اس سے محروم ہو کر شاید اپنی نان شبینہ کے لیے بھی فکر مند ہونا پڑے گا۔ ان خطروں کے مقابل ڈٹ جانا اور ان سے مقابلے کے لیے کمر ہمت باندھ لینا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ صرف مردان کار ہی ان گھاٹیوں کو پار کر سکتے ہیں۔ان مردان کار کے ارادوں کی آزمایش ہوتی ہے اگر وہ اپنے آپ کو مضبوط ثابت کریں تو پھر ان کے لیے کامرانی کی راہیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو خدا اس کے لیے دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے ۔اگر ایک ماحول سے وہ پھینکا جاتاہے تو دوسرا ماحول اس کے خیر مقدم کے لیے آگے بڑھتا ہے اگر ایک زمین اس کو پناہ دینے سے انکارکر دیتی ہے تو دوسری سر زمین اس کے لیے اپنی آغوش کھول دیتی ہے اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے والذین جاہدوا فینا ۔۔۔۔۔۔’’
تدبر
‘‘ قرآن حکیم سے استفادے کے لیے چوتھی شرط تدبر ہے ۔اس شرط کا ذکر خود قرآن مجید نے بار بار کیا ہے ۔محض تبرک کے طور پر الفاظ کی تلاوت کرلینا اور معانی کی طرف دھیان نہ کرنا حضرات صحابہ کا طریقہ نہیں ہے یہ طریقہ تو اس وقت سے رائج ہوا ہے جب لوگوں نے قرآن مجید کو ایک صحیفہ ہدایت کے بجائے محض حصول برکت کی ایک کتاب سمجھنا شروع کر دیا ہے جب زندگی کے مسائل سے قرآن عظیم کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا ہے کہ دم نزع اس کے ذریعے جان کنی کی سختیوں کو آسان کیا جائے ۔اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے سے میت کو ایصال ثواب کیاجائے جب زندگی کے نشیب و فراز میں رہنما ہونے کے بجائے اس کا مصرف صرف یہ رہ گیا کہ ہم جس ضلالت کا بھی ارتکاب کریں اس کا افتتاح اس کے ذریعے کریں تا کہ و ہ برکت دے کر اس ضلالت کو ہدایت بنا دیا کرے۔ جب لوگوں نے اس کو ایک تعویذ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تا کہ جب و ہ اپنے دنیوی مقاصد کی تکمیل کے لیے نکلا کریں تو قرآن ان کی حفاظت کرے کہ اس راہ میں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے ۔ دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن حکیم سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب اس کو پورے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا جائے لیکن یہ عجیب ماجرا ہے کہ یہی ایک کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھ بند کر کے پڑھی جاتی ہے۔ معمولی سے معمولی کتاب بھی پڑھنے کے لیے لوگ کھولتے ہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے اپنے دل ودماغ کو حاضر کرتے ہیں لیکن قرآن کے ساتھ لوگوں کی یہ انوکھی روش ہے کہ جب اس کو پڑھتے کا ارادہ کرتے ہیں تو بالعموم سب سے پہلے دماغ پر پٹی باندھ لیتے ہیں’’
اللہ تعالی سے رہنمائی کی دعا
قرآ ن مجید سے فائدہ اٹھانے کے لیے پانچویں شرط یہ ہے کہ اس کی مشکلات میں آدمی بد دل اورمایوس ہونے یا قرآن مجید سے بدگمان یا اس پر معترض ہونے کے بجائے اپنی الجھن کو اپنے رب کے سامنے پیش کرے اور اسی سے مدد اور رہنمائی کا طلبگار ہو۔ قرآن میں تدبر کرنے والا کبھی کبھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے قول ثقیل کے نیچے دب کر رہ گیا ہے جس کو اٹھانا اس کے لیے ناممکن ہو رہا ہے اسی طرح وہ کبھی کبھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی ایسی مشکل آ گئی ہے جس کی کوئی ایسی تاویل ممکن ہی نہیں جس پر دل کو اطمینا ن ہو سکے ۔ اس طرح کی عملی اور فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی اپنی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے مدد کی دعا بھی کر تا رہے ۔ شب کے پچھلے پہر میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنا بھی اس مقصد کے لیے خاص چیز ہے جہاں تک حکمت کا تعلق ہے اس کے دروازے تو آخر شب کی خلوتوں کے بغیر کھلتے ہی نہیں۔’’
تدبر کے اس مقدمے کوپڑھ کر صا ف محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کے ہاں جس طرح اس بات کی اہمیت تھی کہ قرآن کی مشکلات حل کی جائیں یا اس کا نظم واضح کیا جائے ، اسی طرح ان کے ہاں یہ بات بھی پوری طرح پیش نظر تھی کہ قرآن مجید جس ہدایت اور دعوت کولے کر آیا ہے ، قاری اس سے بہتر سے بہتر استفادہ کیسے کر سکتا ہے ۔وہ کون کون سے شرائط ہیں جن کو پورا کرنے سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنا آسان ہوجا تا ہے اور وہ کون کون سی باتیں ہیں جن کااہتمام کرنے سے قرآن کی دعوت قاری کے دل تک راستہ بنا لیتی ہے اس لیے مولانا قرآن کا آغاز کرنے سے قبل ہی قاری کو اس بات کے لیے تیار کرتے ہیں کہ اسے قرآن سے ہدایت حاصل کر نے کے لیے کن شرائط کا اہتمام کرنا ہے ۔دیگر تفاسیر سے اس کا تقابل کریں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اگر چہ تمام مفسرین کے ہاں قرآن کے پیغام کا ابلاغ ہی پیش نظر ہے مگر ان کا اسلو ب یا تو علمی ہے یا ادبی ہے اور یا ایک سپا ٹ طریقے سے قرآ ن کا پیغام پہنچا دینا ہے مگر مولانا کے ہاں اس بات کا پورا اہتمام ہے کہ اسلوب نگارش میں اس بات کا خیا ل رکھا جائے کہ قاری کا قرآن سے ایک تعلق پیدا ہو جائے جو محبت میں بدل کر اسے عمل کی راہ پر ڈال دے۔
‘‘تفہیم القرآن’’ میں البتہ اس بات کی جھلک نظر آتی ہے لیکن چونکہ مولانا مودودی کے ہاں دین کی ایک خاص تعبیر پیش نظر ہے اور وہ قاری کے دل میں ایک تحریک اور انقلاب برپا کر نا چاہتے ہیں اس لیے تفہیم کے مقدمے سے ہی ان کا یہ رخ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے مثلاً مولانا مودودی ؒتفہیم القرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘ آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتا ب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔ جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اْٹھوائی اور وقت کے علمبرداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پر ور کو بھڑکا کر اْٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک پورے تیئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کشمکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آ پ سرے سے نزاعِ کفر دین اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر ا س کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اْسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت اِلی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اْٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بد رواْحدسے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقینِ اولین سے لے کر مؤلّفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ‘‘سلوک’’ ہے جس کو میں ‘‘سلوکِ قرآنی’’ کہتا ہوں۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آ کر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اْتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معافی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔’’
اس کے بالمقابل ضیا القرآن (پیر کرم شاہ الازہر ی ؒ)کا اسلوب دیکھیے اگرچہ پیر صاحب بھی یہی بیان کرتے ہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے اور اس کا مقصد انسانیت کو ہدایت فراہم کرنا ہے لیکن اس بات کو وہ جس طرح بیان کرتے ہیں اس میں ادبیت تو ظاہر ہوتی ہے دعوتی اسلوب البتہ پس منظر میں چلا جاتاہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
‘‘قرآن حکیم کا مقصد اولین انسان کی اصلاح ہے تربیت پیہم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطمئنۃ بنانا ہے ہوا و ہوس کے غْبار سے آئینہ دل کو صاف کرکے اسے انوار ربانی کی جلوہ گاہ بنانا ہے۔ انانیت و غرور، تمردو سرکشی کی بیخ کنی کرکے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کا خْوگر کرنا ہے۔ یہی کام سب سے اہم بھی ہے اور سب سے مشکل اور کٹھن بھی۔ قرآن مجید نے اسی اہم ترین اور مشکل ترین کام کو سر انجام دیا اور اس حسن و خوبی سے کہ دنیا کا نقشہ بدل گیا۔ یہ صرف باتیں ہی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت ہے زندہء جاوید حقیقت اور ناقابل انکار حقیقت کہ قرآن کی ہدایت سے بگڑا ہوا انسان سدھرا اور سدھر کر ساری کائنات کے لئے آیہء رحمت بن گیا۔ غور فرمائیے حکمتِ الٰہی نے نزولِ قرآن کے لئے جس سر زمین کو منتخب کیا۔ وہ عرب کا خطہ تھا۔ وہاں بسنے والے لوگ شکل ْوصورت میں تو انسان تھے لیکن انسانیت سے اْن کا دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ کفر و شرک، فسق و فجور، ظلم و ستم، وحشت و بربریت، جہالت اور اجڈپن اس پر فقر و افلاس مستزاد، غرضیکہ کونسا عیب تھا یا کونسی گمراہی تھی جو اْن میں بدرجہ اتم موجود نہ تھی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی تاثیر اور صاحب قرآن کی برکت سے وہ کیا سے کیا بن گئے۔ اگر قرآن عرب کے اجڈ بدوؤں کو آدم و بنی آدم کے لئے باعثِ عز و شرف بنا سکتا ہے، اگر ان جاہلوں کو جو ابجد خواں بھی نہ تھے بزم علم ودانش کا صدر نشین بنا سکتا ہے، اگر حرم کعبہ میں ۳۶۰ بتوں کی پوجا کرنے والی قوم کے دل میں معرفت الٰہی کی شمع فروزاں کر سکتا ہے تو ہمارے صنم کدہ تصورات کے لات و ہبل کو کیوں ریزہ ریزہ نہیں کرسکتا ،بشرطیکہ ہم قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور ہمارا کاروانِ حیات اس شاہراہ ہدایت پر گامزن ہو جائے جو قرآن نے ہمارے لئے تجویز کی ہے۔ اے درماندہ راہ قوم !قرآن تمھیں عظمت وعزت کی بلندیوں کی طرف آج بھی لے جا سکتا ہے بشرطیکہ تم اس کی قیادت قبول کر لو۔ اے اپنی قسمت برگشتہ پر آہ وفغاں کرنے والے نوجوانو !دنیا کی امامت تمھاری متاع گم گشتہ ہے ،تمھیں یہ واپس مل سکتی ہے اگر تم میں اس کی واپسی کی تڑپ ہو۔۔۔۔قرآن تمھیں واپس دلاسکتا ہے اگر تم اس کا حکم ماننے کے لئے تیّار ہو۔ ’’(جاری ہے)