اس دن کا آغاز بھی دوسرے عام دنوں کی طرح ہوا مگرکس کو خبر تھی کہ یہ دن زندگی کی بھیانک یادگار بن جائے گا۔ حسبِ معمول پڑھائی میں مصروف تھا کہ ظہر کی اذان ہونے پر پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہونے کو من چاہا۔کتابیں ایک طرف کیں اور ہاسٹل سے نکل کر مسجد کی طرف چل پڑا۔ نماز ادا کی اور کھانا کھانے کے لیے قریبی ہوٹل کا رخ کیا۔ ان دنوں میرے امتحانات ہو رہے تھے۔ تین پیپر مکمل ہو چکے تھے اور تین چھٹیوں کے بعد کیمسٹری کا پیپر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں چل تو سڑک پہ رہا تھا لیکن میرے ذہن پر ابھی تک H2O، C6 ،H12 ،O6 اور بہت سے دوسرے کیمیائی فارمولوں کی یلغار تھی۔میں ان فارمولوں سے نبردآزمائی میں مصروف سامنے چوک کی طرف بڑھا جا رہا تھا کہ اچانک ایک نہایت سلجھی ہوئی آواز سنائی دی: ‘‘بھائی، ذرا مہربانی کرکے گاڑی کو دھکا لگوا دیں۔’’ میں نے مڑ کر دیکھا تو سڑک کے کنارے ایک خوب صورت، خوش لباس اور سمارٹ نوجوان اپنی اندھے شیشوں والی بلیک ٹوڈی کار کے ساتھ پریشانی کے عالم میں کھڑا نظر آیا۔ میں نے اس کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے گاڑی کو دھکا لگانا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں وہ میرے بالکل قریب آگیا اور اچانک ہی اس نے پستول نکال کر میرے پہلو کے ساتھ لگا دیا اور بولا: ‘‘چپ چاپ کار میں بیٹھ جاؤ۔’’ میں چکرا کر رہ گیا اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چپ چاپ کار میں بیٹھ گیا، کار میں دو آدمی جو اس کے ساتھی معلوم ہوتے تھے، اگلی دو نشستوں پر براجمان تھے جب کہ دو خوبرو نوجوان لڑکے جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی وہ پچھلی نشست پر یوں بیٹھے تھے کہ ان کے چہرے زرد تھے اور ان سے خوف بارش کی بوندوں کی طرح ٹپک رہا تھا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ بٹھا کر آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور رسی سے دونوں ہاتھ پشت کی جانب اتنے زور سے باندھے کہ درد کے مارے میری چیخ نکل گئی۔ خوش لباس نوجوان بھی میرے ساتھ پھنس کر بیٹھ گیا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ میں کچھ سمجھ ہی نہ سکا۔ پھر کار میں ایک طویل سفر کا آغاز ہوا، تقریباً ابتدائی آدھ گھنٹا تو میں ذہنی طور پر بالکل مفلوج ہو کر چپ چاپ بیٹھا رہا پھر جب مجھے کچھ ہوش آیا تو میں یکلخت چیخ اٹھا: ‘‘یہ کیا ہے، کون ہو تم، کہاں لے جا رہے ہومجھے، چھوڑ دو مجھے، میرا پیپر ہے۔’’ مگر یہ سب سنتے ہی پستول بردار نوجوان نے بجائے کسی ہمدردی کے اس زور سے میرے پیٹ پر ایک گھونسا مارا کہ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ‘‘ماں’’ نجانے ماں کیسی ہستی ہے کہ بچے کو اگر تکلیف پہنچے تو بعض اوقات خدا سے بھی پہلے ماں کی یاد آجاتی ہے۔ میں سہم کر بیٹھ گیا۔ پھر جب میں نے ٹھنڈے دماغ سے ساری صورتِ حال کا جائزہ لیا تو حالات کو خطرناک حد تک خراب پایا۔ مجھے اپنی جان شدید خطرے میں نظر آئی۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔ سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ کروں تو کیا کروں۔ پھر یکایک میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور زبان سے بے اختیار اس مالک کا بابرکت نام نکلا جس نے موسیٰؑ کو بہتے دریا میں سے راستہ بنا کر فرعون کے چنگل سے بچایا تھا۔ اسی کے ساتھ مجھے ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ میں نے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ مختلف سورتیں، جو مجھے یاد تھیں، ان کی تلاوت شروع کر دی۔ تلاوت و تسبیح پہلے بھی ہزارہا مرتبہ کی تھی، لیکن جو لذت اور اعتماد مجھے ان لمحات کے ذکر نے عطا کیا وہ اس سے پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا آج پہلی مرتبہ خدا کو یاد کر رہا ہوں۔ ہم گناہ گاروں کا آخری سہارا وہی ذات بابرکات ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری زندگی کی ہر سانس فقط اسی کے نام کی مالا جپتے ہوئے گزرے مگر افسوس، ہمیں اس کی یاد اسی وقت آتی ہے جب تمام عارضی سہارے اپنی حقیقت دکھا کر ہم سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس وقت میری یہ حالت تھی کہ پورا بدن خوف سے کانپ رہا تھا اور ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا لیکن دل مسلسل اس قادرِ مطلق کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تھا اور زبان اس کے پاک نام کے طواف میں مصروف تھی۔
تقریباً سات آٹھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد کار ایک جگہ رکی۔ ہم تینوں کو نیچے اتارا گیا۔ اسی اثنا میں سامنے سے ایک اور کار کے آنے کی آواز سنائی دی اور اس کی ہیڈ لائٹس کی روشنی پٹی بندھی آنکھوں میں داخل ہو کر ہمارے اندھے پن کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ دوسری کار کی آواز سنی تو دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے کہ نجانے یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ مار کر پھینک دیں گے ، گھر والوں سے تاوان مانگیں گے، کہیں بیچ دیں گے، کسی بیگار کیمپ میں بھیج دیں گے ، یا …… ؟؟ لیکن ان خیالات کے ساتھ ساتھ دل کے ایک کونے میں یہ یقین بھی موجود تھا کہ وہ اپنی مخلوق سے بے تحاشا محبت کرنے والا مجھے یوں رسوا نہ ہونے دے گا۔
بہرحال دوسری کار ہمارے قریب آ کر رکی اور اس میں سے چند لوگ اتر کر ہماری طرف آئے۔ پھر پستول والے خوش لباس نوجوان کی آواز سنائی دی۔ ‘‘باس، ہم ان تینوں کو لاہور سے لائے ہیں، ذرا پہچان کر لیں۔’’ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک آدمی جسے غالباً باس کہا گیا تھا، کی بھاری آواز سنائی دی۔ ‘‘یہ دو تو وہی ہیں، پر تیسرا نہیں ہے۔’’ ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی لہٰذا ہم نہ جان سکے کہ اس نے کس کے بارے میں کیا کہا ہے۔ میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ دوبارہ باس کی آواز سنائی دی۔ ‘‘اس تیسرے کو ……’’ میں اس سے زیادہ کچھ نہ سن سکا۔ ایک تو آواز مدھم تھی اور پھر ‘‘تیسرا’’ ہونے کی صورت میں اپنی موت کے احکامات خود اپنے ہی کانوں سے سننے کی سکت میرے اندر نہ تھی۔ میں جان بوجھ کر بہرہ بن گیا۔ اس دوران میں باقی دونوں لڑکوں کو دوسری کار میں بٹھا دیا گیا اور کار کے جانے کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد پستول والا نوجوان مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گیا،میری پٹی کھولی اور کہا ‘‘بھاگ جاؤ’’لیکن مجھے تو موت کے پنجے اپنے جسم میں پیوست ہوتے نظر آرہے تھے۔ میں فلموں اور ڈراموں میں بارہا دیکھ چکا تھا کہ مجرم جس قیدی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اسے یوں ہی بھاگنے کاکہہ کر پیچھے سے گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔میں گم سم کھڑا اس کا منہ تکتا رہا۔ وہ مجھ سے دوبارہ مخاطب ہوتے ہوئے بولا: ‘‘بھاگ جاؤ، دیکھ لو میرے ہاتھ خالی ہیں، میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا۔’’ اس نے اپنے دونوں خالی ہاتھ میرے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ اس وقت میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر عجیب کرب کے اثرات تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مجھے چھوڑنا نہ چاہتا ہو لیکن کوئی ان دیکھی طاقت اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہو۔ اپنی جان بچاؤ اور بھاگ جاؤ اس کی آنکھوں میں سچائی پا کر میں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ دور جا کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ جا چکا تھا، پر میری آنکھوں کے سامنے ابھی تک اس کا متغیر چہرہ اور پریشان آنکھیں تھیں۔ میں دوڑتا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر اس نے مجھے کیوں چھوڑا کہ اچانک میرے کانوں سے ‘‘اللہ اکبر’’ کی روح پرور صدا ٹکرائی اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے۔ میرے سامنے اپنی گناہوں اور خدا کی نافرمانیوں سے بھری زندگی پھن پھیلائے موجود تھی مگر اس رحمان و رحیم نے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی مجھے کسی گناہ کی سزا دینے کی بجائے رحمت کی حسین وادیوں کی سیر کروا کر نئی زندگی عطا فرما دی تھی۔ اس کے اس فضل و کرم نے اس وقت میرے پتھر دل سے بھی اشکوں کی صورت میں شکر گزاری کے چشمے جاری کر دیے۔
اس ویرانے سے مسلسل بھاگتے ہوئے آخر ایک شہر کے آثار نظر آئے پوچھا تو یہ ملتان شہر تھا۔بمشکل بسوں کے اڈے تک پہنچا۔ جسم میں جان تھی نہ جیب میں کرایہ۔ جی چاہتا تھا کہ کسی طرح اڑ کر لاہور پہنچ جاؤں۔ ایک دو صاحبان سے مدد کی درخواست کی مگر ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہر شخص مجھے ہی گھور رہا ہو۔ پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ گھر واپس پہنچنے کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی تھی۔ دل غم اور خوف سے بھر گیا تو آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی پروئی ہوئی لڑی بہہ نکلی۔ کتنی ہی دیر اسی حالت میں کسی غیبی مدد کے انتظار میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا۔ آخر رات کسی دربار پر گزارنے کا خیال آیا۔ ساری ہمت جمع کرکے شاہ شمس دربار پہنچا اور نڈھال ہو کر لیٹ گیا۔ جان تو بچ گئی تھی لیکن مجھے اپنا تعلیمی مستقبل تباہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔ لیکن انسان اپنے معبود کو بھول سکتا ہے، وہ نہیں۔ اتنے میں دو لڑکے جو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ملتان آئے تھے لیکن کسی وجہ سے مطلوبہ جگہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ رات گزارنے کے لیے اسی دربار پر میرے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے انھیں سارا ماجرا بیان کرکے مدد کی درخواست کی۔ ان رحمت کے فرشتوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا اور انہی کی مدد کی بدولت ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد میں اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر میں نے معمول کے مطابق بی ایس سی کے بقیہ پیپر دیے۔ یہاں بھی اللہ نے میری بھرپور مدد کی اور اعلیٰ نمبروں سے کامیابی عطا فرمائی۔
اب میں جب کبھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ تین چھٹیوں کے دوران میں ہی میرا اغوا اور پھر آزاد ہونا، وہ پتھر دل آدمی جو مجھے سسکی لینے پر بھی گھونسے رسید کرتا تھا، اس کا یوں موم ہو جانا اور دربار میں ان لڑکوں کی غیر متوقع کی آمد، یہ سب کیا تھا، تو آخر کار یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ جسے اللہ رکھے ، اسے کون چکھے۔
میں اس واقعے کو بھول جانا چاہتا ہوں لیکن آج بھی ان دوسرے دو لڑکوں،جو میرے ساتھ اغوا ہوئے تھے، کی سسکیاں میرے کانو ں میں گونجتی ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔مجھے اس بات کی پشیمانی ہے کہ میں ان کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ یہ خیال مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے کہ وہ جن ماں باپ کے بیٹے اور بہنوں کے بھائی ہیں ان کا کیا حال ہو گا۔
میں ان کے لیے دعا گو ہوں اور پڑھنے والوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ دعا کریں کہ جس طرح اللہ نے میری اور میرے گھر والوں کی مدد کی، اللہ ان کی اور ان کے گھر والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے۔ آمین!