نزولِ قرآن

مصنف : شہزاد سلیم

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : اکتوبر 2004

فصل اول : قبل از وحی رہنمائی

            اللہ تعالیٰ نے انسان کو بینا پیدا کیا ہے اور وحی کی رہنمائی سے پہلے اسے فطرت کی رہنمائی سے نوازا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدایشی طور پر نیکی اور بدی کی تمیز عطا کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے:

            وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاھَا فَأَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوَاھَا (۹۱:۷۔۸)

            ‘‘اور نفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اسے سنوارا پھر اس کی نیکی اور بدی کا شعور اسے سمجھا دیا۔’’

            وَھَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ(۹۰:۱۰)

            ‘‘اور کیا ہم نے اسے دو راستے نہیں دکھائے (کہ وہ اچھائی اور برائی کو سمجھ سکے)۔’’

            دوسرے الفاظ میں ہر شخص کو خیر اور شر کے بارے میں وجدانی طور پر رہنمائی عطا کی گئی ہے۔ قرآن خیر کے لیے ‘معروف’ اور شر کے لیے ‘منکر’ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ یہ رہنمائی اس قدر واضح ہے کہ ہر انسان اس کا اعتراف کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔ مثال کے طور پر ہر شخص انصاف، ایمانداری اور حق گوئی کو اچھائی جبکہ ظلم اور دھوکا دہی کو برائی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح یہی اچھائی اور برائی کا شعور ہے جو مثال کے طور پر ایک شخص کو بتاتا ہے کہ ہم جنس پرستی جنسی بے راہ روی کی کھلی قسم ہے اور یہ کہ شیر اور کتے کی طرح کے خونخوار جانور اور عقاب اور گدھ جیسے گوشت خور پرندے کھانے کے لیے نہیں ہیں۔

             ہر انسان نہ صرف اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے قابل ہے بلکہ اس کے اندر ایک خود احتسابی کا نظام بھی موجود ہے۔ اس کا ضمیر اس کی ہر اچھائی پر تائید اور ہر برائی پر اسے ملامت کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان نہیں دھرتا تو ضمیر کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آخر کار مردہ ہو جاتا ہے۔ مردہ ضمیر کا مطب یہ ہے کہ اب وہ برائی اور شر پر اس شخص کو ملامت نہیں کرتا۔

            چونکہ اچھائی اور برائی کا شعور انسان کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے اس لیے الہامی کتب اس بارے میں اصلاً رہنمائی فراہم نہیں کرتیں۔ نتیجتاً ان کتابوں میں اچھائیوں اور برائیوں کی کوئی فہرست

بھی موجود نہیں ہے، کیونکہ ہر شخص ابتدا ہی سے ان سے واقف ہے۔ الہامی کتابیں تو ترغیب دلاتی ہیں کہ ہر اس اچھائی کو اپنایا جائے اورہر اس برائی سے بچا جائے جس کا شعور انسان کے اندر موجود ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

            وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۹:۷۱)

            ‘‘اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ یہ بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔’’

اس بحث کا حاصل یہ ہے :

            ۱۔ انسان کو بینا پیدا کیا گیا ہے اور خیر اور شر کا شعور اس کی فطرت میں موجود ہے۔

            ۲۔ خیر و شر کے بارے میں رہنمائی چونکہ انسان کے اندر موجود ہے، لہٰذا اس معاملے میں اسے کسی بیرونی رہنمائی کی اصلاً ضرورت نہیں ہے۔

            ۳۔ البتہ انسان کی فطرت کی رہنمائی پر عمل کرنے کے لیے تلقین کرنے کی ضرورت موجود رہتی ہے۔

فصل دوم : وحی کی مختصر تاریخ

۱- قدیم صحف:

            جن معاملات میں انسان اپنی فطری رہنمائی کی مدد سے صحیح راہ متعین نہیں کر پاتا، ان میں اسے وحی کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کچھ افراد کو اپنے نمائندوں کے طور پر چنا اور ان کے ذریعے سے بنی نوع انسان کی رہنمائی فرمائی۔ پہلے دو انسانوں حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے ذریعے فطری رہنمائی اور وحی کی رہنمائی کا تعلق واضح کیا گیا۔ تخلیق آدم کی جو سرگزشت قرآن میں بیان ہوئی ہے،۱؂ وہ مندرجہ ذیل باتوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے:

            ۱۔ انسان کا ایک خالق ہے جو اس کا مالک اور رب ہے۔۲؂ لہٰذا صرف اس کی ہی عبادت کی جانی چاہیے۔

            ۲۔ انسان کو خیر اور شر کو اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے علم دیا گیا ہے۔۳؂

            ۳۔ مزید رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں نبی بھیجے۔۴؂

            ۴۔ انسان کا امتحان فطری رہنمائی اور وحی کی رہنمائی دونوں کے لحاظ سے لیا جائے گا۔ اگر وہ ان کی پیروی کرے گا تو اسے جنت کی ابدی نعمت سے نوازا جائے گا۔ اگر وہ انھیں نظر انداز کرے گا تو اسے جہنم کی سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔۵؂

            یہ رہنمائی جو حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو دی گئی وہ مسلمہ تاریخ کے طور پر بعد کی نسلوں کو منتقل ہوئی۔ تاہم، کچھ عرصے بعد لوگ اس رہنمائی کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ان اختلافات کو حل نہیں کیا جا سکتا تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ایک سلسلے کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ ان اختلافات کو رفع کریں:

            کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً اللّٰہُ النَّبِیِّنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذَرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ۔ (۲:۲۱۳)

            ‘‘تمام انسانیت ایک قوم تھی (اختلافات پھر پیدا ہوئے) اور اللہ نے پیغمبر بھیجے خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر اور ان کے ساتھ اس نے کتاب بھیجی سچائی کے ساتھ تاکہ وہ فیصلہ کرے لوگوں کے درمیان ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کررہے تھے۔’’

            حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک یہ رہنمائی بہت سے نبیوں سے گزرتی ہوئی کچھ طریقوں اوراعمال کی شکل اختیار کر گئی۔ ان اعمال کو سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ کچھ نبیوں پر اللہ تعالیٰ نے کتابیں بھی نازل کیں جو کتاب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل ہوئی اسے صحیفۂ ابراہیمی کہا جاتا ہے جبکہ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر اور انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور آخر میں قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔

۲- آخری وحی کی ضرورت:

            ایک طویل عرصے کے دوران میں سنت ابراہیمی اور الہامی کتب اپنی اصل حالت میں باقی نہ رہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں نکال دی گئیں، کچھ نئی شامل کر دی گئیں اور کچھ کو تبدیل کردیا گیا۔ چنانچہ ان کی تجدید کی ضرورت درپیش تھی۔ پس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ آخری نبی ہیں، اس کام کے لیے مبعوث کیا گیا اور آپ پر آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن نازل کی گئی۔ آپ نے سنت ابراہیمی کو بھی اس کی اصل شکل میں دوبارہ زندہ کیا۔ ارشادِ خداوندی ہے:

            وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنْ الْکِتَابِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ۔ (۵:۴۸)

            ‘‘اور آپ پر (اے رسول) ہم نے ایک کتاب نازل کی جو پچھلی الہامی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے اوپر نگہبان ہے۔’’

آخری وحی کے نزول کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں

(الف) سابقہ صحف کی اصل شکل میں عدم دستیابی: الہامی کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب بھی اپنی اصل صورت میں موجود نہ تھی بلکہ صرف تراجم موجود تھے۔

(ب) متن میں تبدیلیاں: تراجم بھی مکمل متن پر مشتمل نہ تھے۔ مثال کے طور پر قرآن (۷:۱۵۷) سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ الہامی کتابوں میں نبی کریمؐ کے آنے کا ذکر موجود تھا، جبکہ اب ہم ان کتابوں میں کوئی ایسی واضح بات نہیں پاتے۔یقینا اسے ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح قرآن مجید(۳۷:۱۰۰-۱۱۳) سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے پیش کیا گیا تھا، جبکہ تورات میں درج ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربانی کے لیے پیش کیا گیا۔

(ج) ہدایت کی تکمیل: جہاں تک ایمانیات اور اخلاقیات کا تعلق ہے تو وہ تمام الہامی کتابوں میں ایک ہیں۔ تاہم شریعت تمدن کے ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر قربانی کی عبادت کو لیجیے۔ قدیم تمدن میں یہ عبادت مقدار میں بہت زیادہ تھی کیونکہ اس زمانے کی معاشرت زیادہ تر گلہ بانی پر منحصر تھی اور ہر گھر میں بہت سے جانور اور مویشی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں جب سماج کی یہ صورت حال نہ رہی تو اس حکم میں ترمیم کی ضرورت پیش آئی۔

(د) بعض احکامات کی تنسیخ: یہود کو کچھ احکامات ان کی نافرمانی اور تکبر کی سزا کے طور پر دیے گئے تھے۔ یہ احکامات وقتی تھے۔ لہٰذا انھیں منسوخ کیا جانا ضروری تھا۔ مثلاً ان کی شریعت میں اونٹ کا گوشت کھانا ممنوع تھا۔ آخری شریعت میں اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا۔

٭٭٭

۱؂ مثلاً دیکھیے ۲:۳۴-۳۹ اور ۲۰:۱۱۶-۱۲۳۔

۲؂ قرآن تخلیق آدم کی جو تصویر پیش کرتا ہے اس سے یہی محسو س ہوتا ہے کہ یہ وہ پہلا موقع تھا جب انسانیت اپنے جد امجد (آدم و حوا) کے ذریعے سے خدا سے روشناس ہوئی۔ اور اس موقع پر آدم اور حوا کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ انسانوں کے اس پہلے جوڑے کو اپنے خالق کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا اور یہ سارا واقعہ ایک مسلمہ تاریخ کے طور پر نسل آدم میں منتقل ہوتا رہا۔ اور یہی وہ بات ہے جس کو خدا کے وجود کی سب سے اہم شہادت کہا جا سکتا ہے۔

۳؂ یہ حقیقت ہے کہ شیطان کے ورغلانے کے بعد آدم و حوا نے اپنے ستر کو چھپانا شروع کیا اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ ان کی فطرت میں خیر و شر کا شعور ابتدا ہی سے موجود تھا۔

۴؂ مندرجہ ذیل آیات اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

‘‘ہم نے کہا اترو یہاں سے سب تو اگر آئے تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو کفر کریں گے اور جھٹلائیں گے میری آیتوں کو وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲:۳۸-۳۹)

۵؂ ایضاً۔