ڈاکٹروں نے اُسکی موت کی تصدیق کر دی تھی مگر……

مصنف : عدیل ظفر سید

سلسلہ : جسے اللہ رکھے

شمارہ : ستمبر 2004

روایت : عدیل ظفر سید ۔ وسیم بلاک، حسن ٹاؤن، لاہور

 ترتیب و تہذیب : کاشف رزاق

                    یہ 1983 ء کے رمضان کی تیسری سحری تھی ۔ سحری کے بعد میں حسب معمول سو گیا اور آٹھ بجے بیدار ہوکر دفترکی تیاری کے لیے کمرے سے باہر نکلا تو اچانک میری نظر اپنی بیوی پر پڑی جوکہ باورچی خانہ کی دہلیز پر نہ صرف بے ہوش پڑی تھی بلکہ اس کے منہ سے جھاگ بھی نکل رہا تھا ۔ میر ا پریشان ہونا قدرتی امر تھا ۔ میں اُسی وقت باہر نکلا اور ایک ڈاکٹر صاحب (جو کہ اُسی علاقے میں رہتے تھے ) کو گھر لایا ۔ انہوں نے اپنے طور پر چیک کیا کچھ ادویات تجویز کیں اور شاید انجکشن وغیرہ بھی لگایا اور کہا کہ کچھ دیر تک یہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی ۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد میں نے اپنے دفتر فون کر کے معذرت کر لی۔ اس دوران میں دونوں بچے بھی بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے اُن کے ناشتہ وغیر ہ کا بندوبست کیا اور کچھ مطالعہ شروع کر دیا ۔تقریباً اڑھائی تین گھنٹے بعد میں نے جب محسوس کیا کہ بیوی کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو میں دوبارہ ڈاکٹر صاحب کو لینے چلا گیا ۔ خیر ڈاکٹر صاحب تشریف لائے ۔ انہوں نے بغور چیک کیا او رکچھ نہ سمجھنے والے انداز میں مجھے فرمایا کہ مریضہ کو ہسپتال لے جانا چاہیے ۔ میری بیوی چونکہ امید سے تھیں ۔ ایک نہیں بلکہ دو جانوں کامسئلہ تھا اس لیے یہی بہتر سمجھا کہ اب بغیر کسی تاخیر کے انہیں ہسپتال منقل کرنا ہی بہتر ہے مگر حالات بظاہر میرے خلاف ہوتے جارہے تھے ۔یکدم انتہائی بادل آگئے اور طوفانی بارش شر وع ہو گئی اور تھوڑی ہی دیر میں جل تھل ہو کر سواری کا ملنا بھی مشکل ہو گیا ۔ خدا بھلا کرے میر ے مالک مکان کا جو قریب ہی رہتے تھے وہ تشریف لے آئے اور اپنی کار میں ہمیں لے کر عازم ہسپتال ہوئے ۔ میرے دونوں بچے ( عمر ۴سال۔ ۲سال) بھی میرے ساتھ تھے ۔ اسی موسلادھار بارش میں تقریباً ساڑھے تین بجے ہم واپڈا ہسپتال سنی ویو شملہ پہاڑی پہنچے ۔ میں بیوی کو ایمرجنسی میں لے گیا ۔ محترم ڈاکٹر زبیر قیوم صاحب وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے فور ی طور پر میری اہلیہ کو چیک کیا اور کافی دیر تک مختلف طبی تراکیب آزماتے رہے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کے چہر ے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ رہا تھا آخر کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے ‘‘بری خبر ’’ سنا دی کہ مریضہ شاید دوران سفر ہی رحلت کر چکی ہیں ۔ دونوں بچے میرے ساتھ کھڑے تھے مجھ پر تو سکتہ طاری ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے بیوی پر چادر وغیر ہ ڈال دی اور بیڈ کو ایک مخصوص جگہ پر لگوا دیا ۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے سرکاری کارروائی مکمل کی۔میں بھی واپڈا ہسپتال ہی میں بطور ٹرانسپورٹ انچارج ملازم تھا ۔ فور ی طور پر اس وقت ڈیوٹی پر موجود ڈرائیور حاجی محمد اسلم صاحب ایمرجنسی میں آگئے ۔ بارش کا زور تو ٹوٹ گیا تھا مگر بدستور جاری تھی ۔ اچانک ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی طرف دیکھ کر ڈرائیور حاجی صاحب کو کچھ کھانے کے لیے لانے کو کہا ۔ رمضان المبارک میں چونکہ خورو نوش پر پابندی ہوتی تھی اس لیے ہسپتال ہذاکی کینٹین بھی بند تھی ۔ ہسپتال کے مریضو ں کے لیے میس (Mess ) میں مقررہ اوقات میں چولھا جلتا تھا ۔ میں نے کافی انکار کیا …… مگر شاید یہ ہی وہ لمحہ تھا جسے امر ہونا تھا اور اس کا ذریعہ بچوں نے بننا تھا ڈاکٹر زبیر قیوم صاحب نے اصرار کرکے ڈرائیور کو بچوں کے کھانے کے لیے بھیج دیا ۔ ڈرائیور حاجی صاحب گاڑی (ایمبولینس) لے کر چلے گئے ۔ واپڈا ہسپتال کے اس زمانے کے سرجیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر خالد صاحب اچانک تشریف لے آئے اور سیدھے ایمرجنسی میں داخل ہوئے ۔ انہیں جب اس حادثہ کے متعلق علم ہوا تو انہیں بھی انتہائی افسوس ہوا ۔ اسی اثناء میں خداکا کرنایہ ہوا کہ ہمارے ہسپتال کی گائنا کالوجسٹ لیڈی ڈاکٹر نگہت آرا شاہ صاحبہ غیر متوقع طور پر ہسپتال میں آگئیں دراصل ان کی کار راستے میں خراب ہو گئی تھی جس وجہ سے بقول لیڈی ڈاکٹر صاحبہ انہیں اپنا پروگرام بتدیل کرنا پڑا او روہ ایک مریض کو جو کہ ہسپتال ہذا میں داخل تھا اور ان کا عزیز تھا دیکھنے کے لیے تشریف لے آئیں ۔ چونکہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ مجھے اچھی طرح جانتی تھیں اور میری بیوی کو حاملہ کے طور پر چیک بھی کرتی رہی تھیں ۔ انہیں جب اس بات( موت) کا علم ہوا تو وہ بھی بے حد افسردہ ہوئیں ۔

                     مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایمبولینس ڈرائیور کا بے چینی سے انتظار ہو رہاتھا اور مجھ سمیت ہر کوئی حاجی صاحب کو برا بھلاکہہ رہا تھا ۔ ڈاکٹرصاحبہ،سرجن صاحب اور واپڈا ہسپتال کے دو سینئرڈاکٹر مجھ سے کھڑے افسوس کر رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر نگہت آرانے ڈیوٹی ڈاکٹر سے سٹیتھو سکوپ لے کر میر ی بیوی کو چیک کرنا شروع کر دیا او رکم وبیش مختلف طریقوں سے تقریباً آدھ گھنٹہ تک چیک کرتی رہیں پھراچانک ہی انہوں نے سرجن صاحب سے درخواست کی کہ فوری طور پر آپریشن تھیٹر لگوایا جائے انہیں کچھ شک ہے۔ ابھی افطار میں ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ سرجیکل سپیشلسٹ صاحب کے حکم پر فوری طور پر آپریشن تھیٹر کھلوایا گیا اور ایمرجنسی سٹاف کو ساتھ شامل کیا گیا ۔ میر ی بیوی کو اسٹریچر پر تھیٹر میں پہنچا دیا گیا ۔ باہر موجود زیادہ تر لوگ انتہائی حیرت زدہ تھے ۔میر ی بیوی کو تھیٹر میں گئے چند منٹ ہوئے تھے کہ ایمبولینس ہسپتال میں داخل ہوئی ڈرائیور حاجی صاحب کافی پریشان تھے اورکچھ کچھ شرمندہ بھی حاجی صاحب نے پہلے معذرت کی اور بتایا کہ ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے تنگ کرنا شروع کر دیا اسی وجہ سے دیر ہو گئی ۔ عام حالات میں شاید ہر کوئی حاجی صاحب کو نشانہ بناتا مگر یہ سب کچھ تو اوپر سے ہو رہا تھا ’ ڈاکٹر قیوم زبیر صاحب کا بچوں کے لیے کھانا منگوانا ’ اسٹیشن پر ڈرائیور صاحب کا پولیس سے جھگڑا ہونا ’ نتیجتاً تاخیر کا ہونا اور ادھر ہسپتال میں اچانک سر جن صاحب اور گائنا کالوجسٹ کا تشریف لانا ’ بارش کا جاری رہنا اور بالخصوص گائنا کالوجسٹ صاحبہ کا پروگرام تبدیل کر کے اپنے عزیز مریض کی عیادت کو آنا،اصل میں اسی اللہ وحدہ لاشریک قادر مطلق کے حکم کے مطابق ہو رہا تھا جو سب کچھ کے بغیر بھی سب کچھ کر سکتا ہے اور باقی سب’ سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکتے اگر اس کا حکم نہ ہو ۔ مغرب ہو چکی تھی میر ے چند عزیز بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے او رسب گومگو کا شکار۔

                     ابھی تک تھیٹر سے کسی قسم کی کوئی خبر باہر نہیں آئی تھی ۔ تمام لوگوں نے ڈرائیوراسلم صاحب کی امامت میں مغرب کی نماز ادا کی اور خصوصی دعا مانگی ۔ نماز کے کچھ ہی دیر بعد سب لوگوں نے وہ کچھ سنا جس کا شاید تصور کرنا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا ۔ مجھے تھیٹر میں بلوایا گیا۔ دونوں سینئیر ڈاکٹرز کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں نے مجھے گلے لگا لیا اورخوشخبری سنائی کہ تمہار ی بیوی زندہ ہے ۔ آپریشن ابھی جاری ہے ۔ بخدا میرے اوپر شادی مرگ کی سی کیفیت تھی ۔ دونوں ڈاکٹرز صاحب اولاد کے دکھ کو سمجھتے تھے میرے بچوں کو بھی تھیٹر میں بلاکر انہیں ماں کو دکھایا اور پیار کیا ۔رات تقریباً نو بجے آپریشن مکمل ہوا ۔ میری بیوی کو ہسپتال کے V.I.P کمرے میں شفٹ کیا گیا جسکا میں استحقاق نہ رکھتا تھا تقریباً دس یوم تک میری بیوی ہسپتال میں زیر علاج رہیں اور صحت یاب ہو کر اللہ کے فضل سے گھر واپس آئیں ……الحمدللہ آج میرے پانچ بچے ہیں اور بیوی بفضل خد ا ‘‘حیات ’’ ہیں ۔

                    اب ڈاکٹر صاحبہ نے جو کچھ بتایا وہ یوں ہے کہ بچہ اندر ختم ہو چکا تھا او رختم ہونے سے پہلے نا معلوم کس طرح دل کی طرف حرکت کر گیا تھا اور دل پر پنکچر کر کے خود بھی ختم ہو گیا تھا اور اپنی ماں کے دل کی دھڑکن بھی ناقابل محسوس کر گیا تھا ۔

                     آج بھی برسوں بعد جب سوچتاہوں تو اس سارے واقعے کی اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی سوائے اس کے کہ جسے اللہ رکھے ۔

٭……٭……٭