موت کا سناٹا

مصنف : اعجاز رحمانی

سلسلہ : نظم

شمارہ : نومبر 2005

 

زندگی رقص کر رہی تھی جہاں،اب وہاں موت کا ہے سناٹا
جوفلک بوس تھے ، مکاں کل تک
اب زمیں بوس ہو گئے سارے
روشنی کھو گئی اندھیرے میں
مقبروں میں مکاں ہوئے تبدیل
اب کسی کو نہیں کسی کی خبر
وہ جو بے حد حصار تھے مضبوط
آج سارے حِصار ٹوٹ گئے
قید ِ ہستی سے لوگ چُھوٹ گئے
بُھوک سے بے قرار تھا بھونچال
کتنے لوگوں کو، کھالیا اس نے
پھول سے بچے، خوش نما چہرے
جسم پر زخم ہیں سجائے ہوئے
ایک ملبے میں سب دبے ہیں، مگر
کوئی رکھتا نہیں، کسی کی خبر
بوڑھے، بچے، جوان سارے ہی
ایک جیسا لباس پہنے ہیں
لے رہی ہے زمین انگڑائی
آسماں نے یہ گل ُ کھلایا ِ ہے
شہر مقتل بنے ہوئے ہیں تمام
جس کو دیکھو، اجل گرفتہ ہے
وقت بھی آدمی پہ ہنستا ہے
ہر طرف ہے مُہیب سناٹا
سوگوار اور اداس آنکھوں میں
ثبت ہے اِنتظار کا موسم
زندگی کی طویل راہوں میں
وہ جو برسوں سے کر رہے تھے سفر
آج اچانک ، وہ ہو گئے ہیں جُدا
اب کِسی سے نہ مل سکے گا کوئی
شق ہُوا ہے زمین کا سینہ
زندگی، زلزلوں کی زد میں ہے
زندہ لاشیں گھروں کی قبروں میں
سب کو آواز دے رہی ہیں ، مگر
کوئی سنتا نہیں صدا ان کی
زندگی ہو گئی ہے، خود بھونچال ،پوچھتا کون ہے، کسی کا حال
اے خدا تو ہی کر مدد اِن کی
زندگی رقص کر رہی تھی جہاں،اب وہاں موت کا ہے سناٹا
زندگی ہو گئی ہے، خود بھونچال ،پوچھتا کون ہے، کسی کا حال
اے خدا تو ہی کر مدد ان کی
زندگی رقص کر رہی تھی جہاں،اب وہاں موت کا ہے سناٹا