جون 2005
ناداروں کو علم کے موتی آقا نے انمول دیے باب جہالت کا بند کیا اور ذہنوں کے در کھول دیے انگاروں کو پھول بنایا ذروں کو خورشید کیا جن ہونٹوں میں زہر بھرا تھا ان کو میٹھے بول دیے خشک پسینہ ہونے سے پہلے مزدوری مزدور کو دی آ...
نومبر 2005
زندگی رقص کر رہی تھی جہاں،اب وہاں موت کا ہے سناٹا جوفلک بوس تھے ، مکاں کل تک اب زمیں بوس ہو گئے سارے روشنی کھو گئی اندھیرے میں مقبروں میں مکاں ہوئے تبدیل اب کسی کو نہیں کسی کی خبر وہ جو بے حد حصار تھے مضبوط آج سارے حِصار ...
مارچ 2021
سب کچھ ہے خدا ، اُس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے انسان ہو کتنا ہی بڑا ، کچھ بھی نہیں ہے اوصاف ہیں تیرے حدِ ادراک سے بالا کیا سمجھے کوئی فکرِ رسا کچھ بھی نہیں ہے تو جسم کا مالک ہے تو ہی جان کا مالک انسان کے قبضے میں ہے کیا؟ کچھ بھی نہیں ہے سب تیرا...