ناداروں کو علم کے موتی آقا نے انمول دیے
باب جہالت کا بند کیا اور ذہنوں کے در کھول دیے
انگاروں کو پھول بنایا ذروں کو خورشید کیا
جن ہونٹوں میں زہر بھرا تھا ان کو میٹھے بول دیے
خشک پسینہ ہونے سے پہلے مزدوری مزدور کو دی
آپ نے محنت کش ہاتھوں کو بھر بھر کر کشکول دیے
آپ کی قربت نے لوگوں کو ایک نیا احساس دیا
جتنے چاہنے والے تھے کردار انہیں بے جھول دیے
یاد مدینہ جب بھی آئی ہم جیسے مجبوروں کو
طائر جسم و جاں نے آقا ، اڑنے کو پر تول دیے
بے کیفی کے موسم میں اک کیف سوا اعجاز ملا
نغمہ نعت سرور دین نے رنگ فضا میں گھول دیے