سب کچھ ہے خدا ، اُس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
انسان ہو کتنا ہی بڑا ، کچھ بھی نہیں ہے
اوصاف ہیں تیرے حدِ ادراک سے بالا
کیا سمجھے کوئی فکرِ رسا کچھ بھی نہیں ہے
تو جسم کا مالک ہے تو ہی جان کا مالک
انسان کے قبضے میں ہے کیا؟ کچھ بھی نہیں ہے
سب تیرا کرم تیری عطا تیری نوازش
انسان کو دنیا نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
تقدیر بدل جاتی ہے مومن کی دعا سے
میں کیسے یہ کہہ دوں کہ دعا کچھ بھی نہیں ہے
کونین کے اے رب مری کشتی کے محافظ
میرے لئے طوفانِ بلا کچھ بھی نہیں ہے
میں حشر میں رحمت کو تری ڈھونڈ رہا ہوں
دامن میں بجز جرم و خطا کچھ بھی نہیں ہے
تو نے ہی تو بخشی ہے یہ اعجازِ بیانی
یہ بندہ ناچیز ترا کچھ بھی نہیں ہے