امریکی محکمۂ داخلہ کے جیولوجیکل سروے کے زلزلوں کے بارے میں قومی اطلاعاتی مرکز نے ایک زلزلہ پیما کی تحقیق کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کی صبح شمالی پاکستان سے لے کر شمالی بھارت تک آنے والے زلزلے کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں زلزلے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان اور اس سے ملحق افغانستان اور بھارت کے علاقوں میں آنیوالے زلزلے اور زمین میں دراڑیں برصغیر پاک و ہند کی زمین کے چالیس ملی میٹر یا ایک اعشاریہ چھ انچ شمال کی جانب سرکنے اور بر یوریشیا کی تہ یا زمین سے ٹکرانے کا نتیجہ ہے۔ یہ تصادم زمین کی اس اٹھان یا ابھار کا موجب بن رہا ہے جس نے ہندوکش، ہمالیہ، قراقرم اور پامیر کے علاقوں سمیت دنیا میں بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کو پیدا کیا ہے۔ جیسے ہی ہندستانی زمین کی پرت یا تہ شمال کی جانب بڑھتی ہے وہ یوریشیائی زمینی تہ کے نیچے کھسک جاتی ہے۔ زمین کی ٹکراتی ہوئی ان دو پرتوں پر پڑنے والا دباؤ ان بڑے زمینی شگافوں پر مسلسل پڑ رہا ہے جو اس زمین کی سطح پر اور ان پہاڑوں کے تلیٹی میں ہیں۔
امریکی محکمہ داخلہ نے ارضیاتی سروے کے زلزلے پیما شعبے کے اندازوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ زیادہ تر سلسلوں میں ہر ایک بھونچالی دراڑ کو شناخت کرنا مشکل ہے لیکن شمال اور شمال مشرق میں زمین کی تہوں کے اندر پیدا ہونے والے مسلسل دباؤ کے نتیجے میں پڑنے والی دراڑیں اور زلزلے کا مرکز مظفرآباد شہر کے قریب ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں ارضیات کے اہم اور سنگین تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
امریکی ارضیاتی سروے کے زلزلوں کے متعلق قومی اطلاعاتی مرکز کا کہنا ہے کہ اب تک سائنس نے ایسا کوئی آلہ یا طریقہ ایجاد نہیں کیا جس سے دنیا میں آنیوالے زلزلوں کی پشین گوئی کی جا سکے اور یہ کہ زلزلے کا موسم سے بھی کوئی تعلق نہیں اور زلزلہ کسی بھی موسم میں آسکتا ہے۔
پاکستان کے علاقے میں اب تک آنے والے زلزلوں میں سب سے بڑا زلزلہ تیس مئی انیس سو پینتالیس کو کوئٹہ میں آیا تھا جس میں ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا تھا۔ اس کی شدت رکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ ایک تھی۔
موجودہ زلزلہ سے پہلے بیس نومبر سن دو ہزار دو کو گلگت کے علاقہ میں زلزلہ آیا تھا جس سے گلگت میں تیئیس افراد ہلاک ہوئے تھے، گلگت اور اسطور میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پندرہ ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔
تین نومبر سن دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں آنے والا زلزلہ پشاور، اسلام آباد اور سری نگر تک محسوس کیا گیا تھا جس سے شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔ اس سے سترہ افراد ہلاک اور پینسٹھ زخمی ہوگئے تھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
یکم نومبر سن دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں ہی ایک زلزلہ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا جبکہ شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔
چھبیس جنوری سن دو ہزار ایک کو بھارت کے صوبہ گجرات میں جنم لینے والے زلزلہ سے جنوبی پاکستان کے کچھ کے علاقہ میں بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ستائیس فروری انیس سو ستانوے میں بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر ایک بڑی شدت کا زلزلہ آیا جس سے کوئٹہ، ہرنائی اور سبی میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ وسطی بلوچستان میں محسوس کیا گیا تھا۔
نو اگست انیس سو ترانوے کو کوہ ہندوکش سے جنم لینے والے ایک بڑے زلزلے نے وسطی ایشیا سے ملتان تک کے علاقے کو متاثر کیا لیکن اس کا مرکز بہت گہرائی میں تھا جس وجہ سے زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
اکتیس جنوری انیس سو اکیانوے کو کوہ ہندوکش میں زلزلہ آنے سے افغانستان میں ننگر ہار اور بدخشاں کے علاقوں میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصا چترال میں تین سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
انتیس جولائی انیس سو پچاسی کو کوہ ہندوکش ہی میں ایک بڑا زلزلہ (رکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ ایک) آیا جس سے سوات اور چترال کے ضلعوں میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ پنجاب میں بھی محسوس کیا گیا تھا۔
تیس دسمبر انیس سو تراسی کو کوہ ہندوکش میں ایک بڑے زلزلہ سے شمالی پاکستان میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔
بارہ ستمبر انیس سو اکیاسی کو گلگت میں آنے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو سے زیادہ افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔
اٹھائیس دسمبر انیس سو چوہتر میں مالاکنڈ کے شمال مشرق میں آنے والے زلزلہ سے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
ستائیس نومبر انیس سو پینتالیس کو بلوچستان کے ساحل مکران میں جنم لینے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سنامی پیدا ہوئی تھی جس نے ممبئی کو بھی متاثر کیا تھا۔
اکیس نومبر انیس سو پینتیس کو کوئٹہ میں جنم لینے والے زلزلہ سے تیس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تقریبا مکمل طور پر تباہ ہوگیاتھا۔ یہ زلزلہ بہت کم گہرائی میں پیدا ہوا تھا اس لیے اس سے اتنی تباہی ہوئی۔ اٹھارہ سو ستائیس اور انیس سو اکتیس کے درمیان بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نو مختلف زلزلے آئے۔
چھبیس ستمبر اٹھارہ سو ستائیس کو لاہور کے قریب زلزلہ کا مرکز بنا جس سے ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
سولہ جون اٹھارہ سو انیس کو جنوبی پنجاب اور بھارت کے علاقہ کچھ میں آنے والے زلزلہ سے بتیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور جنوبی پنجاب کے درجنوں قصبے اور دیہات تباہ ہوگئے تھے۔ یہاں پر نوے کلومیٹر تک زمین کی پٹی زلزلہ کی شدت سے سطح سے چار فٹ بلند ہوگئی تھی۔ یہ زلزلہ اللہ بند نامی فالٹ لائن (دو غیر مساوی زمین کی زیریں تہوں کے ملنے کا مقام) سے پیدا ہوا تھا۔ اسی فالٹ لائن سے کسی زمانے میں بھنبور شہر تباہ ہوا تھا۔ (بشکریہ، بی بی سی ڈاٹ کام)