لڑکپن کا زمانہ تھا، ابھی حد ِبلوغت کو نہ پہنچے تھے، لوگوں سے بہت دور مکہ معظمہ کے پہاڑی راستوں میں ہر روز اپنے آقا اور قریش کے سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرانے جایا کرتے لوگ انھیں ابن ام عبد کے نام سے پکارتے جبکہ ان کا اصلی نام عبداللہ اور باپ کا نام مسعود تھا۔
٭٭٭
یہ ہونہار فرزند نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کچھ عجیب عجیب سی باتیں سنا کرتا ۔ لیکن ان باتوں کی طرف دو وجہ سے دھیان نہ دیتا۔ ایک تو بچپن کا زمانہ تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اکثر وقت مکی معاشرہ سے بالکل الگ تھلگ گزرتا۔ روزانہ کا معمول یہ تھا کہ صبح سویرے اپنے آقا عقبہ کی بکریاں چرانے چلا جاتا اور رات کو واپس لوٹتا۔
٭٭٭
ایک دن یہ مکی نوجوان یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کیا دیکھتے ہیں کہ دو باوقاربزرگ ان کی طرف چلے آ رہے ہیں۔ وہ دونوں بہت تھکے ہوئے تھے اور پیاس کی شدت سے ان کے حلق اور ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ ان کے پاس آتے ہی دونوں نے سلام کیا اور فرمایا:
‘‘عزیزم! ہمیں ان بکریوں کا دودھ پلاؤ تاکہ اس سے آتش پیا س بجھا سکیں اور اپنی انتڑیاں تر کر سکیں۔’’
اس ہونہار لڑکے نے جواب دیا:
‘‘میں تو ایسا نہیں کر سکتا، یہ بکریاں میری نہیں، میرے پاس تو امانت ہیں۔’’ لیکن ان دونوں نے میری اس بات کا برا نہ منایا بلکہ ان کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔ پھر ان بزرگوں میں سے ایک نے کہا ، ہمیں کوئی ایسی بکری بتائیے جو ابھی چھوٹی ہو اور دودھ نہ دیتی ہو۔ تو میں نے ان کے قریب ہی کھڑی ہوئی ایک چھوٹی سی بکری کی طرف اشارہ کیا۔ ایک بزرگ آگے بڑھے، ایک ہاتھ سے بکری کی ٹانگ پکڑی اور دوسرا ہاتھ اس نے تھنوں کو لگایا اور ساتھ ہی وہ کچھ پڑھ بھی رہے تھے۔ میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور اپنے دل میں کہا:
‘‘بھلا اتنی چھوٹی عمر کی بکریاں بھی دودھ دیا کرتی ہیں!’’ لیکن میں نے دیکھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا اور دودھ بھی کثیر مقدار میں تھا۔ دوسرے بزرگ نے ایک پیالہ نما پتھر پکڑا اور اسے دودھ سے بھر لیا۔ دونوں نے خوب جی بھر کر پیا اور مجھے بھی پلایا۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا۔ جب ہم تینوں خوب سیر ہو گئے تو اس مبارک شخصیت نے تھنوں کو حکم دیا کہ سکڑ جاؤ تو وہ فوراً سکڑنے لگے یہاں تک کہ اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئے۔
اس موقع پرمیں نے عرض کی، ازراہِ کرم مجھے بھی آپ یہ بابرکت کلام سکھلا دیں۔
تو آپ نے فرمایا: ابھی آپ بچے ہیں۔
یہی واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اسلام کی طرف مائل کرنے کا باعث بنا۔
٭٭٭
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مبارک انسان کون تھے؟ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے رفیق خاص حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ ان دنوں قریش نے مکہ معظمہ میں اودھم مچا رکھا تھا۔ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکالیف پہنچا رہے تھے، اس لیے آپؐاور صدیق اکبرؓ مکہ معظمہ کے ان دشوار گزار پہاڑی راستوں پر چل نکلے تھے۔
اس ہونہار لڑکے نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خلوص دل سے محبت کی اور آپ دونوں کو بھی یہ دیانت و امانت کی بنا پر بہت پسند آیا۔
٭٭٭
اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ آپؐ نے بھی کمال شفقت سے اپنی خدمت کے لیے قبول کر لیا۔ اسی روز سے یہ خوش نصیب فرزند بکریوں کی نگرانی کے فریضہ سے سبکدوش ہو کر سید الانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔
٭٭٭
پھر اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں اس طرح رہے جس طرح کہ سایہ انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ حضر و سفر میں آپؐ کا ساتھ دیا، ہر جگہ خدمت کی سعادت نصیب ہوتی، جب آپؐ آرام فرماتے تو پاس ہی بیٹھے رہتے، جب آپؐ نے غسل کرنا ہوتا تو فوراً آپؐ کے لیے پردے کا اہتمام کرتے، جب آپؐ گھر سے باہر جانے کا ارادہ کرتے تو فوراً جوتے مبارک آپؐ کے قدموں میں لا رکھتے۔ جب گھر تشریف لاتے تو آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے حضور علیہ السلام کے پاؤں مبارک سے جوتے اتارتے۔ آپؐ کے لیے چھڑی اور مسواک ہر دم تیار رکھتے، انھیں حجرۂ مبارک میں بھی آنے کی اجازت تھی۔ یہاں تک کہ آپؐ صحابہ کرامؓ میں رازدانِ رسول علیہ السلام کے نام سے معروف ہو گئے۔
٭٭٭
چونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تربیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہوئی۔ اس لیے آپؐ کی سیرت و کردار کو اپنانے کا وافر موقع ملا۔ انھوں نے آپؐ ہی کا طرزِ عمل اختیار کیا اور آپؐ کی ہر عادت کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ آپ کے متعلق یہ بات مشہور ہو گئی، کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہیں۔
٭٭٭
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے درس گاہِ نبوت سے تعلیم حاصل کی قرآن مجید کی تلاوت ، قرآن فہمی اور شریعت الٰہیہ کے علم میں صحابہ کرامؓ کے درمیان آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ بطورِ دلیل ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ وقوفِ عرفہ کے دوران ایک شخص حضرت عمر بن خطابؓکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
امیر المومنین ! اس وقت میں کوفہ سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک شخص اپنے حافظے کی بنیاد پر قرآن مجید لکھوا رہا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت غصے میں آگئے ۔ اتنے غصے میں آپ کو پہلے کبھی نہ دیکھا گیا۔
آپ نے غضبناک ہو کر فرمایا: مجھے بتاؤ کہ وہ کون ہے؟
اس شخص نے عرض کی کہ وہ جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔
ان کا نام سن کر آپ کا غصہ ماند پڑ گیا اور فرمایا: بخدا میرے علم کے مطابق جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس وقت قرآن فہمی میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔
ایک رات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھے امت مسلمہ کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اور عمر کہتے ہیں کہ میں بھی اس گفتگو میں شریک تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچانک اٹھے اور ایک طرف چل دیئے ہم بھی آپؐ کے ساتھ ہو لیے۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا اونچی آواز سے نماز پڑھ رہا ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے ہم اسے پہچان نہ سکے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اس کی قرأت سننا شروع کر دی۔ پھر آپؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
‘‘جسے یہ بات پسند آتی ہے کہ وہ قرآن مجید کو اس لہجہ میں پڑھے جس میں وہ نازل ہوا ہے تو وہ عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت کا انداز اپنائے۔’’
نماز کے بعد جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اونچی آواز سے دعا شروع کی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگو تمھاری دعا قبول ہو گی۔
مانگو جو چاہتے ہو دیا جائے گا۔
پھر حضرت عمرؓ فرمانے لگے: میں نے اپنے دل میں کہا۔
خدا کی قسم صبح سویرے عبداللہ بن مسعودؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دوں گا کہ رات رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیری دعا پر آمین کہتے رہے ہیں۔
میں صبح سویرے انھیں خوشخبری دینے کے لیے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے وہاں پہنچ کر خوشخبری سنا چکے ہیں۔
خدا کی قسم میں برملا اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہر نیکی کے کام میں مجھ سے سبقت لے گئے۔
٭٭٭
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن فہمی میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ وہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں۔ ‘‘اس خدا کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ اسی کے فضل و کرم سے مجھے قرآن مجید کی ہر آیت کے متعلق علم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی اور اس کا شانِ نزول کیا ہے۔ جب بھی مجھے پتا چلتا کہ فلاں شخص قرآن مجید کے بارے میں مجھ سے زیادہ معلومات رکھتا ہے تو میں اس کی خدمت میں حاضر ہو کر معلومات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔
٭٭٭
یہ تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اپنے متعلق بیان تھا، ہم اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک واقعہ بھی بیان کرتے ہیں جس سے ان کے علمی مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک صحرا میں سفر کر رہے تھے۔ رات بہت تاریک تھی۔ دورانِ سفر ایک قافلہ ملا۔ اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقائے سفر میں سے ایک شخص کو حکم دیا۔ پتا کرو، یہ قافلہ کہاں سے آ رہا ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟
جواب ملا: فج عمیق سے (دور دراز جگہ سے)۔
دوسرا سوال ہوا: کہاں کا ارادہ ہے؟
جواب ملا: بیت عتیق کا (بیت اللہ شریف کا)
اس عمدہ جواب سے حضرت عمررضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اس قافلے میں کوئی جید عالم موجود ہے۔ لہٰذا ان سے کچھ مزید سوالات کیے جائیں۔
سوال: کیا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے؟
جواب ملا: آیت الکرسی۔
دوسرا سوال کیا۔قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ محکم ہے؟
جواب ملا:اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل۹۰)
بلاشبہ اللہ انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (مالی مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔
تیسرا سوال کیا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ جامع ہے؟
جواب ملا: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔
جو ذرہ بھر نیکی کرتا ہے وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو ذرہ بھر برائی کرتا ہے وہ اسے دیکھ لے گا۔
چوتھا سوال کیا! قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ خوف دلانے والی ہے؟
جواب ملا: لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَا ٓاَمَانِیِّ اَھْلِ الْکِتٰابِ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً یُجْزَبِہٖ وَلَا یَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا۔
(النساء۱۲۳)
(نجات) نہ تو تمھاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر جو شخص برے عمل کرے اسے اسی کا بدلہ دیا جائے گا اور وہ خدا کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔
پانچواں سوال کیا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ امید دلانے والی ہے۔
جواب ملا: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۔ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (الزمر ۵۳)
کہہ دو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ عمدہ اور جامع جوابات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا۔ قافلہ والوں سے دریافت کرو کیا تمھارے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
جواب ملا: یقینا موجود ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف قاری، عالم، عابد اور زاہد ہی نہ تھے بلکہ تنومند، چاک و چوبند اور بوقت ضرورت آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے مجاہد بھی تھے۔ غالباً یہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں مشرکین کے سامنے قرآن مجید کی بآوازِ بلند تلاوت کی۔
ایک دن اصحاب رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ معظمہ میں ایک جگہ جمع ہوئے اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی، افرادی قوت بھی کچھ زیادہ نہ تھی۔ سب نے سوچا کہ قریش نے ابھی تک اپنے کانوں سے کلامِ الٰہی نہیں سنا ہم میں سے کون یہ جرأت کرے گا جو انھیں اونچی آواز میں قرآن مجید سنائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں۔ میں انھیں قرآن مجید سناؤں گا۔ سب نے کہا:
ہمیں خطرہ ہے، کہیں آپ کی آواز سن کر وہ شرارت پر نہ اتر آئیں، ہماری رائے میں یہ فریضہ اسے سر انجام دینا چاہیے۔ جس کا قبیلہ بھاری ہو۔ اگر یہ شرارت کرنا بھی چاہیں تو قبیلہ آڑے آجائے۔ اس طرح قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ان کے شر سے محفوظ رہے گا۔ یہ باتیں سن کر آپ نے نہایت ہی جرأت مندانہ انداز میں ارشاد فرمایا: آج مجھے تلاوت کرنے دیجئے، اللہ میرا حامی و ناصر ہے۔ اس کے بعد آپ مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور مقامِ ابراہیم کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے۔ قریش اس وقت کعبہ کے ارد گردبیٹھے ہوئے تھے آپ نے اونچی آواز سے ان آیات کی تلاوت شروع کر دی۔
بسم اللہ الرحمن۔ الرحمان ۔ علم القرآن۔ خلق الانسان ۔ علمہ البیان۔ آپ لگاتار سورہ رحمان کی تلاوت کرتے رہے۔ قریش نے جب غور کیا تو انھیں پتا چلا ارے یہ تو وہی کچھ پڑھ رہا ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب مجمع آپ پر پل پڑا، وہ آپ کو مارتے جارہے تھے اور آپ لگاتار پڑھتے جا رہے تھے۔ آپ جب فارغ ہو کر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو آپ کے بدن سے خون بہہ رہا تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا: ہمیں اسی بات کا اندیشہ تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم اب دشمنانِ خدا میری نظر میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں صبح پھر وہیں جا کر ان کے سامنے تلاوت کرتا ہوں۔ سب نے ایسا کرنے سے روک دیا اور فرمایا آپ نے حق ادا کر دیا۔ قریش کو وہ مقدس کلام سنادیا جسے وہ ہرگزسننا نہ چاہتے تھے۔
٭٭٭
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے۔ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا۔ آپ کو کس سے شکایت ہے؟
فرمایا: اپنے گناہوں سے۔
آپ نے دریافت کیا: آپ کا دل کیا چاہتا ہے۔
فرمایا: اپنے رب کی رحمت۔
اس کے بعد خلیفۃ المسلمین نے فرمایا: کیا وہ سب مال آپ کے نام نہ لگا دوں جو کئی سال سے آپ نہیں لے رہے۔
فرمایا: مجھے اس مال کی ضرورت نہیں۔
حضرت عثمانؓ نے فرمایا: یہ مال آپ کی بچیوں کے کام آئے گا۔
فرمایا: کیا آپ کو اندیشہ ہے کہ میری بچیاں فقر و فاقہ میں مبتلا ہو جائیں گی۔ میں نے اپنی تمام بچیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر رات سورہ واقعہ کی تلاوت کریں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔
مَنْ قَرَاءَ الْواقعہ کل لیلۃ لم تصبہ الفاقہ۔
جس نے ہر رات سورۃ واقعہ پڑھی اسے فقر و فاقہ لاحق نہیں ہو گا۔
جب رات ہوئی تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ نزع کے وقت آپ کی زبان ذکر الٰہی سے تر تھی، آپ کی زبان پر آیات بینات کا ورد جاری تھا۔
٭٭٭