سيرت صحابہ
سيدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ
عاطف ہاشمی
آپ کا نام جندب بن جنادہ تھا مگر کنیت "ابوذر" سے ہی مشہور ہیں، غفار قبیلے سے تعلق تھا جو کہ راہزنی اور قزاقی کے لیے جانا جاتا تھا، آپ بھی کبھی اپنی قوم کے دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کی کارروائیوں میں حصہ لیتے اور کبھی تنہا ہی اونٹ وغیرہ لوٹ کر لے آتے۔ حرمت کے چار مہینوں کا اس وقت ہر کوئی احترام کیا کرتا تھا لیکن اس قبیلے نے سب تقدس وغیرہ کو بالائے طاق رکھ کر ان مہینوں میں بھی ڈاکہ زنی کی وارداتیں شروع کر دی تھیں۔ ابوذر کو یہیں سے اپنی قوم سے اختلاف ہو گیا جو کہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ آپ نے نہ صرف راہزنی چھوڑ دی بلکہ اپنا علاقہ چھوڑنے پر بھی تیار ہو گئے اور اپنے شاعر بھائی انیس اور والدہ کو لے کر ماموں کی طرف ہجرت کر گئے۔ننھیال میں جو وقت گزارا اسی میں ہی وہ ایک عابد کی طرح ہو گئے تھے اور بجائے بتوں کے طبعی طور پر ہی اللہ کی عبادت اپنے طریقے سے کرتے، یہاں تک کہ ماموں کے ہاں بھی کوئی بات ناگوار گزری تو وہاں سے بھی نکلنے کا فیصلہ کیا اور مکہ کے قریب آ کر پڑاؤ ڈالا۔
مکہ میں آفتاب نبوت طلوع ہو چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پورے علاقے میں موضوع گفتگو talk of the town بن چکے تھے۔ حضرت ابوذر کے کانوں میں بھی آپ کے بارے میں کچھ باتیں پڑ چکی تھیں۔ ایک دن ان کے بھائی انیس نے مکہ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہیں تاکید کی کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے بارے میں بھی معلومات لے کر آئیں، انہوں نے واپسی پر مثبت الفاظ میں معلومات پہنچائیں اور کہا کہ میں خود شاعر ہوں مگر اس کی باتیں شعر نہیں ہیں، وہ سچا ہے۔ حضرت ابوذر کو اس سے تشفی نہیں ہوئی، بلکہ بے چینی مزید بڑھ گئی تو خود مکہ جانے کا فیصلہ کیا اور پورے تیس دن تک بیت اللہ میں انتظار کرتے رہے تاکہ براہ راست کچھ دیکھ سن سکیں۔ حضرت علی اور حضرت ابوبکر کے ہاں کچھ دن گزارے یہاں تک کہ رخ انور کی زیارت کر کے بے قرار روح کو قرار بخشا اور اسلام قبول کرنے والے پانچویں شخص بن گئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے تبلیغ دین کے لیے روانہ فرمایا تو اعلانیہ کلمہ شہادت پڑھ کر نکلے جس کی وجہ سے آپ کو زد و کوب بھی کیا گیا، واپسی پر پہلے بھائی اور والدہ کو مشرف بہ اسلام کیا اور پھر آپ کی سالہا سال کی محنت سے غفار اور اسلم کا پورا قبیلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔
خود جو نہ تھے راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئےوہ کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا
غزوہِ خندق کے بعد واپس تشریف لائے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو گئے، آپ نے انھیں اصحاب صفہ کے ساتھ مسجد نبوی میں ٹھہرا دیا، اور پھر اتنا قرب بخشا کہ آپ کے رازدان "صاحب السر" کا لقب پایا۔ دنیا سے بے رغبتی اور زہد اتنا تھا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی حضرت عیسی کا زہد دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ ابوذر کو دیکھ لے۔ پھر آپ نے خود بھی ان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے انھیں خطوط پر ان کی تربیت کی، چنانچہ زھد اور دنیا کی بے ثباتی، اور مال و جاہ سے کنارہ کشی سے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں ان کے راوی حضرت ابوذر ہی ہیں۔
غزوہِ تبوک میں قافلے سے پیچھے رہ گئے تو چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ابوذر بھاگ گئے ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو فرمایا کہ اس میں اگر کوئی خیر ہوئی تو ضرور واپس آئے گا، یہاں تک کہ دور سے ایک پیادہ شخص تیزی سے آتا دکھائی دیا، حضور نے دیکھ کر فرمایا " کن اباذر، کن اباذر" (خدا کرے) ابوذر ہی ہو، ابوذر ہی ہو، ذرا قریب پہنچے تو سب پکار اٹھے کہ ابوذر ہی ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں یوں اکیلے آتے دیکھ کر فرمایا:اللہ ابوذر پر رحم فرمائے! تنہا ہی چلا آ رہا ہے، تنہائی کے عالم میں ہی مرے گا اور تنہا ہی اٹھایا جائے گا۔
زبان نبوت سے یہ الفاظ نکل چکے تھے اس لیے تنہائی کے عالم میں ہی موت واقع ہونا یقینی تھا، اب کس طرح آپ کو تنہا کرنے کے اسباب پیدا کیے گئے؟ اور ربذہ جیسے بے آب و گیاہ مقام پر آباد ہونے کا کیا سبب بنا؟ اور پھر عالم تنہائی میں کس طرح سفر آخرت کے راہی بنے؟
حضرت ابوذر غفاری ربذہ کیسے پہنچے؟
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ جب مدینہ کی آبادی سلع کی پہاڑی تک پہنچ جائے تو تم ملک شام چلے جانا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت میں پھیلاؤ کے مطابق فوجی چھاؤنیاں قائم ہونے لگیں تو حضرت ابوذر نے اپنا نام دمشق کی فوجی چھاؤنی کے لیے لکھوایا، وہاں آباد ہونے کے بعد بھی آپ نے اپنا زاہدانہ رہن سہن برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو بھی وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری رکھا، اور مالدار طبقے کو بطور خاص مال خرچ کرنے، اور غریبوں کی مدد کرنے کی تلقین کرتے۔ آپ سونا چاندی اور مال و دولت جمع کرنے کو کنز سے تعبیر کرتے تھے، آیت والذین یکنزون الذھب والفصۃ کا مصداق قرار دیتے۔ وہ احادیث بھی سناتے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بہ روز قیامت جمع شدہ سونے اور چاندی کو گرم کر کے جمع کرنے والے کے جسم پر داغا جائے گا۔ مسئلہ کنز پر آپ کی رائے یہ تھی کہ (1) سونے چاندی کو جمع کرنے کی بجائے یا تو اسے اس طرح استعمال میں لایا جائے کہ ضروریات پوری ہو سکیں، یا (2) پھر اس سے ایسا مال تجارت خریدیں جس میں نمو اور بڑھوتری ہو سکے، اور (3) پھر بھی اگر اللہ نے وسعت دی ہوئی ہے تو اس مال کو لوگوں میں بانٹ کر آخرت کے لیے تجارت کی جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ آپ کوئی صورت جائز نہیں سمجھتے تھے، اور سونے چاندی کو جمع کر کے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جانے کے سخت خلاف تھے، اور یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ میرے محبوب نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کے پاس بکری ہو اس سے بہتر ہے جس کے پاس احد کے پہاڑ برابر سونا ہو اور وہ پیچھے چھوڑ جائے (اور کوئی فائدہ نہ اٹھائے)۔ جس کا یہی مطلب ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے کی بجائے مال و دولت کو گردش میں لایا جائے تاکہ اس کا فائدہ مال والے ہو بھی پہنچے اور سوسائٹی کو بھی۔
فتوحات کے بعد سونا چاندی کی ریل پیل اور طلائی ونقرئی برتنوں کا استعمال دیکھ کر آپ سخت برہم ہوتے، بلکہ آپ تو سونا چاندی کو زیور کے طور پر استعمال کرنے کو بھی ناپسند کرتے تھے، اور یہ حدیث بیان کرتے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر قحط کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی کیا وقت ہو گا جب سونا چاندی تم میں عام ہو گا، ساتھ ہی فرمایا کہ کاش اس وقت میری امت سونے کو زیور نہ بنائے۔اس حدیث سے اگرچہ سونے کو بطور زیور استعمال کی حرمت ثابت نہیں ہوتی لیکن حضرت ابوذر جیسے نبوت کے رمز شناسوں کے لیے تو یہ دلیل بھی کافی تھی۔
بہرحال، متواتر مسجدوں اور بازاروں میں اس طرح کے بیانات سے دمشق میں برہمی پھیل گئی اور غریب طبقہ کے لوگوں نے امیروں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جن لوگوں نے اپنی بیویوں کو بہت زیادہ زیور پہنا دیا تھا اور اس کی زکوٰۃ بھی نہیں دیتے تھے ان پر حضرت ابوذر کا فتویٰ ناگوار گزرتا۔یہاں ضمناً یہ مسئلہ بھی جاننا چاہیے فقہ حنفی میں زیور کی زکوٰۃ ادا کرتے رہنے سے اس کا استعمال جائز رہتا ہے، حنفیہ کی یہ رائے حضرت ابوذر کے موقف کے قریب تر ہے، جبکہ دیگر ائمہ دوسری زیر استعمال اشیاء کی طرح زیور پر بھی زکوٰۃ کو لازمی نہیں سمجھتے، جیسا کہ حضرت ابن عمر جیسے بعض صحابہ کا موقف ہے۔
کئی مرتبہ حضرت معاویہ کے شاہانہ جاہ جلال کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے طرز حیات کو قرآن میں بیان کردہ "مسئلہ کنز "کے منافی قرار دیا۔ ایک مرتبہ امیر شام حضرت معاویہ نے انھیں افہام وتفہیم کی غرض سے بلوا کر پوچھا کہ آپ نے یہ "مسئلہ کنز" کہاں سے نکالا ہے؟ جواب میں حضرت ابوذر نے انہیں آیت کنز پیش کر دی، حضرت معاویہ نے کہا کہ اس کا تعلق تو یہود و نصاری کے رہبان سے ہے لیکن حضرت ابوذر کا موقف تھا کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ دونوں صحابیوں کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ بے نتیجہ رہا اور دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ بعد میں حضرت معاویہ نے سمجھانے کی غرض سے صحابہ کا ایک وفد بھی بھیجا جس میں حضرت عبادہ بن صامت جیسے بزرگ صحابی کو بھی شامل کیا، لیکن یہ وفد بھی انہیں قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ارباب ثروت کی طرف سے شکایات کا سلسلہ جاری رہا کہ ہم جہاں سے گزرتے ہیں لوگ تنگ کرتے ہیں اور آیت کنز پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، جب شکایات بڑھ گئیں تو حضرت معاویہ نے ملک میں پائے جانے والے اضطراب کو رفع کرنے کے لیے دوسرا طریقہ اپنا۔ چونکہ مذاکرات میں ناکامی ہو چکی تھی اس لیے اب آپ نے اقتدار کی طاقت سے مسئلہ حل کرنا چاہا اور منادی کرا دی کہ کوئی شخص بھی حضرت ابوذر کی مجلس میں نہ جائے، جس کی پاسداری کرتے ہوئے حضرت ابوذر تو اپنے پاس آنے والوں کو خود ہی اٹھا دیتے اور کہتے کہ امیر نے آپ کو میری مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا ہے اور ساتھ ہی وہ حدیث بھی سناتے کہ مجھے میرے محبوب نے وصیت کی تھی کہ امیر کی ہمیشہ اطاعت کرنا خواہ وہ گوش بریدہ غلام ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سرکاری حکمنامہ لوگوں کے لیے تھا نہ کہ حضرت ابوذر کے لیے، انھیں وعظ کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، لیکن لوگ اس کے باوجود دور دور سے آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے اور مجلس میں بیٹھے رہتے، اور پھر حضرت ابوذر اپنا وعظ ونصیحت کرتے رہتے۔حضرت معاویہ نے جب دیکھا کہ یہ سلسلہ رک ہی نہیں رہا اور وہ حضرت ابوذر کے ادب میں اقتدار کی طاقت سے انھیں روکنا نہیں چاہتے تھے، لہذا امیر المومنین حضرت عثمان کو خط لکھ بھیجا کہ حضرت ابوذر کی وجہ سے یہاں کافی اضطراب پایا جاتا ہے، اس لیے آپ نھیں مدینہ منورہ بلا لیں۔چنانچہ حضرت عثمان نے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک قاصد بھیجا اور حکم دیا کہ ابھی مدینہ آ جائیں۔حضرت ابوذر حکم ملتے ہی تنہا روانہ ہو گئے، ان کے اہل و عیال کو بعد میں حضرت معاویہ نے بھیجنے کا انتظام کیا، مدینہ منورہ پہنچے تو آپ سے محبت کرنے والوں کا وہاں بھی تانتا بن گیا، لوگ آتے اور وعظ نصیحت کی درخواست کرتے، آپ دوسری نصیحتوں کے ضمن میں مسئلہ کنز بھی بیان فرماتے جس سے مدینہ منورہ میں بھی دمشق جیسی صورتحال پیدا ہو گئی، اور مدینہ کی فضا میں بھی مسئلہ کنز گونجنے لگا- حضرت عثمان نے انہیں طلب کیا اور کعب احبار سے کہا کہ انھیں سمجھائیں، جس پر انہوں نے سمجھانا شروع کیا کہ مال و دولت جمع کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے اور اگر یہ گناہ ہوتا تو قرآن میں وراثت کے احکام ہی کیوں ہوتے؟
کعب احبار حضور کی وفات کے بعد یہودیت سے اسلام کی طرف آئے تھے اور صحابیت کا شرف بھی حاصل نہیں تھا، ایسے شخص کی طرف سے ابوذر جیسے جلیل القدر صحابی کو سمجھانے کی بات انھیں ناگوار گزری اور غصے سے چھڑی لے کر ان کے پیچھے دوڑے اور ایک ضرب بھی لگائی- حضرت عثمان بھی موجود تھے، انھیں حضرت ابوذر کا یہ طرز عمل پسند نہیں آیا اور ناراض ہو گئے، بعد میں حضرت ابوذر انھیں منانے آئے اور کہا کہ مجھ پر آپ کی اطاعت لازم ہے، آپ جو بھی حکم کریں گے میں تعمیل کروں گا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس موقع پرحضرت عثمان نے انھیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا لیکن طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت ابوذر نے خود کہا تھا کہ مدینہ کی آبادی سلع تک پہنچ چکی ہے اس لیے مجھے میرے محبوب کی طرف سے یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر حضرت عثمان نے انھیں قرب و جوار میں ہی کسی جگہ گوشہ نشین ہونے کا مشورہ دیا۔ " إن شئت تنحيت عنا فكنت قريبا"
حضرت ابوذر نے ربذہ جانے کی اجازت چاہی "ائذن لي أن أخرج إلى الربذة" جو کہ دے دی گئی۔چنانچہ ہجرت در ہجرت کرنے والا زہد عیسوی کا یہ کامل نمونہ گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے کے لیے ربذہ منتقل ہو گیا۔
ربذہ میں تنہا موت کا دلگداز منظر
ربذہ کی آبادی دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی، جن میں ایک گھرانہ معروف کسان صحابی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا بھی تھا- کاشتکاری سے متعلق اکثر احادیث کے راوی حضرت رافع ہی ہیں۔ حضرت ابوذر نے بھی یہاں آ کر کاشتکاری شروع کر دی تھی، آپ کا گھرانہ تین افراد پر مشتمل تھا، جن میں آپ کی اہلیہ اور ایک بیٹی تھی، باقی بچے بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ اتفاق سے اس علاقے کی نگرانی کے لیے دربار خلافت کی طرف سے مامور شخص مجاشع نامی ایک حبشی غلام تھا، اور حضرت ابوذر اس حدیث کے مطابق جس میں انھیں حبشی غلام کی بھی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا تھا پر عمل کرتے ہوئے اس کی اطاعت بھی اپنے لیے لازمی سمجھتے- آپ نے ربذہ میں ایک مسجد بھی بنائی تھی جہاں لوگوں کو نماز پڑھاتے، لیکن اگر کبھی مجاشع وہاں موجود ہوتا تو اسے ہی امام بناتے۔ربذہ میں قیام کے دوران کچھ لوگوں نے آ کر انھیں بغاوت پر ابھارنے کی کوشش بھی کی، مگر آپ نے انھیں بھی امیر کی اطاعت کا درس دے کر واپس بھیجا، ایک وفد عبداللہ بن سبا نے بھی بھیجا، ابن خلدون نے لکھا ہے کہ وہ خود وفد کی سرپرستی کر رہا تھا، اس وفد نے بھی انھیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ ا گر وہ علم بغاوت بلند کریں تو بہت سے لوگ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، مگر حضرت ابوذر کو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان یاد تھا، اس وفد کو بھی سنایا اور کہا:مجھے ایسی پیشکش مت کرو، اور اپنے بادشاہ کو ذلیل و رسوا نہ کرو، مجھے اگر وہ کسی پہاڑ پر لے جا کر پھانسی دیں تو بھی میں صبر کروں گا اور قبول کروں گا- میں نے جیسے پہلے ان کی اطاعت کی آئندہ بھی صبر کے ساتھ ان کی اطاعت کرتا رہوں گا۔حضرت ابوذر کا دو ٹوک جواب سن کر فتنہ پرور نامراد واپس لوٹ گئے۔
امراء کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کے ساتھ ان کی اطاعت بھی ایک دینی حکم سمجھ کر کرنا کوئی آپ سے سیکھے- دمشق میں بھی ایک طرف حضرت معاویہ سمیت امراء کے طرز زندگی پر تنقید کرتے رہے اور دوسری طرف جب امیر نے لوگوں کو آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا تو خود ہی انھیں اٹھا دیتے۔ یہاں بھی فتنہ پروروں کو ایسا جواب دے کر بھیجا کہ دوبارہ کسی میں یہ ہمت نہیں پیدا ہوئی۔
حضرت ابوذر ربذہ میں قیام کے دوران بھی کبھی مدینہ منورہ جاتے اور روضہ مبارک پر حاضری دیتے، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت آن پہنچا۔
نبوت کی سچی زبان نے چونکہ کہہ دیا تھا کہ ابوذر تنہائی کے عالم میں مرے گا، اس لیے اب ان کو تنہا کرنے کے اسباب یوں ہوئے کہ 32 ہجری میں جب حج کا موسم آیا تو دور دراز سے عازمین حج مکہ مکرمہ پہنچنے لگے، ادھر امیر المومنین کے حج کا اعلان بھی ہو گیا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں قرب وجوار کے لوگ بھی بیت اللہ کی طرف نکل پڑے تاکہ حج کی سعادت کے ساتھ ساتھ امیر المومنین کی زیارت بھی کر سکیں۔ ربذہ میں سرکاری عملے سمیت جتنے افراد تھے وہ بھی روانہ ہو گئے اور یوں ربذہ خالی ہو گیا۔
حضرت ابوذر ضعف اور نقاہت کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے، ایک دن آپ کی حالت دیکھ کر اہلیہ نے زور سے چیخ ماری، حضرت ابوذر نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگیں کہ آپ کی یہ حالت ہے اور میں اکیلی عورت ہوں، کیسے کفن دفن کا انتظام کروں گی؟ فرمایا پریشانی والی کوئی بات نہیں، ایک موقع پر ہم کچھ لوگ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک شخص کا چٹیل بیابان وادی انتقال ہو گا اور اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے مسلمانوں کی ایک جماعت آئے گی۔ اس مجلس میں شریک باقی سب کا انتقال ہو گیا ہے، صرف میں ہی بچا ہوں، اس لیے تم سڑک پر جاؤ اور انتظار کرو، کوئی نہ کوئی آتا ہی ہو گا، کیونکہ نہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں نہ مجھے کہنے والے نے جھوٹ کہا۔ادھر اہلیہ کو بھیج کر بیٹی سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ گھر میں کچھ مہمان آنے والے ہیں ان کے لیے کھانے کا انتظام کرو، اور جب وہ مجھے دفن کر کے فارغ ہو جائیں تو انھیں قسم دے کر کہنا کہ کھانا کھائے بغیر نہ جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کچھ ایسے مہمان بھی آئیں گے جو کھاتے پیتے نہیں ہیں مگر خوشبو سونگھتے ہیں، (فرشتے مراد ہیں) اس لیے خیمہ پر مشک کا چھڑکاؤ کر دو۔حیرت ہوتی ہے کہ آخری وقت میں بھی مہمانوں کا کس قدر خیال تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات پر اس قدر یقین کہ ظاہری طور پر کسی کے آنے کی کوئی امید نہیں ہے لیکن سچی خبریں دینے والے کی خبر پر ایمان ہے کہ لازماً ایک جماعت آئے گی۔اہلیہ سڑک کی طرف چلی گئیں اور تاکنے لگیں کہ کوئی آنے والا نظر آئے مگر دور دور تک کسی کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے، انتظار کرتے کرتے تھک گئیں اور فکرمند ہو گئیں کہ اگر کوئی نہ آیا تو پھر کیسے پتھریلی زمین میں قبر وغیرہ کا انتظام کریں گی کہ اچانک تیز رفتار اونٹوں پر سوار ایک جماعت آتی دکھائی دی، یہ کھڑی ہو گئیں، شتر سواروں نے جب تنہا کھڑی خاتون کو دیکھا تو قریب آ کر وجہ پوچھی۔ خاتون نے کہا کہ ایک شخص قریب المرگ ہے، اس کے کفن دفن میں مدد کی درخواست ہے۔شتر سوار نے پوچھا کہ کون شخص ہے؟ جواب ملا: ابوذر-یہ سننا تھا کہ شتر سواروں کی چیخیں نکل گئیں اور کہنے لگے صحابی رسول ابوذر؟ ہمارے ماں باپ ان پر قربان، اور پھر ان کے گھر کی طرف چل پڑے۔ اندر پہنچے تو جاں بہ لب ابوذر نے انھیں دیکھ کر مژدہ سنایا کہ مجھے حضور نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کفن دفن میں شریک ہو گی، تمہیں خوشخبری ہو کہ تم وہی جماعت ہو جسے حضور نے مسلمانوں کی جماعت قرار دیا تھا۔اس کے ساتھ ایک اور حدیث بھی بیان کی جس کا بظاہر یہ کوئی موقع نہیں تھا، اور وہ یہ کہ جن والدین کے دو بچے فوت ہو گئے ہوں اور وہ اس پر صبر کریں تو وہ آگ کے شعلوں سے محفوظ رہیں گے۔ گیلانی صاحب نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنےسے وہ خود کو تسلی دینا چاہ رہے تھے کہ آخرت میں پیش کرنےکے کے لیے اور کوئی عمل تو نہیں مگر میرے بچے فوت ہوئے ہیں انھیں کی بدولت بخشش کی امید ہے۔
اس کے بعد فرمایا کہ کاش میرے پاس اتنے کپڑے ہوتے کہ انھیں کو میں کفن بھی بنا لیتا، تم میں سے مجھے وہی شخص کفن دے جو کسی صوبے کا گورنر یا کسی سرکاری منصب پر نہ ہو۔ مسلمانوں کی اس جماعت میں ایک ہی شخص تھا جس کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا، اس نے کہا کہ میں آپ کی شرائط پر پورا اترتا ہوں اور میرے تھیلے میں دو چادریں پڑی ہیں جو میری ماں نے بنی ہیں اور ایک چادر میرے کندھے پر ہے، یہ تینوں کافی ہوں گی۔
آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، مجھے انھیں میں کفنانے کے بعد سڑک پر لے جانا اور مسلمانوں کی پہلی جماعت جو وہاں سے گزرے اسے کہنا کہ دفن کرنے میں تمہاری مدد کرے۔
آخر میں فرمایا مجھے قبلہ رخ کر دو، قبلہ رو ہونے کے بعد "بسم اللّٰہ وعلی ملۃ رسول اللہ" پڑھا اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ جنازہ عام گزرگاہ پر رکھ دیا گیا، اتنے میں فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گزر وہاں سے ہوا، بتایا گیا کہ حضرت ابوذر کا جنازہ ہے، عبد اللہ مسعود چیخ اٹھے اور کہنے لگے، میرا بھائی، میرا دوست، تمہیں مبارک ہو، حضور نے سچ فرمایا تھا کہ اکیلا ہی چل رہا ہے، اکیلا ہی مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔ پھر فقیہ امت نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور جنازہ پڑھنے والی خوش نصیب جماعت میں مالک بن اشتر نخعی اور اسود بن یزید بھی شامل تھے۔
جنازے کے بعد آپ نے اہلیہ اور صاحبزادی کو تسلی کے کلمات کہے اور روانہ ہونے لگے تو بیٹی نے کہا کہ ابا نے وصیت کی ہے اور قسم دی ہے کہ آپ کھانا کھا کر جائیں گے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ میت کے گھر والوں کی طرف سے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لیے کھانا پکانے کا اہتمام کرنا حضرت ابوذر کی سنت ہے۔کھانا کھانے اور تسلی دینے کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود اپنی جماعت کے ساتھ روانہ ہو گئے، مکہ معظمہ پہنچ کر حضرت عثمان کو یہ جانکاہ خبر سنائی، حضرت عثمان نے واپسی پر ربذہ کا راستہ اختیار کیا اور حضرت ابوذر کے اہل وعیال سے تعزیت کرنے کے بعد انھیں اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے گئے اور ان کو اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو قیامت کے دن مجھے سے ویسی ہی حالت میں ملے گا جیسے میں چھوڑ کر جاؤں گا؟ تو حضرت ابوذر نے جواب دیا تھا کہ "میں"، اس پر آپ نے فرمایا تھا صدقت، تم سچ کہتے ہو، تم ہی وہ شخص ہو گے، اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ روئے زمین پر ابوذر جیسی سچی زبان والا (اصدق لہجہ) کوئی شخص نہیں۔ چنانچہ سچی زبان والا سچا ثابت ہوا اور تنہا چلنے والا زہد عیسوی کا یہ کامل نمونہ اسی حالت میں اس دنیا سے گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے چھوڑا تھا اور آج بھی ربذہ کے صحرا میں تنہا سویا ہوا ہے اور حشر کے دن تنہا ہی اٹھے گا۔رضی اللہ عنه وعن سائر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله ووسلم.