سيرت صحابه
مشاجرات اور سيدنا علی
فہد حارث
جب ہم مشاجرات کے باب میں سیدنا علی کا طرز عمل دیکھتے ہیں تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ سیدنا علی کس قدر مضبوط اعصاب کے مالک انسان تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ارتداد، مانعین زکوة اور جھوٹی نبوت کے دعویدار اٹھے تو سیدنا ابو بکر کی پشت پر جمیع صحابہ کی جماعت یکجا ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ ہر صحابی ہر امتی کامل طور سے سیدنا ابو بکر کی خلافت کو کامیاب بنانے میں جٹ گیا۔ اور یوں سیدنا ابو بکر نے اپنے تدبر، استقلال، ہمت اور جمیع صحابہ و امت کے ساتھ کے ذریعے اسلام کی ڈوبتی کشتی پار لگادی۔ لیکن جب عنان اقتدار کی باگ ڈور سیدنا علی کے ہاتھوں میں آتی ہے تو پہلے روز سے ہی آپ کو گوناگوں مسائل کا سامنا درپیش ہوتا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ صحابہ و تابعین کا مختلف سیاسی گروہوں میں بٹ جانا تھا۔
سوچئے ابو بکر سے لے کر عثمان تک ہر خلیفہ کو کار خلافت چلانے کے لیے تمام صحابہ و تابعین کی مکمل حمایت و مدد حاصل تھی لیکن سیدنا علی کو اپنی خلافت کے پہلے روز سے ہی نامساعد حالات سے سابقہ پیش آیا جہاں ایک قابل ذکر تعداد پر مشتمل صحابہ و تابعین کا گروہ ان کی بیعت سے احتراز کرکے غیر جانبدار معتزلین کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں سیدہ عائشہ، سیدنا طلحہ و زبیر و معاویہ و عمرو بن العاص جیسے اکابر و جید صحابہ موجود ہوتے ہیں، قصاص عثمان کے مقابلے میں آپ کے مدمقابل تصور کیے جاتے ہیں۔ یوں خلفائے ثلاثہ کی خلافتوں کی کامیابی کے پیچھے امت کے جو بہترین اشخاص موجود تھے، سیدنا علی پہلے روز سے ہی ایسے افراد کی بڑی تعداد کی نصرت و حمایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لمحے کو بھی سیدنا علی کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔ آپ ہمہ وقت اپنے تئیں جو بہتر سمجھتے ہیں، ان لائحہ عمل کے تحت حالات کو قابو میں لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
سیدنا عمر کو اگر مصر پر عمرو بن العاص جیسے مدبر گورنر کی خدمات میسر آئی تھیں تو ان بہترین گورنروں کے مشاجرات کے باب میں اختلافات نے سیدنا علی کو محمد بن ابی بکر جیسے ناتجربہ کار شخص کو مصر پر تعینات کرنے پر مجبور کردیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نامساعد حالات کے سبب سیدنا علی کے پاس اپنے پیشرووں کے مقابلے میں skillfull Human Resource کی نہایت کمی تھی لیکن اس کے باوجود وہ پوری دلجمعی اور جدوجہد سے حالات کے دھارے کو سیدھی راہ پر موڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسے میں کوئی دوسرا شخص ہوتا تو شدید ذہنی و اعصابی دباؤ کے تحت اپنے حواس کھو بیٹھتا اور رد عمل کے طور پر کئی جلد باز اور غیر محتاط فیصلے کر بیٹھتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا علی کے ہاں جیسے رد عمل یا انتقام نامی کسی شے کا وجود ہی نہیں تھا۔ حالات کے پیش نظر سیدنا علی کو اصحاب جمل و صفین و نہروان سے جنگ کرنا پڑی لیکن ملاحظہ کیجئے کہ کسی ایک جنگ میں بھی سیدنا علی شکست خوردہ مخالف فوج سے انتقامی سلوک نہیں کرتے۔ بلکہ اصحاب جمل کو تو پوری عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ لوٹانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ جنگ جمل کے بعد بار بار نام لیکر مروان بن الحکم کا پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور استفسار کرنے پر بتاتے ہیں کہ وہ نیک سیرت اور قریش کے بہترین جوانوں میں سے ہیں، پس مجھے ان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے جبکہ سیدنا مروان بن الحکم پہلے دن سے اصحاب جمل میں شامل یعنی سیدنا علی کے مخالف کیمپ میں تھے۔ خوارج کے خلاف صحابہ سے کئی روایات مروی ہیں لیکن اس کے باوجود سیدنا علی جنگ نہروان میں بھی ان کے مقتولین، مال غنیمت، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کرتے ہیں۔
الغرض سیدنا علی کی خلافت کے تقریباً 5 سال ایسے تھے جیسے کانٹوں کا بستر لیکن سیدنا علی نے حتی المقدور کوشش کی کہ کانٹوں کی یہ چھبن امت تک کم سے کم پہنچے۔ آپ سیدنا علی کی وسیع الظرفی دیکھیے کہ جو مروان بن الحکم اصحاب جمل کے ہراول دستے میں شامل تھے، ان کی جان کے لیے پریشان ہوتے ہیں اور بعدازاں ان کے گرفتار ہونے پر فی الفور رہا کردیتے ہیں۔ سیدنا مروان ،سیدنا علی کے اس طرز عمل سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ پھر دوبارہ ان کے خلاف آنے سے مجتنب رہتے ہیں اور اموی ہوتے ہوئے بھی صفین میں سیدنا معاویہ کے کیمپ میں نظر نہیں آتے۔ سیدنا طلحہ و زبیر نے بحالت مجبوری سیدنا علی کی مشروط بیعت کی تھی تاہم جب انہوں نے قصاص عثمان کے معاملے کو کھٹائی میں پڑتے دیکھا تو سیدہ عائشہ کے ساتھ بصرہ روانہ ہوگئے۔ یوں سیدنا علی چاہتے تو اپنے دل میں ان دو اصحاب کے لیے شدید بغض رکھ سکتے تھے کہ آپکی بیعت کرنے کے بعد ان دونوں جلیل القدر عشرہ مبشرہ اصحاب رسول نے نقض بیعت کرکے طالبین قصاص عثمان میں شامل ہونا پسند کیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ جمل ختم ہونے کے بعد سیدنا علی سسکیوں سے ان اصحاب کی شہادت پر روتے ہیں اور اپنے دل کا غم ظاہر کرتے ہیں۔
صرف یہی نہیں، سیدنا معاویہ کے ساتھ سیدنا علی کا طرز عمل دیکھ لیجئے۔ تحکیم کے بعد حالات جس ڈگر پر چلنا شروع ہوگئے تھے، اس میں سیدنا علی کا دائرہ اقتدار سکڑتا جارہا تھا اور طالبین قصاص عثمان جن کے قائد سیدنا معاویہ تھے کا دائرہ اثر و رسوخ بڑھتا جارہا تھا اور ایک ایک کرکے کئی علاقے سیدنا علی کے ناتجربہ کار گورنروں کی سیاسی کوتاہیوں کے سبب سیدنا علی کے اختیار حکومت سے باھر ہوکر سیدنا معاویہ کی عملداری میں آتے جاتے تھے۔ اس کے باوجود ہم کیا دیکھتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوکر سیدنا علی مرض الموت میں مبتلا ہوتے ہیں تو سیدنا حسن سمیت اپنی پارٹی کے لوگوں کو بار بار نصیحت کرتے ہیں کہ میرے بعد معاویہ کی بیعت سے کراہت مت کرنا، ورنہ تم دیکھو گے کہ سر دھڑوں سے ایسے گریں گے جیسے حنظل گرتے ہیں۔ واللہ اس سے بڑی رواداری و وسیع النظری اور امت کی خیر خواہی کی مثال کیا ہوگی جہاں انسانی نفسیات اور بشری تقاضوں کے تحت ایک انسان کو جس شخص سے سب سے زیادہ چڑ ، تنفر اور بد ظنی ہونی چاہیئے تھے، اسی شخص کی صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف کرتے ہوئے اس کے بارے میں سیدنا علی لوگوں کو بیعت کی ترغیب دیتے ہیں کہ امت مسلمہ کی فلاح اسی میں مضمر ہے۔
میں ہمیشہ اس بات کو محسوس کرتا آیا ہوں کہ جن نامساعد حالات میں جس طور سے سیدنا علی نے حکومت کی، وہ فقط انہیں کا خاصہ تھا۔ سیاسی حریفوں کے ساتھ کیسے عین اخلاقی طور پر پیش آنا چاہیئے سیدنا علی نے اپنے طرز عمل سے اس کی جتنی اعلی مثال قائم کی ہے، وہ مشکل سے ہی ملے۔
سیدنا علی کی خلافت کے ان گوشوں پر مفصل لکھنا اردو زبان پر ایک قرض ہے۔ ہمارے ہاں سیدنا علی کی خلافت سے متعلق جب بھی کلام کیا گیا تو اس کو محض تقابلی نہج پر بیان کیا گیا۔ کبھی سیدنا علی کی سیرت کے ان پہلوؤں کو یوں پیش کیا گیا کہ علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے زیادہ ان کے سیاسی حریفوں کی تردامنی کا بیان بنادیا گیا۔ تو کبھی کسی نے "دفاع صحابہ" کے نام پر سیدنا علی کی سیرت کے ان پہلووں کو گہنا کر آپ کی خلافت میں کوئی خیر ہی نہ رہنا دیا۔ گویا بطور خلیفہ سیدنا علی کے اقدامات پر جس قدر نقد ہوگا، ان کے سیاسی حریفوں کے مواقف کا قد اسی قدر اونچا ہوتا جائے گا۔ عجیب فضول سوچ ہے۔
سیدنا علی نے جن حالات میں حکومت کی، ان کے ہر ہر اقدام کی ان کے پاس تسلی بخش توجیہہ تھی۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اہل سیاست کے اقدامات پر نقد کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب کوئی خود سیاست کے میدان میں اترتا ہے تو اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ حالات و واقعات انسان سے کیسے کیسے فیصلے کروادیتے ہیں اور امانتدار اہل منصب وہی فیصلے کرتے ہیں جو اس وقت کے حالات کے تقاضوں کے تحت ان کو درست معلوم پڑرہے ہوتے ہیں۔