سيرت صحابہ
مشاجراتِ صحابہؓ سے متعلق تین مواقف
محمد فہد حارث
سیدنا عثمانؓ کے ظلماً شہید ہوجانے اور سیدنا علیؓ کے ہنگامی حالات میں برسرِاقتدار آنے کے بعد ہم عصر امت میں قصاصِ عثمانؓ کو لے کر تین مواقف نے جنم لیا۔ یہ تین مواقف تین گروہ کی صورت میں ظاہر ہوئے جن میں سے ہرایک گروہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ایک معتدبہ تعداد موجود تھی۔ پہلا گروہ سیدنا علیؓ اور ان کے موقف کے حامیوں کا تھا جن کا کہنا تھاکہ پہلے بیعتِ خلافت کی تکمیل ہوجائے، اس کے بعد قاتلینِ عثمانؓ سے نپٹ کر سیدنا عثمانؓ کا قصاص لینے کی سبیل کی جاسکے گی۔
دوسرا گروہ سیدہ عائشہؓ، عشرہ مبشرہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ و سیدنا زبیر بن العوامؓ اور سیدنا معاویہؓ اور ان کے موقف کے حامیوں کا تھا جو کہ طالبین قصاصِ عثمانؓ کا گروہ کہلاتا تھا اور جن کا ماننا تھا کہ چونکہ سیدنا عثمانؓ ظلماً شہید کیے گیے ہیں، سو ان کی بیعت کا طوق اس وقت تک ہمارے گلوں میں ہے جب تک کہ ان کا قصاص نہ لے لیا جائے۔ اس دوسرے گروہِ صحابہ کو اپنے اس موقف کےصائب ہونے پر ان حالات سے بھی تقویت مل رہی تھی جن میں وہ دیکھ رہے تھے کہ سیدنا علیؓ کے فیصلوں پر قاتلینِ عثمانؓ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے جارہے ہیں یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کے منع کرنے کے باوجود سیدنا معاویہؓ سمیت ایک ایک عاملِ عثمانؓ کی معزولی کے پروانے سیدنا علیؓ کے قلم سے جاری کروائے جارہے ہیں۔ ایسے میں طالبینِ قصاص عثمانؓ کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اگر ہم نے ایسے حالات میں قصاص کے مطالبے کو مؤخر کرکے سیدنا علیؓ کی بیعت کرلی تو پھر کبھی قصاص عثمانؓ کی نوبت نہ آئے گی کیونکہ سیدنا علیؓ کی حکومت میں خود یہ قاتلین اونچے عہدوں پر موجود آپؓ کے فیصلوں پراثر انداز ہیں۔ساتھ ہی ان اصحابِ رسولﷺ کے پیشِ نظر بیعت رضوان بھی تھی جس میں انتہائی نامساعد حالات میں بغیر کسی اسلحہ اور سامانِ حرب کے اپنے مرکز مدینہ سے میلوں دور نبیﷺ نے اپنے ہاتھ کو سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر عثمانؓ کے قصاص کی بیعت لی تھی جس کو قرآن نے بیعتِ شجرہ قرار دے کر اس بیعت کو توڑنے والوں وعید سے ڈرایا تھا۔ سورۃ الفتح آیت ۱۰ میں اس بیعت قصاصِ عثمانؓ سے متعلق یوں ارشاد فرمایا گیا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوۡقَ أَيۡدِيہِمۡۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفۡسِهِۦۖ وَمَنۡ أَوۡفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيۡهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤۡتِيهِ أَجۡرًا عَظِيمً۬
یعنی "بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ الله ہی سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر الله کا ہاتھ ہے ۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہوگااور جو اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے الله سے کیا ہے سو عنقریب اللہ اس کو بڑے اجر سے نوازے گا۔"
گویا قرآن کی اس نص کے تحت طالبینِ قصاص عثمانؓ کے نزدیک سیدنا عثمانؓ کا قصاص "نامساعد حالات" میں بھی واجب و معجل تھا۔
جبکہ تیسرا گروہ ان غیر جانبدار صحابہ کا تھا جنہوں نے نہ تو سیدنا علیؓ کی خلافت کی بیعت کی اور نہ ہی سیدہ عائشہؓ و سیدنا معاویہؓ کا ساتھ دیا۔ اس گروہِ صحابہ میں بھی پہلے دونوں گروہوں کی طرح جلیل القدر اصحاب کی اکثریت موجود تھی جن میں مہاجرین میں سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا صہیب بن سنان رومی، سیدنا اسامہ بن زید، سیدنا قدامہ بن مظعون، سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ اجمعین اور انصار میں سیدنا حسان بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن سلام، سیدنا کعب بن مالک، سیدنا مسلمہ بن مخلد، سیدنا محمد بن مسلمہ، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا رافع بن خدیج، سیدنا فضالہ بن عبید، سیدنا کعب بن عجرہ، سیدنا سلمہ بن سلامہ رضوان اللہ اجمعین جیسے اساطین امت شامل تھے۔
ان تینوں گروہِ صحابہ میں سے کسی پر بھی جمہور کی اصطلاح منطبق نہیں کی جاسکتی کیونکہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ان میں سے کسی کو بھی قابلِ ذکر اکثریت حاصل نہ تھی اور سیدنا علیؓ کی شہادت تک امت میں یہی صورتحال برقرار رہی یہاں تک کہ سیدنا حسنؓ کے ذریعے سیدنا معاویہؓ کے ہاتھوں خلافت کی منتقلی کے بعد امت میں موجود انتشار رفع ہوا اور اس سال کو عام الجماعۃ کا نام دیا گیا۔
عہدِ صحابہؓ کے ان تین گروہوں کی اتباع میں عصرِ حاضر میں بھی امت میں مشاجرات صحابہ سے متعلق تین مواقف پائے جاتے ہیں۔ البتہ عہدِ صحابہ کے برخلاف فی زمانہ ان تین نظریات میں سے پہلے نظریہ کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہور کی تائید حاصل ہوگئی ہے جبکہ باقی دو نظریات کے حاملین پہلے نظریہ کے حاملین کے مقابلے میں کسی قدر اقلیت میں ہوگئے ہیں۔ پہلے نظرئیے کو جو جمہور کی تائید حاصل ہوئی تو اس میں بہت کچھ ہاتھ فضائل کی روایات اور ایک خاص ذہنی میلان کے ساتھ تاریخ کی تدوین کا کام تھا جس میں اہلسنت میں اولین متداول ہونے والی موادِ تاریخ کی کتابوں کے بیشتر مؤرخین اور رواۃِ تاریخ کے شیعی رجحان کو کوئی صاحبِ علم نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اب چونکہ کتبِ اسماء الرجال میں یہ بات صراحت سے منقول ہے کہ قرونِ اولیٰ میں جب کسی راوی کی بابت کہا جاتا تھا کہ وہ شیعہ ہے تو اس سے مراد رافضی نہیں بلکہ سیاسی طور پر سیدنا علیؓ کی پالیسیوں کا طرفدار ہونا ہوتا تھا، سو جب بھی ایسے شیعی رجحان رکھنے والے رواۃ نے تاریخی واقعات روایت کیے تو انہوں نے بعینہٖ سیدنا علیؓ کو صائب اور دوسرے دو گروہوں کو خطائے اجتہادی کا مرتکب قرار دیا۔
خیر آمدم برسرِ مطلب! اس لمبی تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ جب کسی معاملے میں صحابہ کے مابین اختلاف رونما ہوجائے اور یہ اختلاف کسی ایک صحابی کا جمہور صحابہ سے نہ ہو بلکہ صحابہ کی معتدبہ تعداد کا آپس میں ہو تو پھر ان میں سے کسی بھی ایک موقف کی پیروی یا اس کو اختیار کرنا کسی صورت میں گمراہی یا غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پس اگر آج کوئی شخص جمہور کی رائے کو احترام دیتے ہوئے سیدنا علیؓ کو مشاجرات کے مباحث میں احق مانتا ہے اور دوسرے دو گروہوں کو خطائے اجتہادی کا مرتکب تو اس سے اختلاف ضرور رکھا جاسکتا ہے لیکن اس کو گمراہ یا قطعیت کے ساتھ غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اور بعینہٖ یہی معاملہ ان حضرات کا بھی ہے جو مشاجرات کے مباحث میں دوسرے گروہ کی پیروی میں سیدہ عائشہؓ و سیدنا معاویہؓ کے موقف کو احق اور سیدنا علیؓ کو خطائے اجتہادی پر سمجھتے ہیں کیونکہ بہر حال ان کے اس موقف کے پیچھے بھی صحابہ کی ایک معتدبہ جماعت کے موقف کی پیروی ہی ہے۔ سو یہ موقف رکھنے کے سلسلے میں ایسے حضرات کو مطعون کرنا یا ان پر گمراہی کا فتویٰ صادر کرنا سراسر غلط اور صحابہ کے معتدبہ گروہ کو معاذ اللہ گمراہ باور کروانے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح مشاجرات کے باب میں اگر کوئی تیسرے یعنی غیر جانبدار گروہِ صحابہ کی پیروی میں اس متعلق مکمل کف لسان کرتا ہے اور مقدم الذکر دونوں گروہوں میں سے کسی کے صائب اور غیر صائب ہونے کا فیصلہ کرنے کا قائل نہیں ہے تو ایسے حضرات پر بھی گمراہ ہونے یا غلط ہونے کا فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایسے حضرات سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن سلام، سیدنا صہیب بن سنان رومی، سیدنا اسامہ بن زید، سیدنا قدامہ بن مظعون، سیدنا مغیرہ بن شعبہ ، سیدنا حسان بن ثابت، سیدنا کعب بن مالک، سیدنا مسلمہ بن مخلد، سیدنا محمد بن مسلمہ، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا رافع بن خدیج، سیدنا فضالہ بن عبید، سیدنا کعب بن عجرہ، سیدنا سلمہ بن سلامہ رضوان اللہ اجمعین جیسے اساطین امت کی موقف کے حامی و پیروکار ہیں۔ اور یہ راقم بھی اسی تیسرے موقف کا قائل اور اسی موقف کو احق سمجھتا ہے۔