تاریخ ساز شخصیات جو اپنی جان خود لینا چاہتی تھیں لیکن جسے اللہ رکھے
یہ غالباً لطیفہ ہے یا مختصر افسانہ یا حکایت کہ ایک آدمی نے چار مرتبہ خودکشی کی کوشش کی اور ہر بار ناکام رہا۔ پہلی مرتبہ اس نے ریوالور کی نالی اپنے سر کے ساتھ لگا کر گولی چلائی لیکن ٹریگر دبانے سے ریوالور کی نالی سر سے ہٹ گئی اور گولی کسی اور طرف چلی گئی۔ پھر چھت کے کنڈے کے ساتھ رسہ باندھ کر اپنے آپ کو پھانسی دینے کی کوشش کی لیکن چھت کا کنڈا نکل گیا اور وہ بچ گیا۔ تیسری بار اس نے زہر کھا لیا لیکن زہر ناقص نکلا۔ چوتھی کوشش یہ کی کہ دریا میں کود گیا۔ ہوش میں آیا تو دو آدمی اس کے پاس بیٹھے تھے۔ انھیں وہ منکر نکیر سمجھا لیکن وہ دونوں پتن کے ملاح تھے جنھوں نے اسے دریا سے نکال لیا تھا اور وہ زندہ تھا۔
وہ جینے سے اتنا دل برداشتہ تھا کہ اس نے خودکشی کے چاروں طریقے بیک وقت اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ ریوالور اور زہر کی پڑیا اور رسہ لے کر دریا کے کنارے چلا گیا۔ اس نے ایک درخت دیکھا جس کا ایک ٹہن دریا کے اوپر گیا ہوا تھا۔ وہ درخت پر چڑھ کر اس ٹہن پر چلا گیا۔ رسے کا ایک سرا ٹہن کے ساتھ باندھا۔ دوسرے سرے کا پھندہ بنا کر اپنی گردن کے گرد ڈال کر کس دیا۔ زہر کی پڑیا کھول سارا زہر منہ میں ڈال یا۔ ریوالور کی نالی اپنی کنپٹی سے لگا لی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ریوالور کی گولی خطا گئی تو ٹہن سے کودنے سے گلے میں پڑا ہوا پھندہ اسے ہلاک کر دے گا۔ اگر رسہ کھل یا ٹوٹ گیا اور پہلے کی طرح زہر بھی بے اثر ہوا تو وہ دریا میں گرے گا تو ڈوب مرے گا۔
اس نے ٹہن سے چھلانگ لگا دی۔ ساتھ ہی ریوالور فائر کر دیا لیکن چھلانگ لگانے کی وجہ سے ریوالور اس کی کنپٹی سے ہٹ گیا۔ گولی سر کے اوپر رسے کو لگی اور رسہ کٹ گیا۔ رسہ کٹنے سے وہ دریا میں جا پڑا۔ پانی اس کے پیٹ میں چلا گیا۔ ایک کشتی گزر رہی تھی۔ ملاح ایک آدمی کو ڈوبتا دیکھ کر کشتی کو ادھر لے آئے اور اسے ڈوبنے سے بچا لیا۔ اسے کشتی میں پیٹ کے بل لٹا کر اوپر سے دباؤ ڈالا کہ پیٹ سے پانی نکل جائے۔ پانی کے ساتھ زہر بھی نکل آیا، پھر اسے قے ہوئی اور سارا زہر باہر آگیا۔
اس کے بعد اس شخص نے خود کشی کی کوشش کبھی نہ کی۔
معلوم نہیں یہ واقعہ سچا ہے یا نہیں، آئیے آپ کو ایک تاریخ ساز شخصیت کا واقعہ سناتے ہیں۔ ۱۷۲۵ء میں انگلستان میں معمولی سے ایک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ وہ بڑا ہوا تو اس کی عادات اور اس کے اطوار بہت خراب نکلے۔ اس کا باپ اسے طنزیہ بوبی کہا کرتا اور اسے مارتا پیٹتا بھی تھا۔ باپ نے آخر تنگ آ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس وقت انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندستان میں قدم جما چکی تھی۔ سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہو گیا تھا۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی ایک جنگی طاقت بن چکی تھی۔
انگلستان کا یہ نوجوان گھر سے نکالا گیا تو اس نے ایک بحری جہاز میں جو ہندستان آ رہا تھا، معاوضے پر عارضی ملازمت کر لی کہ اسے ہندستان پہنچا دیا جائے۔ بحری جہاز انگلستان سے ہندستان چار پانچ مہینوں بعد پہنچتے تھے۔ یہ نوجوان ہندستان پہنچ گیا اور اسے ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرکی کی ملازمت مل گئی۔
وہ اپنے مستقبل سے اتنا مایوس تھا کہ ایک روز اس نے ایک پستول حاصل کر لیا۔ اس زمانے کے پستولوں میں توڑے دار بندوقوں کی طرح نالی کے دہانے کی طرف سے بارود ڈالا جاتا اور اس میں چھرے یا ایک ہی بڑا چھرہ ڈالا جاتا تھا۔ اس نوجوان نے پستول بھرا۔ وہ خود کشی کرنا چاہتا تھا۔ اس کا ایک ساتھی کلرک اتفاق سے اس کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ نوجوان اتنا مایوس اور دل برداشتہ ہے کہ ایک نہ ایک دن خودکشی کر لے گا۔
نوجوان پستول کی نالی اوپر کرکے اپنے سر کی طرف لے جا رہا تھا کہ اس کے ساتھی کلرک نے کمرے میں آ کر اسے کہا کہ یہ گولی کھڑکی کے باہر فائر کر دو۔ نوجوان نے پستول کھلی ہوئی کھڑکی میں سے باہر کرکے ہوا میں فائر کر دیا۔
‘‘میں دوبارپستول اپنے سر کے ساتھ لگا چکا ہوں۔’’ نوجوان نے کہا …… ‘‘لیکن معلوم ہوتا ہے کہ خدا مجھے کسی بہت بڑے کام کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہے۔’’
اس نے ٹھیک کہا تھا۔ خدا نے اسے اتنے بڑے کام کے لیے زندہ رکھا جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اسکولوں میں پڑھنے والے ہندستانی طلباء اس کے اس کام کو زبانی یاد کرتے رہے۔
وہ تھا رابرٹ کلائیو جو گھر سے نکالا گیا اور غربت سے مجبور ہو کر خود کشی کرنے لگا تھا۔ وہ جنگ پلاسی کا فاتح اور ہیرو بنا۔ اس کی فوج کی نفری صرف تین ہزار دو سو تھی۔ وہ مسلمانوں کی جس فوج سے لڑا، اس کی نفری پچاس ہزار تھی۔ پلاسی میں کلائیو نے مسلمانوں کو شکست دی۔ کلائیو نے مسلمانوں میں غدار پیدا کر لیے تھے جو اس کی فتح کا باعث بنے۔ رابرٹ کلائیولارڈ کلائیو بنا۔ اس نے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم کر دی تھی۔ وہ ۱۷۷۴ء میں مرا جب اس کی عمر ۴۹ سال تھی۔
جرمنی کا ایک آدمی پچیس برس کی عمر میں زندگی سے اتنا بیزار ہو گیا کہ سوائے خود کشی کے اسے کوئی اور ذریعۂ نجات نہ سوجھا۔ اسے محبت میں ناکامی ہوئی تھی۔ اس نے خود کشی کا ایک با وقار طریقہ اختیار کیا جس کا ذکر جرمنی کی تاریخ میں آتا ہے۔ جرمنی کے ایک بادشاہ اوتو نے ایک لڑائی میں شکست کھائی تو اپنا خنجر اپنے دل میں گھونپ کر خودکشی کر لی تھی۔
جرمنی کے اس پچیس سالہ جوان نے ایک خوب صورت دستے والا چمکتا ہوا خنجر خریدا اور رات کو اپنے پاس رکھ کر لیٹ گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ لیٹے لیٹے خنجر اپنے دل میں اتارلے گا مگر خنجر کی نوک دل کے مقام پر رکھی تو اسے خیال آیا کہ وہ خنجر اپنے دل میں اتنا گہرا نہیں اتار سکے گا کہ وہ مر جائے۔ وہ دراصل موت سے ڈر گیا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور اس کے ساتھ مایوسیاں بھی ذہن سے نکال پھینکیں اور زندہ رہنے کا تہیہ کر لیا۔
وہ زندہ رہا اور علم و ادب کی دنیا میں اتنا مشہور ہوا کہ ساری دنیا میں شہرت پائی۔ اس کا نام گوئٹے تھا۔ اس کا شہرۂ آفاق ناول فاسٹ ہے۔ وہ ۱۷۴۹ء میں پیدا ہوا اور ۸۲ برس کی عمر میں ۱۸۳۲ء میں فوت ہوا۔
جب ذکر نرسوں کا یا نرسنگ سروس کا ہوتا ہے تو انگلینڈ کی ایک خاتون کا نام یاد آجاتا ہے۔ یہ نام فلورنس نائٹ انگیل ہے جو نرسنگ سروس کی بانی تھی۔ وہ ۱۸۲۰ء میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے نوجوانی میں کریمیا میں ہسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کا کام شروع کیا۔ اس نے ہسپتالوں کو بہتر بنانے کی باقاعدہ مہم چلائی اور نرسنگ کو باقاعدہ پیشہ بنا دیا۔ اس کام میں اس نے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی اور آج تک اس کا نام زندہ ہے۔
اس کی عمر ۳۶ سال ہوئی تو اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ وہ عارضۂ قلب میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس وقت دل کے معائنے کے لیے ای سی جی کا کوئی مشینی انتظام نہیں تھا، تاہم ڈاکٹر سٹیتھوسکوپ اور علامات سے پتا چلا لیتے تھے کہ دل ٹھیک ہے یا کسی مرض میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹروں نے نائٹ انگیل کو یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ وہ دل کے کسی بھی مرض میں مبتلا نہیں لیکن وہ قائل نہ ہوئی۔ یہی کہتی رہی کہ کوئی بھی لمحہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہو سکتا ہے۔
اس نے اپنی حالت اتنی بگاڑ لی کہ بستر پر لیٹ گئی اور باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ کہتی تھی کہ کسی بھی وقت اس کی حرکت قلب بند ہو جائے گی۔ آخر ایک روز
اس کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ لیکن اس وقت اس کی عمر نوے سال ہو چکی تھی۔ اس نے چھتیس برس کی عمر میں اپنے آپ کو عارضۂ قلب کے وہم میں مبتلا کیا تھا۔ (بشکریہ ماہنامہ حکایت۹۰۔۴)