ودان نامی بستی میں قبیلہ غفار رہائش پذیر تھا اور اس بستی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس لیے کہ عرب تاجروں کے قافلے شام یا دیگر ممالک کو جاتے ہوئے یہیں سے گزرتے تھے۔ قبیلہ غفار کی معیشت کا دارومدار بھی اسی آمدن پر تھا جو عرب تاجروں کے یہاں قیام کے وقت انھیں حاصل ہوتی تھی۔ اگر تاجر یہاں خرچ کرنے سے گریز کرتے تو قبیلہ غفار کے لوگ لوٹ مار شروع کر دیتے جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اسے اپنے قبضہ میں کر لیتے۔ جندب بن جنادہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ جن کی کنیت ابوذر تھی۔ انھیں جرأت، دانش مندی اور دور اندیشی میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ، انھیں شروع سے ہی ان بتوں سے دلی نفرت تھی جنھیں ان کی قوم پوجا کرتی تھی۔ انھیں اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ عرب اس وقت عقیدہ کی خرابی اور دینی فساد کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسے نئے نبی علیہ السلام کے ظہور کے منتظر تھے جو لوگوں میں شعور پیدا کرے۔ انھیں حوصلہ دے اور پھر انھیں گمراہی کی اتھاہ تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لائے۔
جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو جب پتا چلا کہ مکہ معظمہ میں نئے نبی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے تو انھوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا۔ آپ ابھی مکہ معظمہ جائیں، سنا ہے کہ وہاں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آسمان سے اس پر وحی بھی نازل ہوتی ہے۔ وہاں جا کر غور سے ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہو چکے ہیں، بالخصوص یہ پتا کرنا کہ ان کی اصلی دعوت کیا ہے؟
اپنے بھائی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جنابِ انیس مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری دی۔ آپؐ کی مجلس میں بیٹھے، غور سے آپؐ کی باتیں سنیں اور وہاں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بڑی شفقت و محبت سے انھیں خوش آمدید کہا اور بڑے اشتیاق سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق سوالات شروع کر دیے۔ تو جناب انیسؓ نے بتایا:
خدا کی قسم میں نے بچشم خود دیکھا ہے وہ تو لوگوں کو اچھے اخلاق کی طرف دعوت دیتے ہیں اور آپؐ کی گفتگو ایسی پر تاثیر ہوتی ہے کہ سننے والا وجد میں آجاتا ہے اور متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ آپؐ کی گفتگو انتہائی مربوط ہوتی ہے لیکن اس پر شعر گوئی کا اطلاق بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جناب ابوذرؓ نے اپنے بھائی سے دریافت کیا کہ نئے نبی علیہ السلام کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟
تو انھوں نے بتایا: عام لوگ انھیں جادوگر، نجومی اور شاعر سمجھتے ہیں۔
یہ باتیں سن کر جناب ابوذر فرمانے لگے۔ پیارے بھائی، آپ کے بیان سے دل کو تشفی نہیں ہوئی۔ اب آپ میرے اہل و عیال کا خیال رکھیں۔ میں خود صحیح صورتِ حال کا جائزہ لینے وہاں جاتا ہوں۔ جنابِ انیسؓ نے کہا ضرور جائیے آپ کے بعد میں اہل خانہ کا خیال رکھوں گا۔ لیکن اہل مکہ سے ذرا محتاط رہنا۔
جناب ابوذر رضی اللہ عنہ نے زادِ راہ اور پانی کا ایک چھوٹا سا مشکیزہ اپنے ہمراہ لیا اور دوسرے ہی دن نبی علیہ الصلوٰۃو السلام کی زیارت کے لیے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
جناب ابوذر رضی اللہ عنہ پیدل مسافت طے کرتے ہوئے مکہ معظمہ تو پہنچ گئے لیکن وہ قریش مکہ سے خوفزدہ تھے اس لیے کہ انھیں پہلے سے یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ جو بھی حضرت محمدﷺ میں دلچسپی لیتا ہے قریش اس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے؟ میں تو یہاں کسی کو جانتا نہیں! اگر کسی سے آپﷺ کے متعلق دریافت کیا تو ممکن ہے وہ آپؐ کا دشمن ہو اور وہ میرے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔
دن بھر انھیں خیالات میں غلطاں و پریشان رہے۔ رات ہوئی تو وہیں مسجد میں لیٹ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان پہ نظر پڑی تو سوچا کہ یہ تو کوئی اجنبی مسافر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے پاس آئے، گھر چلنے کی دعوت دی تو آپ رضا مند ہو گئے۔ گھر میں ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ لیکن مکہ معظمہ میں آمد کا سبب دریافت کرنے سے عمداً گریز کیا۔ جناب ابوذرؓ نے بڑے آرام سے وہاں رات بسر کی ۔ صبح ہوئی تو اپنا سامان لے کر مسجد میں تشریف لے آئے، دوسرا دن بھی یونہی گزار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ رات ہوئی تو مسجد میں ہی لیٹ گئے۔ دوسری رات پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا تو خیال کیا کہ اس مسافر کو آج بھی اپنی منزل نہیں ملی۔ اسے پھر اپنے ہمراہ گھر لے آئے۔ دوسری رات بھی خوب ان کی مہمان نوازی کی لیکن مکہ معظمہ میں آمد کی وجہ پوچھنے سے گریز کیا۔ جب تیسری رات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مہمان سے پوچھا کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں آمدآپ کی آمد کا مقصد کیا ہے؟ تو جناب ابوذر غفاریؓ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں آپ میری صحیح رہنمائی کریں گے تو میں آپ کو اپنے دل کی بات بتائے دیتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے وعدہ کر لیا ، تو انھوں نے بیان کیا۔ میں دور دراز کا سفر طے کر کے یہاں محض اس لیے آیا ہوں کہ اس عظیم ہستی کی زیارت کروں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ان کی یہ بات سنی تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا اور فرمایا۔ خدا کی قسم آپؐ سچے رسول ہیں اور آپؐ کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ پھر راز دارانہ انداز میں ارشاد فرمایا کہ کل صبح آپ میرے پیچھے پیچھے چلتے آئیں۔ اگر میں نے راستہ میں کسی مقام پر کوئی خطرہ محسوس کیا تو رک جاؤں گا لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ جب میں کسی گھر میں داخل ہو جاؤں تو آپ بھی بے دھڑک میرے پیچھے اندر آجائیں۔
دوسرے دن صبح کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے مہمان کو ہمراہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے ہو لیے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ بالآخر رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ جناب ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے آپؐ کو دیکھتے ہی کہا۔
السلام علیک یا رسول اللہ
آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا:
وعلیک السلام اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ’۔
تاریخ اسلام میں جناب ابوذرؓ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ میں رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید سنایا۔ اسی مجلس میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ چوتھے یا پانچویں صحابی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔
دیگرواقعات مختصر انداز میں اب انہی کی زبانی بیان کیے جاتے ہیں۔
جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں ہی رہا۔ آپؐ نے مجھے اسلام کے بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دیے اور قرآن مجید کے بعض اجزاء کی بھی میں نے آپؐ سے تعلیم حاصل کر لی۔ آپؐ نے محبت بھرے انداز میں مجھے تلقین کی کہ‘‘ ابھی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتانا، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں تو کہیں آپ کو اس جرم کی پاداش میں قتل نہ کر دے۔’’
میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔مکہ سے روانگی سے قبل ایک مرتبہ ضرور قریش کے روبرو کلمہ حق بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آپؐ میرے جذبات دیکھ کر خاموش ہو گئے۔
ایک روز میں مسجد میں گیا، دیکھا کہ قریش آپس میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ میں چپکے سے ان کے درمیان جا کر کھڑا ہو گیا اور اچانک باآواز بلند کہا: اے خاندانِ قریش! میں صدق دل سے اقرار کرتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ ابھی میرے یہ کلمات ان کے کانوں کو ٹکرائے ہی تھے کہ وہ بھڑک اٹھے اور مجھے بے دریغ مارنا شروع کر دیا، قریب تھا کہ میری موت واقع ہو جاتی۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ میری حمایت میں اٹھے، میرے اور ان کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگے:
عقل کے اندھو، کیا تباہی تمھارا مقدر بن چکی ہے؟ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو ، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جانتے ہو ان کی بستی تمھارے تجارتی قافلوں کی آماجگاہ ہے۔ یہ سن کر وہ مجھے مارنے سے باز آگئے۔ جب مجھے ہوش آئی تو زخموں سے نڈھال رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ میری ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا ۔ کیا میں نے تجھے ابھی اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟
میں نے عرض کی۔ حضور آپؐ نے یقینا مجھے روکا تھا، لیکن میری دلی تمنا تھی کہ مشرکین کے نرغے میں ایک مرتبہ اسلام کا اعلان کروں۔ پھر آپ ؐ نے مجھے حکم دیا کہ اب میں اپنی قوم کے پاس چلا جاؤں۔ یہاں جوسنا اور دیکھا انھیں جا کر بتاؤں۔ انھیں اسلام کی دعوت دوں۔ شایدمیرے ذریعہ انھیں فائدہ ہو، ان کی کایا پلٹ جائے اورمجھے عنداللہ اجر و ثواب حاصل ہو۔
جب یہ خبر ملے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو سیدھے میرے پاس چلے آنا۔ جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگیا۔ جب میں اپنی بستی میں پہنچا تو سب سے پہلے مجھے میرا بھائی ملا! اس نے پوچھا کہ یہ سفر کیسا رہا اور اس میں کیا کچھ حاصل کیا؟
میں نے اسے بتایا عزیز بھائی! میں تو مسلمان ہو چکا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپؐ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کیں، آپؐ کی رسالت کو تسلیم کیا۔ میری باتوں سے متاثر ہو کر میرابھائی بھی مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا ۔ بھائی جان میں آپ کا دین اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں اسلام کی دعوت پیش کی تو وہ بھی فوراً اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر فرمانے لگیں بیٹا، اب میں تمھارے دین سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ اسی روز سے یہ مومن گھرانہ قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں ہمہ تن مصروف ہو گیا۔ ان کی دعوت سے متاثر ہو کر قبیلہ کے بہت سے افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور باقاعدہ یہاں نماز کا نظام قائم کر دیا گیا۔
چند افراد نے یہ کہا کہ ہم اس وقت تک اپنے آبائی دین پر قائم رہیں گے جب تک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف نہیں لے جاتے۔ چنانچہ جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو وہ سب مسلمان ہو گئے۔
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا کی۔ قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے اور قبیلہ بنو اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔
جناب ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ اپنی بستی میں مقیم رہے۔ یہاں تک کہ بدر، احد اور خندق کے غزوات رونما ہوئے۔ اس کے بعد آپؐ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہو کر رہ گئے۔ ہمہ وقت آپؐ کی خدمت میں مصروف رہنے لگے۔ کس قدر خوش نصیبی ہے۔ یہ سعادت وافر مقدار میں آپ کے حصہ میں آئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر معاملہ میں آپ کو ترجیح دیتے۔ آپ کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ وقت ملاقات مصافحہ کرتے اور خوشی کا اظہارفرماتے۔
جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے تو جنابِ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بے چین رہنے لگے۔ چونکہ مدینہ طیبہ آقا کے وجودِ اقدس سے خالی اور آپؐ کی مبارک مجالس کی روشنی سے سے محروم ہو چکا تھا۔ لہٰذا آپ وہاں سے ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ خلافت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما میں وہیں مقیم رہے لیکن خلافت عثمانؓ میں دمشق کی طرف کوچ کر گئے۔ وہاں مسلمانوں کی یہحالت زار دیکھی کہ وہ دنیاوی جاہ و جلال کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوئے۔ بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں مدینہ منورہ بلا لیا۔ تو آپ وہاں تشریف لے آئے۔ یہاں آ کر دیکھا کہ لوگ دنیا کی طرف پوری طرح راغب ہو چکے ہیں تو بہت زیادہ کبیدہ خاطر ہوئے اور بڑی سختی سے لوگوں پر تنقید شروع کر دی جس سے عام لوگ بہت تنگ آگئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں ربذہ بستی میں منتقل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ یہ مدینہ منورہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ آپ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اس بستی میں زندگی کے دن پورے کرنے لگے۔ یہاں آپ نے دنیا سے بالکل بے نیاز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کے گھر میں داخل ہواچاروں طرف نظر دوڑائی تو گھر میں کوئی سامان دکھائی نہ دیا تو اس نے تعجب سے پوچھا، اے ابوذرؓ !آپ کا سامان کہاں ہے؟
فرمایا، ہمارا ایک دوسری جگہ گھر ہے۔ اچھا سامان ہم وہاں بھیج دیتے ہیں۔ وہ شخص آپ کی مراد سمجھ گیا اور کہنے لگا۔ اے ابوذرؓ !جب تک آپ اس گھر میں ہیں یہاں رہنے کے لیے بھی تو کچھ سامان آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ تو آپ نے فرمایا گھر کا اصل مالک ہمیں یہاں رہنے نہیں دے گا۔
ایک مرتبہ شام کے گورنر نے تین سو دینار آپ کے پاس بھیجے اور یہ پیغام دیا کہ یہ رقم آپ اپنی کسی ضرورت میں استعمال کر لیں۔ آپ نے بڑی بے نیازی سے دینار واپس کر دیے اور فرمایا کہ اسے اپنے علاقہ میں مجھ سے زیادہ کوئی مفلوک الحال نظر نہیں آیا۔
آسمانِ زہد و تقویٰ کا یہ درخشندہ ستارہ ۳۲ ہجری کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ کی تعریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘ارض و سماء نے آج تک ابوذرؓ سے بڑھ کر کوئی صادق دل نہ دیکھا ہو گا۔’’