میری بیگم کو چوروں کی بہت فکر رہتی ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ بار بار کنڈیاں اور تالے چیک کرتی ہے کھڑکیاں مضبوطی سے بند کرتی ہے۔ شاید لاہور بھر میں ہمارا واحد نان ائر کنڈیشنر گھر ہوگا جس کی تمام کھڑکیاں رات کو بند کر کے سویا جاتا ہے۔آپ بے حال ہورہے ہیں’ پسینے سے بھیگ رہے ہیں۔ ہوامیں آکسیجن کم ہورہی ہے لیکن جناب کھڑکی نہیں کھلے گی۔ اگرچہ بیگم کو خاوند کے علاوہ کسی قسم کا جانور پسند نہیں لیکن وہ ہمارے السیشن کتے کی دیکھ بھال پر میری نسبت زیادہ توجہ صرف کرتی ہے۔ اسے طرح طرح کی گولیاں کھلاتی ہے۔ ذرا دُم ہلانے کی رفتار کم ہو تو بھاگی بھاگی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ہے اور چالیس پچاس روپے کی دوائیاں خرید لیتی ہے۔ مجھے بخار یا زکام وغیرہ ہو تو جوشاندہ گھول کر پلادیتی ہے۔ جب بھی ذرا احتجاج کرتا ہوں کہ کم از کم میری حیثیت اس وفادار جانور کے برابر تو ہونی چاہیے تو کہتی ہے:‘‘اگر گھر میں چور آجائیں تو کیا تم بھونک سکتے ہو...؟’’‘‘ظاہر ہے کہ نہیں۔’’ میں کھسیانا ہوکر کہتا ہوں۔ ‘‘تو یہ بھونک سکتاہے۔’’وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتی ہے۔ وہ اکثر انارکلی میں جدید قسم کے تالے اور دیگر آلات تلاش کرتی رہتی ہے۔ جن سے گھر کے دروازے محفوظ کیے جا سکیں۔ رات کو ذرا سی آہٹ ہو تو شور مچا دیتی ہے کہ گھر میں کوئی ہے فوراً اٹھ کر چیک کرو۔ میں اٹھ کر چیک کرنے کے لیے باہر صحن میں جاتا ہوں تو کتا مجھ پر جھپٹ پڑتا ہے اور میں بڑی مشکل سے اُسے پچکار کر اپنی جان بچاتا ہوں۔ میری بیگم اگر ٹیلی ویژن پر کوئی انگریزی فلم دیکھ رہی ہو تو خاص طور پر اس میں دکھائے جانے والے تالوں اور زنجیروں کو بڑے شوق سے دیکھتی ہے۔ کچھ دنوں سے مجھے احساس ہورہا تھا کہ اس کی یہ احتیاط وہم کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ یوں بھی ہر صبح میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخبار نہ دیکھ سکے۔ اخبار میں ایک دو چوری کی وارداتوں کا ذکر ہوتا ہے اور وہ انہیں پڑھ کر اور زیادہ پریشان ہوجاتی ہے۔‘‘تم نے خبر پڑھی ہے کہ سمن آباد میں ایک کلرک کے گھر چوری ہو گئی ہے...دیکھو تو سہی بے چارے کے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے۔ بیس ہزار روپیہ نقد...زیورات کے پانچ سیٹ ... وی سی آر... ٹیلی ویژن اور تیس ہزار کے بانڈ.....میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک اور کتا رکھ لینا چاہیے۔ ایک کافی نہیں...’’
کبھی وہ ہمسایوں کے ہاں سے واپس آئے تو اس کا رنگ اڑا ہوا ہوگا۔ ‘‘تم نے سنا ۔ وہ ادھر مارکیٹ کے قریب جو ملک صاحب رہتے ہیں’شادباغ میں جن کی بجلی کے سامان کی دکان ہے ان کے گھر چوری ہوگئی۔دولاکھ روپیہ نقد اور پچاس تولے سونا چوری ہوگیا...اب کیا ہوگا؟’’میں اسے سمجھانے کی بہت کوشش کرتا ہوں کہ نیک بخت یہاں ہمارے علاقے میں پولیس بھی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کتا بھی ہے تم فکر نہ کرو لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ بولائی پھرتی ہے۔ آج صبح اس نے اخبار پر نظر ڈالتے ہی ایک طویل ہچکی بھری اور کہنے لگی۔‘‘ستر ہزار روپیہ نقد... طلائی زیورات...ہیرے کی انگوٹھیاں اور دوسرا سامان... ہائے ہائے ہمارا کیا ہوگا؟’’
‘‘کچھ نہیں ہوگا ہمارا’’ میں نے اسے تسلی دی۔ ‘‘نہیں نہیں چور آگیا تو ہمارا کیا ہوگا۔’’وہ سر ہلا ہلا کر کہنے لگی۔بس یہ آخری حد تھی۔ اب مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور میں پھٹ پڑا:‘‘تو آجائیں چور بلکہ چوروں کے ساتھ مور بھی آجائیں’ ہمارے گھرسے کیا اٹھاکر لے جائیں گے۔ ایک ٹیلی ویژن اور تمہاری چار چوڑیاں اور یہ سوات سے خریدے گئے پرانے پیڑھے جن میں سے تمہیں بو آتی ہے۔ہمارے بلب اتار کر لے جائیں گے’ پنکھے اتار کر لے جائیں گے.....کیا ہے ہمارے گھر میں جس کے لیے تم پریشان رہتی ہو؟’’ ‘‘اسی لیے تو پریشان رہتی ہوں۔’’وہ روہانسی ہوکر بولی‘‘ہم چوروں کو کیا منہ دکھائیں گے؟’’ ‘‘کیوں چور ہمارے کون ہوتے ہیں کہ ہم ان کو منہ دکھائیں؟’’
تم اخبار دھیان سے دیکھو تو تمہیں پتا چلے کہ کسی کلرک کے گھر چوری ہوتی ہے تو دو چار لاکھ نقداور سو تولے زیورات کی رپورٹ درج ہوتی ہے۔ کسی معمولی دکاندار کے ہاں چور جاتے ہیں تو لاکھوں روپے نقد اور لاکھوں کے زیورات اور کپڑے وغیرہ آرام سے جمع کرتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔ شہر کے کسی بیک ورڈ علاقے میں کوئی معمولی حیثیت کا آدمی اگر لٹ جاتا ہے تو اس طرح لٹتا ہے کہ جی اتنے لاکھ روپے نقد اور اتنے کے زیورات...وی سی آرہیرے کی انگوٹھیاں وغیرہ.....’’ ‘‘بالکل۔ بالکل’’ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:‘‘یہی تو میں کہہ رہاہوں ... تم نے وہ قصہ نہیں سنا کہ ہماری حیثیت کے ایک شخص کے گھر ایک چور آ گیا۔ وہ خاصی دیر ادھر ادھر ٹٹولتا رہا کہ شاید کچھ ہاتھ لگ جائے مگر وہاں تھا کیا جو ہاتھ آتا۔ اتنی دیر میں گھر کا مالک آنکھیں ملتاہوا اٹھااور چور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔ برادر میں ساری عمر اس گھر میں کوئی قیمتی شے تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہاہوں مجھے تو نہیں ملی۔ آؤ آج ہم دونوں مل کر تلاش کرتے ہیں شاید کچھ مل جائے....تو یہاں چور آکرکیا کریں گے؟’’ ‘‘تمہیں معاشرے میں ایک معزز مقام حاصل ہے یا نہیں؟’’ میری بیگم نے الٹا مجھ پر سوال داغ دیا۔‘‘بالکل ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں ایک معزز ادیب’ صحافی اور اداکار وغیرہ ہوں۔’’ ‘‘تو چوروں کو صرف یہ معلوم ہوگا کہ تم ایک معزز شخص ہو ۔انہیں یہ بھی خیال ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں اور ملازموں کی نسبت تمہاری حیثیت بہتر ہوگی تو وہ یہاں آ جائیں گے۔’’ ‘‘اور آکر کیا کریں گے؟’’ میں نے پھر اپنا سوال دھرایا۔ ‘‘وہ مایوس ہوں گے اور اگلے روز اخبار میں چھپے گا کہ ہمارے گھر میں چوری ہوئی اور چور ایک پینٹنگ ... چند کتابیں اور شاید ایک ٹیلی ویژن لے کر چلے گئے۔ہمارے گھر میں آج تک یکمشت دو چارسو روپے سے زائد نہیں ہوتے۔ عام طور پر دس دس کے تین چار نوٹ ہوتے ہیں۔ تو وہ بیچارے کیش بھی نہ لے جاسکیں گے۔ کیا یہ تمہاری بے عزتی نہیں ہوگی کہ تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے اور اس کی دھوم اخباروں میں ہوگی۔ اسی لیے میں چوروں سے ڈرتی ہوں کہ کہیں وہ ہمارے گھر میں داخل ہو کر ہمارا بھانڈا نہ پھوڑ دیں .. اسی لیے تالے کنڈیاں لگاتی ہوں کہ ہمارا پول نہ کھل جائے۔ کیوں میرے پریشانی جائز ہے ناں؟’’‘‘ہاں ’’ میں نے سر ہلا کر کہا‘‘ہمیں ایک کے بجائے دو کتے رکھنے چاہییں اور راتوں کو جاگ کر پہرہ بھی دینا چاہیے تاکہ ہمارے گھر چور نہ آئیں..بلکہ بیگم میں خود بھی کبھی کبھار رات کے وقت باہر نکل کر تھوڑا سا بھونک لیا کروں گا....آخر کار عزت کا سوال ہے!....’’