قرآن حکیم نے اطاعت ِ رسول ﷺ کے ضمن میں دو انداز اختیار کیے ہیں۔ اکثر تو اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کو بھی ضروری ٹھیرایا ہے اور کہیں صرف رسول کی اطاعت و پیروی ہی کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دینی نقطہ نظر سے قرآن کے پہلو بہ پہلو، اسلام اور فقہ و تقین کا دوسرا سرچشمہ یا مصدر ثانی جس سے ایمان و عمل کے تقاضے مکمل ہوتے ہیں، سنت ِرسولؐ ہے:
قُلْ اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۔ (آلِ عمران:۳۲)
کہہ دو کہ خدااور اس کے رسول کا حکم مانو، اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ (آلِ عمران:۱۳۳)
اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحمت کی جا سکے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُو اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْٓ شَیْ ءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاوِیْلًا۔ (النساء:۵۹)
مومنو! خدا اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو، اور اگر کسی بات میں اختلاف پیدا ہو تو اگر خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور رسول اور اپنے اولو الامر کے حکم کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ۔ (الانفال:۱)
اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۔ (الانفال:۲۰)
ایمان دارو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اس سے روگردانی نہ کرو، اور تم سن رہے ہو۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا۔ (الانفال:۴۶)
اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا، ایسا کرو گے تو بزدل ہوجاؤ گے۔
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُواط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔ (النور:۵۴)
کہہ دیجیے کہ خدا کی فرمانبرداری کرو اور رسولِ خدا کے حکم پر چلو، اگر منہ موڑو گے تو رسول پر اس چیز کا ادا کرنا ہے جو ان کے ذمہ ہے اور تم پر اس چیز کا ادا کرنا ہے جو تمھارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف احکامِ خدا کا پہنچا دینا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ۔ (محمد:۳۳)
مومنو! خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو۔
اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ رَسُوْلَہٗط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ (مجادلہ:۱۳)
اور خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو، خدا اس سے باخبر ہے۔
اَطِیْعُوا اللّٰہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَج فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ۔ (التغابن:۱۲)
اورخدا کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے۔
یہ وہ آیات ہیں جن میں اللہ اور رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں دونوں کی اطاعت و پیروی کو یکساں طور سے ضروری ٹھیرایاگیا ہے۔ یعنی جو اسلوب ، انداز اور پیرایہ اظہار اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اختیار کیا گیا ہے، بعینہٖ وہی نہج اور طریق اطاعتِ رسول کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے
اب ان آیات پر ایک نظر ڈالتے چلیے جن میں اطاعت رسولؐ کو مستقل بالذات اور منفرد دین کی اساس اور بنیاد قرار دیا گیا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج۔ (النساء:۸۰)
جو شخص رسول کی پیروی کرے گا تو بے شک اس نے خدا کی پیروی کی۔
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِِ اللّٰہِط ۔ (النساء:۱۶۴)
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (آلِ عمران:۲۱)
لوگوں سے کہہ دیجیے اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا تمھیں دوست رکھے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا۔ اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (النور:۶۳)
تو جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی آفت آ پڑے یا تکلیف والا عذاب نازل ہو۔
فَلَا وَرَبِّکَ لاَ یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَبَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (النساء:۶۵)
آپ کے پروردگار کی قسم، یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں اور جو آپ فیصلہ کر دیں اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے تسلیم کر لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔
یہ آیات اپنے مفہوم و معنی میں اس درجہ واضح ہیں کہ ہم نے ان کی تشریح و تفسیر کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا ہے، البتہ ان آیات سے جو نکات نکھر کر فکر و نظر کے سامنے آتے ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینا چاہیے:
۱۔ اطاعت رسولؐ، دین کی اتنی اہم اساس ہے کہ اس سے انکار کفر کا مستوجب ہے۔
۲۔ اللہ کے رسول کی اطاعت رحمت الٰہی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
۳۔ کسی بھی فقہی و دینی مسئلے میں اختلاف رائے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ قرار دیاجاسکتا ہے۔
۴۔ اللہ اور اس کے رسول کے پیغام پر ایمان کے تقاضے اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں ، جبکہ حضورؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کو حرزِ جان بنایا جا ئے۔
۵۔ اطاعت رسول کی روگردانی سے حبط اعما ل کا اندیشہ ہے۔
۶۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے مترادف ہے۔
۷۔ ہر پیغمبر اسی لیے مبعوث ہوا ہے کہ لوگ اس کے نقش قدم پر چلیں۔
۸۔ محبت الٰہی صرف ایسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ آنحضرتؐ کے ارشادات و اعمال کی پیروی کی جائے۔
۹۔ جو لوگ آپ کی تعلیمات کی مخالفت میں سرگرم ہیں، ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔
۱۰۔ ایمان اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوتا جب تک آنحضرتؐ کے احکام و اوامر کو پورے اخلاص سے تسلیم نہ کیا جائے۔
اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کو دو مختلف اور متضاد خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف اظہار یا پرتو ہیں۔ اللہ تعالیٰ کتب و صحائف کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل نازل فرماتا ہے اور رسول اپنے عمل، کردار اور تشریحات سے وحی و تنزیل ہی کی روشنی میں ان کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ براہِ راست وحی کو علما کی اصطلاح میں وحی جلی کہا جاتا ہے اور اسی کی روشنی اور تاثیر کو وحی خفی …… اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر تو بھیجا گیا ہے مگر اس پر کوئی متعین کتاب نہیں نازل کی گئی، لیکن اس کے باوجود اس کی پیروی کو ضروری ٹھیرایا گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر کی ذات بجائے خود حجت و دلیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنے دور میں کتاب اللہ کی پیروی کے پہلو بہ پہلو اپنی پیروی کی بھی دعوت دی اور لوگوں سے کہا کہ اگر تم نجاتِ اخروی کے طالب ہو تو ہمارے نقش قدم پر چلو۔ (بحوالہ نقوش رسول نمبر)