جواب : بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی پوری طرح سے معاشرے پر غلبہ پا لے تو سوچنا چاہیے کہ اس کے عوامل کیا ہیں؟ اس کے عوامل بہت حدتک ملک کی معیشت اور اس کے معاشی ڈھانچے میں ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار و روایات کی اس لحاظ سے بڑی حد تک دوسری پوزیشن ہوتی ہے۔ہمارے ہاں رشوت کے فروغ کے معاملے میں صرف چند اخلاقی عوامل ہی کام نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے بہت سے سماجی اور معاشی عوامل بھی موجودہیں۔ جس طرح کا تفاوت سوسائٹی میں پیدا کر دیا گیا ہے اور جاگیر داری پس منظر نے جس طرح کی اخلاقیات پیدا کی ہیں، اس کو اگر آپ سامنے رکھیں گے تو صورت حال بڑی حد تک واضح ہو جائے گی۔ اس کے عوامل کا ٰغیر جانبدارانہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کے پیچھے سیاسی اداروں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟اس کے پیچھے معاشی اداروں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ یہ تفاوت جو بڑھنا شروع ہوگیا ہے، جو تبدیلیاں اس کے نتیجے میں آنا شروع ہو گئی ہیں، جیسے خاندان کے خاندان اب معاشی جدوجہد میں مصروف ہونے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، آج سے پچاس سال پہلے یہ صورت حال نہیں تھی۔ یہ عمل جتنا آگے بڑھے گا، اسی نسبت سے تفاوت دور کرنے کے لیے لوگوں کو پیسے کی ضرورت پڑے گی۔جب آپ ایک کانسٹیبل کو۲۰۰۰ دیں اور کہیں کہ چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی دو تو وہ ہمارا لحاظ نہیں کرے گا، پھر آپ کا جو پورا جاگیر دارانہ نظام ہے، پس منظر کے لحاظ سے وہ ویسے بھی اخلاقی قدروں کی نشوونما کو کچل دیتاہے۔
لوگوں کی معاشی ضرورتیں، ان کے معاشی مسائل اور پھر جس طریقے سے انسانوں سے معاملات کیے جارہے ہیں،وہ ایک مخصوص نفسیاتی شخصیت تخلیق کرتے ہیں، اس کو جس طرح آپ معیشت کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں۔ اس کے بعدآسان طریقہ رشوت لینا ہے۔ آخر لوگ رشوت کیوں نہ لیں؟میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ اس کو کس طریقے سے ختم کریں گے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان عوامل کو تقویت نہ دی جائے۔ سوسائٹی بحیثیت مجموعی ان کے خلاف آگے بڑھ کر جدوجہد کرے۔جب معیشت کے نظام میں کچھ تبدیلیوں سے سیاسی اداروں میں تبدیلیاں آئیں گی، پھر کچھ تبدیلیاں آپ کے سماجی ڈھانچے میں آئیں گی، اس کے بعد ہی اخلاقی اقدار کا نعرہ کچھ موثر ہونا شروع ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ چند لوگوں کی حد تک، جن کے اندر عزم،بڑا حوصلہ اور بڑی قوت ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ اخلاقی اقدارکی پاسداری کر لیں لیکن بالعموم عوام بہت مشکل حالات میں ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : دیکھیے بات یہ ہے کہ اخلاقی معاملات کے اندر بحث کبھی نہیں کی جاتی، ان کا جواز کبھی نہیں ہوتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان کا علمی اور نظری سطح پر بھی کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور ایک چیز یہ ہے کہ ایک معاملہ ایک شخص کے لیے کیا صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی اگر تو محض اتنی بات ہے کہ مجھ کو فتوے دینے ہیں اور اس کے نتیجے میں رشوت ختم ہو جائے گی تو میں دے دیتا ہوں، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ فتویٰ لوگوں کے کانوں کی دیوار سے ٹکرا کر واپس آجائے گا، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ تو بالکل ٹھیک ہے کہ مجھے جب بھی آپ پوچھیں گے کہ کیا آدمی کو جھوٹ بولنا چاہیے تو میں کہوں گا کہ نہیں بولنا چاہیے۔ آپ کہیں گے کہ رشوت لینی چاہیے؟ تو میں کہوں گا کہ نہیں لینی چاہیے۔ اس لیے کہ رشوت ایک اخلاقی برائی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پیش نظر کیا ہے؟ ہم یہ کام شب و روز کر رہے ہیں،اس لڑائی میں آپ ایک عام آدمی کو کم سے کم وہاں تو کھڑا کریں، جہاں وہ اس پوزیشن میں آ سکے کہ وہ یہ بات سن سکے۔ورنہ بات یہ ہے کہ اب آدمی کیا جواب دے، بعض اوقات جب لوگ پوچھتے ہیں، اپنے حالات بتاتے ہیں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کِیا جائے؟آپ کے معاشی معاملات کے اندر بھی تبدیلیاں نہیں آرہیں۔ اندازہ کیجیے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے گورنمنٹ سکول میں چند روپے فیس تھی، ہم دیہات میں جاکر ایک ڈسپنسر کے پاس سے مکسچر لے آتے تھے اور بخار اتر جاتا تھا۔ اب ذرا تعلیمی اخراجات اور علاج معالجے کو دیکھیے کہ کیا صورتِ حال ہے؟ یعنی ایک آدمی جس کے تین چار بچے ہیں، اگر وہ اپنے بچوں کوصحیح تعلیم ہی دلوانا چاہتا ہے تو آپ اسے تنخواہ کیا دے رہے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے دیں گے۔ میں ایک عام آدمی کی بات کر رہا ہوں، وہ اس رقم سے کیسے گھر چلائے؟
(جاوید احمد غامدی)
جواب :ایک ہی چیز ہے، یعنی ایک میں آپ روپیہ استعمال کر لیتے ہیں، دوسرے میں اثر و رسوخ استعمال کر لیتے ہیں۔دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ دونوں سے کیا کام لے رہے ہیں۔ کیا آپ کسی کا حق مار کر اپنے آپ کو ترجیح دلوا دے رہے ہیں؟ زیادہ تر یہ ہی ہوتا ہے۔ جب یہ چیز بہت پھیل جاتی ہے تو اصل میں اور چیز وجود میں آتی ہے۔ پہلے مرحلے میں لوگ رشوت اپنی جائز خواہشات پوری کرنے کے لیے لیتے ہیں، لیکن جس وقت وہ روپیہ تقسیم ہو جاتا ہے، رشوت بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہے تو اس کے بعد لوگوں کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، پھر وہ کوئی جائز کام بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب ان کی آمدنی کا ایک یہی بڑا ذریعہ ہے ۔ ایک جانب آپ ان کی آمدنی کے ذرائع محدود کرتے چلے جاتے ہیں، دوسری جانب لوگوں کے درمیان ایک بڑا تفاوت پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ نہ ان کے لیے تعلیم دلانا ممکن ہے، نہ ان کے لیے روٹی کمانا ممکن ہے اور نہ ہی ان کے لیے صحت کے مسائل حل کرنا ممکن ہے۔ اس صورت حال میں پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر وہ جائز کاموں کے لیے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے لینے چاہئیں۔ یہ ہی ان کی آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میرے خیال میں پہلے رشوت کی تعریف کر لیں کہ رشوت اصل میں ہے کیا چیز؟... کسی ناجائز کام کرنے کے لیے روپیہ لینا اور دینا رشوت ہے، لیکن جب آپ کا حق تھا، آپ اسے لینے کے لیے گئے تھے تو وہ آپ کو ملنا چاہیے تھا، آپ کسی پر کوئی ناجائز ترجیح قائم نہیں کر رہے تھے، تو آپ بری الذمہ ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو جو لت آپ نے ڈالی ہے، وہ کیا ہے؟ اور اب وہ اس کے لیے مجبور ہے،پھر مجبوری تھوڑی دیر بعد خواہش بن جاتی ہے، اس کے بعد آدمی اسی پر نہیں رکتا کہ اچھا میرے بچے بھوکے تھے تو میں نے یہ کام کر لیا۔ اب اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ میری جو کوٹھی بن گئی ہے۔ اب مجھے اس سے بڑی کوٹھی بنانی ہے۔ تو ایکcycleہے جو پورے معاشرے میں چل رہا ہے۔ آپ سو سائٹی کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف آپ کو لوگوں کی فکر کی اصلاح کرنی چاہیے اور دوسری طرف ان کے سماجی حالات کی۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : تحفے کو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جب کچھ لوگ اس طرح کے تحفے لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ نے کہا کہ ان تحائف کو مسجد میں کیوں نہیں تقسیم کیا ؟ لوگوں نے جب یہ کہا کہ ہم یہ تحائف گورنر کی حیثیت سے یا فلاں حیثیت سے فلاں جگہ سے لے کر آئے تھے اور لوگوں نے یہ بطور تحفے ہمیں دیے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تحائف تم لوگوں کو گھروں میں بیٹھے ہوئے کیوں موصول نہیں ہو گئے؟ اگر آپ کے ایسے ہی تعلقات اور روابط تھے تو گھروں میں بیٹھ جاتے اور یہ وہیں مل جاتے۔اگر کسی ذمہ داری یا کسی منصب کی وجہ سے لوگ آپ کو تحائف دیتے ہیں تو آپ کے منصب سے رعایت یا فائدہ اٹھانے کے لیے دیتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: بے شمار ذرائع سے ملتی ہے۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ رشوت سے منصب ملتے ہیں، اس سے ذمہ داریاں ملتی ہیں۔ رشوت سے اولاد کے لیے اچھے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اب تو اس کی اتنی قسمیں وجود میں آگئیں ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر آپ کو بیرون ملک کا دورہ مل جائے تو وہ بھی کافی ہے۔ آپ کی لائف بدل جائے گی، بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض اوقات لوگ صاحب اقتدار کی دعوتیں کرتے ہیں یا کسی موقع پر بلاتے ہیں تو اس کا بھی مقصد ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک بڑے مذہبی رہنما سے کہا کہ آپ کی سیاست کا کیا حاصل؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگ ایوان اقتدار میں جانے کا تصور بھی نہیں سکتے تھے، اب ہم جب چاہیں ایوان صدر میں جا سکتے ہیں۔ تو میں نے پھر مزید گفتگو نہیں کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ سطح معلوم ہو گئی تھی۔نہ تو کوئی نصب العین ہے اور نہ معاشرے کی کوئی اصلاح مقصود ہے۔جب انسان کی سطح یہ ہوگی توا س کے بعد پھر وہ رشوت بھی لے گا۔ اس وقت تو حکومتیں بھی رشوت میں دی جاتی ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : قرآن مجید نے بیان کر دیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کا مال، لوگوں کا حق ناجائز طریقے سے کھاتا ہے، وہ اپنے لیے جہنم خریدتا ہے۔ غریبوں کے حقوق میں جب آپ خرابی پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا جرم ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے بھی معاملہ کرنا ہوگا،بندے سے بھی کرنا ہوگا۔ یہ بہت سنگین جرم ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : بالکل قابل گرفت ہے، کیونکہ دوسری جانب آپ کسی کو محروم بھی تو کر رہے ہیں نا۔ جس وقت آپ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی جگہ بنائیں گے تو آپ کسی دوسرے کو محروم کر رہے ہوں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : اس بارے میں ایک سادہ سا اصول ہے۔ جو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ اپنے دل سے پوچھ لیا کرو، اپنے نفس سے مشورہ لے لیا کرو۔ اخلاقی معاملات کے لیے آپ کے دل کے اندر ہی ایک واعظ موجودہوتا ہے اور وہ آپ کو بالکل ٹھیک فتویٰ دے دیتا ہے۔ ہم بہت اچھی طرح سے یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہم کب کسی کی واقعی مدد کر رہے ہوتے ہیں،کب ہم کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر رہے ہوتے ہیں؟ یہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی اخلاقی اصول نہیں ہوتا، وقت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جب مجھے ایسا معاملہ پیش آئے گا تو میں بھی یہ ہی کروں گا۔ آپ کو معاملات پیش آئیں گے تو آپ بھی کریں گے۔ آپ کسی غریب آدمی کی مددتو کریں، لیکن اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ اس کی مدد کرنے سے کسی دوسرے پر ظلم نہ ہو۔
(جاوید احمد غامدی)