تاریخ کے سبق

مصنف : ڈاکٹر امجد ثاقب

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری2015

تاریخ
تاریخ کے سبق
ڈاکٹر امجد ثاقب

ٹیکسا س رقبے اور آبادی کے اعتبار سے امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ ٹیکساس ایک مقامی زبان کا لفظ ہے جو بعد میں ہسپانوی زبان کا حصہ بنا۔ اس لفظ کے معنی ہیں دوست۔ اسپین نے 1600 عیسوی کے بعد اس علاقے کو اپنی حکومت میں شامل کیا تواس کو یہ نام دیا گیا۔ فاتح مفتوح کو دوست نہیں بناتے۔ یہ نام نوآبادیاتی حکمتِ عملی کا ایک حربہ تھا۔ اڑھائی کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل یہ ریاست آج امریکہ کی اہم ریاستوں میں شمار ہوتی ہے۔ وادیوں‘ جنگلوں‘ ساحلوں اور صحراؤں کی سرزمین۔ کہیں کہیں اونچے پہاڑ۔ دو سو سال پہلے ٹیکساس کا زیادہ تر حصہ چرا گاہوں پر مشتمل تھا جہاں مویشیوں کے ریوڑ پالے جاتے۔ پستول یا بندوق اٹھائے ‘ گھوڑے پہ بیٹھا کوئی مہم جو۔ ٹیکساس کا عمومی تاثر ابھی تک کاؤ بوائے اسٹیٹ کا ہے۔ ٹیکسا س کو چھ پرچموں کا دیس بھی کہا جاتا ہے۔ گذشتہ تین سو سال میں یہاں چھ ممالک کا قبضہ ہوا اور چھ مختلف پرچم لہراتے رہے۔ سب سے پہلے اسپین ۔اس کے بعد مختصر عرصہ کیلئے فرانس‘ پھر میکسیکو ۔1836 میں ٹیکساس نے میکسیکو سے بغاوت کی اور اسے ایک آزاد ملک کا تشخص ملا۔ لیکن یہ آزاد حیثیت دس برس سے زیادہ برقرار نہ رہی۔ 1845میں یہاں کے لوگوں نے اپنی رضا مندی سے امریکہ کی ریاست بننا قبول کیا۔ چونکہ ٹیکساس میں غلامی کو جائز قرار دیا گیا تھا اس لیے امریکی سول وار کے دوران ٹیکساس دیگر جنوبی ریاستوں کے ہمراہ امریکہ سے علیحدہ ہوگیا۔ 1861 میں اس علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور جنوبی ریاستوں کی ایک کنفیڈریشن وجود میں آئی۔ سول وار کے دوران یہ علاقہ جنگ کا میدان تو نہ تھا لیکن جنوبی افواج میں بہت سے لوگ یہاں سے بھرتی ہوئے۔ اس جنگ میں ٹیکساس اور اس کی حلیف ریاستوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں ٹیکساس ایک بار پھر امریکہ کا حصہ بن گیا۔ اپنے وسیع رقبے کی بدولت امریکی سیاست میں آج اس ریاست کا بے حد اہم کردار ہے۔ امریکہ کی پانچ سو (Fortune 500) بڑی کاروباری کمپنیوں میں سے ستاون کمپنیوں کا تعلق اسی ریاست سے ہے۔ یہ کسی بھی ریاست میں موجود بڑی کاروباری کمپنیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ زراعت‘ کمپیوٹر ‘ توانائی ‘ الیکٹریسٹی ‘ ایرو سپیس کونسا ایسا شعبہ ہے جس کی صنعت یہاں موجود نہیں ۔ بہترین یونیورسٹیاں ٹیکساس کا ایک اور طرۂ امتیاز ہیں۔ رقبہ میں فرانس‘ جرمنی اور جاپان سے بڑی یہ ریاست محنت کرنے والوں کے لیے سونے کی کان ہے۔ زراعت ‘ معدنیات اور صنعت۔۔۔ان تینوں میدانوں میں سب سے آگے۔ انسانی وسائل کی فراوانی، علم و ہنر کی بہتات اور پھر سماجی اور معاشی انصاف کے جلو میں چلتا ہوا جمہوری نظام۔ یہ سب عوامل مل جل کر ایک توانا معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں۔ چاروں موسم۔سرما‘ بہار‘ گرمیاں اور خزاں۔ یہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے بھی کہ یہاں کا موسم کراچی سے بہت ملتا ہے۔ 1840 تک ٹیکساس کی آبادی چالیس ہزار سے بھی کم تھی۔ اب یہ آبادی کروڑوں میں ہے۔ٹیکساس کی معیشت بھارت اور کینیڈا سے بڑی ہے ۔ فی کس آمدنی چالیس ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ یہاں دنیا کے ہر حصے کے لوگ آباد ہیں۔ لاتعداد زبانیں اور مذہبی گروہ۔ رنگ اور نسل کی بھی کوئی قید نہیں۔ تہذیب اور ثقافت پر اسپین کا اثر بہت گہرا ہے۔ ٹیکساس کو کئی اعتبار سے قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ مذہب کا اثر ہونے کی وجہ سے اس کا شمار امریکہ کی Bible Belt میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے Bukle of the Bible Belt بھی کہتے ہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ یہاں ہر طرف مذہب کا چرچاہے یا ہر گرجا گھر پر سپیکر لگے ہوئے ہیں ۔ کیتھولک‘ پروٹسٹنٹ ‘ مسلم ‘ یہودی ‘ ہندو‘ سکھ اپنے اپنے طور پر بظاہر آزاد لیکن امریکی آئین کی زنجیر میں بندھے ہوئے۔ ترقی ‘ خوشحالی‘ معیشت ‘ فی کس آمدنی‘ آئین اور قانون کامیابی کا یہ سفر دیکھ کر اپنی طرف دھیان جاتا ہے ۔ دکھ ‘ درد اور احساسِ زیاں اور بڑھنے لگتا ہے۔ننانوے فیصد ایک ہی مذہب کے پیروکار اور مسجدوں پہ پہرے:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
آبائی باشندے اور سیاہ فام ۔۔۔داستانِ خونچکاں
ٹیکساس ہو یا امریکہ کی کوئی بھی اور ریاست امریکہ کی تاریخ کو عام طور پر سولہویں یا سترھویں صدی سے شروع کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ بہت کم سنائی دیتا ہے۔ سولہویں صدی سے پہلے کی کہانی کیا تھی۔ وہ مقامی لوگ کیا ہوئے جو اصل داستان ہیں۔ الاباما‘آپاشی‘ اتاکاپن‘ بیدائی‘ کادو‘ کومانچی‘ چوکتا‘ حیسنائی‘ جمانو‘ کران کاوا ‘کسکاپو‘کی ادوا‘ تونکاوا‘ واچیتا۔۔۔یہ بھی تو کوئی نام تھے جنہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیا گیایا بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرڈالا گیا۔ صفحہ ہستی سے مٹنے والے یہ نام انسانی حقوق کے دعووں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ کمزور ‘ نہتے ‘ ناتواں جو اس سرزمین کے اولین باشندے تھے لیکن ان میں سے اکثر کوبحراوقیانوس سے لے کر بحر الکاہل تک کہیں پناہ نہ ملی۔ کچھ پرانے قبائل اوکلاہوما میں ابھی تک اپنی تہذیب اور ثقافت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن وہ کتنی دیر اور جڑے رہیں گے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اور پھر وہ کروڑوں سیاہ فام جن کے خون پسینہ سے یہ جنت تعمیر کی گئی۔ جن پر ہونے والے ظلم کی تصویر امریکہ کے ہر بڑے شہر میں آویزاں ہے۔جن کی زخمی اناؤں کی شکست خوردہ آواز ابھی تک سنائی دیتی ہے۔ سیاہ فاموں پر ظلم کی یہ کہانی پڑھنی ہوتو ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں جانا پڑتا ہے جہاں یہ لوگ آباد ہیں۔ ہر بڑے شہر کے عین وسط میں موجود یہ بستیاں پورے امریکہ کا منہ چڑاتی ہیں۔اگر ان بستیوں کی طرف گذر نہ ہو تو پھر مشہور سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر یا میلکم ایکس جیسے لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔جن کے باغیانہ خیالات کی وجہ سے انہیں جوانی میں قتل کردیا گیا ۔
میلکم ایکس امریکی تاریخ کا سربستہ راز ہے۔ اس کی خود نوشت سوانح عمری ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ظلم سے نفرت کرتا ہے اوراچھے سماج کے خواب دیکھتا ہے۔ یہ کتاب روٹس Roots نامی کتاب کے مشہور مصنف ایلکس ہیلی Alex Haleyکی مدد سے لکھی گئی۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بغاوت کے علاوہ درد اور غم کی تصویربھی ہے۔صدہا برس کے آنسو اور آہیں۔ میلکم ایکس کہتا ہے کہ کروڑوں سیاہ فام افراد کو افریقہ سے غلام بنا کر امریکہ لا یا گیا۔’’ کاش میرے اختیار میں ہوتا کہ میں سمندروں کی گہرائی میں بکھرا ہوا خون‘ انسانی گوشت کے لوتھڑے ‘ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور کچلی ہوئی کھوپڑیاں دکھا سکتا۔ یورپی تاجروں کے بحری جہاز افریقہ جاتے اور غلاموں سے بھر کے آتے۔ شارک مچھلیاں ان جہازوں کا پیچھا کرتیں ۔ انہیں علم ہوتا تھا کہ ان جہازوں سے انسانی گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ ایک صدی کے عرصہ میں گیارہ کروڑ سیاہ فام یا تو غلام بنا لیے گئے یا پھر قتل کردیے گئے‘‘۔ آبائی امریکی باشندے اور سیاہ فام۔۔۔امریکہ کی اولین تاریخ پہ لگے ہوئے دو دھبے۔۔۔ شرمندگی‘خجالت‘ پشیمانی ۔ اب تو وہ دور نہیں۔ اب توجنت بس چکی۔ اب یہ کہانی کیوں دہرائی جاتی ہے۔ فلسطین ‘ عراق ‘ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقے ۔ آنسو ‘آہیں اور بے گورو کفن لاشیں۔ افسو س صد افسوس! کہ طاقتور تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
***

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے
ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے
ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے
رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے
کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے
کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے
بیگانہ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگہ آشنا مجھے
اس بے نشاں کے ملنے کی حسرت ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے
حسرت موہانی