ایٹم بم بنانے والی قوم روزمرہ زندگی کی ضروری اشیاء کیوں نہیں بنا سکتی یہ توجہ طلب پہلو ہے جب پاکستان دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا تو تقسیم ہند کی بنا پر مہاجرین کی آبادکاری کے لیے مالی مشکلات کا سامنا تھا تو ہماری بے لوث قیادت نے کسی سامراجی ملک یا بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے سودی قرض نہیں لیا اور نہ کسی نے پیش کش کی۔
جب وطن عزیز اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو ۱۹۵۶ء میں چوہدری محمد علی کی وزارت میں ۴ کروڑ ڈالر قرضے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ بد قسمتی یہ رہی کہ ہر آنے والی حکومت غیر پیداواری کاموں کے لیے مزید قرضے حاصل کرتی رہی۔ سالانہ سود تواداکرتی رہی مگر کسی حکومت نے اصل زر واپس کرنے کی کوشش نہ کی۔ ۹۹۔۱۹۹۸ء میں یہی قرضہ ۴۱ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ ملکی بجٹ کا زیادہ حصہ سودی قسط کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے اب صورتِ حال یہ ہے کہ بھاری شرح پر سودی قرضہ لے کر پہلے قرضے کی سودی قسط ادا کرنا پڑتی ہے حتیٰ کہ قرضوں کی ادائیگی کے چکر میں حساس محکمے و ادارے اور اہم مقامات غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت ہو رہے ہیں۔
آزادی سے پہلے مسلمان ہندوؤں کے مقروض تھے جب کہ آزادی کے بعد زرعی کاروباری طبقہ بنکوں کا مقروض ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی ان بنکوں کو سود کی شکل میں ادا کرتا ہے۔ اسی طرح ہماری حکومت بین الاقوامی اداروں سے قرض لیتی ہے پھر سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر بے جا ٹیکس عائد ہو جاتے ہیں۔ ان مالیاتی اداروں پر یہودی تسلط ہے جو قرضہ دیتے وقت ریاست کی سا لمیت کے منافی کڑی شرائط عائد کرتے ہیں اس بنا پر مقروض ملک اپنی مرضی سے داخلی و خارجہ پالیسی وضع نہیں کر سکتا۔ جب تعلیمی نصاب یہودی این جی اوز کی مرضی سے مرتب ہو تو عدالتوں میں شرعی قانون کیسے نافذ ہو سکتا ہے۔
پاکستان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے سونے کی چڑیا بن چکا ہے۔ جب کوئی قوم پینے کے لیے مشروبات، کھانے کے لیے برگر، علاج کے لیے ادویہ، زرعی پیداوار کے لیے کھاد بیج، شیو کے لیے بلیڈ، ہاتھ دھونے کے لیے صابن، نہانے کے لیے شیمپو، چہرے کی خوب صورتی کے لیے پاؤڈر کریم، پاؤں کے لیے جوتی ،سواری کے لیے موٹر سائیکل، کھانا پکانے کے لیے گھی۔ کمرے کو معطر کرنے کے لیے ایئر فریشنر، عورتوں کی زیب و زیبائش کے لیے میک اپ کا سامان،عادت کے لیے سگریٹ وغیرہ و دیگر اشیاء روزمرہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار شدہ استعمال کرتی ہو اس ملک کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے سونے کی چڑیا نہ کہیں تو کیا کہیں صرف امریکہ کی کمپنیوں نے۹۹۔۱۹۹۸ء میں پاکستان سے ۴۵ ارب کمائے۔ یہی کمپنیاں اربوں ڈالر کا سرمایہ کما کر پاکستان کو سود پر قرضہ دیتی ہیں۔
گویا ہماری جوتی ہمارے سر پر۔ باعث تعجب ہے کہ وہ قوم جو ایٹم بم بنا سکتی ہے وہ روزمرہ ضروریات کی اشیاء کیوں نہیں بنا سکتی۔ اربابِ علم و دانش کے لیے توجہ طلب پہلو ہے۔