(عمرے کے موقع پر لکھی گئی)
(پہلا حصہ)
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی
لہو میں لذت ہے راستوں کی
بغیر خوشبو مہک رہا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
سکون آمیز بے قراری
ہے میری یکسوئیوں پہ طاری
چلی براق کشش پہ لے کر
رسولِ اکرمؐ کی غم گساری
رسائی ہے بخت نارسا میں
سراہے اک دست مصطفےٰؐ میں
میں ڈور کا دوسرا سرا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
طوافِ کعبہ تھا فرض مجھ پر
درِ نبیؐ کا ہے قرض مجھ پر
سمٹ کے سایہ فگن ہوا ہے
جہان کا طول و عرض ہوا ہے
شریک رفتار جو رہے ہیں
وہ فاصلے ختم ہو رہے ہیں
میں آج سے اپنی ابتدا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
دکھائی دینے لگا مدینہ
مثالِ در کھل رہا ہے سینہ
ہوائیں حوروں کے لمس جیسی
فضائیں خلد بریں کا زینہ
کھلے ہوئے بازوؤں سی راہیں
ہر اک مسافر کو اتنا چاہیں
کہ ان کی چاہت پہ مر مٹا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
یہ ساعتِ قیمتی بھی آئی
کہ حاضری کو چلی جدائی
دھڑک رہے ہیں حواسِ خمسہ
لرز رہی ہے برہنہ پائی
بہشتِ عالم ہے یہ علاقہ
قدم قدم نقش پائے آقا
زمین کے شیشے میں دیکھتا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
(دوسرا حصہ)
درِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہوں
یقین حاوی سا ہے گماں پر
زمین پر ہوں کہ آسماں پر
میں ہوں، نہیں ہوں جو ہوں تو کیا ہوں
درِ نبیؐ کی طرف چلا ہوں
نہ رنگ نام و نمود میرا
نہ سایۂ ہست و بود میرا
خنک خنک نورِ مصطفےٰؐؐ سے
پگھل رہا ہے وجود میرا
جمالِ سرکارؐ ضو فشاں ہے
نگاہ بھی درمیاں کہاں ہے
سراپا آنکھیں بنا ہوا ہوں
درِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہوں
یہ دید معراج ہے نظر کی
یہی کمائی ہے عمر بھر کی
رئیس لیل و نہار ٹھہرا
طلب ہو کیا مجھ کو مال و زر کی
شعور و عرفان و آگہی سے
خزانۂ جلوۂ نبیؐ سے
تجوریوں کی طرح بھرا ہوں
درِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہوں
حیات کو جس کی دھن رہی ہے
وہ قرب کے پھول چن رہی ہے
سلام کا بھی جواب گویا
سماعت عشق سن رہی ہے
اب اور کیا مانگنا ہے رب سے
کہ ہاتھ باندھے ہوئے ادب سے
حضورؐ کے سامنے کھڑا ہوں
درِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہوں
یہ روضۂ شاہِ انبیاؐ ہے
کہ کرسی و عرشِ کبریا ہے
بندھا ہے درباریوں کا تانتا
عجیب اندازِ تخلیہ ہے
بغیر اجازت ہو باریابی
سیاہی دل ہو آفتابی
میں زنگ خوردہ چمک اٹھا ہوں
درِ نبیؐ پر پہنچ گیا ہوں
(تیسرا حصہ)
درِ نبیؐ سے پلٹ رہا ہوں
زمین ہے میرے سر پہ جیسے
ٹھہر گئی روح در پہ جیسے
بدن کے ہمراہ چل پڑا ہوں
درِ نبیؐ سے پلٹ رہا ہوں
سکون چھینا ثواب چھینا
نظارۂ لا جواب چھینا
فرائض دنیوی نے مجھ سے
درِ رسالت مآبؐ چھینا
رواں رواں آپ کو پکارے
کٹیں رگِ جاں سے موڑ سارے
حرم کو مڑ مڑ کے دیکھتا ہوں
درِ نبیؐ سے پلٹ رہا ہوں
میں یوں دیارِ نبیؐ سے نکلا
کہ جیسے شعلہ کلی سے نکلا
لیے ہوئے رحمتوں کے سائے
میں حـلقۂ روشنی سے نکلا
اگرچہ پی آیا ہوں سمندر
مگر بڑی تشنگی ہے اندر
میں خوش ہوں لیکن بجھا بجھا ہوں
درِ نبیؐ سے پلٹ رہا ہوں
دوبارہ جانے کی آرزو ہے
کہ خود کو پانے کی آرزو ہے
جو حج پہ احرام باندھتے ہیں
پہن کے آنے کی آرزو ہے
جو بوئے آقاؐ کی دے گواہی
اسی کفن میں مروں الٰہی
تڑپ ہوں، فریاد ہوں، دعا ہوں
نبیؐ نبیؐ پھر پکارتا ہوں
مجھے مرے ذہن نے ڈبویا
بہت ہی، کم مائیگی پہ رویا
تاثر اپنا بیان کرکے
سخنوری کا بھرم بھی کھویا
نہ لاج رکھی قلم کی میں نے
کیا تھا محسوس جو بھی میں نے
کہاں مظفرؔ وہ لکھ سکا ہوں
نبیؐ نبیؐ پھر پکارتا ہوں
٭٭٭