قرآنیات

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : فروری2015

قرآنیات
قرآن سے فائدہ حاصل کرنے کے شرائط
تدبر قرآن سے ماخوذ
عبداللہ بخاری

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
ایمان حاصل کرنے کا اصل ذریعہ قرآن حکیم ہے لیکن اِس مقصد کے لیے قرآن کی تلاوت کے کچھ آداب و شرائط ہیں۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو تبھی قرآن سے مذکورہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا اِن آداب و شرائط کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔
۱۔ نیت کی پاکیزگی
سب سے پہلی چیز نیت کی پاکیزگی ہے یعنی آدمی قرآنِ مجید کو صرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے پڑھے‘ کوئی ذاتی غرض سامنے رکھ کر نہ پڑھے‘ اگر طلبِ ہدایت کے سوا آدمی کے سامنے کوئی اور غرض ہوگی تو نہ صرف یہ کہ وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم رہے گا بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ قرآن مجید سے جتنا دُور وہ اب تک رہا ہے‘ اِس سے بھی کچھ زیادہ دُور ہٹ جائے گا۔ اگر آدمی قرآن مجید کو اس لیے پڑھے کہ لوگ اِسے مفسرِقرآن سمجھنے لگے یا اس لیے پڑھے کہ اس کے کچھ اپنے نظریات ہوں اور وہ اپنے اِن نظریات کو قرآن مجید کے رنگ کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا خواہش مند ہو تو ممکن ہے اس کے یہ ارادے کسی حد تک پورے ہوجائیں لیکن اس طرح وہ قرآن مجید کی فہم کا دروازہ اپنے اوپر بالکل بند کرلے گا۔
قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بناکر اُتارا ہے اور ہر آدمی کے اندر ہدایت کی طلب رکھ دی ہے۔ اگر اِسی طلب کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اِس سے اپنی کوشش اور اللہ کی توفیق کے مطابق فیض پاتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی اور خواہش کے تحت قرآنِ مجید کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو وہ وہی چیز پاتا ہے جس کا وہ طلب گار ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی اِسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور یہ اُصول بیان فرمانے کے بعد ساتھ ہی یہ بات واضح کر دی کہ گمراہ اُن لوگوں کو کرتا ہے جو فاسق ہوتے ہیں۔ یعنی جو لوگ اپنی اغراض کے ایسے بندے ہوتے ہیں کہ وہ ہدایت سے بھی گمراہی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ وہی چیز دیتا ہے جس کے وہ بھوکے ہوتے ہیں۔ جو لوگ نیت اور ارادہ درست کرکے ہدایت کے حصول کے لیے اس کی طرف بڑھتے ہیں قرآن مجید فوراً ایسے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر اُن کو اپنی تربیت میں لے لیتا ہے۔
۲۔ قرآن مجید کو ایک برتر کلام مانا جائے
دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور برتر کلام مان کر اِسی حیثیت سے اِس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر دل میں قرآن کریم کی پوری عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کو سمجھنے اور اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر وہ محنت نہیں کرسکتا جو اِس کے خزانۂ حکمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن مجید اپنے پیچھے ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے‘ ذہنوں اور دماغوں کی تبدیلی میں اِس کتاب نے جو معجزہ دکھایا ہے آج تک کسی بھی کتاب نے یہ معجزہ نہیں دکھایا ہے۔
آدمی اس کو سمجھنے کا حق اُسی وقت ادا کرسکتا ہے جب اس کی یہ عظمت و اہمیت اُس کے پیش نظر ہو۔ اگر کسی رقبۂ زمین کے متعلق یہ علم ہو کہ کسی زمانے میں وہاں سے کافی سونا نکلا ہے تو توقع یہی کی جاتی ہے کہ اگر کھدائی کی جائے تو وہاں سے سونا ہی نکلے گا اور پھر اِس کی اسی حیثیت کو پیش نظر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کا سامان کیا جاتا ہے اور اس پر محنت کی جاتی ہے لیکن اگر ایک جگہ کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ اگر محنت کی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہاں سے کوئلہ یا چونا فراہم ہوگا تو اس پر یا تو کوئی سرے سے اپنا وقت ہی ضائع کرنا پسند نہیں کرے گا یا پسند کرے گا تو صرف اتنا جس سے اُس کو کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع ہوگی۔
یہ تنبیہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ بہت سے لوگ قرآن کو محض حلال و حرام بتانے کا ایک ضابطہ سمجھتے ہیں اور فقہ کے احکام علیحدہ مرتب ہوجانے کے بعد اُن کی نگاہوں میں اگر اس کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے تو وہ صرف تبرک کے نکتۂ نظر سے ہی ہے۔ ارباب تصوف اس کو محض ظاہرکا صحیفہ سمجھتے ہیں۔ علمِ باطن کے اسرار و حقائق اُن کے نزدیک کشف سے حاصل ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اِس کو بس اچھی اچھی نصیحتوں کا ایک مجموعہ سمجھتے ہیں‘ وہ اس کے اندر کسی گہری حکمت یا کسی بلند فلسفہ کی کوئی توقع نہیں رکھتے۔ بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دُور کرنے اور ایصالِ ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اسے دفع آفات و بلیات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے کہ وہ قرآن سے وہ فائدہ اٹھا سکیں جس کے لیے وہ دراصل نازل ہوا ہے۔ وہ اس کو انھی حقیراغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کے لیے ان کے خیال میں یہ اترا ہے۔ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کو ایک توپ دی جائے کہ وہ اس کے ذریعہ سے دشمنوں کے قلعہ کو مسمار کردے لیکن وہ اُس کو مچھر مارنے کی ایک مشین سمجھ بیٹھے اور اسی حقیر مقصد کے لیے اُس کو استعمال کرنا شروع کردے۔
۳۔ قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کا عزم
قرآنِ حکیم سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق اپنے ظاہروباطن کو بدلنے کا مضبوط ارادہ موجود ہو۔ ایک شخص جب قرآن مجید کو گہری نگاہ سے پڑھتا ہے تو وہ ہر قدم پر یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن مجید کے تقاضے اور مطالبے اِس کی اپنی خواہشوں اور چاہتوں سے بالکل مختلف ہیں‘ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے تصورات و نظریات‘ معاملات و تعلقات‘ ظاہر و باطن سبھی قرآن مجید کی مقرر کردہ حدود سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں۔ اس فرق و اختلاف کو محسوس کر کے ایک حق طلب آدمی تو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خواہ کچھ ہو میں اپنے آپ کو قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق بنا کے رہوں گا اور وہ ہر قسم کی قربانیاں کرکے‘ ہر طرح کے مصائب جھیل کر اپنے آپ کو قرآن مجید کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھال ہی لیتا ہے لیکن جو شخص صاحبِ عزم نہیں ہوتایا اُس کے اندر حق شناسی اور حق طلبی کا سچا جذبہ نہیں ہوتا وہ اِس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو وہ اپنے اور قرآن مجید کے درمیان حائل پاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و اعمال کو قرآن مجید کے مطابق بنانے کی کوشش کروں گا تو مجھے فکری اور عملی حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا‘ میرا ماحول میرے لیے بالکل اجنبی بن کے رہ جائے گا۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اپنے وسائلِ معاش کو قرآن مجید کے ضابطۂ حلال و حرام کی کسوٹی پر پرکھوں تو آج جو عیش مجھے حاصل ہے اس سے محروم ہوکر شاید اپنی دال روٹی کے لیے بھی فکرمند ہونا پڑے۔ اِن خطروں کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اِن سے مقابلہ کرنے کے لیے کمرہمت باندھ لینا ہر شخص کا کام نہیں ہے‘ صرف مردانِ کار ہی اِن گھاٹیوں کو پار کرسکتے ہیں۔ معمولی ہمت و ارادہ کے لوگ یہیں سے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ بعض الھڑ قسم کے لوگ جو اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے زیادہ خواہش مند نہیں ہوتے وہ تو یہ کہتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے چل کھڑے ہوتے ہیں کہ قرآن مجید کا راستہ ہے تو بالکل صحیح!۔۔۔ لیکن ہمارے لیے اس پر چلنا نہایت مشکل ہے! ۔۔۔ اس لیے ہم اُسی راہ پر چلیں گے جس پر ہمیں ہمارا نفس لیے جا رہا ہے لیکن جو لوگ اپنی کمزوریوں کو عزیمت اور اپنے نفاق کو ایمان کے روپ میں پیش کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اپنا یہ شوق مختلف تدبیروں سے پورا کرتے ہیں۔۔۔ بعض مجبوریوں کے بہانوں سے اپنے لیے ناجائز کو جائز اور حرام کو حلال بناتے ہیں۔۔۔ بعض لایعنی تاویلات کے ذریعے باطل پر حق کا مُلمع چڑھاتے ہیں۔۔۔ بعض وقت کے تقاضوں اور مصلحتوں کی آڑ تلاش کر کے ان کے پیچھے چھپتے ہیں۔۔۔ بعض قرآنِ مجید میں اس قسم کی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس قسم کی تحریفات یہود نے تورات میں کی تھیں۔ بعض قرآن مجید کے جس حصہ کو اپنی خواہشوں کے مطابق پاتے ہیں اُسے قبول کرلیتے ہیں اور جس حصہ کو اپنی خواہشات کے مطابق نہیں پاتے اُس کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
یہ ساری راہیں شیطان کی نکالی ہوئی ہیں اور اُن میں سے جس راہ کو بھی آدمی اختیار کرے گا وہ اُس کو سیدھی ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے جائے گی‘ کامیابی اور فلاح کا راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو قرآن کے سانچے میں ڈھالنے کی ہمت کرلے اور اُس کے لیے ہر قربانی پر آمادہ ہوجائے۔ کچھ عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے اِس ارادہ کی آزمایش ہوتی ہے۔ اگر آدمی اِس آزمایش میں اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اُس کے لیے سعادت کی راہیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ اُس کے لیے دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اِس حقیقت کی طرف قرآن حکیم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں ہم ضرور اُن پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ تعالیٰ خوبی کے طالبوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (العنکبوت ۲۹: ۶۹)
۴۔ تدبر:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ مبارک کتاب ہم نے تمھاری طرف اُتاری ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور (و فکر) کریں اور اہلِ فہم (اِس سے) نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (ص ۳۸: ۲۹)
محض تبرک کے طور پر الفاظ کی تلاوت کرلینا اور قرآن کے معانی کی طرف دھیان نہ کرنا قرآن پڑھنے کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ طریقہ تو اُس وقت سے رائج ہوا ہے جب لوگوں نے قرآن مجید کو ایک کتابِ ہدایت و معرفت اور ایک خزانہ علم و حکمت سمجھنے کی بجائے محض حصول برکت کی ایک کتاب سمجھنا شروع کر دیا۔ جب زندگی کے مسائل سے قرآن کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا کہ موت کے وقت اس کے ذریعے جان کنی کی سختیوں کو آسان کیا جائے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے میت کو ایصالِ ثواب کیا جائے۔ جب زندگی کے نشیب و فراز میں راہنما ہونے کے بجائے اس کا استعمال صرف یہ رہ گیا کہ ہم جس گمراہی کا بھی ارتکاب کریں‘ اُس کے ذریعے سے اس کا اِفتتاح کریں تاکہ یہ برکت دے کر اس گمراہی کو ہدایت بنا دیا کرے۔
دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف تب حاصل کیا جا سکتا ہے کہ اس کو پورے غوروتدبر کے ساتھ پڑھا جائے لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں یہی کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھیں بند کر کے پڑھی جاتی ہے۔ معمولی سی چیز بھی آدمی پڑھتا ہے تو اس کے
لیے پہلے اپنے دماغ کو حاضر کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُس کو سمجھ سکے لیکن قرآن کے ساتھ لوگوں کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ اس کو پڑھنے سے پہلے اپنے دل و دماغ پر پٹی باندھ لیتے ہیں کہ کہیں اس کے کسی لفظ کا مفہوم دماغ کو چھو نہ جائے۔
تاہم تدبر کا طریقہ یہ نہیں کہ انسان عربی کے چند الفاظ جان لینے کے بعد قرآن مجید سے نئے نئے مطالب نکالنا شروع کر دے۔ تفاسیر کا ذخیرہ اُمت کے بہترین دماغوں کی کاوش کا نتیجہ ہے جو صدیوں سے قرآن مجید کو سمجھنے کے سلسلے میں وہ کرتے چلے آرہے ہیں اُن کو چھوڑ کر قرآن مجید کا مطالعہ کرنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ پچھلی صدیوں میں سائنس نے جو کچھ دریافتیں کی ہیں اِن سب کو چھوڑ کر میں نئے سرے سے کائنات پر غور کروں گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید کے مطالعہ کے لیے تفسیر اور روایات کے ذخیرے سے مدد لیں۔ عام آدمی کے لیے تو لازم ہے کہ وہ مستند علماء کے ترجمہ و تفسیر کی روشنی میں ہی غوروفکر کرے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا
قرآن مجید سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لیے پانچویں شرط یہ ہے کہ اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں آدمی ان سے بددل اور مایوس ہونے یا اُن کے سبب سے قرآن مجید سے بدگمان یا اُس پر اعتراض کرنے کے بجائے اپنی الجھن کو خدا کے سامنے پیش کرے اور اُس سے مدد اور رہنمائی طلب کرے۔ قرآن مجید میں بعض اوقات ایسی علمی و عقلی مشکلیں پیش آجاتی ہیں جن کا حل کچھ سمجھ نہیں آتا اور اس سے دین کے معاملے میں شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں یا کسی حکم پر عمل کرنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کی علمی اور عملی مشکلوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی مشکل اپنے رب کے آگے پیش کرے اوراُسی سے ہدایت کا طالب ہو۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے برابر دُعا اور قرآن مجید پر برابر غور کرتا رہے۔ اگر قرآن یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے‘ ان شاء اللہ اُس کی ساری اُلجھنیں دُور اور ساری مشکلیں حل ہوجائیں گی اور اُن مشکلوں کے حل ہونے پر اُس پر عمل و حکمت کے جو دروازے کھلیں گے وہ دروازے کسی اور طرح اُس پر ہرگز نہ کھلتے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی صبر کے ساتھ
اپنے رب سے مدد مانگے۔ مندرجہ ذیل دُعا بھی اس طرح کے حالات میں پڑھتے رہنا نہایت مفید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کو سیکھنے اور یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور فکرو غم دُور کرنے کا ذریعہ بتایا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ وَابْنُ عبدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ اَسْاَلُکَ بِکُلِّ اسْمِ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہُ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ صَدْرِیْ وَجَلَاءَ حُزْنِیْ وَذَہَابَ ہَمِّیْ وَغَمِّیْ ۔ (احمد)’’اے اللہ! میں تیرا بندہ‘ تیرے بندے کا بیٹا اور تیری بندی کا بیٹا ہوں۔ میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے‘ مجھ پر تیرا حکم جاری ہے۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ حق ہے‘ میں تجھ سے تیرے ہر اُس نام کے واسطہ سے جو تیرا ہے‘ جس سے تو نے اپنے آپ کو پکارا ہے یا جس کو تو نے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا جس کو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا تو نے اپنے پاس اپنے خزانۂ غیب میں اُسے پوشیدہ ہی رہنے دیا ہے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار‘ میرے سینہ کا نور‘ میرے غم کا مداوا اور میری فکروپریشانی کا علاج بنا دے‘‘۔ (مسنداحمد)
ان شرائط پر عمل کے بعد بھی کسی شخص کو بہت توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ پورا قرآن سمجھ لے گا۔ اس معاملہ کا تمام تر انحصار صرف اللہ کی توفیق و ہدایت پر ہے وہ راہیں کھولتا اور مشکلات میں رہنمائی کرتا ہے۔ پس طالبِ قرآن مجید کا دل ہمیشہ اُسی کے سامنے جھکا رہنا چاہیے جو کچھ مل جائے اُس کے لیے شکرگزار ہو اور جو نہ ملے اُس کے لیے امیدوار رہے۔ نہ تو فخر کرے‘ نہ کبھی مایوس ہو اور تجارت اور حصولِ شہرت کا ذریعہ تو قرآن مجید کو ہرگز نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دیں۔ آمین!ژژژ