‘کنگ فیصل ایوارڈ’ حاصل کرنے والے جلیل القدر مصنف
سید سابق مصری مرحوم ان خوش نصیب مؤلفین میں سے ہیں جو اپنی بے مثال تصانیف کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ روس میں منعقد کانفرنس میں اسلام کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے تشریف لے گئے’ آپ ماسکو ایئرپورٹ پر ہوائی جہاز سے اُترے تو اپنے سامنے ایک بہت بڑا جلوس دیکھ کر حیران ہوگئے’ جونہی آپ گیٹ سے نکلے تو اس جلوس کے شرکا آپ کو دیکھ کر پرجوش ہوگئے اور آپ کے سر اورہاتھوں کو لپک لپک کر بوسے دینے لگے۔ آپ نے حیران ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ مجھے کس طرح جانتے ہیں؟ تو ان روسی مسلمانوں نے جواب دیا کہ آپ کی کتاب فقہ السنۃ سے۔ یہ سن کر بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور کہنے لگے: اے اللہ! یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ دیارِ غیر کے مسلمان دیوانہ وار میرے استقبال کو نکلیں گے اور مجھے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔
سید مرحومؒ مصر کے صوبہ منوفیۃ کے ضلع باجور کی بستی اُسطنھا میں جنوری ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے اور ابھی نو سال کی عمر کو نہ پہنچے تھے کہ آپ نے قرآنِ کریم حفظ کرلیا اور پھر جامعہ ازہر میں داخل ہوگئے اور وہاں سے ۱۹۴۷ء میں شریعت کی اعلیٰ ڈگری لے کر فارغ ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے جامعہ اَزہر کے مختلف شعبوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ۱۹۵۰ء کے آخر میں وزارتِ اَوقاف سے منسلک ہوئے اور مساجد کی نگرانی کا منصب سنبھال لیا۔ بعدازاں آپ ‘ثقافتِ اسلامیہ’ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور وہاں اس وقت تک دعوت و تربیت میں مشغول رہے تاآنکہ آپ کی نظربندی کے احکام جاری ہوگئے۔ ایسی صورت حال میں آپ وہاں سے مکہ مکرمہ منتقل ہوئے اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ بعدازاں آپ کو اُمّ القریٰ یونیورسٹی میں شریعت کالج کے شعبہ عدل و قضا کی سربراہی سونپ دی گئی اور اس کے بعد آپ کو ریسرچ کے اعلیٰ شعبے کی مسند تفویض کردی گئی اور آپ تاحیات پروفیسر مقرر ہوگئے۔ اس عرصے میں آپ نے بہت سے لیکچرز دیے اور فقہ و اُصولِ فقہ کی تعلیم دی اور یک صد سے زیادہ مقالات پر نظرثانی کی اور علما و اساتذہ کے جمِ غفیر کو سندِفضیلت عطا کی۔ اپنی زندگی کے آخری تین سال وطن واپس آکر قاہرہ میں بسر کیے اور وفات تک وہیں رہے۔
سید سابقؒ اپنی جوانی کے آغاز میں ہی الجمعیۃ الشرعیۃ کے بانی شیخ سبکیؒ سے منسلک ہوگئے تھے اور ان کے خلف الرشید شیخ عبداللطیف مشتہریؒ کی معیت میں ان سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے ۔ ان کی صحبت کی برکت سے آپ کے دل میں سنت کی محبت گھر کرگئی۔ آپ کی بلندہمتی ، ذہانت و فطانت اور طہارت و پاکیزگی نے آپ کو اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام پر فائز کر دیا اور آپ فقہ کے بالاستیعاب مطالعہ و تحقیق میں کمال حاصل کرگئے۔ جب آپ کے شیخ نے فقہی مسائل میں آپ کی فہم و فراست کا مشاہدہ کیا تو اُنھوں نے آپ کو شرح و بسط کے ساتھ فقہی دروس تیار کرنے اور اپنے ہم سبق ساتھیوں کو پڑھانے کا حکم دے دیا حالانکہ اس وقت آپ اُنیس سال کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے۔
شیخ سبکیؒ مرحوم کی طرزِ فکر کا آپ کی شخصیت پر بڑا اثر تھا۔ چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے عنفوانِ شباب میں جہادِ فلسطین شروع ہوگیا اور میں نے ایک دن جوش میں آکر اپنے شیخ سے دورانِ سبق ہی کہہ دیا کہ آپ کب تک ہمیں اخلاق و آداب کے درس دیتے رہیں گے؟ ہمیں جہاد کی ترغیب کس نے دینی ہے اور اس کی اہمیت کس نے بتانی ہے ۔فرماتے ہیں کہ میرے شیخ نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا تو میں نے جواب دیا کہ ہم کب تک بیٹھے رہیں گے؟ اُنھوں نے کہ: میرے بیٹے! اگر تو استادکے سامنے ادب اور صبر کا مظاہرہ نہیں کرسکتا تو جہاد فی سبیل اللہ میں کیسے صبر کرے گا؟فرماتے ہیں کہ ان کے اس فرمان نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں اب تک اس کا اثر اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہوں۔ اس کے بعد سید سابق مرحوم کا شیخ حسن البناؒ سے تعارف ہوگیا تو آپ ان کی دعوت میں شریک ہوکر ان کے معاون بن گئے اور آپ نے اخوان المسلمین کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اُٹھا لیا اور عرصۂ دراز تک وہاں تعلیم وتدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ ایک دن شیخ حسن البنا مرحوم نے بذاتِ خود آپ کا درس سنا تو اُنھیں ان کا اُسلوب بہت پسند آیا اور انھوں نے ان دروس کو کتابی صورت میں مدوّن کرنے کا حکم دے دیا اور یہیں سے فقہ السنۃ کی تالیف کا آغاز ہوگیا۔
یوں تو آپ کی دیگر مؤلفات بھی نہایت وقیع ہیں’ لیکن آپ کو اپنی کتاب فقہ السنۃ بہت ہی محبوب تھی کیونکہ آپ نے اس کو روایتی اُسلوب سے ہٹ کر صحیح منہج کے مطابق تالیف کیا تھااور کتاب و سنت کے قوی دلائل سے جس امام کے مذہب کی تائید ہوتی تھی اسے دل کھول کر ترجیح دی تھی۔
فقہ السنۃ کے عمدہ اُسلوبِ بیان اور محکم استدلال اور حسن ترتیب نے سید سابق کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے اور آپ کا نام آپ کی کتاب کا لاحقہ بن گیا۔ جونہی کسی عالم کی زبان پر فقہ السنہ کا نام آتا ہے تو آگے خود بخود سید سابق کا نام زبان پر آجاتا ہے۔ یہ آپ کے خلوصِ نیت کی برکت ہے کہ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپ رہی ہے اور مسلم و غیرمسلم ممالک کے لاکھوں مسلمان اس سے فقہی رہنمائی حاصل کر رہے ہیں بلکہ ۱۹۹۴ء میں اس شاندار کتاب کی تالیف پر آپ کو ‘کنگ فیصل ایوارڈ’ بھی دیا گیا اور مصریوں نے بھی اپنے ملک کے اس قابلِ قدر پروفیسر اور مصنف کو بہت پذیرائی بخشی اور بہت سے گولڈ میڈل عطا کیے۔
آپ کی دیگر مؤلفات یہ ہیں:
۱- مصادر القوۃ فی الاسلام
۲- الربا والبدیل ، بعض معاصرین کے سود کے جواز کے فتووں پر محاکمہ
۳- رسالۃ فی الحج
۴- رسالۃ فی الصیام
۵- تقالید و عادات یجب أن تزول فی الأفراح والمناسبات
۶- تقالید و عادات یجب أن تزول فی المأتم
ان میں چار کتابیں تو آپ نے وزارتِ اوقاف کے زیر اہتمام قائم شدہ ادارہ ثقافت میں علمی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے لکھیں جب کہ آخری دو کتابیں الجمعیۃ الشرعیۃ سے تعلق کے دوران میں لکھیں۔ یہ کتابیں آپ کے رجحانات کو ظاہر کرتی ہیں کہ شیخ سید سابق کو بدعات سے کس قدر نفرت اور سنت سے کس قدر محبت تھی!!
آپ کا جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت
آپ محض درس و تدریس اور تصنیف و تالیف اور صوم و صلوٰۃ کے دلدادہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کے دل میں جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے کی تمنا بھی موجزن رہتی تھی۔ جونہی قتال فی سبیل اللہ کے حالات پیدا ہوتے آپ افواجِ اسلام کے ہراول دستے میں موجود ہوتے۔ جب ۱۹۴۸ء میں عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو آپ نے جہاد کے احکام اور اس کی دعوت دینے کا بیڑا اُٹھایا اور لوگوں کو اسباب اختیار کرنے اور اللہ پر بھرپور بھروسہ کرنے کی تبلیغ کی اور اُنھیں اسلحہ کھولنے ’ جوڑنے اور اسے فائر کرنے اور فدائی حملے کرنے کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ جب نقراشی مارا گیا تو اس کے قتل کا الزام سید سابق پر دھر دیا گیا اور جہاد سے متنفر کرنے کی غرض سے انھیں ‘کشت و خون کے مفتی’ کا لقب دے دیا گیا۔اس عرصہ میں انھیں دوسال تک مصائب سے دوچار ہونا پڑا ۔ آپ نے یہ عرصہ نہایت صبرواستقلال سے گزارا۔ آپ جیل میں بھی مصائب پر صبر کرنے اور اللہ پر توکل کرنے اور مقدر کے لکھے ہوئے پر راضی رہنے کی تلقین کرتے رہے اور جب آپ کو بے گناہ قرار دے کر جیل سے رہا کردیا گیا تو اس وقت مصر میں جنگِ رمضان کا میدان سج چکا تھا۔ آپ سیدھے میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اور مصری افواج کے حوصلے بلند کرنے لگے۔
سید سابقؒ سلفی المشرب’ فقیہ اور وسیع الظرف عالم دین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وافر علم اور رفیع خلق عطا فرمایا تھا۔ آپ محبت کرنے والے اور دوست پرور انسان تھے۔ اللہ نے آپ میں انسانی ہمدردی اور رحمت و مودّت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ کو نرم خو’ عفیف اللسان اور حاضرجواب بنایا تھا۔ آپ بڑے خوش طبع’ فصیح اللسان’ بلیغ البیان خطیب اور ذہین و فطین اسکالر تھے۔آپ اپنے لیکچر کے دوران طلبہ کو بور نہ ہونے دیتے تھے بلکہ جب کبھی محسوس کرتے کہ طلبہ ایک خشک قسم کے فقہی مسئلہ پر تقریر سننے سے اُکتاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں تو فوراً اس مسئلہ سے متعلق کوئی لطیفہ یا دلچسپ قصہ بیان کر دیتے جس سے مجلس کشتِ زعفران بن جاتی اور وہ تازہ دم ہوکر تقریر سننا شروع کر دیتے۔
سید سابق مرحومؒ محض فقہی گتھیاں سلجھانے کے ماہر نہ تھے بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے ۔ ملک بھر کے اہم اخبارات کی اہم اہم سرخیوں اور اداریوں کا مطالعہ کرتے اور پرنٹ میڈیا کے بل بوتے پر سر اُٹھانے والے فتنوں کا سر کچلنے کے لیے قلمی اور لسانی جہاد میں شریک ہوجاتے۔ آپ کے ملاقاتی جب کبھی آپ سے ملاقات کرنے جاتے تو اس وقت آپ یا تو نوافل ادا کر رہے ہوتے یا کتب کا مطالعہ کر رہے ہوتے یا کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے تھے۔
اگرچہ آپ جسمانی طور پر نحیف و نزار تھے’ لیکن سینے میں شیر جیسا دل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے میدانِ جہاد میں اعدائے دین اور جیل میں ظالم حکمرانوں کے سامنے پامردی اور استقلال کا ثبوت دیا اور کسی طرح کی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ جیل میں دوسروں کے حوصلے بھی بلند رکھے۔
جمال عبدالناصر جیسے جابر حکمران کے دور میں جب آپ کو جامع عمرو بن العاص میں شیخ احمد الغزالی کا خلف الرشید متعین کیا گیا تو لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ آپ سابقہ خطبا کے انجام سے سبق حاصل کریں گے اور مداہنت کا مظاہرہ کر کے حکمرانوں کے پاؤں پکڑ لیں گے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے لیکن آپ نے اپنے پہلے خطبے میں شرعی دلائل اور تاریخی شواہد سے مسلم حکمران کی چودہ شرائط پر کھل کر بیان کیا اور ایسا بے مثال خطبہ دیا کہ حکمرانوں کے دجل و فریب کے بخیے اُدھیڑ دیے اور ان پر ایسی تنقیدِ سدید کی کہ حاضرین عش عش کر اُٹھے اور آپ کی یہ تنقید ایسی عالمانہ اور فاضلانہ تھی کہ حکمرانوں کو اس پر گرفت کرنے سے قاصر رہے۔
آپ کا مرتبہ اور مقام
جس طرح پیڑ اپنے پھل سے’ حکمران اپنی رعایا سے اور پھول اپنی خوشبو سے پہچانا چاہتا ہے’ اسی طرح استاد اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے۔ شیخ سید سابقؒ نے یوں تو ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی، لیکن آپ کے چند شاگرد ایسے ہیں جو عالمِ اسلام میں بالعموم اور عالمِ عرب میں بالخصوص آفتاب بن کرچمکے اور ان کی تابانی ٔ علم سے علمی دنیا جگمگا اُٹھی اور وہ ہیں: ڈاکٹر یوسف قرضاوی’ ڈاکٹر احمد عسال’ ڈاکٹر محمد الراوی’ ڈاکٹر عبدالستار اور بہت سے دیگر علماے مکہ مثلاً ڈاکٹر صالح بن حمید اور ڈاکٹر علیانی وغیرہ۔
آپ نہ صرف سن کہولت میں مرجع علما و طلبہ تھے بلکہ جوانی میں بھی اپنے دور کے کبار علما مثلاً شیخ احمد الغزالی’ شیخ ابوزہرہ’ شیخ محمود شلتوت وغیرہ کے معتمد تھے۔آپ کے صاحبزادے محمد کا بیان ہے کہ شیخ عبدالجلیل عیسیٰ اور شیخ منصور رجب اور شیخ باقوری جیسے کبار اساتذہ ہمارے ہاں تشریف لاتے تو وہ والد مرحوم کے درس کو یوں منہمک ہوکر سنتے ’ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔
آپ کے آخری تین سالوں کی مصروفیات اور وفات
آپ نے اپنی حیاتِ مستعار کے آخری تین سال اپنے آبائی ملک مصر میں بسر کیے ۔ آپ کی مصروفیات حد سے زیادہ بڑھ گئیں تھیں۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتاجس دن آپ اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوں۔ اس عرصے میں آپ کہیں تو مردوں کے حلقوں میں لیکچر دیتے اور کہیں عورتوں کے حلقے میں درس دیتے۔ ڈاکٹروں نے آپ کے بیٹے ڈاکٹرمصطفی سے کہا کہ آپ اپنے والد صاحب کو اتنی سخت مصروفیات سے روک دیں’ ورنہ یہ روزانہ کے دروس ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوں گے اور اُنھوں نے اپنے والد تک یہ بات پہنچائی بھی’ لیکن آپ نے فرمایا کہ جب تک جسم میں جان ہے میں قرآن و سنت کے پیاسوں کو جامِ طہور پلاتا رہوں گا۔ بالآخر ستر سال سے زیادہ عرصہ تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد آپ نے داعی حق کو لبیک کہا اور شدید بخار کی حالت میں قاہرہ ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کی وفات کی خبر مصر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ،اور پھر لاکھوں لوگوں نے سید کا جسد خاکی اتنی محبت اور احترام سے اٹھایا کہ گویا آپ ان کے شفیق و مہربان باپ ہوں۔ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ ورفع درجتہ فی المھدیین وجعلہ من الساکنین فی جنۃ الفردوس۔