آرام و سکون

مصنف : امتیاز علی تاج

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : جولائی 2006

ڈاکٹر : جی نہیں بیگم صاحبہ ! تردد کی کوئی بات نہیں ، میں

نے بہت اچھی طرح معائنہ کر لیا ہے ۔ صرف تھکان کی وجہ سے حرارت ہو گئی ہے ۔ ان دنوں آپ کے شوہر غالباً بہت زیادہ کام کرتے ہیں ۔

بیوی : ڈاکٹر صاحب ان دنوں کیا ، ان کا ہمیشہ سے یہی حال ہے ۔ صبح دس بجے دفتر جا کر شام سات بجے سے پہلے کبھی واپس نہیں آتے ۔

ڈاکٹر : جبھی تو ! میرے خیال میں انہیں دوا سے زیادہ

 آرام کی ضرورت ہے ۔ کاروبار کی پریشانیاں اور الجھنیں بھلا کر ایک روز بھی آرام وسکون سے گزارا تو طبیعت انشا ء اللہ بحال ہو جائے گی ۔

بیوی : بیسیوں مرتبہ کہہ چکی ہوں ۔ اتنا کام نہ کیا کرو ،

 نہ کیا کرو ۔ نصیب دشنماں صحت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے مگر خاک اثر نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ یہی کہہ دیتے ہیں ، کیا کیا جائے ۔ ان دنوں کا م بے طرح زوروں پر ہے ۔

ڈاکٹر : ہر روز تھوڑا تھوڑا وقت آرام وسکون کے لیے

 نہ نکالا جائے تو پھر بیمار پڑ کر بہت زیادہ وقت نکالنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔

بیوی : یہ بات آپ نے انہیں بھی سمجھائی ؟ میں نے

کہا سن رہے ہو ۔ ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے ہیں ۔

میاں : ہوں !

ڈاکٹر : جی ہاں ! میں نے سمجھا کر اچھی طرح تاکید کر

 دی ہے کہ دن بھر خاموش لیٹے رہیں ۔

بیوی : تو تاکید کیا میں نہیں کرتی ؟ مگر ان پر کسی کے کہنے کاکچھ اثر بھی ہو !

ڈاکٹر : جی نہیں ! ابھی انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے

کہ پورے طور پر میری ہدایات پر عمل کریں گے ۔

بیوی : اور دوا کس کس وقت دینی ہے ؟

 ڈاکٹر : جی نہیں ! دوا کی مطلق ضرورت نہیں ۔ بس آپ صرف ان کے آرام وسکون کا خیال رکھیے ۔ غذا جو کچھ دینی ہے ، میں لکھ چکا ہوں۔

بیوی : بڑی مہربانی آپ کی ۔

ڈاکٹر : تو پھر اجازت !

بیوی : فیس میں آپ کو بھجوا دوں گی ۔

ڈاکٹر : اس کی کوئی بات نہیں ۔ آجائے گی ۔

بیوی : (اونچی آواز سے پکار کر ) ارے للّو ۔ میں نے

کہا ڈاکٹر صاحب کا بیگ باہر کار میں پہنچا دیجیو۔

ڈاکٹر : ایک بات عرض کر دوں بیگم صاحبہ ۔ مریض کے کمرے میں شوروغل نہیں ہونا چاہیے ۔ اعصاب پر اس کا بہت مضر اثر پڑتا ہے ۔ خاموشی اعصاب کو ایک طرح کی تقویت بخشتی ہے ۔

بیوی : مجھے کیا معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب ؟ آپ اطمینان رکھیں ان کے کمرے میں پرندہ پر نہ مارے گا۔ (ملازم آتا ہے )

للّو : حضور !

ڈاکٹر : اٹھا لو یہ بیگ ۔ تو آداب !

بیوی : آداب (ڈاکٹر اور ملازم جاتے ہیں ۔ قریب آکر ) میں نے کہا سوگئے کیا ؟

میاں : ہوں ! یونہی چُپکا پڑا ہوا تھا ۔

بیوی : بس بس چپکے ہی پڑے رہیے ۔ ڈاکٹر صاحب بہت سخت تاکید کر گئے ہیں کہ نہ آپ بات کریں نہ کوئی آپ کے کمرے میں بات کرے ۔ اس سے بھی تھکان ہوتی ہے۔ تمام وقت پورے آرام وسکون میں گزاریں ۔ سمجھ گئے نا ؟

میاں : ہوں (کراہتا ہے )

بیوی : کیوں بدن ٹوٹ رہا ہے کیا ؟

میاں : ہوں ۔

بیوی : کہو تو دبا دوں ؟

میاں : ہوں ۔

بیوی : سونے کو جی چاہ رہا ہو تو چلی جاؤں ؟

میاں : اچھی بات ۔ (کراہتا ہے )

بیوی : اگر پیچھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو ؟ اچھا بلانے کی گھنٹی پاس رکھے جاتی ہوں ۔ گھنٹی کہاں گئی ؟ رات میں نے آپ یہاں میز پر رکھی تھی ۔ اللہ جانے یہ کون اللہ مارا میری چیزوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے ؟

 (کنڈی کی آواز ) کون ہے یہ نامراد ؟ ارے للّو ! دیکھو ، یہ کون کواڑ توڑے ڈال رہا ہے ؟ للو ( دور سے ) سقا ہے بی بی جی !

بیوی : سقا ؟ گھر میں بہرے بستے ہیں جو کم بخت اس

زورسے کنڈی کھٹکھٹاتا ہے ؟ اللہ ماروں کو اتنا خیال بھی تو نہیں آتا کہ گھر میں کوئی بیمار پڑا ہے ۔ ڈاکٹر نے تاکید کر رکھی ہے کہ شور وغل نہ ہونے پائے اور اس سے کہو یہ کیا وقت ہے ، پانی لانے کا ۔ اچھی خاصی دوپہر ہونے آگئی ہے ۔ کل سے اتنی دیر میں آیا تو نوکری سے الگ کر دوں گی ۔ میں نامراد کو بیسیوں مرتبہ کہلا چکی ہوں کہ صبح سویرے ہو جایا کرے ۔ کان پر جون نہیں رینگتی ۔

میاں : ارے بھئی اب بخشو اسے ۔

بیوی : بخشوں کیسے ؟ ذرا طرح دو تو یہ لوگ سر پر سوار ہو جاتے ہیں ۔

میاں : ہوں ۔ (کراہتا ہے )

بیوی : کیوں ۔ زیادہ درد محسوس ہو رہا ہے ؟

میاں : ہوں ۔

بیوی : للّو سے کہوں آکر دبا دے ؟

میاں : اوں ہوں !

بیوی : یہ دیکھو ۔ یہاں انگیٹھی پر رکھی ہے ۔ آپ بتائیے آپ سے آپ آگئی یہاں ؟ پاؤں تھے اس کے ؟ یہ سب حرکتیں اس للو کی ہیں ۔ کم بخت نے قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی کوئی چیز ٹھکانے پر نہ رہنے دے گا اللہ جانے یہ نا مراد میری چیزوں کو ہاتھ لگاتا کیوں ہے؟ للو ! ارے للو!

میاں : ارے بھئی کیوں ناحق غل مچار ہی ہو ۔ گھنٹی رات میں نے خود میز پر سے اٹھا کر انگیٹھی پر رکھی تھی ہوں ! (کراہتا ہے )

بیوی : تم نے ؟ اے ہے وہ کیوں ؟

میاں : ننھا بار بار بجائے جا رہا تھا ۔ میرا دم الجھنے لگا تھا۔ ہوں (کراہتا ہے )

للّو : (آکر ) مجھے بلایا ہے بی بی جی ؟

بیوی : کم بخت اتنی دیر سے آوازیں دے رہی ہوں، کہاں مر گیا تھا ؟

للو : آپ نے ریٹھے کوٹنے کو کہا ۔ وہ گودام میں ڈھونڈ

رہا تھا ۔

میاں : ہوں (کراہتا ہے )

بیوی : صبح سویر ے کہا تھا ، کم بخت تجھے اب تک ریٹھے مل نہیں چکے ؟

للّو : جی مہلت بھی ملے ۔ ادھر گودام میں جاتا ہوں ،

ادھر کوئی بلا لیتا ہے ۔

بیوی : ہاں بڑا کام رہتا ہے نا ! بچارے کو سر کھجانے کی

 فرصت نہیں ملتی ۔ بھا گ یہاں سے ………… ، نکل ، جا کر ریٹھے ڈھونڈ ( للو جاتا ہے ) تو یہ گھنٹی یہاں تمہارے سرہانے رکھ جاتی ہوں ۔

میاں : (کراہ کر ) کواڑ بند کرتی جانا ۔

بیوی : پیچھے اکیلے میں جی تو نہ گھبرائے گا تمہارا ؟

میاں : (تنگ آکر ) نہیں با با نہیں ۔

بیوی : ارے ہاں ۔ یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کھانے پینے کے لیے کیا کیا چیزیں لکھ گئے ہیں ۔ کہاں گیا ان کا لکھا ہوا کاغذ ؟ اے لو یہ نیچے پڑا ہوا ہے ۔ ابھی کہیں کوڑے میں چلا جاتا تو ۔ ہوں۔ مالٹڈ ملک (MALTED MILK) نارنگی کا رس ، ساگو دانے کی کھیر ، یخنی ، کیا تیار کرادوں اس وقت کے

 لیے ؟

میاں : جو جی چاہے ۔

بیوی : اس میں میرے جی چاہنے کا کیا سوال ؟ کھانا

 آپ کو ہے یا مجھے ؟

میاں : ساگودانہ بنا دینا تھوڑا سا ۔

بیوی : بس ! اس سے کیا بنے گا ؟ یخنی پی لیتے تھوڑی

سی ۔ چوزے کی یخنی بنوائے دیتی ہوں ۔ مقوی چیز ہے ۔

میاں : بنوا دو ۔

بیوی : (دو قدم چلتی ہے ) مگر میں نے کہا ۔ دیر لگ

 جائے گی یخنی کی تیاری میں ، چوزہ بازار سے لانا ہوگا ۔ اس للو کو تو جانتے ہو ۔ بازار جاتا ہے تو وہیں کا ہو رہتا ہے ۔

میاں : اوں ہوں ۔

بیوی : تو پھر یوں کرتی ہوں ۔ (صحن میں بچہ پٹ پٹ گاڑی چلانے لگتا ہے )

میاں : ارے بھئی ! اب یہ کیا کھٹ پٹ شروع ہو گئی۔

بیوی : ننھا ہے آپ کا ۔ عید کے روز میلے میں سے یہ

 گاڑی لے آیا تھا ۔ نہ اس کم بخت کا دل اس سے بھرتا ہے ، نہ وہ کم بخت ٹوٹتی ہے ۔ ارے میں نے کہا ننھے نہیں مانے گا نامراد ؟ چھوڑ اس اپنی پٹ پٹ کو ۔

جب دیکھو لیے لیے پھر رہا ہے ۔ صاحبزادے کا دل کسی طرح پر ہونے ہی میں نہیں آتا ۔ چولھے میں

 جھونک دوں گی اس کم بخت کو ، اتنا خیال بھی نہیں آتا کہ ابا بیمار پڑے ہیں ۔ شور وغل سے ان کی طبیعت گھبراتی ہے ۔

میاں : ہوں ۔ (کراہتا ہے )

بیوی : کم نہیں ہوا درد ؟

میاں : اوں ہوں ۔

بیوی : دبوا لیتے تو گھٹ جاتا ۔

میاں : اوں ہوں ۔

بیوی : تو میں کیا کہہ رہی تھی ؟ کھانے کا پوچھ رہی تھی ۔

 ( پھر ننھے کی پٹ پٹ کی آواز ) پھر وہی ۔ نہیں مانے گا نامراد ، ٹھہر تو جا (غصے میں جاتی ہے ۔ میاں کراہتا ہے ۔ دور سے بیوی کی آواز آرہی ہے ) چھوڑ یہ اپنی پٹ پٹ ۔ (بچہ رونے لگتا ہے ) چپ نامراد ، اتنا خیال نہیں ابا بیمار پڑے ہیں ۔ ڈاکٹر نے کہا ہے شوروغل نہ ہو ، انہیں تکلیف ہو گی ۔ چپ! خبردار جو آواز نکالی ۔ گلا گھونٹ ڈالوں گی ۔ (بچہ رونا بند کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے )کمبخت کا جو کھیل ہے ، ایسا ہی بے ڈھنگا ہے ۔ چل ادھر ۔ نہیں چپ ہو گا تو ؟ (کھینچتی ہوئی لے جاتی ہے ۔ میاں اس ہنگامے سے زچ ہو کر کراہے جا رہا ہے ۔ بیوی کی آواز غائب ہوتے ہی کمرے میں جھاڑو پھرنے کی آواز آنے لگتی ہے ۔)

میاں : (چونک کر ) ہوں ؟ ارے بھئی یہ گرد کہاں سے آنے لگی ؟ لاحول ولاقوۃ ۔ ارے کیا ہو رہا ہے ؟

ملازم : جھاڑو دے رہا ہوں میاں ۔

میاں : کم بخت دفع ہو جا یہاں سے ۔

ملازم : جھاڑو نہ دی تو خفا ہونگی بی بی جی ۔

میاں : بی بی جی کا بچہ نکل یہاں سے ۔ کہہ دے ان سے (ملازم جاتا ہے ) کواڑ بند کر کے جا ۔ (میاں کراہ کر چپ ہو جاتا ہے ، ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے اور بجتی رہتی ہے ) ارے بھئی کہاں گئیں ؟ ارے کوئی ٹیلی فون سننے تو آؤ ۔ لاحول ولا قوۃ ۔( خود اٹھتا ہے ) ہیلو ، میں

 اشفاق بول رہا ہوں ۔ بیگم اشفاق کسی کام میں مصروف ہیں ۔ اس وقت کمرے میں نہیں ہیں جی ۔ یہاں کوئی ایسا نہیں جو انہیں بلا لائے ۔ میں علیل ہوں کیا فرمایا آپ نے ؟ آواز دینے کے لیے ضروری نہیں کہ گلا بھی خراب ہو ۔ آپ پھر کسی وقت فون کر لیجیے گا ۔ میں نے عرض کیا نا ، چونکہ میں بیمار ہوں ، کمرے سے باہر نہیں جا سکتا ۔ (زور سے فون بند کرتا ہے ) بد تہذیب ۔ گستاخ کہیں کی ۔ ہوں ۔

بیوی : مجھے بلایا تھا ؟ ہے ہے تم اٹھے کیوں ۔

میاں : اتنی آوازیں دی کوئی سنے بھی ۔

بیوی : توبہ توبہ ، لیٹو لیٹو ، میں ذرا گودام میں چلی گئی تھی۔ للو کو ریٹھے نکال کر دے رہی تھی ۔ بلایا کیوں تھا ؟ (ہمسائے کے ہاں گانا شروع ہوتا ہے ) ۔

میاں : فون تھا تمہارا ۔

بیوی : کس نے کیا تھا ؟

 میاں : ہو گا کوئی۔ اب مجھے کیا پتا ۔

بیوی : جب اٹھ ہی کھڑے ہوئے تھے تو نام پوچھ لینا

کوئی گناہ تھا ؟

میاں : میں نے کہہ دیا تھا پھر کر لیں فون ۔

بیوی : مفت کی الجھن میں ڈال دیا ۔ اللہ جانے کون تھی اور کیا چاہتی تھی ؟

میاں : اے بھئی کوئی ایسا ضروری کام نہیں تھا ورنہ مجھے پیغام نہ دے دیتیں ۔ تم خدا کے لیے ان ہمسائے کے صاحب زادے کا ہارمونیم اور گانا بند کراؤ ۔ میرا سر پھٹا جا رہا ہے ۔

بیوی : اب اسے کیوں کر روک دوں ؟

میاں : بابا ایک رقعہ لکھ کر بھیج دو ۔ میں بیمار ہوں ۔ ڈاکٹرنے کہا ہے میرے لیے آرام وسکون کی ضرورت ہے ۔ ایک روز ان صاحب زادے نے نغمہ سرائی نہ فرمائی تو دنیا کسی بہت بڑی نعمت سے محروم نہ ہو جائے گی !

بیوی : کہے تو دیتی ہوں مگر کہیں چڑ نہ جائیں ۔

میاں : مناسب الفاظ میں لکھو نا ۔ ہوں (کراہتا ہے) (بے سرے گانے کا شور جاری ہے ۔ میاں کراہ رہا ہے ۔ یک لخت بچے کی رونے کی واز )

بیوی : ارے کیا ہو گیا ننھے ؟

بچہ : (زور سے ) گر پڑا خون نکل آیا ۔

بیوی : (زور سے ) خط لکھ رہی ہوں ۔ ابھی آئی ۔ چپ ہو جا ۔

میاں : (کراہتے ہوئے ) یک نہ شد دو شد ۔

بیوی : توبہ آپ تو بوکھلا دیتے ہیں ۔ دیکھ رہے ہیں ،

 خط لکھ رہی ہوں ۔ بچے کو چپ کیوں کر کراسکتی ہوں ؟ نامراد چپ ہو جا ۔ خون نکل آیا تو قیامت آگئی ۔ ابھی آرہی ہوں دو سطریں لکھ لوں ۔ (میاں کراہتا ہے ۔ بے سرے گانے اور بچے کے رونے کی آواز جاری ہے ۔

میاں : ختم نہیں ہو ا خط جانے کیا دفتر لکھنے بیٹھ گئی ہو۔

بیوی : ابھی ہوا جاتا ہے ختم ۔ ( اس غل میں ایک فقیر کی آواز بھی شامل ہو جاتی ہے )

فقیر : بال بچے کی خیر ۔ راہ مولا کچھ مل جائے فقیر کو ۔

میاں : ( کراہ کر ) بس ان ہی کی کسر رہ گئی تھی ۔ ہوں۔

بیوی : تو اب میں تو اسے بلا کر لے نہیں آئی ۔

میاں : ارے تو خدا کے لیے اسے رخصت تو کر آؤ ۔

بیوی : او للّو ! ارے للّو ! ( للّو ہاون دستے میں ریٹھے کوٹنے شروع کر دیتا ہے ۔ بے سرے گانے میں بچے کے رونے اور فقیر کی صدا اور ہاون دستے کی دھمک اور شامل ہو جاتی ہے ۔ )

میاں : ہائے ،توبہ، توبہ ، ہائے ، توبہ ، توبہ ۔

بیوی : ارے نامراد ! ریٹھے پھر کو ٹ لینا ۔ پہلے اس فقیر کورخصت تو کر دے ( للّو ریٹھے کوٹنے میں بیوی کی آواز نہیں سن پاتا )

میاں : (جلدی جلدی کراہتا ہوا گھبرا کر اٹھ بیٹھتا ہے) میری ٹوپی اور شیروانی دینا ۔

بیوی : ٹوپی اور شیروانی !!

میاں : ہاں میں دفتر جا رہا ہوں ۔ ابھی دفتر جا رہا ہوں۔

بیوی : ہے ہے وہ کیوں ؟

میاں : آرام او رسکون کے لیے ۔