یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں کیڈٹ کالج کوہاٹ میں بطور لیکچرار تعینات تھا۔چونکہ میں ان دنوں غیر شادی شدہ تھا اس لیے سٹاف کلب کے ساتھ بنے اس چھوٹے مکان میں رہائش پذیر تھا جو دو کمروں ، کچن ، برآمدے اورچھوٹے سے صحن پر مشتمل تھا۔اور ان دنوں یہی چھوٹا سا مسکن میرے لیے سکون و آشتی کا مخزن تھا۔
کیڈٹ کالج کوہاٹ شہر سے باہر ایک نہایت پرسکون جگہ پر واقع ہے ۔یہاں ہر روز رات کے پہلے پہر پرانے دور کے سٹیم انجن والی ریل گاڑی گزرا کرتی تھی ۔رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی اس کی آواز مجھے بہت بھلی لگتی بلکہ میں اس انتظار میں رہتا کہ کب ریل گاڑی گزرے اور میں اس کی آواز سنوں۔
عجیب بات ہے بعض صورتوں کی طرح بعض آوازیں بھی عمر بھر یادوں کے دریچوں سے یوں ہی چھن چھن کر آتی رہتی ہیں جس طرح رات کے پچھلے پہر روزن در سے آنے والی چاندنی! کیڈٹ کالج کی اس رہائش گاہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی پر سکون تنہائی میں عبادت کرنے میں بہت لطف آتا تھا۔میں اکثر فجر کی نماز صحن میں ادا کرتا ۔میں یہ تو بتانابھول ہی گیا کہ جس جگہ کیڈٹ کالج واقع ہے وہ زمین پتھریلی بھی ہے اور خطرناک سانپوں کا مسکن بھی۔چنانچہ گراؤنڈ میں اکثر بڑے زہریلے سانپ دیکھے اورمارے جاتے تھے۔
ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا کہ میں اکثر فجر کی نماز صحن میں اداکیا کرتا تھا۔اسی طرح ایک دن میں حسب عادت آنکھیں بند کرکے حالت استغراق میں یاد الہی میں محو تھا ، جوں ہی میں نے سنت ادا کر کے سلام پھیرا اور فرضوں کے لیے کھڑا ہونے لگا تو یہ دیکھ کر میں کانپ کر رہ گیاکہ میرے سجد ہ کی جگہ سے صرف دو فٹ کے فاصلے پر ایک سیاہ رنگ کا ناگ میری طرف منہ کیے پھن پھیلائے جھوم رہا تھااوراتنا قریب تھا کہ اس کی سرخ زبان جسے وہ بار بار باہر نکال رہا تھا مجھے صاف نظر آرہی تھی۔میرا خیال تھا کہ یہ ناگ میرے نماز شروع کرتے ہی کہیں سے نکل کر آ کھڑا ہواتھا اور مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا رہا تھالیکن اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھ سکا حالانکہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے اس کے نشانے کی زد میں تھا۔میں جلدی سے مصلی سمیٹتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگا اور ساتھ ہی یہ سوچنے لگاکہ اس ناگ کو کس طاقت نے مجھے ڈسنے سے روکے رکھا، نمازنے یا نمازوالے نے؟ یقینا دونوں ہی چیزوں نے یعنی نماز کی برکت سے نماز والے نے ۔آج بھی اس وقت کو یاد کرتاہوں توسوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جسے اللہ رکھے ۔۔۔۔۔!