٭ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ،‘‘رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ،غزوہ حنین سے واپس گھر تشریف لائے یا غزوہ تبوک سے ،اب صحیح طرح سے یا د نہیں رہا،گھر کے بڑے طاق میں پردہ پڑا دیکھا ۔اُس کا ایک کونا ہوا سے کھل گیا تھا جس سے طاق کے اندر رکھی چیزیں ظاہر ہو گئیں تھیں۔ان چیزوں میں بچیوں کے کھیلنے کی چیزیں بھی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ میری گُڑیاں ہیں۔ان گڑیوں کے ساتھ ہی ایک گھوڑا بھی رکھا تھا۔لکڑی کا ہوگا یا مٹی کا۔اس کے دو پر بھی تھے۔یہ پر کاغذ سے بنے تھے یا کپڑے کے۔آپ ﷺ نے پوچھا ،عائشہ یہ گڑیوں کے درمیان کیا چیز رکھی ہے؟سیدہ نے عرض کیا یہ گھوڑا ہے۔آپ نے دریافت فرمایا تو یہ پر کیسے ہیں؟سیدہ ؓ نے عرض کی ،آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے۔سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میری یہ بات سُن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوں کھِل کھِلا کر ہنسے کہ آپ کے اندرونی دانت مبارک (نواجذ)نظر آنے لگے۔ ’’( مشکٰوۃ،باب عورتوں کے حقوق، بحوالہ ابوداؤد)
اللہ کے رسولؐ اپنے گھر میں کس طرح رہتے تھے اس کا ایک نقشہ اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے۔حضور ﷺ سے شادی کے وقت سیدہ عائشہ کی عمر مبارک آپ سے بہت کم تھی۔آپ نے سیدہ کی اس چھوٹی عمر کا ہمیشہ لحاظ رکھا اور ان کی دلچسپیوں کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔گھوڑے کے پروں کے بارے میں سیدہ کا جواب جو معصومیت لیے تھا،آپ نے اس کو خوب enjoyکیا اور خوب کھل کھلا کر ہنسے۔
اُن لوگوں کے لیے اس کے اندر سبق ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی مذاق کو خلاف ِ تقویٰ گردانتے ہیں۔اورگھروں کے اندر بیوی بچوں پر کرفیو نافذ کیے رکھتے ہیں۔ان حضرات سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اللہ کے رسول کا اسوہ ملاحظہ کریں اور اس کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کریں اوراپنی اصلاح کی کوشش کریں۔آپ ﷺ سے زیادہ کون متقی ہو سکتا ہے؟؟
٭سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ، ‘‘ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں نے آپس میں دوڑ لگائی۔میں جیت گئی۔کچھ عرصہ بعد مجھ پر گوشت اور چربی چڑھ آئی جس کے باعث میرا جسم بھاری ہوگیا۔اب جب حضور ﷺ سے دوبارہ مقابلہ ہوا تو میں ہار گئی اور حضور جیت گئے۔سرور عالم ﷺ نے مسکراتے ہوئے ارشاد فر مایا،یہ اُ س کا بدلہ ہے۔(یعنی میری پہلی جیت کا)’’ (ابوداؤد)
گھر میں اپنی ازواج کے ساتھ، رسول اللہ ﷺ جس بے تکلف اور محبت بھرے ماحول میں رہتے تھے،اس کی ایک جھلک اس روایت سے ظاہر ہو رہی ہے۔اس وقت آپ کی عمر کا بھی اندازہ کریں اور رسالت کی ذمہ داریوں کا بھی اور ریاست کی سربراہی کی مشکلات کو بھی پیش ِ نظر رکھیں تو پھر آپ کو حضور کی اس طرز ِ زندگی کی قدر و قیمت کا احساس ہو سکے گا۔
بیویوں کے ساتھ اس حد تک بے تکلفی ! کیا لائق تقلید اسوہ ہے !!سبحان اللہ ۔آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے والا ہو۔اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی)یہ سنت ہے۔عورت کو کیا اعزاز و اکرام نوازا ہے ، سیدی خیر البشر نبی نے!! صلی اللہ علیہ وسلم
٭ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،‘‘ایک دفعہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی لوگ مسجد میں اپنے نیزوں سے کھیل رہے ہیں۔(میں نے کھیل دیکھنا چاہا تو )حضور ﷺ نے اپنی چادر کی اوٹ بنا لی،تاکہ میں بھی ان کا کھیل دیکھوں۔چنانچہ میں آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔اور آپ کے کان اور مونڈھے کے درمیان سے کھیل کو دیکھنے لگی۔اور آپ اس وقت تک میری خاطر سے کھڑے رہے جب تک کہ میں کھڑی رہی۔’’( مشکوٰۃ مترجم،دوم،۱۲۰،بحوالہ بخاری و مسلم)
بیوی کی کیسی دلداری ہے!!اور کس طرح لا ڈ کیا جا رہا ہے۔ نبی کے اس اُسوہ حسنہ پر!!ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔
٭ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،ایک روز رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ،میں جانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو۔اور کب ناراض۔میں نے عرض کیا آپ کیوں کر پہچان لیتے ہیں؟آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے خوش اور راضی ہوتی ہو تواس طرح کہا کرتی ہو‘‘یہ بات نہیں ہے ،محمد کے رب کی قسم’’ اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو اس طرح کہا کرتی ہو،‘‘یہ بات اس طرح نہیں ہے،ابراہیم کے پروردگار کی قسم’’حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا،یا رسول اللہ ،ہاں بات آپ کی ٹھیک ہے ،میں ایسے میں آپ کا صرف نام لینا چھوڑ دیتی ہوں(وگرنہ دِل میں توآپ کی محبت وہی رہتی ہے۔)
٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ایک فارسی رہتا تھا۔و ہ شوربہ بہت اچھا بناتا تھا۔اس نے رسول اللہ ﷺ کے لیے شوربہ بنایا ،پھر آ کر آپ کو دعوت دی۔آپ نے سیدہ عائشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ،کیااس کی دعوت ہے؟اس نے کہا نہیں ۔آپ نے فرمایا تو پھر ہم بھی نہیں۔وہ لوٹ گیا ۔پھر آیا اور دعوت دی۔حضور صلی اللہ وسلم نے دوبارہ یہی پوچھا کہ کیا عائشہ کی دعوت ہے؟ اس نے کہا نہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا ،پھر میں بھی نہیں آتا۔ وہ لوٹ گیا۔پھر تیسری بار دعوت دینے آیا۔آپ نے پھر وہی پوچھا کہ یہ عائشہ ہے،کیا اس کی دعوت ہے؟ اُس نے کہا ہاں ،ان کی بھی دعوت ہے۔پھر آپ دونوں اُٹھ کر اس کے گھر تشریف لے گئے۔’’(مسلم ،کتاب الاشربہ)
٭سید ہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا،سیدہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپ کی پہلی بیوی ہیں۔جب تک وہ زندہ رہیں ،حضور اکرم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا ۔آپ سے حضور کی رفاقت کم و بیش ۲۵ سالوں پر محیط ہے۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اکثر خدیجۃ الکبریٰ کی تعریف فرما یا کرتے تھے۔اتنی زیادہ تعریف فرماتے کہ ہمیں قریش کی اس بڑھیا پر حسد (بمعنی رشک )آنا شروع ہو جاتا ۔اور جب کبھی ہمارے ہاں بکری ذبح ہوتی تو اس کی بوٹیاں بنوا کرسیدہ خدیجہؓ کی سہیلیوں کی طرف بھیجا کرتے۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہؓ کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،وہ مجھ پراُس وقت ایمان لائی جب اوروں نے میرا انکار کیا،اس نے میری تصدیق کی جب اور لوگوں نے مجھے جھٹلایا اُس نے مجھے اپنی دولت میں اس وقت شریک کیا جب اوروں نے مجھ پر دروازے بند کیے، اُس کے بطن سے اللہ نے مجھے اولاد دی۔
گویا بیوی کی خوبیاں بیان کرنا،اس کا ذکر خیر کرنا اور اس کے احسانات کو یاد رکھنا اسوۂ پیغمبر ہے!!
سیدہ خدیجہ سے حضور کو بے پناہ محبت تھی۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ،سیدہ عائشہ ایک بڑاخوب صورت واقعہ بیان کرتی ہیں ،وہ فرماتی ہیں کہ ،‘‘ایک بڑھیا خاتون جس کا نام حسانہ مزنیہ تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت و شفقت سے اُس کا استقبال فرمایا۔اُس سے پیار بھری باتیں کرتے رہے۔اُس سے پوچھتے رہے کہ ہمارے بعدتمھارا کیا حال رہا۔اس طرح اس سے ماضی کے قصے چھیڑے رکھے۔جب وہ چلی گئی تو میں نے پوچھا یہ بڑھیا کون تھی، جس سے آپ یوں عنایت سے گفتگو کر رہے تھے۔حضور نے ارشاد فرمایا، یہ خدیجہ کی سہیلی تھی۔اسے خدیجہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے بہت محبت تھی۔’’مرحومہ بیوی کی سہیلی سے یوں محبت و عنایت،دراصل بیوی کو خراج ِ محبت ادا کرنا ہے۔سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضور جس طرح اُن کی یادوں میں رہتے تھے،زندگی میں جو لطف و کرم رہا ہوگا ،خوب اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا،آپ کی نبوت کے ابتدائی حالات میں آپ کی پوری پوری ہمدم و دمساز رہ چکی تھیں،اس لیے اُن کی خدمات اور ان کی وفا شعاری آپ کو کبھی فراموش نہ ہوتی تھی۔اور آپ اُن سے اپنی گہری محبت اور تعلق ِ خاطر کا اظہا ر ہمیشہ کیا کرتے۔
روایت ہے کہ غزوہ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے داماد سیدنا ابو العاص اہل مکہ کی طرف سے لڑنے آئے اور مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔مشرکین کے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ کا طریقہ مقرر ہوا۔ابوالعاص ؓکی بیوی، بنت ِ رسول، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کی رہائی کے لیے ،حضور ﷺ کے پاس وہ ہار بھیجا جو ان کی امی جان ،زوجہ رسول سیدہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے موقع پر تحفتاً دیا تھا۔اپنی مرحومہ بیوی کی اس نشانی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی اورسیدہ کی یاد میں،
آ نکھوں سے آ نسو جاری ہو گئے۔آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو زینب کو یہ ہار واپس کر دیا جائے اور اس کے خاوند کو بھی رہا کر دیا جائے۔ جان نثار صحابہ کو بھلا اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
٭ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما،اپنے جوتوں کی مرمت کر رہے تھے اور سیدہ عائشہ قریب بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔زوجہ رسول کا بیان ہے کہ میں وقفے وقفے سے آپ کو کام کرتا دیکھ لیتی تھی۔آپ کے چہرہ انور پر پسینہ آیا ہوا تھا۔اور پسینے کے قطرے موتیوں کی مانند چمک رہے تھے۔ان قطروں سے نور ٹپکا پڑتا تھا اور سراپا حیرت بنے،اس منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔اس دوران میں حضور انور نے میری طرف نظر مبارک اُٹھائی اور پوچھا ،عائشہ اتنی حیرت زدہ کیوں ہو اور کیا تکے جا رہی ہو؟سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کی،‘‘ یا رسول اللہ !آپ کی پیشانی پر پسینے کے جو قطرے آئے ہیں ان میں چمکتا دمکتا نور ہے۔اس منفرد نظارے سے حیرت زدہ ہوں۔خدائے لم یزل کی قسم !اگر ایام ِ جاہلیت کا مشہور شاعر ابو کبیر ہذلی حضور کی زیارت سے مشرف ہوتا تو اُسے معلوم ہو جاتا کہ اُس کے اِن اشعار کا مصداق کون ہے؟’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ،اس کے یہ اشعار کون سے ہیں؟سیدہ کہتی ہیں کہ آپ کے اس استفسار پر میں نے ہذلی کے یہ اشعار سنائے،
و مبریء من کل غیر حیفۃ وفساد مر ضعۃ و داء معضل
و اذا انظرت اِلیٰ اسرۃ وجھہٖ برقت کبرق العارض المتھلِل
وہ ولادت و رضاعت کی آلودگیوں سے مبرا ہیں، ان کے درخشاں چہرے پر نظر کرو تو معلوم ہوگا کہ نورانی اور روشن برق، اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔
یہ اشعار سنتے ہی،سید ِ انسانیت کے ہاتھ میں جو کچھ تھا ،اُسے رکھ دیا اور سیدہ کے پاس آ کر ان کی پیشانی پر پیا ر کیا اور زبان ِ مبارک سے ارشاد فرما یا ،‘‘جو سرور و لذت مجھے تیرے کلام سے حا صل ہوئی ، اس قدر لذت تجھے میرے نظارے سے حاصل نہیں ہوئی ہوگی۔’’( رحمۃ اللعٰلمین،جلد دوم،صفحہ ۱۵۱)
واہ ،سبحان اللہ! کیا عمدہ داد ہے۔ اور کس قدر بے تکلف ماحول ہے۔اور کیسا شاندار نمونہ ہے ہمارے لیے،جس کی اتباع کرکے ہم اپنے گھروں کے سکون کو بحال رکھ سکتے ہیں اور آ خرت میں بھی اس اُسوہ مبارک کی پیروی کرکے یقینی کامیابی و سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔
اللہم صلی علٰی محمد و علٰی آل محمد و بارک وسلم علیہ ۸۸۸