اردو ہے جس کا نام

مصنف : ڈاکٹر عقیلہ بشیر

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : جولائی 2006

             زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ اردو نسبتاً نو عمر ہے کیونکہ پہلے اس زبان کو ہندوی، دہلوی، گجری ، دکنی اورریختہ کہا جاتا رہا۔ آج جب اردو زبان کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو وہ اہل زبان والی اردو نہیں ہوتی بلکہ آج اس نام کے حوالے سے عوامی زبان کا تصور سامنے آتا ہے۔یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔

            اردو زبان کا آغاز کیسے ہوا؟ اس بارے میں محققین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے قدرتی حالات میں نشوو نما پائی۔ کسی سلطان یا سلطنت نے اس کی سرپرستی نہیں کی یہ زبان عوامی سطح پر ہندو مسلم میل جول سے ابھری۔ صوفیائے کرام نے اس زبان میں وحدانیت اور محبت کا پیغام لوگوں کے دلوں تک پہنچایا۔ علمائے کرام نے اس میں دین و اخلاق کا درس دیا۔ شاعروں اور ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے لیے اس کو ذریعہ اظہار بنایااور اس کے گیسو سنوارے۔ حتی کہ یہ ایک تناور سایہ دار شجر بن گئی۔ ہر کوئی تھکاماندہ ضرورت مند اس کے سائے میں پناہ لینے لگا’۔

            لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اردو کو عملی زبان سے الگ سمجھا جاتا ہے اور اردو میں گفتگو کو سطحی خیالات کی عکاسی تک محدود کر دیا جاتا ہے اور نیاز فتح پوری کے اس خیال کو رد کردیا جاتا ہے کہ خیال کی بلندی اور وقت از خود زبان کو بلند دقیق بنادیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرخیال گنجلک نہ ہو تو اسے آسان لفظوں میں بھی بطور احسن طریق پیش کیا جاسکتا ہے اور جس زبان میں علم کی ترویج ہوگی اس زبان کے ذخیرہ الفاظ میں بھی اتنی ہی وسعت ہوگی اور نئی نئی اصطلاحات معرضِ وجود میں آئیں گی۔ لہٰذا اردو زبان کو عملی زبان کا روپ دے کر بہت مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی زبان بذاتِ خود بری یا اچھی نہیں ہوتی لیکن ہر ملک کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس سے وہ ملک پہچانا جاتا ہے اور اسے گونگا نہیں کہا جاتا۔ زندہ قومیں اپنی زبان کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور اپنی زبان کو قیمتی ورثہ سمجھ کر نہ صرف اس کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ اسے اپنے ملک میں زندگی کے ہر میدان میں لاگو کرتی ہیں اور اسے وہ حق دیتی ہیں جو قومی زبان کا حقیقی منصب ہوتا ہے۔ یہ زبان پر احسان کرنا نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ کیا ہم یہ فرض ادا کر رہے ہیں؟ ہر ملک اپنی زبا ن کے بل بوتے پر ترقی کرتا ہے کیونکہ سچا اور اصل علم اپنی زبان میں ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے ان خیالات کو ذرا ٹھہر کر سوچنا پڑتا ہے اور پھر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا :‘‘اگر ہمیں تمام علوم و فنون اپنی زبان کے ذریعے پڑھائے جاتے اور انگریزی زبان اور اس کے ادب کی تعلیم ہمیں اپنی زبان کے ذریعے دی جاتی تو یہ سارے علوم و فنون ہمارے اپنے ہوجاتے ہیں اور مغربی ادیبوں، شاعروں ،فلسفیوں ، سائنس دانوں اور مفکرین کے افکار و خیالات سب ہماری زبان میں آجاتے ۔ خیال کیجیے کہ ہماری زبان کس قدر وسیع اور پر مایہ ہوجاتی اور اس کا مرتبہ کتنا بلند ہوجاتا۔’’

            اس کے علاوہ ہر زبان کا اپنا کلچراور اپنی تہذیب ہوتی ہے جس قسم کے کلچر کو اپنانے کی خواہش ہوتی ہے اس قوم کی زبان کو عموماً برتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے مضمون ‘قومی عظمت، قومی زبان سے’ میں درست فرماتے ہیں کہ:‘‘قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس مسئلے پر اس انداز سے سوچاگیا ہے جس میں انگریزی زبان کو برقرار اور مسلط رکھنے کے امکانات روشن رہ سکیں اس طرز عمل سے جو نقصان ہمیں بحیثیت مجموعی ہوا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اب تک اس راستے پر بھی نہیں چل سکے جو قومی یکجہتی اور قومی کلچر کی منزل تک لے جاتا ہے۔’’یہاں یہ بات واضح ہے کہ قومی تشخص اجاگر کرنے کا مطالبہ صرف اور صرف قومی زبان کے طور پر اردو کو اس کا جائز حق دے کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے ۔ رہی بات ان لوگوں کی جو انگریزی کو بین الاقوامی زبان قرار دیتے ہوئے اس حق میں ہیں کہ اس کے ذریعے ہمارے تعلقات اقوام عالم سے زیادہ بہتر انداز میں انجام پذیر ہوسکتے ہیں بھی ایک پہلو سے ٹھیک ہے لیکن کیا ایک گونگے بہرے معاشرے کو جو اپنے قومی کلچر سے بھی عاری ہو، وہ وقار حاصل ہوسکتا ہے کہ اقوامِ عالم اس سے ہاتھ ملا کر فخر محسوس کریں؟۔

            کوئی بھی قوم قوت اظہار تخلیقات کے حوالے سے کرتی ہے اور تخلیقات کی باگ دوڑ ادب کے لکھاری کے ہاتھ دی جاتی ہے۔ یہ ہاتھ جتنا مضبوط ہوگا اتنی ہی تخلیقات معتبر گردانی جائیں گی۔ یہ ہاتھ پریشانیوں، مصائب اور الجھنوں سے تہی ہو کر لفظوں کی دولت سے زبان کو مالا مال کرتا ہے اور نئے نئے لفظوں کو جنم دیتا ہے۔ نئی نئی اصطلاحات متعارف کرواتا ہے اور اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کرتا ہے لیکن جب اسے قومی زبان کے ادیب کی حیثیت سے دوسری اور انگریزی کے رائٹر کو پہلی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جائے تو صورت ِ حال کی ستم گری آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ کیا کبھی کسی قوم نے قومی زبان سے ایسا سلوک کیا؟ ایک طرف ہم انگریزی کو غیر زبان کا نام دیتے ہیں اور دوسری طرف اسے اپنی مجبوری بنا کر سرکاری زبان کا درجہ دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ رکھا کمبوہ ساغر چند سوالات اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘ یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا اور ذریعہ تعلیم کے حوالے سے اردو یا انگریزی کا کب فیصلہ ہوگا؟ کیا ہم میں خود اعتمادی کی کمی ہے؟ کیا ہم اپنی شناخت نہیں رکھتے؟ کیا ہم اقوامِ عالم میں ایک با غیرت اور زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا مقام نہیں چاہتے؟ آخر ہم کب تک غیروں کی زبان کی بیساکھی لے کر چلتے رہیں گے؟

            ہمیں علاقائی زبانوں سے کوئی شکایت نہیں۔ جہاں تھوڑا بہت تعصب موجود ہے ان کے لیے تو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا یہ بیان کافی ہے کہ:‘‘ قومی زبان کسی خاص علاقے یا گروہ کی زبان نہیں بلکہ پوری قوم اور پورے ملک کی زبان ہوتی ہے۔ اس لیے اس پر پشاور سے لے کر کراچی تک سب کا حق ہے۔ اردو کا تصادم کسی علاقائی زبان سے نہیں بلکہ انگریزی زبان سے ہے انہیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ انگریزی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے’۔

            یہاں میں یہ وضاحت کرتی چلوں کہ ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں۔ صرف اس کی ملک میں بالادستی کے خلاف ہیں۔ اس رویے کے خلاف ہیں جو انگریزی کو ہماری قومی زبان پر فوقیت دیتا ہے۔ ہم اردو کا پہلا اور انگریزی کو ثانوی مقام دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اردو زبان کی اہمیت صرف قومی رابطے کی ایک موثر زبان سے کہیں زیادہ ہے۔ جسے حلقہ ارباب کے وہ لوگ قطعا نہیں جان سکتے جو انگریزی زبان کے پرستار اور اردو زبان سے بیزار ہیں۔

            پروفیسر فتح محمد ملک درست فرماتے ہیں کہ ہماری وازارت تعلیم نے اردو کو کلاس روم کی دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر رکھا ہے اور وہ اس کی پیٹھ پر انگریزی کی چابک برسانے میں مصروف ہے لیکن کیا اس طرح ہم اپنی قومی زبان کو تعلیمی اورتہذیبی میدان سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ اردو نے ہماری قوم کے مزاج ، اعتبار اور شناخت کو قائم کرنے میں بنیادی نوعیت کا کردارادا کیا ہے۔ یہی زبان تو تھی جو برصغیر میں دو قومی نظریے کی اساس بنی تھی۔ شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں کہ :‘‘سرسید نے اس بات کو دیکھ لیا تھا کہ ایک الگ ہندی زبان کا قیام ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضرر رساں ہوگا۔ اگر چہ ضرر کے اسباب دونوں جگہ مختلف ہوں گے۔ 29اپریل 1870 کو انہوں نے محسن الملک کو انگلستان سے لکھا، ایک اور مجھے خبر ملی ہے جس کا مجھے کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو شیو پرشاد کی تحریک سے عموماً ہندوؤں کے دل میں جوش آیا ہے کہ زبان اردو اور فارسی کو جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیاجائے۔ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ جس سے ہندو اور مسلمان میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔ مسلمان ہر گز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور اگر ہندو مستعد ہوئے اور اپنی ہندی پر اصرار کیا تو وہ اردو پر متفق نہ ہوں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندو علیحدہ اور مسلمان علیحدہ ہوجائیں گے۔ یہاں تک تو مجھے اندیشہ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ کہ اگر مسلمان علیحدہ ہوکر اپنا کاروبار کریں تو مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہوگا اور ہندو نقصان میں رہیں گے۔

            سر سید احمد خان جیسے دانشور اردو زبان کی اہمیت سے اس حد تک آگاہ تھے کہ ایک زمانے میں انہوں نے ورنیکلر یونیورسٹی بنانے کی اسکیم بھی بنائی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے اردو کی علمی استعداد میں اضافہ ہوگا اور زبان ترقی اور کامیابی کی طرف گامزن ہوگی۔ سرسید ایک حقیقت پسند اور عملی فطرت کے انسان تھے اور اردو کی علمی ترقی کے خواہاں تھے۔ اردو زبان کو ہر مقام پر انہوں نے اپنی زبان کہا اور اپنی زبان سے وہ یہ مراد لیتے تھے جو کسی ملک میں اس طرح مستعمل ہو کہ ہر شخص اس کو سمجھتا ہو اور وہ اس میں زیادہ تر بات چیت کرتا ہو۔ سر سید کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اردو کو اپنی زبان قرار دیں گے اور انگریزی کو غیر زبان۔ اور اپنی زبان کا حق ہم اسی وقت ادا کر سکیں گے(بقیہ ص پر)

 جب اسے دفتری اور عدالتی زبان بنایا جائے گا۔ اعلیٰ تعلیم اپنی زبان میں دی جائے گی۔ بے شک اس کے ساتھ ایک بین الاقوامی زبان سیکھنے کو ضروری قرار دیا جائے لیکن تمام سائنسی اور پیشہ ورانہ علوم قومی زبان میں منتقل کیے جائیں اس سلسلے میں مقتدرہ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ اور دوسرے اداروں نے کچھ پیش رفت کی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اس تمام سلسلے کو بطور چیلنج لینا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ چند سر پھرے لوگوں کے بغیر ایسے کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔ یہ سر پھرے لوگ اگرچہ تعداد میں کم ہوتے ہیں لیکن کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو قوموں کے لیے نئی راہیں متعین کرتے ہیں، اس کے لیے ظاہر ہے صرف سوچنا نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اردو میں ہر شعبہ علم و فن کی کتابیں موجود ہیں بس ان مصنوعی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو اردو زبان کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ من حیث القوم اپنی یکجہتی کو قائم کرنے کے لیے ہمیں اردو کے سہارے کی ضرورت ہے۔ زبان اتحاد اور اتفاق کے جذبات کو پروان چڑھانے کی ضامن ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے تعصب، تفرقہ اور فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکتا ہے اس لیے اسے مزید نظر انداز مت کریں اور مان لیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔