لسانيات
اردو میں عربی الفاظ کا املا: اختلافی مباحث کا تجزیاتی مطالعہ
ابرار خان
تمہید
اردو پر عربی رسم الخط،قواعد و املا ودیگر اصناف ِ نظم و نثر کے گہرے اثرات کا پرتو ملتا ہے۔ عربی زبان قرآن وحدیث کی نسبت سے مسلمانوں کے ہاں خصوصی تقدس اور قدر و منزلت کی حامل رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اردو میں عربی طرزاملا کی کافی حد تک پیروی ملتی رہی ہے۔ اردو میں عربی الفاظ کے املا کا تعلق دینی معاملہ ہے یا خالصتاً ایک لسانی مسئلہ ،اس حوالے سے علمائے لسانیات و املا میں اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف دلائل کی بنیاد پر اس کی تائید و تردید کی مثالیں ملتی ہیں۔یہ مباحث و اختلافات نظری بھی ہیں اور عملی بھی وقت کے ساتھ ساتھ زبانوں میں فطری لحاظ سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور تحریر و تقریر کے حوالےسے نئے مباحث بھی سر اٹھاتے ہیں۔لسانیات کی ترقی نے ان مباحث کو نئی سمتوں سے ہم کنار کردیا ہے اور بہت سارے نظر یات کوازسرنو غور وفکر سے گزارنے کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے۔اردو املا کے نظری اصول و مباحث اور عملی طریقِ کار واسلوب کے حوالے سے ثقہ علما اور اداروں کے طریق ِ املا کےمطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمومی مسائل پر اتفاق کے ساتھ ساتھ اردو میں عربی الفاظ کے املا کے حوالے سے مختلف نظریات ملتے ہیں۔اختلاف میں اتفاق کے پہلو ؤں کی تلاش کے امکانات بہر حال موجود رہتے ہیں تاہم ان مباحث کا تجزیاتی مطالعہ ہم پر زبان ولسانیات کے بہت سارے افق وا کرتا ہے ۔اس حوالے سے بعض علمی ،فکری اور عملی نکات رہنما ثابت ہوسکتے ہیں۔
بعض علمائے ا ملا و قواعد کاخیال ہے کہ اردوزبان کے لیے عربی کی اہمیت مسلمہ ہے اور بہر حال اس کو طرزِاملا میں بھی عربی کی پیروی کرنی چاہیے۔اس سلسلے میں پروفیسر غازی علم الدین قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :“بے شک قرآن مجید ہم نے نازل کیا اور اس کی حفاظت بھی ہم کریں گے۔‘‘
اس وعدہ ٔ برحق کے مطابق جہاں قرآن قیامت تک محفوظ ہوگیا ،وہاں عربی زبان اور اس کے قواعد بھی محفوظ ہوگئے۔آج عرب دنیا میں کئی لہجے اور بولیاں موجود ہیں لیکن بنیادی اصول و قواعد اور املا کے ضوابط میں کوئی فرق نہیں آیا۔صحیح اردو لکھنے اور بولنے کے لیے اردو میں مستعمل عربی الفاظ کے تلفظ سے بہرہ ورہونا بہت ضروری ہے ۔عربی زبان سے گہرے تعلق کے باوجود اردو دان غیر شعوری طور پر اکثر الفاظ کا تلفظ غلط کرتے ہیں۔
خواجہ غلام ربانی مجال کا خیال ہے کہ عام زبانوں کے الفاظ اور املا میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے غلط العام کو سند مان لینے کا اصول ہے البتہ عربی کاملاًاس کلیے سے مستثنیٰ ہے،وجہ نزولِ قرآن اور اللہ کی جانب سے حفاظتِ قرآن ہے۔
شوکت سبزواری کے مطابق مسلمانوں کی قومی زندگی میں عربی زبان و حروف کو وہی درجہ حاصل ہے جو یہود کی زندگی میں عبرانی زبان اور حروف کو حاصل ہے اور ہنود کی زندگی میں سنسکرت زبان اور دیوناگری حروف کو۔
ڈاکٹر ایس ایم(شیر محمد ) زمان کے خیال میں نطق اور حرف کو ہم آہنگ کرتے ہوئے قرآنی املا کو برقرار رکھا جائے تاکہ کل ہمارے بچوں کو یہ الفاظ اجنبی نہ لگیں،اوران کو اس کے تہذیبی ،ادبی اور مذہبی پس منظر سے نہ کاٹا جائے…..اردو املا کے مسائل ثقافتی ،تہذیبی ،لسانی ارتقا اور مذہبی نقطہ ٔ نظر سے حل ہونے چاہیں…..عربی سے ہمارا تعلق روزمرہ کی زبان یا ادبی لسانیات تک محدود نہیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے قرآن حکیم کے حوالے سے بھی عربی زبان ہمارے لیے مذہبی اور فکری پس منظر مہیا کرتی ہے۔
قرآنی الفاظ كے املا سے متعلق یہاں ایک اختلافی مسئلے کا حوالہ دینا مناسب ہوگا ۔ رشید حسن خاں کا خیال تھا کہ :’’ لفظ ’’اللہ‘‘ کی کتابت اردومیں ایک خاص طرح ہوتی ہے کہ دوسرے لام کی جگہ ایک شوشہ سا بنا دیا جاتا ہے ۔اس لفظ کی یہی رائج اور متعارف صورت ٹھیک ہے ،اور اس کو اسی طرح لکھنا چاہیے۔‘‘
حفیظ الرحمان واصف کا مؤ قف تھا کہ نامہ ہائے مبارک کے اندر لفظ اللہ متعدد جگہ آیا ہے ،اس کا املا دیکھیے! دو لام اورتیسرا ڈنڈا ،جس کے ساتھ ہائے ہوز ہے ، تینوں کی لمبائی اوراونچائی ایک برابر ہے۔اس کا اصل املاوہی ہے جو پہلے سے موجود تھا،کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ لفظ اللہ کا اصل عربی املاجو پیغمبرﷺکی نظر انورکے سامنے لکھا گیا و ہی اردو میں بھی رہناچاہیے۔ نظمِ قرآن کی طرح اس کے رسم الخط کی بھی پوری حفاظت کی گئی ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہر رسم الخط کا اپنا اندازِ تحریر ہوتا ہے ،نسخ اور نستعلیق میں بھی یہی فرق سامنے آتا ہے،جب کہ کمپیوٹر کی تحریر کے اپنے مسائل ہیں ۔لفظ کی شکل میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آتی ہو تو رسم الخط یا معمولی اندازِ تحریر کے فرق کو عقیدے کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔پروفیسر غازی علم الدین اردو زبان،رسم الخط اور املا کو عقیدے کا مسئلہ تصور کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ :’’میرے نزدیک اردو زبان ،اس کا رسم الخط اور املا عقیدے کا مسئلہ ہے ۔برصغیر میں اردو کسی کی مادری زبان ہو نہ ہو ،ہر مسلمان کی مذہبی و ثقافتی زبان ضرور ہے اور عربی و فارسی اسلامیانِ ہند کی واحد ترجمان ہے۔‘‘
شمس الرحمان فاروقی اور دیگر علماکا پروفیسر غازی علم الدین کی کتاب’’لسانی مطالعے‘‘جس میں انھوں نے اروو میں موجود عربی کے الفاظ،محاورات اور ضرب الامثال کو عربی کے صحت تلفظ واملاکے مطابق بولنے،پڑھنے اور لکھنے پر زور دیا ہے،اور درج بالا نظریہ کہ اردو زبان ، اس کا رسم الخط اور املا میرے لیے عقیدے کا مسئلہ ہے، پر محاکمہ فکر انگیز ہے۔پروفیسر قاضی ظفر اقبال ان کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ اردو کے روزمرہ اور اردو کے رائج زبان سے آپ کی واقفیت کم ہے۔ــ آپ کو عربی زبان سے بہت محبت ہے اور آپ اردو زبان کے بڑے ذخیرے کو معروب دیکھنا چاہتے ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی ان کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ آپ زبان (اردو)کو معروبہی نہیں مشرف بہ اسلام بھی فرمانا چاہتے ہیں ۔ میرے خیال میں یہ رویہ ہرگز درست نہیں ہے ، زبان پر مذہب کے اثرات ضرور ہوتے ہیں مگر کسی زبان کا فی نفسہ مذہب نہیں ہوتا۔ادب اورزبان کو مذہب کے معیار سے جانچیں گے تو بہت دور نہ چل سکیں گے اور آپ کو ادب اور زبان دونوں سے ہاتھ دھولینا پڑے گا۔آپ کہیں گے کہ میں ادب کی پروا نہیں کرتا ،میرا سروکا ر مذہب سے ہے ،بالکل ٹھیک ہے ، لیکن اگر آپ زبان سے ہاتھ دھو لیں گے تو مذہب کے بارے میں یا کسی اور چیز کے بار ے میں کس طرح سوچیں گے ، بولیں گے اور لکھیں گے؟
غازی علم الدین کی اس رائے تو اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان کی طرف الفاظ کے سفر سے بناوٹ میں تبدیلی اور معانی میں تنوع پیدا ہوتا ہے،یہی حال اردو میں مستعمل عربی کے ان الفاظ اور تراکیب کاہے جو جزوی تبدیلی سے ایک سے زائد معانی دیتے ہیں ا ور بڑی خوبصورتی سے اردو کے دامن کو کشادہ کرتے ہیں ۔تاہم اردو میں موجود عربی کے الفاظ،محاورات اور ضرب الامثال کو عربی کے صحت تلفظ واملاکے طے شدہ اصولوں کے مطابق بولنے،پڑھنے اور لکھنے پر زور دینا علما ئے املا و قواعد کے نزدیک محل ِ نظر ہے۔اس لحاظ سے شمس الرحمان فاروقی کا ردِ عمل فطری تھا وہ لکھتے ہیں کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ عربی زبان کے الفاظ ہم اس طرح لکھیں اور بولیں جیسے کہ وہ عربی میں ہیں؟متعدد الفاظ اردو میں اصل معانی سے ہٹ کر نئے معنی میں بولے جاتے ہیں۔ بہت سے الفاظ ہم نے عربی کے قیاس پر بنالیے ہیں جوعربی میں نہیں ہیں۔فلک سے فلاکت ،مفلوک الحال ،نازک سے نزاکت ،گل بدن ،قمر چہرہ، مزاج دان،خوف ناک وغیرہ،بے شمار الفاظ ہیں ، ہم نے اردو یعنی دیسی الفاظ کو عربی لفظ سے بیاہ دیا ہے…..ہر لفظ کو مطابقِ اصل لکھیں ،پڑھیں گے تو مصیبت آجائے گی،پھر کھیت کو کھشتیرسے بدلنا پڑھے گا…..آپ زبان کے الفاظ کو اس کے اصل تلفظ کے ساتھ رائج کرنا چاہتے ہیں،زبان پر مقامی دھرتی ،مقامی موسموں ، مقامی مذاہب و عقائد اور مقامی کلچر کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زبان کے تلفظ، املا، شکل و صورت ، حتیٰ کہ مفاہیم تک میں تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔کچھ تبدیلیاں لوگوں کے لیے پسندیدہ ہوتی ہیں تو کچھ ناپسندیدہ ،مگرزندہ زبان کا یہ تنوع اور رنگارنگی ہی اس کی اصل خوب صورتی ہے۔اگر زمانے کی گردش سے ہیٔت اولیٰ ،ہیولیٰ اور افراط و تفریط ،افراتفری میں تبدیل ہوجاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ الفاظ کی نئی اور خوبصورت شکل ہے جسے خوش دلی کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے ، ہیولیٰ کا املا ہیولا ،بالکل کا املا بلکل، زکوٰة کا املا زکات اور ربوٰا کااملا ربا بھی تسہیل کی جانب ایک قدم ہے ،مگر زبا ن دانوں کے لیے اسے قبولیت ِ عامہ کا شرف حاصل ہونے کے لیے صدیوں کا عمل درکا رہوتا ہے،بعض چیزیں وقت کے ساتھ قبول کرلی جاتی ہیں ور بعض آپ کے آپ مسترد ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر صابر لودھی بھی ملتے جلتے خیالا ت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہر لفظ کا اپنا کلچر ،اپنی تہذیب ہوتی ہے اور یہ کلچر کسی قوم کے مزاج اور تہذیب سے وجود میں آتا ہے۔لفظ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتاہے تو معنی،اعراب ،تذکیر و تانیث وغیرہ میں جزوی تبدیلی ضرور ہوتی ہے۔اردو کے معاملے میں اگر یہ ضد کی جائے کہ ہر لفظ کا تلفظ عربی،فارسی قواعد کے مطابق ہو تو مناسب نہیں،بہتر ہے کہ ملک کی قومی زبان عربی ،فارسی کرلی جائے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ زبان کا مذہب نہیں ہوتا ،البتہ زبان کا سماج ہوتا ہے ،اور ہندوستانی سماج اردو کا سماج ہے۔ زبان کا مذہب نہیں ہوتا ،زبان جملوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور جملے لفظو ں سے مل کر بنتے ہیں۔مذہب لفظو ں کا نہیں ہوتا لیکن لفظ چونکہ مذہب ، اخلاق ، فلسفہ ، معاشرت ،سیاست وغیرہ سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے لفظو ں کے مذہبی یا طبقاتی مآخذ تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
اردو میں دخیل الفا ط کے حوالے سے علمائے املا و لسانیات میں عمومی اختلاف رہا ہے اور دونوں طرف سے دلائل سامنے آئے ہیں تاہم حدِ فاصل اتنا وسیع بھی نہیں جسے نہ پاٹا جاسکے۔ دخیل الفاظ کے املا سے متعلق عقلی و منطقی مباحث زبان و ادب کی ترقی کا باعث بنتے ہیں ۔ اردو میں دخیل الفاظ کا معاملہ صرف عربی،فارسی کا نہیں بلکہ دیگر زبانوںکا بھی ہے،تاہم عربی چونکہ قرآن وحدیث کے تناظر میں مسلمانوں سے براہِ راست تعلق رکھتی ہے اور تلاوت، ترجمہ و تفسیر کی صورت میں ان کی دلچسپی بھی اس زبان سے زیادہ ہے اس لیے عربی الفاظ کے تلفظ واملا کے معاملے میں حساسیت زیادہ پائی جاتی ہے اور یہ ایک فطری امر ہے۔اس لیے یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ دخیل الفاظ کو من و عن رائج کیا جائے یا اپنے نظامِ اصوات کے تابع کیا جائے اور جن الفاظ کا غلط املا رواج پاچکا ہے اسے متبادل قبول کیاجائے یا اس کو اصل اشکال کے ساتھ مروج کیاجائے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے مطابق خان آرزو پہلے شخص ہیں جنھوں نے دخیل الفاظ کے تلفظ اور املا کے متعلق یہ رائے دی کہ وہی صورت اختیا رکی جائے جو اہلِ زبان میں رواج پذیر ہو چکی ہو،ایسے الفاظ کے لیے اصل زبان کی پیروی کی ضرورت نہیں۔
خان آرزو (١٦٨٩ تا ١٧٥٦ء)کی رائے:
اس معاملے (دخیل الفاظ کے تلفظ اور املا) میں لفظ کی وہ صورت (مکتوبی یا ملفوظی)اختیار کی جائے جو اہل زبان (خواص و عوام دونوں) میں رواج پذیر ہوچکی ہو ،ایسے لفظو ں کے لیے اصلی زبان کی پیروی ضرور ی نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ نئی زبان میں اس کی وہ صورت سامنے رہنی چاہیے جو محض عوام ہی میں مروج نہ ہو بلکہ عام و خاص سب کے نزدیک مسلّم ہوچکی ہے۔
انشا ء اللہ خان انشا(١٧٥٦ تا ١٨١٧ء) دریائے لطافت(١٨٠٨ء) لکھتے ہیں:
’’ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہوگیا ہو،عربی ہو یا فارسی ،ترکی ہو یا یورپی ،ازروئے اصل غلط ہو یا صحیح ؛وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو یہی صحیح ہے اور اگرخلافِ اصل مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔اس کی صحت اور غلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے کیونکہ جو کچھ خلافِ اردو ہے ،غلط ہے-"
تاہم مرزا ادیب لکھتے ہیں کہ انشا کا یہ نظریہ کہ اردوکا املا اس کااپنا ہے ،من مانی کارروائیوں کو جواز فراہم کرتا ہے ،ا س لیے جو لفظ اصل کے قریب ہو اس کے قریب رہنے ہی پر اصرار کیا جائے اور اس کا املا اصل کے مطابق ہونا چاہیے۔
مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ جو لفظ پہلے سے رائج ہیں اورہماری زبان میں گھل مل گئے ہیں ،خوا ہ کسی زبان کے بھی ہوں وہ اب ہمارے ہیں ،غیر نہیں ،انھیں غیر سمجھ کر نکالنا سراسر حماقت ہے ،جو ایسا کرتے ہیں وہ اپنی زبان کے دوست نہیں ،دشمن ہیں…..نئے لفظوں کے داخلے میں بھی زبان کی فطرت اور ذوق کو بڑا دخل ہے ،اندھا دھند اور زبردستی لفظ داخل نہیں کیے جاسکتے ،جو بند ھ گیا سو موتی،جو کھپ گیا وہ ہمارا، اور جو نہیں کھپا سو غیروں کا۔
شمس الرحمان فاروقی ، مولوی عبدالحق کی رائے نقل کرتے ہیں کہ بہت سے الفاظ کے بارے میں یہ فیصلہ ہی ناممکن ہے کہ وہ کس طرح رائج ہوئے ،مثلاً یہی دیکھیے کہ ہزاروں دیسی الفاظ میں ہمزہ کہاں سے آیا ؟ او رہزاروں الفاظ میں عربی ،فارسی آوازوں کے ساتھ وہ آوازیں کہاں سے داخل ہوئیں جو ان زبانوںمیں ہیں ہی نہیں؟لہٰذا شکل و صورت کا چکر چلانا بے معنی ہے۔ان کا خیال ہے کہ زبان کو کسی کی مرضی کا پابند نہیں کرسکتے ،زبان رواجِ عام سے بنتی ہے اور رواجِ عام کے زیرِ اثربدلتی ہے۔کسی صاحب کو یہ اختیار نہیں کہ مروج زبان پراپنی منطق یا اپنا فلسفہ جاری کرنا چاہے….. بہت سے علما کا خیال یہ ہے کہ ’’اش اش کرنا’’ اس لفظ کو عش عش لكھنا غلط ہے کیونکہ یہ عربی نہیں ہے اور حرف عین ہندی میں نہیں ہے۔اور باتوں سے قطع نظرکہ ہماری گفتگو اردوزبان سے ہے ،اس میں ہندی کی سند لانا درست نہیں۔اردو کے حروفِ تہجی میں عین شروع سے شامل ہے ،وہ چاہے جہاں سے بھی آیا ہو لیکن وہ ہے اردو کا حرف ،اور اردو کواختیار ہے کہ وہ اسے استعمال کرتے ہوئے نئے لفظ بنائے کسی پرانے لفظ کا املاعین سے متعین کرے۔عش عش کو عربی نہ ہونے کی بنا پر اش اش کی موافقت میں مسترد کرنا ، ناانصافی ہے…..علیٰ حدہ کو علیحدہ ،علاحدہ ،تشنیع کو طعن و تشنیع ،ناتا، کشتہ بنانا،طمانیت میں فرضی یا گھڑنا،اینگلو عربک کہنا، حالانکہ (انگریزی میں لکھتے ہوئے) عربی میں عن ہیں۔صلوٰة کو صلوٰتیں بناکر مقد س لفظ کو استعما ل کیا ،تو عش عش کو جگہ کیوں نہیں دی جاسکتی؟اگر استدلال یہ ہے کہ ہندی لفظ میں عربی حروف نہیں آسکتے تو پھر مفلوک الحال اور ماتحت کو بھی ہ سے لکھا جائے کہ وہ بھی تو آخر ہندی لفظ ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی کا خیال ہے کہ ہمارا معاملہ عربی یا ہندی سے نہیں بلکہ اردو سے ہے عربی میں کیاغلط ہے کیا صحیح ،ہمارے لیے بے معنی ہے۔اردو میں حرف عین استعمال ہوتا ہے ،اب یہ محض اتفاق ہے کہ اردوکے جن لفظوں میں عین ہے وہ اکثرو بیشتر عربی سے آئے ہیں لیکن یہ بات خیال میں رکھیے کہ وہ لفظ کبھی عربی سے لیے گئے ہوں گے لیکن اب اردو کے لفظ ہیں ،بہت سے لفظوں کے معنی بدل گئے ہیں،ان کے استعمال کرنے کے نحوی قاعدے عربی سے مختلف ہیں ،اور تقریباً ہر لفظ بدل گیا ہے،لہٰذا یہ خیال غلط ہے جو حروف اصلاً عربی کے ہیں ،ان سے کوئی اردو لفظ نہیں بن سکتا۔آخر عربی کے حروف بھی تو عبرانی سے لیے گئے ہیں اور ان سے عربی لفظ بنائے گئے ہیں۔یہ تو ہر زبان کا طریقہ ہے کہ غیر زبانوں سے لفظ یا حروف مستعار لیے جاتے ہیں اور پھر انھیں اپنایا جاتا ہے۔
خلیق انجم لکھتے ہیں کہ دخیل الفاظ كے املاکے لیے اصل زبان میں ان الفاظ کے املا پر غور کرنے کے اصول کو تسلیم کیا جائے تو ہمیں فارسی کے علاوہ سنسکرت ،عربی ،انگریزی ، پرتگالی ،فرانسیسی ،جرمنی وغیرہ سیکھنی پڑیں گی،کیونکہ ان تمام زبانوں کے الفاظ اردو میں شامل ہیں۔طالب الہاشمی کا خیال ہے کہ غلط العام سے مرادوہ غلط تلفظ ہے جوعام اور خاص ،جاہل اورعالم سب میں عام ہوجائے۔نشترمخفف ہے اورنِشتر ہونا چاہیے لیکن اہلِ زبان میں نشتر عام ہوچکا ہے…..ایک مشاعرے میں خواجہ آتش نے ایک شعر کہا:
دخترِ رزمری مونس ہے مری ہمدم ہےمیں جہانگیر ہوںوہ نور جہاں بیگم ہے
کسی نے کہایہ تو بیگُم ہے ،آتش نے کہا جب ترکستان جائیں گے توبیگُم کہیں گے یہاں تو بیگم ہے-
لئیق ،مرغن ،شکریہ ،خراج ،مشکور ،فوق البھڑک جیسے بہت سے الفاظ عربی کے انداز پر بن گئے ہیں اور عام طور پر مستعمل ہیں ،اب اگر ایسے الفاظ کو غلط سمجھا جائے گا تو یہ انداز ِ فکر اردو زبان کی خصوصیات کو زبانوں میں لفظ کے بگڑنے کے مسلمہ اصولوں کو نظر اندازکرنے کے مترادف ہوگا۔متعدد الفاظ ایسے بھی ہیں جن کا تلفظ اصل الفاظ کے اعراب سے مختلف ہوجاتا ہے مگر اردو میں ان کا چلن ہوگیا ہے ا س لیے ان کا اس طرح بولنا یوں سمجھیے مباح ہے۔
پر وفیسر آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ ایک زبان جب تک مکمل نہیں ہوتی دوسری زبانوں کی محتاج اور پیرو ہوتی ہے۔لیکن جب پوری طرح ادبی اور علمی زبان بن جاتی ہے تواپنے الفاظ کے تلفظ،املا اورمعنی کے اعتبار سے مکمل اورآزاد ہوجاتی ہے۔.اردو کے تلفظ میں جو بیرونی رجحانات ہیں انھیں نظر انداز کرکے اسی تلفظ کو مستند ماننا چاہیے جو اہلِ زبان کا ہے۔
ڈاکٹر اقتدار حسین کے مطابق ایک زبان میں لفظ یا کوئی دوسرا عنصر مستعار لے لیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس لفظ میں زبان اپنے مزاج کے مطابق تبدیلیاں کرلیتی ہے جس کو تطبیق کہتے ہیں ،مثلاً اردو نے انگریزی سے لفظ ٹِنلیا لیکن اس کو ٹینبنا لیا ،یعنی چھوٹے مصوتے کو لمبا مصوتہ بنا لیا گیا۔،پشتو زبان میں عربی لفظ(تفحّص) ’’تپوس‘‘ بن گیا ہے اور عام مستعمل ہے جو بولنے اور لکھنے کا حصہ بن چکا ہے۔
گوپی چند نارنگ کی نظر میں عربی کے جو الفاظ معرب ہوکر یا فارسی کے جو الفاظ مفرس ہوکر اردو میں داخل ہوئے ان کےاملامیں اگر اصل کے مطابق بعد میں ترمیم نہیں ہوئی تو ان کی معرب یا مفرس صورتیں ہی قابلِ قبول ہوں گی۔فارسی یا عربی کی جدید تحقیقات ِ لغت اور ترمیماتِ املاسے اردو املاکی حد تک ہمیں کوئی غرض نہ ہوگی۔
حفیظ الرحمان واصف کا خیال تھا کہ جو دخیل الفاظ اردو نے اپنا لیے ہیں اور ان میں تصرف کیا ہے ،خواہ وہ لغت کے لحاظ سے غلط ہوں اگر فصحا و ادباسے سند ِ فضیلت حاصل کرچکے ہیں تو ان کو اصل کی طرف واپس لے جانا ممکن نہیں اور یہ کوشش کرنا ایک فعلِ عبث ہے۔رشید حسن خان کی کتاب میں شامل سید سلیمان ندوی کے اقتباس( جس میں ان کی رائے کے مطابق مشکور کو متشکریا شاکر بولنے والوں کی اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے اور دخیل الفاظ کی جائے پیدائش نہیں دیکھی جاتی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس زبان میں وہ شامل ہیں وہاں ان کا تلفظ کیسے ادا کیا جاتا ہے نیز عبدالماجددریا بادی کی رائے کہ لفظ آپ کا اور اس کا املا ،اس کا تلفظ اور اس کی گریمر سب دوسروں کا،،پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ صحیح اور غلط کا امتیاز ان الفاظ میں بھی کرنا ہوگا جو خاص اردو کے ہیں یا سنسکرت اور برج بھاشا سے اردو میں آئے ہیں،اور یہاں بھی منہ دوسرو ں کا ہی دیکھنا ہوگا۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اردو گریمر کی اساس ہی عربی گریمر ہے (حفیظ الرحمان واصف کی یہ رائے درست نہیں،اور ان سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا) تذکیر وتانیث ،اعراب ،جمع،حالتِ ترکیبی ،املا ،تلفظ ،گریمر اور اصطلاحات وغیرہ عبدالماجد دریابادی کہاں سے لائے؟ مذکورہ بالا اقتباسات سے فاضل مصنف نے یہ غلط نتیجہ نکالا کہ الفاظ کا جوبھی تلفظ عوام میں اور جہلا میں رائج ہے وہ قابلِ قبول ہے اور ہماری زبان کا گراں قدر سرمایہ ہے۔خواہ وہ کیسا ہی غلط ،بھونڈا اورمبتذل ہو،یعنی صحت و فصاحت کا کوئی معیار باقی نہ رہا۔سید سلیما ن ندوی نے شاید اس وجہ سے خفگی کا اظہار کیا ہے کہ مولانا شبلی نے استعمال کیا ہے ،مگر وہ بھی انسان تھے ،سہو ہوگیا۔اور زبان کے باب میں مولانا آزاد پر بھی اعتماد نہیں کیاجاسکتا ۔میں نے ان کو تقریر میں لفظ مستقبل بفتح با بولتے سنا ہے اور بار بار سنا ہے۔اسی طرح ان کی زبان سے ملزم بفتح زا اور لفظ متوفی بالف مقصورہ بھی سنا ہے۔تعجب ہے کہ انھوں نے لفظ مشکور کو کیوں جائز رکھا؟مولانا موصوف نے اپنی ایک خاص زبان ایجاد کی ہے ،فصحا کے نزدیک قابلِ استناد نہیں۔اگر لسانیات اور لغت میں منطق و فلسفہ کو مداخلت کا موقع دیا جائے تو سینکڑوں محاورے ترک کرنے پڑیں گے۔زبان ميں ہر قسم كی تبدیلی کا نام ارتقا رکھ دینا ،یہ فلسفیانہ نظریہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔
پنڈت دتاریہ کیفی نے بھی علامہ سلیمان ندوی کی تائید کی اور کہا کہ عادی اور مشکور مدتوں سے عادت گیرندہ اور احسان مندکے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اس معنی کی طرف جاتا ہے تو قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے۔،پنڈت دتاریہ کیفی کی رائے پر تبصر ہ کرتے ہوئے حفیظ الرحمان واصف لکھتے ہیں کہ جب کسی لفظ کا متبادل موجو د ہو اور صحیح ہو تو حیر ت ہے کہ اس غلط لفظ کو زبردستی کھینچ کر صحیح کی فہرست میں داخل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟قاموس اور صراح سے فتوی لینے پر ہمیں اصرار نہیں ،لیکن اگر فصاحت کا معیار صرف یہ ہے کہ سامع کا ذہن لفظ کے مدلول اور معنی تک پہنچ جائے تو کیا فتوی دیتے ہیں آپ اس وقت ؟جب تانگے والا پکارتا ہے آو ٹیسن کو جاہل عورتیں ڈاکٹر کو ڈانگدر کہتی ہیں،مرزا کے ہاں لمبر او ر سکتر کے الفاظ ملتے ہیں ، فصحا نے کیوں قبول نہ کیے؟عوام کی روش کا ایسا رعب چھایا ہو اہے کہ جہاں فصیح و غیر فصیح کاخیال آیا فوراً روانیِ کلام مجروح ہوئی،یعنی لفظ کی صحت و فصاحت کے مقابلے میں روانیِ کلام زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔تصرف ،غیر فصیح ،غلط العوام،غلط العام اور غلط کا فرق ملحوظ رکھنا ہوگا۔ادبا و شعرا اور ماہرینِ لسانیات کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ انڈسٹری (یعنی لغت سازی)بھی کارخانہ داروں اور صناعوں کے سپر د کرکے آپ کو اس دیس سے کوچ کرنا چاہیے۔آہ مظلوم اردو! …..جب کوئی لفظ بن جائے اور رواج پا جائے تو اسے قبول کرلینا چاہیے ،قواعد کی خاطر ارتقائے زبا ن پر پابندیاں نہیں لگائی جاسکتیں۔الفاظ بنتے بھی ہیں،رائج بھی ہوتے ہیں اور متروک بھی ہوتے ہیں اور عرصے بعد غیر فصیح بھی ہوجاتے ہیں۔ آوے ہے،جاوے ہے،کھبو،کسو ، تمام متقدمین کے کلام میں اور فصیح تھے ،اب متروک اور غیر فصیح۔استاد داغ کے زمانے کے بھی بہت سے الفاظ و محاورات بعض متروک ہوکر پھر زندہ اور فصیح ہوگئے ہیں جیسے رندھنا،کجلاناوغیرہ۔
دخیل الفاظ کے متعلق علامہ سلیمان ندوی کی رائے فکر انگیز ہے کہ ان فارسی الفاظ سے جنھیں ہم فارسی سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ،اہلِ ایران ان پر چوکتے ہیں اور ہماری ہنسی اڑاتے ہیں یعنی وہ الفاظ فارسی کے نہیں رہے۔ہم نے اردو میں ان کو دوسرے معنی دے دیے ہیں ،او ر اب وہ لفظ بالکل ہمارے ہوگئے ہیں ۔آپ ان کو اپنی زبان سے نکال دیجیے ، آپ کے یہاں سے نکل کر وہ بالکل نگھڑے ہوجائیں گے کیونکہ فارسی یا عربی ان معنوں میں انھیں قبول نہیں کریں گی۔
گوپی چند نارنگ کا خیال ہے کہ اردو پر ہند آریائی ،ایرانی اور سامی اثرات بیک وقت پائے جاتے ہیں۔زبان اور اس کے تمام ظواہر کسی فردِ واحد ،ادارے یا انجمن کے حکم کے تابع نہیں ،زبان ایک وسیع تر عمرانیاتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج اور چلن سے وجود میں آتا ہے اور جسکی پشت پر صدیوں کے تاریخی و لسانیاتی ارتقا کا ہاتھ ہوتا ہے۔
دو قسم کے مکاتب ِ فکر ہیں،ایک لسانیات والے اور دوسرے قدیم والے ہیں ۔تیسرا مسلک بھی ہے جو عبارت ہے قدیم علمی روایت اور جدید لسانیات دونوں سے آگہی حاصل کرنے سے اور اس آگہی کی روشنی میں اردو کے مخصوص لسانی کرداراور ثقافتی مزاج کے پیشِ نظر املا کے مسائل کوحل کرنے سے۔یہ شاخ (Sociao languistics)ہے ،جو تاریخ ،سماجی کرداراور ثقافی مزاج سے مدد لیتی ہے۔میرا مسلک ہے کہ صوتیات سے مدد لیتے ہوئے ثقافتی اثرات کوہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے۔
جابر علی سید اور ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی اردو میں عربی ،فارسی کلمات کے خلاقانہ تصرّف و تغیر کے جواز پر اصرار کرتے ہیں،جب کہ سیف اللہ خالدکے مطابق اس عہد کے علمائے لسانیات کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط کو آسمانی صحیفے اور مقدس روایت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ۔ امتداد ِ زمانہ کے ساتھ ان میں ترک و تبدیلی خارج ازامکان نہیں۔اردو کے تابع نظر دانش وروں نے عربی و فارسی الفاظ کو اپنی طرز اور ضرورت کے مطابق برتا اوربدلا ،جس سے معنوی تنوع سامنے آیا۔
عبدالستار دلوی کے مطابق عربی نے اردو زبان و ادب پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں اور ان سے انکار ممکن نہیں۔عربی فارسی خصوصیات کی وجہ سے اردو میں اظہاریت کی قوت بڑھ گئی ہے ،اس لیے اردو کا صوتی نظام دیگر ہندوستانی زبانوں کے صوتی نظام کے مقابلے میں وسیع تر ہے۔دخیل الفاظ جب زبان میں شامل ہوجائیں تو وہ پرائے نہیں رہتے،اپنے بن جاتے ہیں ۔فلسفہ ٔ زبان کا یہ بنیادی اصول ہے ، اردو نے ہندی کے مقابلے میں ہمیشہ اس اصو ل کی پابندی کی ہے۔
شمس الرحمان فاروقی کے مطابق دخیل الفاظ کو غیر ضروری اہمیت و تقدس عطاکرنا ایک طرح کی اشرافیت (elitism)کہا جاسکتا ہے اور ممکن ہے اسے اشرافیت ہی خیال کرکے اختیار کیا گیا ہو ،لیکن ظاہرہے کہ اشرافیتزبان کے فطری ارتقا کے خلاف تھی اور اس کے نتیجے اچھے نہیں نکلے۔ایک تو یہ کہ ہماری زبان غیر ضروری اور مصنوعی جکڑ بندیوں میں گرفتارہوگئی ، دوسری بات یہ کہ ان پابندیوں نے ایک مصنوعی زبان کو فروغ دیا ،جو اصل بول چال سے مختلف تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان قیود کے باعث زبان میں وسعت کے امکانات تنگ ہوگئے۔نہ صرف یہ کہ امکانات تنگ کردیے گئے بلکہ وہ ہزاروں استعمالات اور روزمرے جو زبان میں داخل ہوئے تھے ،انھیں بھی متروک قرار دے کر معیاری زبان سے نکال دیا گیا۔
ڈاکٹر وحید قریشی کے خیال میں جب کوئی لفظ زبان میں داخل ہوتا ہے تو ان تبدیلیوں کے پیچھے ایک طویل زمانی تسلسل (Time Continuation)اور زمانی علائق (Spatial relation)کے ساتھ ساتھ عصری ادراک ،استدلالیت اور تراش خراش کی فطری جبلت یکساں دخیل ہوتے ہیں۔جیسے اصل اشکال میں تبدیلی کا غیرفطری ،الحاقی محاکمہ ،نارسیدگی یا جبری، شعوری کوششیں یا تجربہ؛لفظ کی عامة الناس میں قبولیت کی ضمانت نہیں بن سکتا ۔اسی طرح عصری دانش کی مشارکت کے بغیر زمانی ومکانی تسلسل بھی لفظ کے قبولِ عام کا ضامن نہیں ہوسکتا۔انسانی تاریخ پر نظر ڈالنے سے بھی جولسانی ارتقا دکھائی دیتا ہے۔ وہ کسی غیر منظم ارتجال کا نتیجہ نہیں،بلکہ انسانی ارتقا سے ارتباط کافطری ترتیب میں منظم استدلال ہے۔
اردو ایک الگ زبان ہے اور اس کو عربی یا کسی بھی زبان کے زیرِ اثر یا تسلط دیکھنا یا ثابت کرنا درست نہ ہوگا۔اکثر علمائے لسانیات کی یہ رائے منطقی بنیادوں پر استوار نظر آتی ہے۔دخیل الفاظ کے مباحث میں اردو کی خود مختار حیثیت کا سوال بھی اٹھتا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح اردو نے سنسکرت ،عربی ،فارسی،ترکی اور انگریزی سب سے اس نے کچھ نہ کچھ حاصل کیا لیکن حاکمیت اپنی رکھی۔ان کا خیا ل ہے کہ زبانیں بدلتی ہیں ،تغیر ا س کی فطرت کا حصہ ہے ،تاہم اردو ایک الگ زبان ہے اور یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔اردو نے اپنی لغت ،اپنا اسلوب،صرفی و نحوی قاعدہ اور جمع ،تذکیر و تانیث کے الگ اصول بنا کر فصاحت و بلاغت اور حسن و اثر کا معیار متعین کیا۔ جو الفاظ اردو نے دوسری زبانوں سے لیے ہیں ان کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ پوری آزادی اور خود مختاری کے ساتھ دیکھا ، بھالا ،جانچا اور پرکھاہے۔جواس کے مزاج کے موافق تھے انھیں جیسے تھے ویسے ہی رہنے دیااور جو مزاج کے خلاف تھے انھیں بے دھڑک کاٹا ،پیٹا،چھانا،گھس گھسایا اور چھیل کر اپنی پسند کا بنالیا ۔کانٹ چھانٹ اور تبدیلی و تصرف کا یہ عمل جیسے اردو یا مؤرد کہنا چاہیے ،حروفِ تہجی کی آوازوں ،الفاظ کے تلفظ ،ان کے معنی اور املا ہر شعبے میں ہواہے۔اردو کسی زبان کے بطن یا کسی خاص مذہب و قوم کے جبر و اثر سے وجود میں نہیں آئی ،بلکہ معاشرتی ضرورتوں نے اسے جنم دیا
شان الحق حقی بھی ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے متفق نظر آتے ہیں کہ اردو اپنے لب ولہجہ ،رکھ رکھاؤ ،روزمرہ و محاورہ ،انداز بیاں، موضوع و مواداور مختلف الفاظ کے استعمال و ایجاد کے لحاظ سے ایک علیحدہ زبان ہے اور مخلوط و مشترک زبان ہونے کے باوجود کسی زبان کی مقلداور تابع نہیں،اردو میں عربی،فارسی ،سنسکرت کے سینکڑوں الفاظ ایسے ہیں جو اپنے اصل تلفظ کے بر عکس ہیں۔عبدالستار دلوی کی بھی یہی رائے تھی کہ ہماری یہ کوشش کہ ہم اردو ،عربی و فارسی صوتیات ہی کے مطابق بولیں ،لسانی اعتبار سے صحیح نہیں ، وہ لوگ جو اردو کے طرز میں بولتے ہیں وہ کسی طرح لائقِ مذاق نہ بننے چاہئىں۔
رشید حسن خاں کا خیال تھا کہ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ عربی و فارسی الفاظ کا تلفظ بس اسی طرح صحیح جس طرح ان زبانوں کے لغات میں محفوظ ہے تو یہ سمجھا جائے گا یا سمجھنا چاہیے کہ یہ شخص اردو کو کوئی مستقل زبان نہیں سمجھتا،اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے تلفظ کے وہ سارے تغیرات لازماً قابلِ قبول ہیں جو کسی بھی شخص کی گفتگو میں نمایا ںہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص کو ز بان کے اعتبار اور لغت کے استناد کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے خیال میں اردو نے عربی و فارسی میں پہلے ہی سے تغیر و تصرف جاری رکھا ہو ا،جیسے زات اور زرا .بعض علما کا خیال ہے کہ یہ ان معنوں میں بالکل عربی کے نہیں،اس لیے ز سے لکھے جائیں۔ کیا املا کے تعین میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا املا کیا ہے؟اس طرح دخیل الفاظ کے تصرف اور تارید کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔لچھمن کو لکشنڑ اور ماچس کو میچ باکس لکھنا ہوگا۔غیر زبان کا کوئی لفظ اردو میں جس طرح مستعمل و مقبول ہوگیا وہی اردو ہے،سیاسی اور لسانی ضرورتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ان کا خیال ہے کہ اردو میں دخیل الفاظ کی جو املائی شکلیں رائج ہوچکی ہیں ،انھیں اسی طور پر قبول کیا جائے اور ان کی اصل سے قربت پر اصرار نہ کیا جائے،تمیز ،تمیّز تھا اور جَد و جہد کو جِد و جُہد نہ لکھا جائے۔ تاہم ڈاکٹر شیر محمد زمان کا خیال تھا کہ اصل لفظ جِد و جُہد ہے ،اور اس کو اختیا رکرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس سلسلے میں غازی علم الدین کی اس رائے سے تو اتفاق کیاجا سکتا ہے کہ الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہوتے وقت اپنے اصل معانی و مفاہیم بدل لیتے ہیں۔اس کا سبب لسانی انجذاب ،قوموں کا اختلاط ،طرزِ معاشرت ،ثقافتوں اور موسموں کا اختلاف ہوسکتا ہے۔یہی صورتِ حال بہت سے عربی الفاظ کی ہے جو اردو میں استعمال ہوتے وقت اپنے بنیادی معانی بدل لیتے ہیں۔اردو نے اپنے دامن کی وسعت اور کشادگی کا ثبوت دیتے ہوئے علمی،ادبی ،معاشرتی ،ثقافتی ،اصطلاحی اور فنی موضوعات پر عربی کے خوبصورت الفاظ و تراکیب کو اپنے اندر سمولیا ہے۔جزوی تبدیلیوں کے ساتھ مزید الفاظ و تراکیب کی آمدکا ہمیشہ امکان رہے گا۔خصوصی حالات میں یہ عمل اور بھی نمایاں ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ بات کہ ’’البتہ احتیاط ،پاس اور لحاظ ملحوظ رکھنا ہوگا کیونکہ اس جزوی تبدیلی سے تشکیل پانے والا لفظ مادے (Root)کے اعتبار سے اصل عربی لفظ سے متصادم و مخالف نہ ہو۔‘‘،کلی طور قبول نہیں کی جاسکتی۔
اردو املا کا ایک اہم ’’مسئلہ ہائے مختفی‘‘ اور ’’الف مقصورہ‘‘ کے استعمال کا بھی ہے۔رشید حسن خاں نے اپنی کتاب اردو املا ،میں ہائے مختفی اور الف مقصورہ کے متعلق جو مباحث رکھے ہیں،اہم علمائے املا جیسے حفیظ الرحمان واصف ،،گوپی چند نارنگ ،، ابو محمد سحر،و دیگرنے ان سے اختلاف کیا ہے۔ الف اور ہائے مختفی کے حوالے سے اختلا ف کا پہلو بہر حال موجود ہے، اگرچہ اس حوالے سے جزوی اشتراکات واتفاقات بھی ملتے ہیں تاہم اکثر کی رائے یہ ہے کہ عربی ،فارسی الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی اور دیگر زبانوں کے الفاظ میں ا لف لکھا جائے جیسے: اڈا،تانگا، روپیا،باجا،وغیرہ۔مقتدرہ قومی زبان، اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ چلن،روایت اور استعمال کے حق میں ہیں۔ فضائل خان کی تجویز اور جہانگیر کے حکم، سے لے کر دیبی پرشاد،احسن مارہروی،عبدالستار صدیقی، رشید حسن خاں،گوپی چند نارنگ اور ادب و لسانیات کی تحقیق و ترقی سے وابستہ اداروں تک ؛عمومی خیال یہی ہے کہ ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ا آئے گا نہ کہ ہائے مختفی۔اس سلسلے میں رشید حسن خاں کا استدلال ہے کہ عربی و فارسی کے وہ الفاظ بھی الفکے ساتھ لکھے جائیں جواب ان زبانوں میں اس طرح نہیں لکھے جاتے ، علاوہ ازیں اردو عربی اور اردو فارسی مرکب الفاظ بھی الف سے لکھے جائیں۔شہروں کے ناموں کے حوالے سے عمومی اتفاق یہی ہے کہ وہ ہائے مختفی کے ساتھ لکھے جائیں،البتہ بعض علما کا خیا ل ہے کہ وہ بھی اکے ساتھ ہی لکھے جائیں۔ رشید حسن خاں غیر معروف شہروں کے ناموں کو اکے ساتھ لکھنے کی سفارش بھی کرتے ہیں۔مقتدرہ قومی زبان اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،التباس سے بچنے کے لیے ہندی الاصل الفاظ کو ا سے لکھنے کے حق میں ہیں،جبکہ تصرف شدہ الفاظ کو دونوں طرح لکھنے کی سفارش کرتے ہیں۔
حفیظ الرحمان واصف اور گوپی چند نارنگ ہائے مختفی کے استعمال کے حق میں ہیں،جب کہ حفیظ الرحمان واصف اور شمس الرحمان فاروقی دونوں اردو میں ہ ہائے مختفی کے وجود کےبھی قائل ہیں اور اس کی پر زور دلالت کرتے ہیں۔ الف ممدودہ کے حوالے سے عمومی اتفاق کا پہلو سامنے آتا ہے ۔ علمائے املا اور ادب و لسانیات کی تحقیق و ترقی سے وابستہ ادارے اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جن الفاظ میں آکا استعمال ہوتا تھا مگر مرورِ زمانہ یا تغیر ات کی وجہ سے اب ان میں آ نہیں رہا ان کو اس کے بغیر لکھا جائے،جیسے خوشامد،برفاب،جب کہ جن میں آموجود ہے،ان میں آضرور لکھا جائے،جیسے جہاں آرا،دلآرام،دوآبہ وغیرہ۔
الف مقصورہ کے استعمال اور عدم استعمال کے حوالے سے کافی اختلاف موجود ہے۔عبدالستار صدیقی ،عربی مہینوں اور بعض الفاظ میں اس کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں تاہم وہ الف مقصور ہ کے حق میں نہیں۔ان کی بھر پور تائید رشید حسن خاں نے کی ہے ،وہ صرف عربی آیت یا حدیث کے حوالوں کی صورت میں الف مقصورہ کے قائل ہیں علاوہ ازیں وہ الف مقصورہ کو مکمل طور الف میں تبدیل کرنے کے حق میں ہیں۔مقتدر ہ قومی زبان،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور دیگر اہم علماچلن اورروایت کے حق میں بھی ہیں لیکن ان میں بھی جزوی اختلاف کا عنصر موجود ہے۔
حفیظ الرحمان واصف، رشید حسن خاں کی اس منطق(عربی ،فارسی تراکیب کی تقسیم بندی اور الگ الگ معیارات ِ املا) پر تنقیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ وہ عربی ترکیب ہے اور یہ فارسی،اگر پہلے کا مروجہ املا آپ کے نزدیک دماغی پراگندگی کا سبب تھا تو یہ انقلاب پہلے سے زیادہ پراگندگی کا موجب ہوگا اور بہت سی خرابیوں کا سبب بنے گا؛مثلاً ایک ادار ے کا تاریخی نام دارلہدیٰ الوعظ ہے اس کے اعداد،۱۲۶۸،ہیں،یہ اس کا سالِ تعمیر ہے،مؤ رخ کا قلم جو ا س نئے انقلاب کا خوگر ہوجائے گا اپنی تحریر میں اعلا،ادنا،مصطفا وغیرہ لکھے گادارلہدا لکھ دے گا اور مادہ ٔ تاریخ غلط ہوجائے گا۔،مسجدِ اقصیٰ،من و سلویٰ ،دمِ عیسیٰ ،عصائے موسیٰ ،علی مرتضیٰ وغیرہ ان الفاظ کے ساتھ جو روایات وابستہ ہیں ،ا ن کو ادب و تاریخ کے صفحات سے محو نہیں کیا جاسکتااور بغیر ان روایات کے معانی و مواقع ِاستعما ل ہی سمجھ میں نہیں آسکتے،ان مٹ روایات میں سے ان کا یہ املا بھی ہے کہ آخر میں الف بشکل ِ(یٰ)لکھا جاتا ہے۔متقدمین نے اشتباہ اورالتباس سے بچنے کے لیے بعض الفاظ میں استثنا دیا تھا ،یعنی الف مقصورہ کو سیدھے الف سے لکھنا پسند کیا،مدعیٰ ،مجلیٰ ،منتہیٰ ،منادیٰ وغیرہ۔
مصلیٰ(اسمِ ظرف)مصلی اسمِ فاعل امتیاز کے لیے اسمِ مفعول کو الف سے لکھا۔
مدعیٰادعا کا اسمِ مفعولاسمِ فاعل ہے مدعینیز مقتدیٰ،مقتضیٰ،مولیٰ،مجلّٰی وغیرہ،
تقاضا،تماشا،تمنا،تبرا،تولا،تجلا؛ان میں تو الفِ مقصورہ نہیں تھا،تلافی اور تسلی کے وزن پر تھے ،ایرانیوں نے یکو الف سے بدل دیا ۔اردو میں کثیرالاستعمال ہیں اور الف سے ٹھیک ہیں۔مندرجہ بالا الف کا استثنا معقول وجوہ کی بنا پر تھا ،من کل الوجوہ ایرانی کاروائیوں کی پیروی ہم پر فرض نہیں۔تقویٰ،عیسیٰ،موسیٰ،دعویٰ اردو میں بہ یائے معروف نہیں بولے جاتے ، ان کا تسلی وتشفی کے ساتھ قافیہ باندھنا محض ادبِ فارسی کی تقلید ہے ،فصحائے اردو کا ذوق اس کو قبول نہیں کرتا۔لفظ متوفیٰ کو سیدھے الف سے لکھنا چاہیے ، یہ تبدیلی پسند آئی،اولیٰ کو اگر الف سے اولا لکھا جائے تو اس میں اور اولا بمعنی ژالہ میں اور اسی طرح ماویٰ کو اگر الف سے لکھا جاسکتا ہے تو اس میں اور ماویٰ بمعنی کھویا میں مابہ الامتیاز کیا ہوگا؟
اضافت کی صورت میں چونکہ ایک (یے)کا اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے (یٰ)کو الف کی شکل دی جاتی ہے تاکہ دو( ے) کا اجتماع نہ ہو،دعوائے وفا،لیلائے شب۔یہ ایک ضرورت تھی اس کو دلیل بنا کر اصل وضع و ہیئت تبدیل نہیں کی جائے گی۔فاضل مصنف نے بعض ایسے الفاظ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو عربی ترکیب میں استعمال ہوتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے الفاظ سے اجتناب کیا جائے،مثلاً علی الحساب،علی الصباح ،علی الترتیب ،علی الاعلان،حتی الامکان،حتی المقدور وغیرہ۔شاید یہ ذہن میں نہیں رہا کہ علی الحساب کا لفظ تو ان پڑھ عوام اور بنیے بھی بولتے ہیں،اس کو قاعدے سے مستثنیٰ کیوں کیا گیا ؟ایسے ہی بقیہ الفاظ بھی رائج ہیں،ان الفاظ میں (یٰ)لکھنے کی اجازت دی گئی ہے،لیکن تعالیٰ ،مصطفی وغیرہ کو مسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
’’املا نامہ ‘‘کے پہلے ایڈیشن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا خیال تھا کہ عربی کا الف مقصورہ اردو میں نہ کھپ سکا اس لیے اکثر استعمال ہونے والے الفاظ ارد و کے قاعدے سے لکھے جائیں،مثلاً علٰحیدہ، علاحدہ،زکوٰة،زکات وغیرہ۔البتہ عربی ،فارسی مثال یا ترکیب یا مصرع جس کی مثال اقتباس یامقولے کی ہو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ تاہم دوسرے ایڈیشن میں انھوں نے زکوٰة،مشکوٰة وغیرہ کو برقرار رکھنے کی سفارش کی ۔ ہم جسے اصلاح کہتے ہیں وہ کبھی کھبی تخریب بن جاتی ہے،جیسے صلوٰة کوصلات لکھنا۔
شمس الرحمان فاروقی کے خیال میں عربی کے الف مقصورہ کوسیدھے الف میں بدل لینے کا رجحان اردو ،فارسی میں ایک عرصے تک رہا ،اب بہت کم ہوگیا ہے کہ اردو میں اب رجحان اس کے خلاف ہے۔،دعوا(دعویٰ)اعلا(اعلیٰ)استعفا(استعفیٰ)وغیرہ مقبول نہیں ہوئے۔مطبعِ مجتبائی اور مطبع ِ مصطفائی ان مطبعوں کے مالکان نے آپ ﷺکی ذات سے التباس زائل کرنے کے لیے ایسا لکھا ہے۔جو رائج ہوا وہ انسب ہے،رجحان،زکا ت ،صلات وغیر ہ درست بتایا جاتاہے۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ لکھتے ہیں کہ وہ(رشید حسن خاں) عیسیٰ ،موسیٰ کو الف مقصورہ سے لکھنے کی بات کرتے ہیں ، ان کے ہاں اس کی دلیل یہ ہے کہ جیسے بولو ویسے لکھو،اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو اردو املا ایک زبردست بحران میں مبتلا ہوجائے گا کیونکہ ہم عربی کے بہت سارے الفاظ ایک ہی طرح بولتے ہیں جیسے ز،ذ،ض اور ظ :ان سب کا تلفظ ایک ہی طرح کیا جاتا ہے اگر جیسا بولو ویسے لکھو کے تحت تمام املا کا کام زسے لیا جائے ،جن میں ص،ز اور ذہیں تو اردو کا کیا حشر ہوگا؟موسیٰ ،عیسیٰ لکھنے کے لیے انھوں نے کوئی عقلی دلیل دی ہے نہ اصول اور استثنا کا سبب۔اردو میں عربی کے مروج کئی الفاظ و تراکیب کا املا اگر الف مقصورہ کے بغیر کیا جائے تو کیاحشر ہوگا جیسے عظمیٰ،کبریٰ ، وسطیٰ حتیٰ ،قیامتِ صغریٰ ، عید الالضحیٰ، خیرالوریٰ ،مسجدِ اقصیٰ ،شمس الہدیٰ ،کشف الدجیٰ،نور علیٰ نور وغیرہ،دراصل ہم بسم اللہ کے گنبد میں بند ہیں اور کسی لفظ کو کسی خاص انداز میں لکھ کر سمجھتے ہیں کہ دانش وری کا حق ادا ہوگیا ، کیونکہ ہم تو ہىں ہی درست باقی لوگوں کو چاہیے کہ اپنا املا اور دماغ دونوں درست کرلیں ۔گو اس قسم کا تکبر علمیت کی ضد ہے ، رہے قاری او ر رہی بے چاری اردو تو ہمیں ان سے کیا ،ہمیں تو اپنی دھاک بٹھانی ہے اور دھاک اصول اور دلیل سے نہیں بیٹھتی ،نرالے سے بیٹھتی ہے۔
رفیع الدین ہاشمی بھی اعلی کو اعلا لکھتے ہیں۔
اردو میں الف مقصورہ کے استعمال کے حوالے سے غازی علم الدین کی گزارشات فکر انگیز ہیں،یائے معروف (ی)پر الف مقصورہ کے نہ پڑھنے سے تبدیلی ِ معانی کے ضمن میں علمی دلائل دیتے ہیں۔ اردو میں مستعمل عربی کے ایسے اسماء (فاعل) بھی ہیں ،جن کے آخر میں یائے معروف (ی)پر اگر الف مقصورہ یعنی کھڑی زبرڈال دی جائے تو وہ فاعل سے مفعول بن جاتے ہیں ،اردو بولنے والے اکثر لوگ اس مفعول کے الف مقصورہ کا خیال نہیں کرتے،جس سے مفعول کی بجائے فاعل کے معنی بن جاتے ہیں۔
(تذکیر)مغوی:اغوا کرنے والا، مغویٰ :جسے اغوا کیا گیا، متوفی :وفات دینے والا، متوفیٰ :جوفوت ہوا-
مسمی:نام رکھنے والا،مسمیٰ:جس کا نام رکھا گیا (تانیث)مغویہ :اغواکرنے والی،مغوات:جسے اغوا کیا گیا، متوفیہ :وفات دینے والی،متوفات:وفات شدہمسمیہ :نام رکھنے والی،مسمات:جس کو نام دیا گیا،-
ضميمہ
یہ بہت دلچسپ بحث ہے اور اس پر جناب عبدالستار صدیقی، جناب رشید حسن خان اور جناب گوپی چند نارنگ جیسے (میں یہ تین نام مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں) زبان دانوں نے سیر حاصل بحث بھی کی ہے۔ پھر ترقی اردو بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان نے اس پر اہم سفارشات کو شائع بھی کیا ہے۔
جب تک یہ زبان زندہ رہے گئی، یہ مباحث جاری رہیں گے اور جاری رہنے بھی چاہیں کہ یہی تو زبان کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔میں احباب کی توجہ اردو حروف تہجی کی جانب مبذول کروانے کی جسارت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تائے مربوطہ 'ة' اردہ حرف تہجی کا حصہ ہی نہیں تو عربی لفظ 'الزكاة' کو اردو میں تائے مفتوحہ (تائے دراز) 'ت' کے ساتھ لکھنے کے علاوہ اسکی املا اور کیا طریقہ ہے؟ اردو میں اسکی املا 'زکوة' کا جواز کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ کوئی صاحب کہیں کہ ہم 'ة' کو اردو حروف تہجی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ شروع کر دیا جائے تو اردو کے سٹینڈرڈ کی بورڈ پر اسکے لیے کوئی 'کی' بھی مختص کرنا پڑے گی۔ پھر اللہ کو لکھنے کے لیے ہائے ملفوظ کی عربی شکل بھی الگ 'کی' کی متقاضی ہو گی اور اسطرح اردو کی بورڈ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس مسلے پر جناب عطش درانی صاحب نے بہت اہم کام کیا ہے اور ان کا یہ فقرہ کہ 'اردو اب تکنیکی گھاٹ چڑھ چکی ہے'، صورتحال کی نزاکت کو واضح کرتا ہے۔