حضرت عائشہؓ بچپن ہی سے بے حد ذہین اور عقلمند تھیں ۔ بچپن میں ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کی گڑیوں میں ایک پروں والاگھوڑا بھی تھا ۔ نبیﷺ نے پوچھا عائشہ یہ کیا ، انہوں نے عرض کیا کہ حضور یہ گھوڑاہے ۔آپ نے فرمایا گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے برجستہ جواب دیا، پر کیوں نہیں ہوتے ؟آپ ؐ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمانؑ کا گھوڑا پروں والا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہؓ کا یہ جواب سن کر بے ساختہ مسکرا پڑے ۔
٭٭٭
رسول اللہ ﷺ اپنی تمام ازواج کے ساتھ کھانے پینے اور مکان وملاقات میں یکساں سلوک فرماتے تھے مگر دلی رحجان حضرت عائشہؓ کی طرف کچھ زیادہ تھا۔ مسند ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے یا اللہ یوں تو میں سب بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہوں مگر دل میرے اختیار میں نہیں ہے ۔وہ عائشہ ؓ کو زیادہ محبوب رکھتا ہے اے اللہ ! مجھے اس معاملے میں معاف فرمانا ۔ادھر حضرت عائشہ ؓ بھی نبیؐ پر جان چھڑکتی تھیں اور آپ سے بے حد محبت کرتی تھیں ۔ ارباب سیر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ منہ دھو رہی تھیں کہ نبی ؐ ان کے پاس سے گزرے حضرت عائشہؓ نے محبت سے پانی کا چھینٹا حضورؐ پر دے مارا ، رسول اللہﷺ نے بھی فورا چلو بھر کر حضرت عائشہؓ پر پھینکا پھر دونوں مسکرانے لگے ، آپ نے ارشاد فرمایا دیکھو عائشہ ؓ میں نے زیادتی نہیں کی بدلہ لیا ہے اور بدلہ کا قرآن میں حکم موجود ہے ۔
٭٭٭
ایک دن رسول اللہﷺ غسل فرما کر اٹھے تو حضرت عائشہ نے حضورؐ کے گیلے جسم پر محبت سے جو کا آٹا مل دیا اور ہنسنے لگیں ۔ آپ نے پوچھا عائشہؓ یہ کیا؟ صدیقہؓ ہنستے ہوئے بولیں حضور ؐ خود ہی تو فرمایا تھا کہ جو کا آٹا ملنے سے جسم صاف ہو جاتا ہے ۔ حضور ﷺ حضرت عائشہؓ کا جواب سن کر مسکرانے لگے اور دوبارہ غسل فرما کر جسم صاف کر لیا ۔
٭٭٭
حدیث میں آتا ہے کہ اگر کسی بات پر ام المومنین حضرت عائشہؓ آپ ؐ کے ساتھ خفا ہو جاتیں اور بولنا ترک کر دیتیں تو حضور خود انہیں بلاتے اور ان کو خوش کرنے کے لیے فرماتے تکلموا یا حمیرۃ تکلموا یا حمیرۃ ۔ اے حمیرا بولو ، اے حمیرا بات تو کرو ۔ حضور کے ارشاد پر حضرت عائشہؒ مسکرانے لگتیں ۔ ایک دفعہ کسی بات پر حضرت عائشہ ؓ کچھ ناراض سی ہو کر ایک طرف منہ کر کے بیٹھ گئیں اسی اثنا میں کسی نے کچھ کھجوریں آپؐ کی خدمت میں بھیجیں ، رسول اللہﷺ نے کھجوریں اٹھاکر حضرت عائشہؓ کے آگے رکھ دیں اور ارشاد فرمایا ، اے حمیرا اللہ کا نام لیکر کھاؤ ۔ حضرت عائشہؓ جلدی سے بولیں تو کیا پہلے میں اپنے باپ کا نام لے کر کھاتی ہوں حضرت عائشہؓ کا جواب سن کر رسول اللہ ﷺ دیر تک ہنستے رہے ۔
٭٭٭
ایک روز حضورﷺ اپنی ازواج مطہراتؓ کے ساتھ ایک حجرہ میں تشریف فرما تھے ۔ کسی بات پر امہات المومنین زور زور سے گفتگو کر رہی تھیں او رہنس رہی تھیں ۔ خود نبی ؐ بھی اس محفل میں شریک تھے کہ اسی اثنا میں حضرت عمرؓ تشریف لے آئے ۔ تمام ازواج مطہراتؓ ایک دم خاموش ہو گئیں ( جیسے کوئی یہاں ہے ہی نہیں ) آپ ؐ نے ایک دم بدلی ہوئی حالت دیکھی تو ہنس پڑے ۔ حضرت عمرؓ نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا :‘‘ عمرؓ! یہ تم سے بہت ڈرتی ہیں۔ ابھی تمہاری آمد سے پہلے یہ خوب ہنس کھیل رہی تھیں اور اب دیکھو جیسے ان میں سے کسی کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے ۔’’ (بخاری)
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ حضور سے کسی بات پر ناراض ہو گئیں اور غصے میں آکر ذرا اونچی آواز میں آپؐ سے بات کرنے لگیں ۔ اسی اثنا میں حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی ملاقات کے لیے تشریف لے آئے ۔ جب آپؓ نے اپنی بیٹی کو آپؐ سے یوں مخاطب دیکھا تو غصہ سے بے تاب ہو گئے اور یہ فرماتے ہوئے تھپڑ مارنے کو آگے بڑھے کہ تم رسول اللہ ﷺ سے اس لہجہ میں بات کرتی ہو ۔ حضور نے جب حضرت ابو بکر ؓ کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو جلدی سے اٹھ کر درمیان میں آگئے اور حضرت عائشہؓ کو بچا لیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ طیش میں بھرے ہوئے واپس لوٹ گئے تو نبی ؐ نے مسکرا کر چھیڑنے کی غرض سے فرمایا : ‘‘ کیوں عائشہ ؓ! بچا لیا نا، ورنہ دماغ ٹھکانے آجاتا ۔’’ حضرت عائشہؓ بھی زیر لب مسکرا کر شرمندہ سی ہو گئیں ۔
٭٭٭
ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد جس خاتون کو رحمت عالمؐ کے عقد نکاح میں آنے کا شرف نصیب ہوا وہ حضرت سودہ ؓ تھیں ان کا پہلا نکاح حضرت سکران ؓ سے ہوا تھا ۔ زرقانی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت سودہؓ نے اپنے پہلے شوہر حضرت سکرانؓ کی زندگی میں ایک حسین خواب دیکھا کہ تکیہ کے سہارے لیٹی ہوئی ہیں کیا دیکھتی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گر پڑا ۔ حضرت سودہؓ نے یہ خواب حضرت سکرانؓ سے بیان کیا تو وہ فرمانے لگے اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں عنقریب فوت ہو جاؤں گا اور تم عرب کے چاندکے نکاح میں آؤ گی۔ پھر جب ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے وفات پائی تو نبی ؐ انتہائی پریشان وغمگین رہنے لگے ، گھر کا سارا بوجھ آپ پر آگیا ۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے عرض کیا حضورؐ کو ایک مونس ورفیق کی ضرورت ہے ۔ نبی ؐ نے فرمایا ہاں گھر اور بچوں کی دیکھ بھال سب خدیجہؓ کے متعلق تھی انہوں نے عرض کیا اگر اجازت ہو تو آپ ؐ کے نکاح ثانی کے لیے کوشش کروں ، آپ نے اسے منظور فرما لیا ۔ حضرت خولہؓ نے حضرت سودہؓ کے والد سے بات کی تو انہوں نے کہا میں سودہؓ سے مشورہ کر لوں ۔ حضرت سودہؓ کے والد نے اپنی بیٹی کا نکاح حضور سے چار سو درہم مہر پر خود پڑھا دیا ۔ حضرت سودہؓ کو اللہ تعالی نے حسن ظرافت سے بہت نوازا تھا جس سے بعض دفعہ اللہ کے رسول بہت محظوظ ہوتے ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت سودہؓ بعض دفعہ جان بوجھ کر ڈھینگے پن سے چلتیں تو رسول اللہ ﷺ حضرت سودہؓ کی یہ چال دیکھ کر مسکرا پڑتے ۔ ایک دفعہ رات کو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے تو حضرت سودہؓ بھی ساتھ کھڑی ہو گئیں ۔قیام کے بعد آپ رکوع میں گئے تو بڑی دیر تک حضور رکوع میں رہے ، صبح ہوئی تو ام المومنین حضرت سودہؓ عرض کرنے لگیں حضورؐ رات کو آپ نے اتنا لمبا رکوع کیا کہ مجھے تو اپنی نکسیر پھوٹنے کا اندیشہ ہو گیا ۔ میں تو بہت دیر تک اپنی ناک سہلاتی رہی ۔ آپ ؐ حضرت سودہؓ کی یہ باتیں سن کر اتنے محظوظ ہوئے کہ بے ساختہ مسکرا دیے ۔
٭٭٭
حضرت عامر بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد سعدؓ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے دن اتنا ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ۔ عامرؓ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے بزرگ والد) سے پوچھا کہ آپؐ کس بات پر ہنسے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ واقعہ یہ ہوا کہ ایک کافر ڈھال لیے ہوئے تھا اور سعدؓ اگرچہ بڑے تجربہ کار تیر انداز تھے لیکن وہ کافر (تیر آتے وقت اپنی ) ڈھال کو ادھر ادھر کر لیتا جس سے وہ اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا۔ حضرت سعدؓ نے ایک مرتبہ تیر نکالا اور اس کو کمان میں کھینچ کر (موقع کی تلاش میں رہے ) جب اس نے ڈھال سر سے اٹھائی تو آپؓ نے ایسے نشانے کے ساتھ کھینچ کر تیر اس کی پیشانی پر مارا کہ لگتے ہی وہ مر گیا اور ایسا گرا کہ ٹانگ بھی اوپر کو اٹھ گئی ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( یہ دیکھ کر ) ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ۔
٭٭٭ 9 ہجری کا ذکر ہے کہ ایک قافلہ شام سے مدینہ طیبہ آیا انہوں نے آکر خبر دی کہ قیصر کی فوجیں مدینے پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے خیال فرمایا کہ حملہ آور فوج کی مدافعت عرب کی سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے کر لی جائے تو بہتر ہو گا اس بنا پر آپ ؐ نے صحابہؓ کو تیاری کا حکم دیا ۔ اہل ایمان کے لیے یہ بڑا امتحان کا وقت تھا ۔ دور دراز کا سفر اور گرمی بھی پورے زوروں پر تھی ۔ پھل پک چکے تھے اور یہ سایہ میں بیٹھنے ، پھل توڑنے اور سال بھر کے لیے جمع کرنے کے دن تھے مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر 30,000 جانثاروں کا لشکر ضروری تیاری کے بعد سرور عالم ؐ کی قیادت میں تبوک روانہ ہوا ۔ اس طویل ترین سفر میں صحابہ کے پاس سواریاں بہت کم تھیں ۔اٹھارہ اشخاص کو ایک اونٹ میسر تھا ۔خوراک کی قلت کی وجہ سے صحابہ نے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا ۔ پتے کھانے سے صحابہ کے ہونٹ سوج گئے تھے ۔آخر سفر کی مشکلات برداشت کرتا ہوا یہ لشکر جلیل تبوک پہنچ گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے ایک خیمہ لگوایا جو بہت چھوٹا سا تھا ۔ایک دن ایک جانثار حاضر خدمت ہوا حضور نے دیکھا تو آواز دی کہ اندر آجاؤ ۔ آپؐ کا ارشاد سن کر یہ خوش خلق صحابیؓ بولے اللہ کے رسول ؐ کیا پورا اندر آجاؤں؟جانثار کا یہ جملہ سن کر آپؐ بے ساختہ مسکرا دیے ( صحابی کے اس جملہ میں لطیف تعریض یہ تھی کہ خیمہ تو چھوٹا سا ہے اور آپؐ مجھے اندر بلا رہے ہیں ) ۔
٭٭٭
ایک دن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک انصاری جانثار سعد بن عبادہؓ کی ملاقات کے لیے ان کے مکان پر تشریف لے گئے ۔ہادی برحق کا معمول یہ تھا کہ بغیر اجازت آپؐ کسی کے گھر داخل نہ ہوتے ۔ چنانچہ آپ نے دروازے پر کھڑے ہو کر گھر والوں کو کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔ حضرت سعدؓ نے آپؐ کا سلام سن کر آہستہ سے جواب دیا وعلیکم السلام ۔ یہ آواز حضور کی سماعت تک نہ پہنچی ۔ رسول ؐ نے دوبارہ فرمایا السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔ اس دفعہ بھی حضرت سعد ؓ نے آہستہ آواز میں جواب دیا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔یہ آواز بھی جناب کے کان مبارک تک نہ پہنچ سکی ۔ پھر آپؐ نے تیسری دفعہ بلند آواز سے کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ حضرت سعد ؓ نے پھر آہستہ سے جواب دیا، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔اس بار بھی حضرت سعدؓ نے آواز کو پست رکھا جنابؐ نے خیال فرمایاکہ شاید سعدؓ گھر پر نہیں یا کسی وجہ سے مجھے اجازت دینے میں متامل ہیں۔ جناب کا معمول تھا کہ اگر تین دفعہ پکارنے پر بھی صاحب خانہ اجازت نہ دیتے تو حضورؐ واپس تشریف لے آتے ۔ابھی رحمت عالمؐ واپس مڑے ہی تھے کہ حضرت سعدؓ جلدی سے مکان سے باہر نکلے اور عرض کی حضورؐ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں تشریف لائیے۔ میں آپؐ کا سلام سن رہا تھا اور آپؐ کے سلام کا جواب بھی آہستہ سے دے رہا تھا۔ غرض یہ تھی کہ آپ ؐ زیادہ سے زیادہ ہم پر سلام کریں ۔تاکہ ہمیں آپ کی قیمتی دعا زیاد ہ بار ملے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانثار کا یہ جذبہ دیکھ کر مسکرا دیے اور ؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے ۔
٭٭٭
حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے گھر کے درودیوار پر اسلام کو سایہ فگن دیکھا چھوٹی عمر میں ہی دین سے بہت لگاؤ تھا ۔ آپؓ کو رسول اللہﷺ سے ، اسلام سے اور مسجد سے بے حد محبت تھی ۔ آپ حضور کے ساتھ باجماعت نماز پڑھتے اور ممبر کے پاس بیٹھ کر آپؐ کے ارشادات سنتے ۔ان خوبیوں کی وجہ سے رحمت عالمؐ بھی ان سے بہت شفقت فرماتے۔ ایک دفعہ طائف سے انگور آئے تو آپؐ نے بڑی محبت سے ان کو بلاکر انگوروں کے دو خوشے عطا فرمائے اور فرمایا بیٹا یہ ایک تمہارا ہے اور ایک تمہاری والدہ کا ۔گھر جاکر والدہ کو یہ دے دینا ، حضورؐ کے یہ ننھے صحابی ؓ حضور کا یہ تحفہ لیکر چلے تو اپنا حصہ راستے میں ہی کھا لیا ۔ مزہ آیا تو اپنی والدہ کا حصہ بھی راہ میں ہی ہضم کر گئے ۔ کچھ دن بعد حضور نے پوچھا کہ کیوں بیٹا انگوروں کا خوشہ اپنی والدہ کو دے دیا تھا ۔ انہوں نے سچ سچ کہہ دیا اللہ کے رسول ؐ نہیں ،انگور بڑے مزیدار تھے وہ تو سارے میں خود ہی راستہ میں کھا گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے بڑی شفقت سے ان کا کان پکڑا اور فرمایا: بڑے مکار ہو اپنی والدہ کا حصہ بھی چٹ کر گئے ۔ ارباب سیر نے لکھا ہے رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت حضرت نعمان بن بشیرؓ کی عمر 8 سال 7 ماہ کے قریب تھی ۔
٭٭٭
عہد رسالت کے ایک مقدس دن کا ذکر ہے کہ ایک دن رحمت عالمؐ نے یہ اعلان فرمایا : ‘‘اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی جنتی عورت سے نکاح کرے تو اس کو چاہیے ام ایمنؓ سے نکاح کر لے ۔’’ یہ محترمہ خاتون جن کو رسولؐ نے جنت کی بشارت سنائی ۔ حضور کے والد کے ساتھ کنیزہ کے طور پر رہتی تھیں اورحضرت آمنہ کی خدمت کرتی تھیں ۔ سید البشرؐ کی ولادت باسعادت کے وقت حضرت آمنہ کی خبر گیری اور خدمت پر معمور تھیں ۔ نبی ؐ انہیں امی امی کہہ کر پکارا کرتے تھے اور بہت شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ اور کبھی کبھی ان کی دلجوئی کے لیے بڑا لطیف پاکیزہ مزاح بھی فرماتے تھے ۔ حضرت ام ایمنؓ کو سبقت فی الاسلام کی سعادت بھی نصیب تھی ۔ جب آپ نے لوگوں کو ان سے نکاح کرنے کی رغبت دلائی تب یہ بیوگی کا زمانہ گزار رہی تھیں ۔ حضور کے متبنی بیٹے حضرت زید بن حارثہ ؓ نے جب آپؐ کی زبان اقدس سے اس معزز خاتون کے جنتی ہونے کی بشارت سنی تو ان سے نکاح کر لیا ۔ انہی کے بطن سے محبوب رسول حضرت اسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے ۔ ایک دن یہ بزرگ خاتون حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضور فورا امی امی کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے ۔ بڑے ادب سے بٹھایا پھر بے حد پیار سے پوچھا، کیسے تشریف آوری ہوئی ۔ حضرت ام ایمن نے عرض کیا ، مجھے ایک اونٹ کی ضرورت ہے اس غرض سے حاضر ہوئی ہوں ۔ حضور نے فرمایا امی اونٹ کا کیا کریں گی ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ؐ آج کل ہمارے پاس سواری کے لیے جانور نہیں ہے ، سفر دور دراز کا ہو تو بڑی دقت پیش آتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔ اچھا تو میں اونٹ کا ایک بچہ پیش کر دیتا ہوں ۔ حضرت ام ایمنؓ نے عرض کیا بھلا میں اونٹ کے بچے کو لیکر کیا کروں گی مجھے تو سواری کے لیے اونٹ کی ضرورت ہے ۔ حضور نے بڑی محبت سے فرمایا میں تو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا ۔ حضرت ام ایمنؓ نے عرض کیا ۔ حضورؐ اونٹ کا بچہ میرے کس کام آئے گا۔ حضور نے پھر فرمایا امی آپ کو اونٹ کا بچہ ہی ملے گا اور میں اسی پر آپ کو سوار کروں گا ۔اس کے بعد نبیؐ نے ایک خادم کو حکم فرمایا وہ جلدی سے ایک اونٹ سواری کے قابل لے آیا ۔ آپؐ نے اس کی مہار حضرت ام ایمنؓ کو پکڑاتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔ امی ذرا دیکھیے یہ اونٹ کا بچہ ہی ہے یا کچھ اور ۔ حضرت ام ایمنؓ رحمت عالم ؐ کے اس شفقت بھرے مزاح کو سمجھ گئیں اور بے اختیار ہنسنے لگیں ۔ اور آپؐ کو دعائیں دینے لگیں ۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت صفیہؓ آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا حضور میرے لیے دعا فرمائیں اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل کرے ۔ نبی ؐ نے پھوپھی جان کا یہ سوال سن کر فرمایا ، جنت میں کوئی بوڑھی عورت ہر گز داخل نہیں ہو گی ۔ حضور کا یہ ارشاد سن کر حضرت صفیہؓ رونے لگیں ۔ حضرت صفیہؓ بہت سادہ خاتون تھیں ۔ آپ کا مطلب نہ سمجھ سکیں اور رنجیدہ ہو کر اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ جب یہ چلیں تو نبیؐ نے صحابہؓ سے فرمایا میری پھوپھی سے کہہ دو کہ اللہ تعالی ہر ایمان والی بڑھیا کو جوان بنا کر جنت میں داخل کرے گا ۔ اور اس کے بڑھاپے کو جوانی میں بدل دے گا ۔
٭٭٭
ایک دفعہ بطور مزاح رسول اللہﷺ نے ایک صاحب سے پوچھا : بتاؤ تمہارے ماموں کی بہن تمہاری کیا لگی وہ صاحب سر جھکا کر سوچنے لگے ۔رسول اللہﷺ نے مسکرا کر فرمایا ہوش کرو کیا تجھے اپنی ماں بھول گئی وہی تو تیرے ماموں کی بہن ہے ۔
٭٭٭