ً صحابہ کرام کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں اوریہ کہ چہر ہ اور ہاتھ کھلے رکھے جا سکتے ہیں ۔ ذیل میں ہر مسلک کا موقف مختصرا بیان کیاجاتا ہے۔
۱۔امام ابو حنیفہؒ کا مسلک
احناف کی مشہور کتاب ‘‘الاختیار لتعلیل المختار’’ میں اس موضوع پر یوں بحث کی گئی ہے ‘‘کسی اجنبی عورت کی طر ف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے ۔ بشرطیکہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلے رکھے جا سکتے ہیں کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیروں کاکھلا رکھنابھی ضروری محسوس ہوتا ہے ۔’’
۲۔امام مالکؒ کا مسلک
مالکی مسلک کی مشہورکتاب‘‘اقرب المسالک الی مذہب مالک’’کی عبارت کچھ یوں ہے ‘‘غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اورہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے بشرطیکہ شہوت کی نظر نہ ہو۔’’
۳۔ امام شافعی کا مسلک
شافعی مسلک کی مشہور کتاب ‘‘المہذب’’ میں اس موضوع پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے۔‘‘ آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اورہاتھ کے ۔ کیوں کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں عورت کو دستانہ اور چہرے پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے ۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضا کی طرح ستر ہوتا تو بدن کے دوسرے اعضا کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہوتی ہے ۔’’
۴۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک
حنبلی مسلک کی مشہور کتاب ‘‘المغنی ’’ کے الفاظ یہ ہیں۔‘‘ حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے ۔’’
امام ابن حزم ، امام نووی ، امام اوزاعی ، امام ابو ثور اور دوسرے بہت سے علما کی رائے بھی یہی ہے کہ عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے چہرے اور ہاتھ کے ۔
چہرے کوکھلا رکھنے کے حامی علما کے دلائل
۱۔قرآن کی آیت ولا یبدین زینتھن الا ماظھر منھا( اوروہ اپنی زینت و زیبائش کھلی نہ رکھیں مگر وہ جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے) کی تفسیر میں صحابہ کرام کی اکثریت الا ما ظھر منھا سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے ۔ صحابہ اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد کی یہ حدیث کر تی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ حضورﷺ کے پاس تشریف لائیں ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑاتھا آپؐ نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے ۔اور آپ نے چہرے اورہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔
۲۔ سورہ نور کی آیت ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن میں اللہ تعالی نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے خمار سے اپنے سینے ڈھک کر رکھیں۔ ‘خمار’ وہ دوپٹا ہے جسے عورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں۔ اللہ تعالی نے انہیں حکم دیاہے کہ سر کے دوپٹے سے سر کے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انہیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالی نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیاہے بلکہ صرف سینے کا ذکر کیا ہے ۔ اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے کہ چہر ہ چھپانا ضروری نہیں ھے
۳۔سورہ نور کی آیت قل للمومنین یغضوا من ابصارھم میں اللہ نے مردوں کوحکم دیاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔کسی موقع پر حضرت علی ؓ جب بار بار کسی عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ لا تتبع النظرۃ فانما لک الاولی ولیست لک الاخرۃ (ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر توجائز ہے لیکن دوسری نہیں)
غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے ۔ نظر بار بار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے عورتوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپاکر رکھو بلکہ مردوں کوحکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ا س کشش کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ حضور ﷺ کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور بار بار انکی طرف نہ دیکھیں۔ اگر چہر ہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے چہرے چھپا کر رکھیں اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کاحکم نہ دیا جاتا۔
۴۔ اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن ازواج ولو أعجبک حسنھن( اس کے بعد تمہارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلا ل ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤ خواہ ان عورتوں کاحسن تمہیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے) سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوبصورتی اور بد صورتی کاحال معلوم ہوتاہے ۔
۵۔ دلائل اورحقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں مگر نقاب کااستعمال نہیں کرتی تھیں اورچہر ہ کھلا رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر چند دلائل حاضر ہیں۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺکی کسی عورت پر نظر پڑی آپ کو وہ عورت اچھی لگی آپ اپنی بیوی زینبؓ کے پاس آئے اوران سے جنسی خواہش پوری کی۔اور فرمایا کہ ‘‘ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فاذا رأی احدکم امرأۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان ذاک یرد ما فی نفسہ’ (عورت شیطان کی صورت میں آتی اورجاتی ہے (انسا ن اسے دیکھ کر بہکنے کی پوزیشن میں ہوجاتاہے ) پس اگر تم میں سے کوئی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے کیوں کہ یہ چیز اس کے دل کی خواہش کو ختم کر دے گی۔)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور ﷺکی نظر پڑی اس کا چہر ہ کھلا ہوا تھااور اسی وجہ سے وہ حضورﷺ کو اچھی لگی حضورﷺ چوں کہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہش پیدا ہوتی تھی لیکن ایسے موقع پر آپ اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اوراس طرح امت کو بھی یہی تعلیم دی۔ آپؐ عورتوں کو بھی چہر ہ ڈًھک کر رکھنے کاحکم دے سکتے تھے لیکن آپ ؐنے ایساکوئی حکم نہیں دیا۔
اسی طرح ایک اور حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت یہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک عورت حضورﷺ کے پاس آئی اورکہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں آپؐ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپؐ کے حوالے کر دوں ( یعنی آپ سے شادی کر لوں) آپؐ نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور اسے دیکھتے رہے ۔ پھر نظر نیچی کر لی عورت نے سمجھ لیا کہ حضور کو ﷺاس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں مگر پھر بھی وہ بیٹھی رہی اور وہاں صحابہ کرام ؓبھی تشریف فرما تھے ۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ میری اس سے شادی کروا دیجیے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ عو رت حضورﷺ اور صحابہ کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہر ہ کھلا ہوا تھاجبھی تو آپ اس کی طرف دیکھتے رہے ۔ اور اس کا چہر ہ کھلا ہونے کی وجہ ہی سے وہ عورت کسی صحابی کو پسند آ گئی اورانہوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔
سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس ؓکرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپؐ کے پاس کچھ سوال کرنے کے لیے آئی ابن عباسؓ کے بھائی فضل حضورﷺ کے ہمراہ تھے وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوبصورت تھی ۔ حضورﷺ فضل کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے ۔اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقینا تنبیہ کرتے اورخاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ بھی ہو رہے تھے۔
ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے کہ جس کے راوی جابر ؓبن عبد اللہ ہیں کہ حضورﷺ عید کی نماز کے لیے تشریف لے گئے آپؓ نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں نصیحتیں کیں اور فرمایاکہ تم صدقہ کیا کرو کیوں کہ تم عورتوں کی اکثریت کو جہنم میں دیکھاہے ۔ اس پر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی جس کے گال سرخ ہور ہے تھے۔ ۔۔۔۔۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی توجابر ؓبن عبداللہ کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے گال سرخ ہورہے تھے۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہؓ روایت کر تی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجرکی نماز حضورﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ پھر نماز سے فراغت کے بعد اپنے گھروں کو واپس آجاتیں تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہ پاتا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تاریکی نہ ہوتی تو انہیں پہچان لیا جاتا اورظاہر ہے کہ چہرے ہی سے پہچانا جاتا ہے۔
یہ تمام حدیثیں ظاہرکر تی ہیں کہ حضورﷺ کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضورﷺ نے کبھی انہیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہر ہ کھلارکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی ۔
صرف یہی نہیں کہ حضور کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔چناں چہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس ؓبن شماس ہیں کہ ایک عورت حضورﷺ کے پاس آئی اس کے چہرے پر نقاب تھا وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی ۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگا کر اپنے بیٹے کے بار ے میں دریافت کرنے آئی ہو اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے ۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھا کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ جواب نہیں دیا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو میں نے تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم وحیا کی وجہ سے اس نے چہرے پر نقاب ڈال لیا ہے اگر نقاب لگانا اللہ اور رسول کاحکم ہوتا تو صحابہ کرام اس کے نقاب لگانے پر نہ توتعجب کرتے اور نہ ہی اس عورت سے ایسا سوال کرتے ۔
تلاش بسیا ر کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قرا ر دینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دو ٹوک کہا جا سکے ۔ ان علماکی تعدادنہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کولازمی قرار دیتے ہیں ۔ یہ علما اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کر تے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے ۔
نقاب کے حامی علما کے دلائل
۱۔ یا یھا النبی قل لازواج ولا یدنین زینتھن الا ما ظھر منھا میں الاماظھر منھاک و بناتک و نساء المومنین ید نین علیھن جلا بیبھن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوء ذین(الاحزاب ۵۹) ‘‘اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔’’
اس آیت میں جلابیب کی تشریح کرتے ہوئے یہ علما فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہر ہ بھی ڈھک جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔
۲۔ سورہ نور کی آیت ولایبدین زینتھن الا ما ظہر منھا میں الا ما ظہر منھا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑا ہے عورتیں اپنی زنیت نہ ظاہرکریں ۔ سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے ۔یعنی ان کا اوپر کا لباس یعنی اسے چھپاناممکن نہیں ہے ۔
لیکن ان کی یہ تفسیر سیاق و سباق کے خلاف ہے ۔ الا ما ظھر منھا کا اضافہ کر کے اللہ تعالی نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی کر نی چاہی ہے ۔ اب اگر اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑامراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشا کے خلاف معلوم ہوتی ہے ۔علما کرام کی اکثریت الا ماظھر منھا سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے ۔
۳۔ سورہ احزاب کی آیت واذا سألتموھن متاعا فسئلوھن من وراء الحجاب ( اور جب ان سے کوئی شے مانگوتو پرد ے کی اوٹ سے مانگو) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علما فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشا یہ ہے کہ عورت کامکمل جسم حتی کہ چہر ہ اور ہاتھ بھی نظر نہ آئے۔
یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور کی بیویو ں کے لیے خاص تھا اسی لیے اللہ تعالی نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے ۔ینساء النبی لستن کاحد من النسا ء ( اے نبی کی بیویو تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو ) تمہارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزارا کریں ۔ انہیں حضور ﷺکی و فات کے بعد دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔انہیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ دیا گیا۔ان ہی خاص احکامات میں ایک خاص حکم یہ تھا کہ مسلمان حضورکی بیویوں سے کچھ مانگیں تو پرد ے کی اوٹ سے مانگیں۔
۴۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔ اس حدیث کو بھی یہ علما بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں عورتیں نقاب اور دستانے استعمال کرتی تھیں اس لیے تو احرام کی حالت میں ا ن سے منع کر دیا گیا۔ لیکن یہ دلیل بھی مناسب نہیں کیونکہ اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب استعمال کرتی تھیں۔ پھر بھی اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی کہ جس میں عورتوں کے لیے نقاب کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہو۔
۵۔ترمذی کی حدیث ہے المراۃ کلھا عورۃ۔ عورت مکمل ستر ہے۔ اس حدیث سے علما یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چوں کہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرے اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھانپنا لازمی ہے ۔حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں۔ اس کا منشا یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپا کشش ہوتا ہے اس لیے اس کے پورے جسم کو ‘عورت’ کہا گیا ہے ۔ عورت ( ستر) کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری ہے ورنہ احرام کی حالت میں بھی عورتوں کو چہر ہ کھلا رکھنے کی اجازت نہ ہوتی کیوں کہ جو چیز ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے ۔
۶۔چہر ے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قرار دینے کے لیے یہ علما جس بات کوکثرت کے ساتھ بطوردلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ عورت کا سارا حسن اورجمال اور کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہر ہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہر ہ ڈھکارہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اورخوف کی وجہ سے ان علمانے معاشرے میں بہت سی چیزوں کو ناجائز قرار دے دیا ہے جواصلا جائز اور حلال ہیں۔لیکن فتنہ پھیلنے کے خوف سے ان حلال چیزوں پر پابندی لگاد ی گئی ہے ۔مثال کے طور پر علما نے فتنے کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کر دیا ہے حالانکہ حضور کا حکم ہے کہ لا تمنعوا اما ء اللہ مساجد اللہ ( اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو) اس کے باوجو دان علما نے محض خیالی فتنہ کے ڈر سے انہیں مسجد جانے سے روک دیا ہے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے محروم ہونے لگیں ۔ اسی طرح ان علما نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو سکول اور کالج جانے سے روک دیا جس سے عورتیں جاہل ہونے لگیں۔ اب انکو ہوش آیا ہے تو ان پر تعلیم کے دروازے کھولنے لگے ہیں ۔ یہ عورتیں سکول کالج اور بازار جا سکتی ہیں تو مسجد کیوں نہیں جا سکتیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فتنے کی روک تھام کے لیے جائز باتوں کو ناجائز قرار دے دیا جائے ۔
فقہ کا اصول یہ ہے کہ کسی چیز کو واجب قرار دینے کے لیے قرآ ن وسنت سے واضح اور صریح دلیل ضروری ہے ۔ ان علما کے پاس اسطرح کی صریح دلیل کوئی بھی نہیں اس کے برعکس وہ علما جو چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری نہیں سمجھتے ان کے پاس صریح دلائل ہیں۔ اور میر ا موقف بھی یہی ہے ۔
آخر میں چند باتوں کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے
۱۔ چہر ہ اور ہاتھ پیر کھلے رکھنے کی اجازت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چہرے پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے غیر محر م مردوں کے سامنے جایا جائے ۔عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شریفانہ لباس میں رہیں اور میک اپ سے مردوں کومتوجہ کرنے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔
۲۔چہر ے پر نقاب ضروری نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی ہے کہ وہ عورتوں کے چہرے کوتکا کریں۔ مردوں کے لیے اللہ کا حکم یہی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں۔البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران میں کسی ضرورت سے انہیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ نظر بھی شہوت اور ہوس کہ نہ ہو۔
۳۔میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہر ے پر نقاب ضروری نہیں تو اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ جو عورتیں چہرے پر نقاب ڈالتی ہیں تو میں ان کو منع کر رہا ہوں ۔ انہیں اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا اختیار ہے ۔بعض علما کے نزدیک جلابیب سے مراد وہ لباس ہے جو بد ن کے ساتھ چہر ہ اور ہاتھ بھی چھپائے جبکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اورہاتھ کو چھپانا نہیں آتا۔ یہی موقف عرب و عجم کے اکثر علما کا ہے ۔ البتہ سعودی عرب اور ہند و پاک کے بعض علما اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں شیخ عبداللہ بن باز اور ابو الاعلی مودودی سر فہرست ہیں۔چونکہ چہر ہ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ہر صاحب رائے کو یہ پورا حق حاصل ہی کہ وہ اپنے موقف پر عمل کرے ۔ اگرکسی کا موقف یہ ہے کہ چہر ہ چھپانا لازمی ہے تو اسے اپنے موقف پر عمل کرنے کاحق حاصل ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے بدعتی قراردے۔بعض ایسے علما بھی ہیں جو نقاب کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ ان پر البتہ مجھے حیرت ہوتی ہے ۔ سلف صالحین کے زمانے ہی سے نقاب کا رواج رہا ہے اس لیے ان علما کو چاہیے کہ وہ نقاب کو بدعت قرار دینے پر اپنا زور صرف کر نے کے بجائے ان عورتوں کو سمجھانے پراپنا زور صرف کریں جومیک اپ کر کے اورمختصر کپڑے پہن کر بازاروں ، سکولوں کالجوں میں دندناتی پھرتی ہیں۔(بحوالہ فتاوی یوسف القرضاوی، جلد دوم،ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی،پبلشر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی)
انتخاب ۔محمد عبدالمعز،ابوظبی