مجھے تو نے جو بھی ہنر دیا ، بکمالِ حسنِ عطا دیا
میرے دل کو حبِّ رسول دی، مرے لب کو ذوقِ نوا دیا
میں مدارِ جاں سے گزر سکا تو تری کشش کے طفیل سے
یہ ترے کرم کا کمال تھا کہ حصارِ ذات کو ڈھا دیا
میں ہمیشہ اپنے سوالِ شوق کی کمتری پہ خجل رہا
کہ تری نوازشِ بے کراں نے مری طلب سے سوا دیا
تری جلوہ گاہِ جمال میں مرا ذوقِ دید نکھر گیا
تری ضوفشانی حسن نے مری حیرتوں کو سجا دیا
کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا جو دلیلِ راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوشِ پا کو مسافروں نے مٹا دیا
ترا نقشِ پا تھا جو رہنما ، تو غبار راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
ترے حسنِ خلق کی ایک رمق، مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
یہ مری عقیدتِ بے بصر، یہ مری ارادتِ بے ثمر
مجھے میرے دعوی عشق نے صنم دیا نہ خدا دیا
ترے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
مرے رہنما ترا شکر یہ کروں کس زباں سے بھلا ادا
مری زندگی کی اندھیری شب میں چراغِ فکر جلا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی؟
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا