۱۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کو قرآن پاک میں اجمالاً اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم ایۃ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبینo (آل عمران۱۶۴۔ دیکھیں البقرہ۱۵۱۔ الجمعہ۲)
یعنی اللہ پاک کی آیات کی تلاوت، لوگوں کا تزکیہ نفس، قرآن پاک کا علم اور حکمت، یہ چار خصوصیات ایسی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں۔
۲۔ خود حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پانچ خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔
(۱) ایک ماہ کی مسافت سے دشمن پر میرا رعب طاری ہو جاتاہے۔
(۲) ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے جو جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔
(۳) غنیمت کا مال میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے جو پہلے کسی پر حلال نہیں تھا۔
(۴) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔
(۵) پہلے کے نبی اپنی قوم کے لیے خاص ہوا کرتے تھے مگر میں ساری دنیا کے لیے نبی ہو کر آیا ہوں۔’’
۳۔ قرآن پاک میں آتا ہے: وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (الانبیا۱۰۷)
‘‘اور آپ کو جو ہم نے بھیجا تو سارے جہانوں کے واسطے رحمت بنا کر۔’’رب العالمین نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ اللعالمین بنایا۔
۴۔ قرآن میں ہے کہ: وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا۔ (سبا۲۸)
‘‘اور آپ کو جو ہم نے بھیجا، تو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔’’
۵۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبینط وکان اللہ بکل شی علیماo (الاحزاب-۴۰)
‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں اور اللہ پاک سب چیزوں کو جانتا ہے۔’’
مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ اسی لیے ان کے صاحبزادے مرد ہونے سے پہلے فوت ہو گئے۔ وہ رسول ہیں اور نبیوں پر مہر ہیں یعنی نبیوں کے سلسلے پر مہر ثبت کرنے والے ہیں اور جب وہ رسول ہی ہیں۔ (وما محمد الا رسول) تو پھر ان کی جائیداد میں اولاد صلبی کا حق نہیں رہا۔
۶۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھوں دین کو مکمل کیا گیا۔
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناo (المائدہ-۳)
‘‘آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمھارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمھارے واسطے دین اسلام۔’’
۷۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو بے مثل بنایا۔
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شہداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقینo (ابقرہ۔۲۳)
‘‘اور اگر تم ہو شک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔’’
۸۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظونo (الحجر۔۹)
‘‘ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت (قرآن) اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔’’
دنیا جانتی ہے کہ قریب چودہ سو سال ہو چکے ہیں کہ قرآن قطعاً محفوظ ہے اور ہر تراویح میں حفاظ کا امتحان بھی لیا جاتا ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی تحریف کا شائبہ بھی باقی نہ رہے۔
۹۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو مطہر لوگ ہی (دل سے) چھو سکتے ہیں۔
لایمسہ الا المطھرونo (الواقعہ۔۷۹)
‘‘اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک بنے ہیں۔’’ مطھر، اسم مفعول ہے جس کا فاعل اللہ پاک ہے۔ چنانچہ اس لفظ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جن لوگوں کو صحیح عقیدہ بخشا گیا ہے وہی اس قرآن کو دل سے چھو سکتے ہیں۔ یعنی بد عقیدہ لوگ اس کے حافظ نہیں ہو سکتے۔
۱۰۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی معراج پر بلایا گیا۔
سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتیناط انہ ھوالسمیع البصیر (بنی اسرائیل۔۱)
‘‘پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات، مسجد حرام سے مسجد اقصا تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔ وہی ہے سنتا دیکھتا۔’’
پھر سورۃ النجم کی ابتدائی اٹھارہ آیتوں میں اس معراج کی تفصیل ہے۔ کچھ آیتیں یہ ہیں:
فکان قاب قوسین اوادنیٰ مازاغ البصروما طغیٰ۔
‘‘پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کا بلکہ اس سے بھی نزدیک۔ بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔ (الاعراف۱۴۳)
۱۱۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی وحی فرمایا گیا ہے۔
وما ینطق عن الھویo ان ھوالا وحی یوحیo (النجم۳۔۴)
‘‘اور نہیں بولتا اپنی چاہت سے۔ یہ تو وحی ہے جو پہنچی ہے۔’’
۱۲۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی کوثر دیا گیا ۔
انا عطینک الکوثر (الکوثر۔۱)
‘‘ بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔’’
یعنی آخرت میں جس کو چاہیں گے کہ حوضِ کوثر سے پلائیں گے۔ کوثر کے معنی بے شمار خوبیاں بھی ہیں۔ بہرحال کوثر عطا کیا گیا ہے اور عطا کی ہوئی چیز واپس نہیں لی جاتی۔
بخاری اور مسلم میں بھی ہے کہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے بخشی ہوئی چیز کو واپس لینے سے منع فرمایا۔
۱۳۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو اللہ پاک نے سب سے زیادہ بلند کیا۔
ورفعنا لک ذکرک (الانشراح۔۴)
‘‘ اور ہم نے تمھارا ذکر بلند کر دیا۔’’
حدیث میں ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اس آیت کو دریافت فرمایا تو انھوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ‘‘اذان میں، تکبیرمیں، تشہد میں، منبروں پر، خطبوں میں۔’’ پس اس طرح درود وسلام میں، نیز بے شمار درس وتدریس اور گفتگو کے مواقع میں اللہ پاک کے بعد سب سے زیادہ ذکر آپ ہی کا آتا ہے۔
۱۴۔ صرف حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے دل میں آپؐ کے لیے جو محبت پیدا کی گئی ہے وہ کسی دوسرے نبی کے لیے ان کے امتیوں میں نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سو سال گزر چکنے کے باوجود ایک بے عمل اور گناہ گار امتی بھی آپ کے نام پر مر مٹنے کو تیار ہے اور آپ کی شان میں ذرا سی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک حدیث ہے کہ:
‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اس کو اس کے والدین اور اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ نہ ہو۔
آج کا بے عمل مسلمان بھی ایسی محبت کا احساس اپنے دل میں رکھتا ہے۔ الحمد اللہ علیٰ احسانہ
۱۵۔ جتنی برائی ہو اتنی ہی سزا دی جائے تو یہ عدل ہے اور اگر ایک نیکی کا دس نیکیوں کے برابر اجر دیا جائے تو یہ رحمت ہے اور یہ خصوصیت حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو حاصل ہے۔ سورۃ انعام (۱۶۱) میں ہے: من جاء با لحسنۃ فلہ عشرامثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الامثلھا وھم لا یظلمونo ‘‘جو کوئی لایا نیکی اس کو ہے اس کے دس برابر اور جو لایا برائی تو سزا پائے گا اتنی ہی اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔
۱۶۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی خصوصیت حاصل ہے کہ ان کے بیس امتی، دو سو پر غالب ہوئے اور ان کے سو امتی، ایک ہزار پر غالب ہوئے۔ (سورۃ الانفال (۶۵) میں ہے:
یا یھا النبی حرض المؤمنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوامائتینج وان یکن منکم مائۃ یغلبوا الفا من الذین کفروا بانھم قوم لایفقھونo
‘‘اے نبی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اگر تم میں سے بیس صبر والے ہوں گے، دوسو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو کافروں کے ہزار پر غالب آئیں گے، اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔’’
اس کے بعد کی آیت میں مسلمانوں کی کمزوری کے باوجود ان کو اپنے دوگنے پر غالب ہونے کے بہرحال بشارت دی گئی ہے۔
۱۷۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ہر مسلمان کو محبوبیت کے درجے تک پہنچادیتی ہے۔(سورہ آل عمران۳۲) میں ہے:
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکمط واللہ غفور رحیمo
‘‘آپ فرما دیں کہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری پیروی کرو کہ اللہ تم سے محبت کرے اور بخشے گناہ تمھارے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔’’
۱۸۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کامل ومکمل ہے اور ایسی بے داغ ہے کہ کسی موقع پر اور کسی زمانے میں اسے بلا تکلف پیش کیا جا سکتا ہے۔ فرمایاہے کہ ‘‘جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو اس کو جلوت میں برملا بیان کرو، جو حجرہ میں کہتے سنو اس کو چھتوں پر چڑھ کر پکاردو…… الا فلیبلغ الشاھد الغائب۔
اسی لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اللہ پاک نے دنیا کے سامنے بطور چیلنج کے پیش کر دیا ہے کہ:
لقد کان فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخرو ذکر اللہ کثیراo (الاحزاب۔۲۱)
‘‘بے شک تمھیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے، اس کے لیے کہ جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔’’
یعنی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی، ایمان والے کے لیے ہر طرح بہتر ہے اوران کی حیات طیبہ ایسی مثالی ہے کہ اسی کی پیروی سے ہر خیروفلاح کے دروازے کھل سکتے ہیں:
۱۹۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہی قیامت میں ہر امت کے گواہ اور نگہبان بنائے جائیں گے۔ سورۃ النساء (۴۱) میں ہے:
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولاء شھیداo
‘‘تو کیسا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں (جو امت کے تمام افعال پر گواہ ہو گا) اور اے میرے محبوب، تمھیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں گے۔’’
اسی طرح سورۃ النحل (۸۹) میں بھی ہے اور سورۃ البقرہ (۱۴۳) میں بھی ہے:
وکذلک جئنکم امۃ وسطا لتکونوا شھدا علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداo
‘‘اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمھیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم، لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمھارے نگہبان اور گواہ ہیں۔
اس دوسری آیت کے سلسلے میں بخاری (کتاب التفسیر۔ جلد دوم، صفحہ ۷۱۲ ) میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ پاک نوح علیہ السلام کو بلائے گا۔ وہ آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے رب میں حاضر ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے ہمارے احکامات کو لوگوں تک پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ جی ہاں، اس کے بعد ان کی امت سے دریافت کیا جائے گا کہ تمھارے پاس خدا کے احکامات لے کر کوئی رسول آیا تھا یا نہیں؟ وہ امت کہے گی کہ نہیں آیا…… اس وقت میری (حضورؐ کی) امت گواہی دے گی کہ بے شک نوح علیہ السلام نے احکام الٰہی کی تبلیغ کی تھی اور میں کہوں گا کہ یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں۔’’
عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محمودا (بنی اسرائیل۶۹)
‘‘آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر ضرور کھڑا کرے گا۔’’
اس آیت کی تفسیر میں صحیحین میں وہ حدیث موجود ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب کی شفاعت فرمائیں گے۔
۲۰۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت نمایا ں خصوصیت تکمیل مکارم اخلاق ہے:
وانک لعلی خلق عظیم (القلم۔۴)
‘‘اور بے شک آپ کو خلق عظیم پر پیدا کیا ہے۔’’
حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے کہ:
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ومحاسن الاعمال۔
‘‘میں بزرگ ترین اخلاق اور نیکو ترین اعمال کی تکمیل کے لیے نبی بنایا گیا ہوں۔’’
۲۱۔ اللہ پاک نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا ہے:
یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیراo (الاحزاب۴۶)
اس آیت میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد، مبشر، نذیر، اللہ کی طرف اس کے اذن سے داعی اور سراج منیر کہا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو سراج منیر نہیں کہا گیا۔
۲۲۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘سراج منیر’’ ہیں تو ان کے صحابہ نجوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے کہ:
اصحابی کا لنجوم بایتھم اقتدیتم اھتدیتم۔
‘‘میرے صحابہ مانند نجوم کے ہیں، ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔’’
۲۳۔ صرف حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے ہمیشہ پیار کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ دوسرے انبیا علیہم السلام کو یا آدم، یا نوح ،یا ابراھیم، یاموسیٰ، یاعیسیٰ کہہ کر خطاب کیا ہے لیکن حضوؐر کو کبھی یا محمد کہہ کر خطاب نہیں کیا۔ بلکہ یامزمل (اے کملی والے) یا مدثر (اے لحاف والے)۔ یس (اے سید) جیسے القاب سے یاد کیا ہے اور خود اپنے توصیفی ناموں میں حضورر انور صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک کیا ہے۔ مثلاً اللہ پاک رؤف بھی ہے رحیم بھی ہے اورحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رؤف اور رحیم کہا ہے:
بالمومنین رؤف رحیم (توبہ۔۱۲۸)
‘‘ وہ مومنوں سے بہت پیار کرنے والے اور ان پر ہمیشہ رحم کرنے والے ہیں۔’’
ان کے علاوہ نور، متین،عزیز، بر،رشید بھی اللہ پاک کے اور حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی توصیفی نام ہیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں ورنہ آپ کی حیاتِ طیبہ کا ہر واقعہ ایک امتیازی شان رکھتا ہے اور جامی نے ہرگز مبالغہ نہیں کیا جبکہ انھوں نے یہ کہا کہ:
ہمہ قرآن درشان محمدؐ (بحوالہ نقوش رسول نمبر)
٭٭٭