پہلا منظر
(دوسری صدی ہجری میں شہر طرسوس کے نواح میں صحرا …… پس منظر میں کچھ گھڑ سوار ہیں اور قلعہ نظر آ رہا ہے۔ شہر کے باہر دو اشخاص ملتے ہیں۔ جن کے چہرے ان کے زہد و تقویٰ کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک شہر میں داخل ہو رہا ہے اور دوسرا باہر نکل رہا ہے۔ دونوں کے تھیلوں میں اوزار ہیں اور وہ لاٹھی ٹیک کر چل رہے ہیں۔ پہلے ابراہیم بن ادھمؒ اور دوسرے شفیق بلخیؒ ہیں)
ابراہیمؒ: السلام علیکم
شفیقؒ: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ (ابراہیم کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے) میرا خیال غالب یہی ہے کہ آپ اہل خراسان میں سے ہیں؟
ابراہیمؒ: جی ہاں! میں خراسانی ہوں۔
شفیقؒ: میں بھی خراسانی ہوں اور بلخ کا رہنے والا ہوں …… کیا آپ بلخ کے متعلق جانتے ہیں؟
ابراہیمؒ: میں بھی بلخ ہی سے ہوں۔
شفیقؒ: (گرم جوشی سے معانقہ کرتے ہوئے) آئیے آئیے میرے بھائی خوش آمدید میرے ہم وطن۔ کیا اللہ کی اس وسیع زمین کی سیاحت کے ارادے ہیں؟
ابراہیمؒ: نہیں بھائی، میں تو رزق کی تلاش میں جا رہا ہوں۔
شفیقؒ: تو پھر طرسوس ہی کیوں نہیں ٹھہرتے؟
ابراہیمؒ: باجود کوشش کے میں ملازمت حاصل نہ کر سکا۔ پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ کہیں اور جا کر کام تلاش کروں گا۔
شفیقؒ: اگر آپ طرسوس میں کام حاصل نہیں کر سکے تو آپ کو کہیں بھی کام نہیں مل سکتا۔
ابراہیمؒ: کیا آپ طرسوس ہی میں قیام پذیر ہیں؟
شفیقؒ: نہیں، البتہ یہاں میرے بہت سے ملنے والے اور دوست احباب رہتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو ان کے پاس لے چلتا ہوں۔ وہ آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق کام دلوا دیں گے۔
ابراہیمؒ: اللہ آپ کا بھلا کرے۔ کیا آپ بھی تلاشِ رزق میں یہاں تشریف لائے ہیں؟
شفیقؒ: میرے بھائی رزق تو ہر جگہ موجود ہے، حتیٰ کہ بلخ میں بھی!
ابراہیمؒ: (شفیق کی بات کو محسوس کرکے ہلکا سا مسکراتے ہوئے) پھر آپ کیوں اتنا لمبا سفر کرکے یہاں تشریف لائے ہیں؟
شفیقؒ: ہم نے تو لو لگا لی ہے۔
ابراہیمؒ: اللہ سے؟
شفیق: ہاں۔
ابراہیمؒ: تو اللہ تو ہر جگہ موجود ہے، حتیٰ کہ بلخ میں بھی۔
شفیقؒ: (سوچتے ہوئے) یہ سچ ہے، مگر اللہ کی مرضی حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ اور سیاحت ضروری ہے۔
ابراہیمؒ: اچھا تو آپ کا شمار مجاہدین اور سیاحوں میں ہوتا ہے؟
شفیقؒ: اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس مجاہدے کو قبول فرمائے۔
ابراہیمؒ: میں نے بعض صالحین سے سنا ہے کہ اگر انسان اخلاص سے اللہ کو اپنے گھر میں بیٹھے ہی پکارے تو اللہ اس کی سنتا ہے اور اس کو قبول فرماتا ہے۔
شفیقؒ: سچ کہا آپ نے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اخلاص کی دعا کرتے ہیں۔
ابراہیمؒ: میرے بھائی! میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اللہ انھیں اخلاص عطا نہیں فرماتے جو خود اپنے لیے مخلص نہ ہوں۔
شفیقؒ: کیا خوب ارشاد فرمایا آپ نے۔ میرا خیال ہے کہ آپ مریدین میں سے ہیں۔ کیا آپ بھی میری طرح اسی راہ کے راہی ہیں؟
ابراہیمؒ: ہاں بھائی۔ ہم بھی اس راہ کے مسافر ہیں۔
شفیقؒ: اگر آپ میری بات سنیں تو میں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ پھر غرور قریب بھی نہ پھٹکے گا۔
ابراہیمؒ: بعض اوقات انسان جسے غرور سمجھتا ہے وہ غرور نہیں ہوتا۔
شفیقؒ: کب سے آپ اس راہ پر چل رہے ہیں؟
ابراہیمؒ: سات برس سے۔
شفیقؒ: اچھا آپ نئے ہیں، لیکن غیر معمولی کامیابی حاصل ہے۔
ابراہیمؒ: اور جناب کب سے ہیں؟
شفیقؒ: بیس برس سے ، مگر ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہوں۔
ابراہیمؒ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک دن جو تم گنتے ہو وہ تمھارے رب کے ہاں ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔
شفیقؒ: کیا میں آپ سے کوئی سوال پوچھ سکتا ہوں؟
ابراہیمؒ: کیا اپ میرا امتحان لینا چاہتے ہیں؟
شفیقؒ: اگر آپ اجازت دیں۔
ابراہیمؒ: جو مزاجِ یار میں آئے۔
شفیقؒ: آپ نے شکر اور صبر میں کیا مقام پایا ہے؟
ابراہیمؒ: کیا میں پہلے آپ کا ارشاد سن سکتا ہوں؟
شفیقؒ: کچھ عطا ہو تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کچھ نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔
ابراہیمؒ: میرے بھائی ایسے تو بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں، اگر مل جاتا ہے تو شکر کرتے ہیں۔ نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں۔
شفیقؒ: تو پھر آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
ابراہیمؒ: ہم عطا کی صو رت میں ایثار کرتے ہیں۔ اگر کچھ نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔
شفیقؒ: (خوشی اور محبت سے) اللہ ۔ اللہ آپ وہی ہیں جن کی مجھے تلاش تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے آپ سے ملا دیا ہے۔ آپ شاید ابراہیمؒ بن ادھم ہیں!
ابراہیمؒ: (خوشی سے)اور آپ غالباً شفیق بلخی ہیں؟
شفیقؒ: حیرت ہے مجھے کیسے پہچانا آپ نے؟
ابراہیمؒ: جیسے آپ نے مجھے جانا۔
شفیقؒ: نہیں بھائی میں آپ جیسا کیسے ہو سکتا ہوں آپ تو اس راہ کے مشہور ترین آدمی ہیں۔
ابراہیمؒ: خاموش رہیے، انسان صرف اپنی زبان سے ہی نقصان اٹھاتا ہے۔
شفیقؒ: اے ابن ادھمؒ زبان تو اللہ کی تسبیح بیان کرنے کے لیے ہے۔
ابراہیمؒ: زبان سے ذکر کیا فائدہ دے گا اگر دل مصروف نہ ہو۔
شفیقؒ: اللہ اللہ! حضور مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کی مصاحبت اختیار کر سکوں۔
ابراہیمؒ: نہیں بلکہ مجھے جانے کی اجازت دیجیے۔
شفیقؒ: کیوں میرے آقا۔ کہیں اس لیے تو نہیں کہ میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔
ابراہیمؒ: جی ہاں۔
شفیقؒ: میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ راز راز ہی رہے گا۔ آپ کو کوئی نہ جان سکے گا۔
ابراہیمؒ: کیا آپ میرے ساتھ ضرور ہی رہنا چاہتے ہیں؟
شفیقؒ: میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ بلکہ کبھی کبھی حاضر ہوا کروں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک شہر سے دوسرے شہر صرف اس لیے ہجرت کرتے رہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پہچان نہ جائیں۔
ابراہیمؒ: ہاں میرے بھائی۔
شفیقؒ: ان شاء اللہ! میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا کہ لوگ آپ کو پہچان نہ جائیں۔ آئیے ہم طرسوس چلتے ہیں، تاکہ آپ کے لیے ایسا کام تلاش کر سکوں جو آپ کے لیے مناسب ہو۔
ابراہیمؒ: تو پھر آپ مجھے میرے نام سے نہیں بلائیں گے۔
شفیقؒ: آپ خود ہی اپنے لیے نام تجویز فرما دیجیے میں آپ کو اسی نام سے پکاروں گا۔
ابراہیمؒ: آپ مجھے ابا اسماعیل کہہ سکتے ہیں۔
شفیقؒ: اے ابا اسماعیل! آپ کون سا کام پسند فرمائیں گے؟
ابراہیمؒ: کوئی بھی کام ہو، مگر اس میں لوگوں سے تعلق کم سے کم ہو اور مجھے اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے۔
شفیقؒ: میں ایک باغ کے مالک کو جانتا ہوں جو اسی نواحی بستی میں رہتا ہے۔ اگر اس کے ہاں آپ کو مالی کی حیثیت سے کام مل جائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟
ابراہیمؒ: بہت ہی اچھا کام ہے۔ ابھی مجھے ان کے پاس لے چلئے!
دوسرا منظر
(ایک بہت بڑا باغ پس منظر میں مالک کا محل ایک چھوٹی سی جھونپڑی جس میں ابراہیم بن ادھمؒ رہتے ہیں۔ سامنے مٹی کے چبوترے پر وہ ذکر اللہ میں مشغول ہیں۔ شفیق بلخی تشریف لا رہے ہیں)
شفیقؒ: اس جگہ آپ کیسا محسوس فرما رہے ہیں اے ابا اسماعیل؟
ابراہیمؒ: اللہ آپ کو جزائے خیر دے اے شفیق۔ آپ نے بہت ہی اچھا کام دلوایاہے۔
شفیقؒ: اچھا تو اب میں جاتا ہوں۔
ابراہیمؒ: کیا آپ ہمارے پاس نہیں ٹھہریں گے۔ (آدھی روٹی پیش کرتے ہوئے) آئیے اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔
شفیقؒ: میں اپنے وعدے پر قائم ہوں اے…… ابا اسماعیل (یہ کہہ کر باہر چلے جاتے ہیں)
ابراہیمؒ: الحمدللہ۔ اب میں یہاں رہ سکتا ہوں۔ ان شاء اللہ (کھانا شروع کرتے ہیں۔ باغ کے دروازے پر مانگنے والی ایک عورت آتی ہے اور صدا لگاتی ہے)
عورت: میں دکھوں اور غموں کی ماری ہوں میرے بھائی، بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے۔ اللہ کے دیے میں سے کچھ مجھے بھی کھانے کو عنایت فرمائیے۔
ابراہیمؒ: یہ لیجیے محترمہ! آپ ہی کے لیے ہے یہ (آدھی روٹی دیتے ہیں)
عورت: آدھی روٹی۔ بس یہی کچھ ہے آپ کے پاس!
ابراہیمؒ: مجھے معاف فرمائیے اور میری معذرت قبول کیجیے۔ میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔
عورت: مجھے کچھ پھل ہی دے دیجیے۔
ابراہیمؒ: محترمہ میرے پاس کچھ بھی تو نہیں ہے۔
عورت: اور یہ سارے کا سارا پھلوں سے لدا باغ؟
ابراہیم ؒ: یہ میرا تو نہیں میں تو یہاں صرف ایک مالی ہوں۔
عورت: کیا آپ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر آپ نے مجھے سیب یا انگور دیے تو آپ کا مالک ناراض ہو جائے گا۔
ابراہیمؒ: اگر آپ کل تشریف لائیں تو میں مالک سے اجازت لے کر ضرور دوں گا۔
عورت: کل؟ اگر میں کل تک انتظار کرنے کے قابل ہوتی، تو کبھی دست سوال دراز نہ کرتی۔ میرے بچے بھوک کی وجہ سے بلک رہے ہیں۔
ابراہیمؒ: اچھا ٹھہریے ذرا دیر (اپنی جگہ سے اٹھ کر جاتے ہیں پھر دوبارہ آتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں دو سیب اور کچھ انگور ہیں۔ وہ اس عورت کو دیتے ہیں)
عورت: اللہ! آپ کو جزائے خیر دے …… اس کی کسی کو بھی خبر نہ ہو گی(باہر چلی جاتی ہے)
ابراہیمؒ: (خود سے آہستہ آہستہ سوچتے ہوئے کہہ رہے ہیں) دو سیب اور انگور کا گچھا…… میرے خیال میں ان کی قیمت ایک درہم ہو گی۔ چلو آدھا درہم احتیاطاً ملا کر ڈیڑھ درہم میں ان کو دے دوں گا۔
تیسرا منظر
(ابراہیمؒ باغ کی مالکہ کے منشی معتوق کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں)
معتوق: یہ کیا ہے ابا اسماعیل؟
ابراہیمؒ: سیب اور انگور میں نے کل باغ سے لیے تھے ان کی قیمت ہے۔
معتوق: ہر روز باغ میں سے کوئی نہ کوئی چیز لیتے ہو، پھر اس کی قیمت ادا کرتے ہو۔ خدا کی قسم ہم تو ابھی تک یہ بھی نہیں جان سکے کہ آپ یہاں مالی ہیں یا تاجر؟
ابراہیمؒ: میرے آقا میں تو صرف ایک مالی ہوں۔
معتوق: سنئے! جو کچھ بھی آپ یہاں سے لینا چاہیں لے لیا کریں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
ابراہیمؒ: نہیں حضور، یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔
معتوق: ہم آپ کو خود اجازت دیتے ہیں۔
ابراہیمؒ: معلوم نہیں آپ کی مالکہ بھی راضی ہوتی ہیں یا نہیں؟
معتوق: آپ کو مالکہ سے کیا غرض میں اسی کا تو قائم مقام ہوں۔
ابراہیمؒ: بہت بہت شکریہ حضور کا، لیکن مہربانی فرما کر آپ مجھے وہی کرنے دیں جسے میں نے خود اختیار کیا ہے۔
معتوق: جیسے آپ کی مرضی ابا اسماعیل۔ ہاں میری بات غور سے سن لیجیے کہیں میں بھول نہ جاؤں۔ آج باغ کی مالکہ سیر کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی دو سہیلیاں ہوں گی جو بڑے اونچے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے لیے کچھ سیب، کچھ انگور اور انار اکٹھے کریں اور ہاں باغ کے اندر جو سب سے اچھے اور میٹھے پھل ہیں وہی پیش کریں۔
ابراہیمؒ: جو حکم سرکار (ابراہیم چلے جاتے ہیں)
معتوق: (خود ہی اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے) شاید یہ سمجھتا ہے کہ یہ درہم میں اپنی مالکہ کو دے دیتا ہوں۔ کتنا احمق ہے یہ شخص۔ لیکن ، لیکن ممکن ہے کہ یہ شخص پھل تو زیادہ توڑ لیتا ہو اور ہمیں دھوکے میں رکھ کر تھوڑے پیسے دیتا ہو لیکن کبھی تو اس کی خیانت ظاہر ہو ہی جائے گی۔ کتنی نمازیں پڑھتا ہے یہ شخص، کتنا ذکر میں مصروف رہتا ہے، لیکن یہ حرکت اسے زیب نہیں دیتی۔ یہ شیطانوں والی حرکت ہے!
چوتھا منظر
(باغ کے محل کا ایک کمرہ، باغ کی مالکہ اور ان کی سہیلیاں دسترخوان پر بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔ ان کے سامنے مختلف قسم کے پھل رکھے ہوئے ہیں)
ایک سہیلی: یہ سیب آپ کے اپنے باغ کا ہے؟
مالکہ: سارے طرسوس میں اس باغ جیسے میٹھے پھل آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔
دوسری سہیلی: (سیب کھاتی ہے اور منہ بنا کر پھینک دیتی ہے) اوہو یہ تو انتہائی کھٹا ہے۔
مالکہ: کھٹا؟
پہلی سہیلی: (انگور کے گچھے میں سے کھاتے ہوئے) اور انگور بھی کھٹے ہیں۔
مالکہ: انگور بھی؟
پہلی سہیلی: اگر تم نہیں مانتی تو چکھ کر دیکھ لو۔
دوسری: اور ذرا اس سیب کو بھی چکھنا۔
مالکہ: (انگور اور سیب کو چکھتے ہوئے غصے سے بھڑک اٹھتی ہے) منشی، اللہ تمھارا بیڑہ غرق کرے! ہمارے سامنے وہ پھل پیش کیا ہے جو ابھی پکا ہی نہیں(آواز دیتے ہوئے) معتوق، معتوق!
معتوق: (داخل ہوتے ہوئے) بندہ حاضر ہے سرکار!
مالکہ: اللہ تمھاری منحوس آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کردے۔ اے بے وقوف یہ تم نے ہمارے مہمانوں کے سامنے کیا پیش کیا ہے؟ انگور ، سیب سب کچھ کھٹا، تمھارا کچھ نہ رہے تم نے میٹھا پھل اپنے لیے رکھ کر ہمیں اور ہماری معزز سہیلیوں کو کھٹا پھل پیش کیا ہے!
معتوق: معاف کیجیے گا بیگم صاحبہ! یہ پھل مالی نے جمع کیے تھے۔
مالکہ: تجھے موت آئے اتنے اہم موقع پر تو نے خود انتظام کیوں نہیں کیا تو نے اس پر اعتماد کیسے کر لیا؟
معتوق: بیگم صاحبہ مالی تجربہ کار ہے اور مجھ سے اچھا پھل چننا جانتا ہے۔
مالکہ: پھر بھی تمھیں ذمہ دارہو کیونکہ تمہی نے اسے ملازم رکھا تھا؟
معتوق: جی ہاں محترمہ ۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ بڑا ہی نیک اور امین ہے ۔
مالکہ: اسے بھی حاضر کرو!
معتوق: بیگم صاحبہ ابھی لاتا ہوں اس کو (باہر نکل جاتا ہے۔)
(مالکہ اچھے اچھے پھل چن کر اپنی سہیلیوں کو پیش کرتی ہے۔ معتوق ابراہیمؒکو لے کر اندر داخل ہوتا ہے)
مالکہ: تم نے آج ہمارے لیے پھل چنے ہیں؟
ابراہیمؒ: (حیا کی وجہ سے عورتوں کی طرف سے نظروں کو بچاتے ہوئے) جی بیگم صاحبہ
مالکہ: کیا تم ہمیں ہمارے مہمانوں کے سامنے شرمندہ کرنا چاہتے تھے؟ سیب ہے تو وہ کچا انگور ہیں تو وہ کھٹے!
ابراہیمؒ: معاذ اللہ محترمہ! میں ایسا کیوں سوچتا!
معتوق: کیا میں نے تمھیں بار بار تاکید نہیں کی تھی کہ اچھے پھل چننا؟
ابراہیمؒ: جی ہاں! غلطی ہو گئی جناب۔ ورنہ اپنی طرف سے تو اچھے اچھے ہی پھل چنے تھے۔
مالکہ: تمھارا ستیا ناس ہو۔ ہم نے تمھیں باغ کا مالی مقرر کیا ہے اور تم کھٹے اورمیٹھے پھل میں تمیز نہیں کر سکتے؟
معتوق: محترمہ! اس کو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ اتنی دیر میں تو بچہ بھی پہچان جاتا ہے۔
ابراہیمؒ: میں …… میں!
مالکہ: جواب دے تجھے کھٹے اور میٹھے پھلوں کی پہچان کیوں نہیں ہوئی؟
ابراہیمؒ: میں نے باغ کے کسی بھی پھل کو کبھی چکھا ہی نہیں۔
مالکہ: اس تمام عرصے میں تم نے کبھی کوئی چیز نہیں چکھی؟ کتنی عجیب بات ہے! (سب سہیلیاں ہنستی ہیں)
معتوق: اے ابا اسماعیل میں تو تمھیں بڑا پاکباز سمجھتا تھا، مگر یہ کیا تم تو جھوٹ بھی بول رہے ہو۔
مالکہ: ہاں یہ مالی تو جھوٹا لگتا ہے۔
ابراہیمؒ: بخدا میں جھوٹ نہیں بول رہا۔
معتوق: اور یہ دوسرا جھوٹ ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اس نے مجھے پیسے دیے کہ میں نے باغ سے پھل لیا ہے، لیکن اب یہ کہتا ہے کہ میں نے کبھی پھل چکھا تک نہیں!
مالکہ: اب کہو دھوکے باز؟
ابراہیمؒ: اے خاتون۔ آپ کسی اور مالی کا بندوبست فرما لیں۔ میں اس کا اہل نہیں ہوں، غیر شعوری طور پر جو کچھ ہوا اس پر میں معذرت خواہ ہوں محترمہ۔
مالکہ: جاؤ معتوق اس کا حساب دے کر اسے رخصت کر دو۔
معتوق: ابا اسماعیل میرے ساتھ آؤ! (دونوں باہر نکل جاتے ہیں)
پانچواں منظر
(شفیق بلخی اور معتوق ابراہیم بن ادھم کے جھونپڑے میں بیٹھے ہیں۔ شفیق بلخی کے چہرے سے حزن و ملال ظاہر ہو رہا ہے۔)
معتوق: بخدا ہم نے اسے چھٹی نہیں دی بلکہ اس نے خود استعفیٰ دیا ہے۔
شفیقؒ: یقینا تم نے انھیں شرمندہ کیا ہو گا۔
معتوق: نہیں بلکہ اس نے مجھے میری مالکہ کے سامنے شرمندہ کرا دیا تھا اور بیگم صاحبہ کو ان کی سہیلیوں کے سامنے۔ اگر مجھے آپ کا خیال نہ ہوتا تو میں اس کی کبھی پروا نہ کرتا۔
شفیقؒ: کیا تم سمجھتے ہو کہ انھوں نے جھوٹ بولا تھا۔ جب انھوں نے فرمایا تھا کہ میں نے باغ سے کوئی چیز چکھی نہیں؟
معتوق: یہ میرا خیال نہیں بلکہ مجھے یقین ہے۔
شفیقؒ: معتوق تم ان کو نہیں جانتے۔ دنیا میں اگر ہر شخص جھوٹ بولنا شروع کر دے تو بخدا وہ واحد شخص ہوں گے جنھوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو گا۔ (ایک عورت باغ کے دروازے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ معتوق اس کے پاس جاتا ہے)
معتوق: کیا بات ہے کیا چاہتی ہیں آپ؟
عورت: میں انتظار کروں گی، حتیٰ کہ وہی آجائے
معتوق: کون؟
عورت: مالی۔
معتوق: آپ کو اس سے کیا کام ہے؟
عورت: (ڈرتے ہوئے) کچھ نہیں …… بس ان کے آنے تک انتظار کروں گی۔
شفیقؒ: (بڑی محبت سے) کہیے محترمہ آپ کیا چاہتی ہیں؟ ڈریں نہیں۔ میں مالی کے دوستوں میں سے ہوں۔
معتوق: کیا وہ آپ کو باغ سے پھل دیا کرتا تھا؟
عورت: جی ہاں۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ کہاں ہیں وہ؟ (شفیق اور معتوق ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں)
معتوق: ٹھہریے محترمہ (چلا جاتا ہے)
عورت: (شفیق سے) وہ عظیم اور پاک سیرت مالی کہاں ہیں؟
معتوق: (کچھ پھل لا کر عورت کو دیتا ہے) لیجیے۔
عورت: کیا آپ کو مالی نے کہا تھا کہ میں آؤں تو آپ مجھے پھل دے دیں؟
معتوق: ہاں۔
عورت: اللہ اسے جزا دے اور آپ دونوں کو بھی۔ میرے یتیم بچے پھل دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔
شفیقؒ: کیا تم نے دیکھا میرے دوست۔ تم ان کو بھیج کر کتنے بڑے خزانے سے محروم ہو گئے ہو۔ کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص کون تھا؟
معتوق: کون تھے؟
شفیقؒ: ابراہیمؒ بن ادھم
معتوق: (غم سے اس کی چیخ نکل جاتی ہے) ابراہیم بن ادھم!
شفیقؒ: جی، جی ہاں۔
معتوق: میں انھیں شہر سے ڈھونڈ کر واپس لاتا ہوں۔
شفیقؒ: اب یقینا وہ کسی اور شہر چلے گئے ہوں گے۔
معتوق: تو جناب والا! آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا؟
شفیقؒ: اگر انھیں پتا چل جاتا کہ تم انھیں جانتے ہو تو وہ تمھارے ہاں ایک لمحہ کے لیے بھی نہ رکتے۔
معتوق: ہاں مجھے اس سونے کی کان کا اس وقت پتا چلا جب میں اسے ضائع کر چکا تھا۔
(افسوس سے سر جھکا لیتا ہے۔ شفیق بلخی ؒ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور باہر جاتے ہیں)