اس میں کسی مسلمان کو شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کے بعد تمام مخلوقات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مقام ارفع واعلیٰ ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لیے نبی رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ نبی کریمؐ کے مقام ومرتبہ کے بارے میں بعض لوگوں نے اس حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا کہ ان کے خیالات میں شرک جھلکنے لگااور ردعمل میں بعض لوگوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا کہ ان میں توہین کا پہلو دکھائی دینے لگا۔ اس افراط وتفریط نے مسلمانوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اس گروہی تعصب نے مسلمانوں کی اکثریت کو نہ صرف مسجدوں سے دور کر دیا بلکہ عملاً ان کی زندگی میں اسلام صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح مقام ومرتبہ وہی ہے جو خالق کائنات نے انھیں دیا اور جو نبوت دینے والے نے انھیں بخشا۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی بیان کیا جائے گا وہ افراط وتفریط ہی کے زمرے میں آئے گا۔ ذیل کی سطور میں ان منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے جن میں نبی کریمؐ کا تذکرہ مبارک ہے۔ آیات کے اس ترجمہ سے نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس کے مقام ومرتبہ کی عظمت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
سورہ بنی اسرائیل میں نبی کریمؐ کی ذات مبارک کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
‘‘پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اسے کچھ اپنی نشانیاں دکھائیں اور اسے بعض اسرار غیب معلوم ہوں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سننے اور دیکھنے والا تو وہی اللہ ہے۔’’
اس آیت مبارکہ میں نبی کریمؐ کے واقعہ معراج کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز بخشا اور انھیں سب سے اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی نبی یا رسول آئے ان کا دائرہ کار محدود تھا جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لیے تا قیامت نبی بنا کر بھیجا اور فرمایا:
وما ارسلناک الا رحمتہ العالمینo ‘‘اور ہم نے آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔’’
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو تما م عالم کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (الاحزاب۔۲۱)
‘‘یقینا تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں حسین نمونہ ہے۔’’
قرآن مجید میں نبی کریمؐ کی عظمتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
ورفعنا لک ذکرکo اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔
اب اللہ تعالیٰ جس کے ذکر کو بلند کرے کس کی ہمت ہے کہ اسے گرا سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملت کفر کے بڑے بڑے دانشوروں نے بھی نبی کریمؐ کی عظمت کی گواہی دی ہے۔ دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں روزانہ پانچ وقت اذان واقامت میں باآواز بلند نبی کریمؐ کی عظمت کی شہادت نہ دی جاتی ہو۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام و مرتبہ کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں۔ سورہ احزاب کی ذیل کی آیت سے اندازہ لگائیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے نبی کریمؐ پر درود بھیجتے ہیں، مومنو! تم بھی پیغمبرؐ پر درود وسلام بھیجا کرو۔’’
کروڑوں مسلمان روزانہ پانچ وقت کی فرض نمازوں میں، بچے کی پیدائش کے وقت اس کے کانوں میں، اذان واقامت کے ذریعے نبی کریمؐ کا ذکر بلند کرتے ہیں۔ نماز کے اندر بھی درود وسلام بھیجتے ہیں اور نماز جنازہ تک درود کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ لاکھوں مسلمان مسلسل درود وسلام بھیجتے رہتے ہیں۔ اس طرح اربوں اور کھربوں بار روزانہ نبی کریمؐ کی ذات ِمبارک پر درود وسلام بھیجا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں نبی کریمؐ کے حوالے سے دیگر کچھ آیات کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
٭ مسلمانو! جب پیغمبر تم میں سے کسی کو بلائے تو اس کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لے کر (مجلس نبویؐ سے) کھسک جاتے ہیں۔ تو جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آن پڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نہ نازل ہو جائے۔(سورہ:النور)
٭ اور تم کو یہ شایان نہیں کہ اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بے شک یہ اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کا کام ہے۔(سورہ احزاب:۵۳)
٭ اور (اے محمدؐ) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (سورہ سبا)
٭ مومنو!(کسی بات کے جواب میں) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (سورہ الحجرات)
٭ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز کو پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کرو اورنہ اس کے ساتھ بہت زور سے (اونچی آواز سے) بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زور زور سے بولا کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب اکارت ہو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (سورہ الحجرات)
٭ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم پیغمبر سے سرگوشی کرنے کا ارادہ کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمھارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔ پھر اگر تم صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورہ المجادلہ)
٭ اور اے پیغمبر، ہم نے تمھیں لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور تمھاری رسالت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے فی الحقیقت اللہ کی اطاعت کی اور جو نافرمانی کرے تو اے پیغمبر تمھیں ہم نے ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ (سورہ النساء)
٭ اور تمھارے اخلاق بڑے عالی ہیں۔ (سورہ القلم)
٭ قسم ہے ستاروں کی جب وہ غروب ہوئے۔ تمھارا رفیق (محمدؐ) نہ بھٹکا ہے اور نہ بہکا ہے اور نہ اپنی خواہش نفسانی سے بولتا ہے ۔یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے، اسے ایک زبردست قوت والے صاحب حکمت (فرشتے) نے تعلیم دی ہے۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا اور وہ آسمان کے بلند کنارے پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا اور جھک گیا یہاں تک کہ دوکمانوں کے برابر یا پھر ان سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ (النجم)
اسی سورۃ کی اگلی آیات میں سفر معراج کے موقع پر نبی کریمؐ کو سدرہ المنتہیٰ، جنت المادیٰ اور قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دکھانے کا ذکر ہے۔ سفر معراج کا یہ اعزاز صرف نبی کریمؐ کو حاصل ہوا۔
٭ تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں، تمھاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے، تمھاری بھلائی کا وہ حریص ہے اور ایمان لانے والوں پر نہایت درجہ شفیق اور رحیم ہے۔ (سورہ التوبہ)
٭ (منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تمھارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تمھیں ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور تمھیں پاک صاف کرتا ہے اور تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ (سورہ البقرہ)
٭ اے پیغمبر، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم واقعی اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیارکرو، اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور وہ غفور رحیم ہے۔ (سورہ آل عمران)
٭ اے پیغمبر، ان کو وہ وقت یاد دلاؤ جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ جو کتاب وحکمت ہم تمھیں دیں، پھر تمھارے پاس کوئی پیغمبر آئے اور جو کتاب تمھارے پاس ہے ، اس کی تصدیق بھی کرے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی (یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا) ‘‘کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور ہماری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟’’ انھوں نے عرض کیا ‘‘ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔’’ (سورہ آلِ عمران)
٭ اے پیغمبر، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمھیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دلوں میں ذرا بھی تنگی نہ پائیں۔(سورۂ نساء)
٭ اور تمھارا رب تمھیں اتنا عطا کرے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔(سورہ والضحیٰ)
٭ بے شک ہم نے آپ (محمدؐ) کو کوثر عطا کی۔ (سورہ الکوثر)
٭ محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔(سورہ الاحزاب)
٭ اے پیغمبر (محمدؐ) ہم نے تم کو گواہی دینے والا، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف لوگوں کو بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ (سورہ الاحزاب)
٭ اللہ ہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (سورہ الصف)
٭ اے کپڑے میں لپٹنے والے (محمدؐ) اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤاور اپنے پروردگار کی کبریائی بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو۔(سورہ مدثر)
٭ (اے محمدؐ) لوگوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔(سورۂ الاعراف)
٭ اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریحاً گمراہی میں پڑ گیا۔ (سورہ احزاب)
٭ اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام واضح کرکے پہنچا دینا ہے۔ (سورہ التغابن)
٭ (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ تم اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور دیکھو دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا (سورہ النساء)
٭ اے پیغمبر، تمھارے رب کی طرف سے تم پر جو کچھ نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔(سورہ المائدہ)
٭ اے پیغمبر، ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تو بس تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہوں، البتہ مجھ میں اور تم میں اتنا فرق ہے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ (سورہ الکہف)
٭ اے پیغمبر، ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تو تمھارے ہی جیسا ایک بشر ہوں (مجھ میں اور تم میں اتنا فرق ہے) کہ مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ (سورہ حم السجدہ)
٭ تمام پیغمبروں نے (اپنی امتوں سے) کہا کہ ہم تمھارے ہی جیسے انسان ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (نبوت کا) احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تمھاری فرمائش کے مطابق معجزہ دکھائیں۔ (سورہ ابراہیم )
٭ اور اے پیغمبر، ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے، وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔(سورہ فرقان)
٭ اے پیغمبر، ان لوگوں سے کہو کہ میرا پروردگار پاک ہے، میں تو صرف اس کا پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔ اور جب کبھی لوگوں کے پاس اللہ کی طرف سے ہدایت آئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کسی چیز سے نہ روکا کہ کہنے لگے کہ کیا اللہ نے (ہماری طرح ہی کے) ایک انسان کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ہے۔ اے پیغمبر، ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے کہ وہ اس میں چلتے پھرتے اور آرام کرتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر اتارتے۔(سورۂ بنی اسرائیل)
٭ اے پیغمبر، ان لوگوں سے کہہ دو کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی کر رہے ہو، وہ میرے پاس نہیں ہے، اگر وہ میرے اختیار میں ہوتا تو ہمارے تمھارے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
٭ اے پیغمبر، تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔(القصص)
٭ اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے۔(سورہ فاطر)
٭ اور کوئی رسول، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی نہیں لا سکتا۔(سورہ المومن)
٭ اللہ کے کسی بھی نبی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی حلال کی ہوئی کسی چیز کو حرام قرار دے سکے۔ سورہ التحریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ‘‘اے پیغمبر، جو چیز اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے، تم اس کو حرام کیوں ٹھہراتے ہو، کیا اس سے تم اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو، اور اللہ غفور رحیم ہے۔’’
٭ پیغمبر اور اہل ایمان کو یہ سزاوار نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ قرابت دارہی کیوں نہ ہوں۔ (سورہ التوبہ)
٭ (اے پیغمبر ان سے کہو کہ ) مجھے ملا اعلیٰ کی بحث و گفتگو کی خبر نہ تھی جب کہ وہ (تخلیق آدم کے بارے میں) جھگڑ رہے تھے۔ یہ باتیں تو اس وجہ سے مجھے وحی کی جاتی ہیں کہ میں صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔(سورہ ص)
٭ اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمھاری طرف روح القدس کے ذریعے (قرآن ) بھیجا ہے، تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو، لیکن ہم نے اس کو نور بنایا ہے کہ اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں اور بے شک (اے محمدؐ) تم سیدھا راستہ دکھاتے ہو۔(سورہ الشوریٰ)
٭ اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ میں کوئی انوکھا پیغمبر تو ہوں نہیں اور میں نہیں جانتا کہ آئندہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور نہ یہ جانتا ہوں کہ تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو ایک صاف صاف خبردار کردینے والے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں۔ (سورہ الاحقاف)
٭ (یہ لوگ تم سے) پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ اے پیغمبر، تم ان سے کہہ دو کہ (یہ معاملہ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کہ کب واقع ہوگا) میں تو اپنی ذات کے لیے بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا بجز اس کے جتنا اللہ چاہے۔ (سورہ یونس)
سورہ الاعراف میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں:
‘‘اگر مجھے (محمدؐ کو) غیب کا علم ہوتا تو بہت سے منافع اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کسی طرح کا گزند نہ پہنچتا۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لائیں۔’’
٭ اور محمد تو صرف اللہ کے پیغمبر ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں۔ بھلا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں راہ حق سے پھر جاؤ گے …… الخ (سورہ آل عمران)
٭ (اے پیغمبر) تمھیں بھی مرنا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔(سورہ الزمر)
یہ ہے وہ نبی کریم ؐ کا مقام و مرتبہ، اختیار اور کردار جو خالق کائنات نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے یعنی خدائے بزرگ و برتر کے بعد سب سے عظیم ہستی جو اللہ کی مخلوق کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی ہے، جس پر ایمان لانا اور اطاعت کرنا سب پر فرض ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مسلمان نوروبشر ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے متعلق دیگر لا یعنی بحثوں کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نبی کریم ؐ کی سیرت پاک کو اسوہ حسنہ سمجھ کر اپنے اخلاق و کردار اور حقوق و فرائض کا جائزہ لیں، اپنی، اپنے اہل خانہ اور اللہ کی بھٹکی ہوئی مخلوق کی اصلاح کی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔وما علینا الا البلاغ۔
(بشکریہ: ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ، جولائی ۱۹۹۶ء)