انسانیت کی اوج پہ توقیرہو گئی
دھرتی پہ ان کے نورسے تنویر ہو گئی
آنسو گرا جو ایک بھی الفت میں آپ کی
مٹی میرے وجود کی اکسیر ہو گئی
رکھی میری سرشت میں مدحت حضورکی
بخشش کی میری دیکھیے تدبیر ہو گئی
وہ لمحہ جس کو کہتے ہیں معراج مصطفی
انسانیت کے فخر کی تصویر ہو گئی
گر ایک پل بھی ان کی حضوری کا مل گیا
سمجھو دل و نگاہ کی تطہیر ہو گئی
اعجاز ہے حضور کی چشم کرم کا یہ
مجھ بے نوا کی دہر میں توقیر ہو گئی
دیکھو فضائے سدرہ ہے مغموم آج بھی
شاید فراق ِشاہ میں دلگیر ہو گئی
مجھ کو ملا ہے نسبت سرکا ر کا شرف
ایسے معاف ہرمیری تقصیر ہو گئی
اک اینٹ رہ گئی تھی نبوت کے قصر میں
آپ آ گئے تو ختم یہ تعمیر ہو گئی
خالد انہی کے نام سے ہے رنگ کائنات
دنیانگاہ حسن کی نخچیر ہو گئی