ج: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں پر عذاب آیا ان کو پہلے خدا کے پیغمبروں نے توحیدکی دعوت دی۔ جب طویل دعوتی سرگرمیوں کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قوم نے بحیثیت مجموعی پیغمبر کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے تو اللہ تعالی انھیں ہلاک کر دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ پیغمبر یہ بات بھی واضح طور پر بیان کردیتے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو اللہ تعالی اس قوم کی مہلتِ عمر ختم کر دیں گے۔اس سے واضح ہے کہ اس آسمانی آفت کو عذاب قرار دینا درست نہیں ہے۔دنیا کی تمام تکلیفیں اور تمام نعمتیں اصلاًہمارے لیے امتحان ہیں۔ کچھ بھی حالت درپیش ہو ہمیں ہرحال میں اللہ تعالی سے جڑ کر رہنا ہے اور اس کی اطاعت کرنی ہے ۔ اس کی عبادت سے روگردانی ، اسی طرح تکبر، بے صبری اور دوسرے اخلاقی رذائل سے خود کو بچانا ہے۔ہر انسان کی زندگی اور ہر معاشرے میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسانوں کو غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کبھی کبھی اللہ تعالی اس طرح کاواقعہ بڑی سطح پر ظاہر کرتے ہیں ۔ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اسی نوعیت کا واقعہ ہے۔اس میں وہ بھی آزمایش سے دوچار ہیں جو زلزلے سے متاثر ہوئے اور وہ بھی آزمایش سے دوچار ہیں جو محفوظ رہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: یہ سوال صرف اس زلزلے کے حوالے ہی سے کیوں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ گود میں ہمکتا ہوا چاند سا بچہ یتیم ہو جاتا ہے۔ نئی نویلی دلہن بیوہ ہوجاتی ہے۔ لوگ ٹی بی اور کینسر کا شکار ہوتے اور بہت سے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سڑک کے حادثے میں اسی طرح معصوم، نیک یا بد ہر طرح کے لوگ لقمہ اجل بنتے رہتے ہیں۔ غرض کوئی آفت ایسی نہیں ہے جس میں نیک وبد ، بچے ،جوان اور بوڑھے اور مرد وعورت مبتلا نہ ہوتے ہوں۔ ان واقعات میں کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں پیش نظر ہوتی ہیں ہمارے لیے ان کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو کشتی کے ٹوٹنے، نوجوان کے مرنے اور دیوار کی استواری جیسی چند مثالوں دکھا کر یہ بات واضح کی گئی تھی کہ اللہ تعالی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔
(مولانا طالب محسن)
ج: کسی بھی آفت کے ظاہر ی اسباب کیا ہیں؟ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ ظاہر ی اسباب کچھ بھی ہوں کسی واقعے کا ہو جانا اللہ تعالی کے اذن کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کی قدرت میں ہے کہ وہ سمندروں اور پلیٹوں کو تھامے رکھے اور چاہے تو ان کو بے لگام کردے۔ یہی معاملہ بیماریوں، حادثات اور دوسرے نقصانات کا ہے۔ہماری سوچ دو رخ اختیار کرتی ہے ایک یہ کہ اس میں ہماری غلطی اور کوتاہی کیا تھی یا اگر آئندہ ایسا ہو تو ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس امتحان میں ڈالا ہے۔ یہ دونوں رخ ٹھیک ہیں اور دونوں کے اعتبار سے ہماری زندگی میں تبدیلیاں آنی
(مولانا طالب محسن)
ج: قرآن مجید میں عذاب کے ساتھ تبشیر(خوش خبری) کے فعل کے استعمال میں ایک خاص بلاغت ہے۔یہ اسلوب بالعموم ان مواقع پر اختیار کیا گیا ہے جہاں اہل کفر کی ہٹ دھرمی اور اپنے جھوٹے معبودوں پر اندھا اعتماد زیر بحث ہو۔مراد یہ ہے کہ اگر تمھیں اس حق کو قبول کرنے میں یہ چیزیں آڑے آرہی ہیں تو پھر جہنم میں ڈالے جانے کی خوش خبری لے لو۔یہ ایک اعتبار سے ان کے اندھے پن اور ھٹ دھرمی پر طنز ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: مکر کا لفظ اردو میں صرف منفی معنوں میں آتا ہے جبکہ عربی میں یہ لفظ ‘چھپی تدبیر’ کے لیے آتا ہے ۔ چنانچہ یہ مثبت اور منفی دونوں جگہ آجاتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید میں اللہ تعالی کے چاہنے کے یہ بیانات یہ بات واضح کرنے کے لیے ہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور کسی کے بس میں نہیں ہے کہ اس کو نافذ ہونے سے روک دے۔ ان بیانات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے یہ فیصلے کسی اصول پر مبنی نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے جیسا کہ قرآن مجید ہی میں بیان ہوا ہے ایک علیم وحکیم اور عادل ہستی کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ ہم اسی وجہ سے جواب دہ ہیں کہ ہمارے انجام کے بارے میں فیصلہ ہمارے اعمال ہی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جس کے بارے میں جنت کا فیصلہ ہوا اسے جنت سے کوئی محروم نہیں کر سکتا اور جس کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہوا اسے کوئی بچا نہیں سکے گا۔
(مولانا طالب محسن)
ج: ہماری تمام دعائیں سنی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کا معاملہ سرتاسر اللہ تعالی کی حکمت پر منحصر ہے۔ جب اللہ چاہتے ہیں دعا پوری کر دیتے ہیں۔ کبھی مؤخر کردیتے ہیں اور کبھی آخرت تک ملتوی کر دیتے ہیں۔ آپ نے جو مثالیں دی ہیں۔ ان کے معاملے میں غور ایک دوسرے زاویے سے ہونا چاہیے۔ ہم طویل عرصے سے ایک خاص حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ حکمت عملی اب پوری طرح واضح ہے کہ ناکام حکمت عملی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حکمت عملی غلط ہے۔ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس حکمت عملی کو ترک کریں اور سارے معاملے کا جائزہ لے کر کوئی نئی حکمت عملی وضع کریں۔
(مولانا طالب محسن)
ج: آیات سجدہ پرفورا سجدہ کرنا ضروری نہیں۔ یہ سجدہ بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ امام اگر نماز میں سجدہ کرلے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر بعد میں اکیلا سجدہ کر لے یہ بھی درست ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: قرآن مجید کسی موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مراحل میں نازل ہونے والے خدائی خطبات ہیں۔ ان میں دعوت کے مختلف مراحل پر ضروری تعلیمات کا نزول ، انذار تبشیراصلاح عقیدہ وعمل غرض کئی حوالوں سے گفتگو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطبات میں کئی باتیں بار بار کہی گئی ہے۔ یہ اسلوب دعوتی اور اصلاحی کام کے لیے انتہائی موثر ہے۔ اس اسلوب میں تکرار نہیں اصرار ہوتا ہے۔ مخاطب کو بار بار جھنجوڑا جاتا ہے۔ اس پر بات کئی گوشوں اور پہلوؤں سے واضح کی جاتی ہے۔ یہی اس اسلوب کی حکمت ہے۔
(مولانا طالب محسن)