وہ قوم کیسے گمراہ ہوسکتی ہے جس میں حسن بصریؒ موجود ہو۔ (سلمہ بن عبدالملکؒ)

اُم المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ کو کسی نے خوشخبری دی کہ ان کی کنیز خیرۃ نے ایک لڑکے کو جنم دیا ہے۔ یہ خبر سن کر اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ کا دل باغ باغ ہوگیا’ چہرہ مبارک پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پہلی فرصت میں بچہ دیکھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا لہٰذا زچہ بچہ کو اپنے گھر بلانے کے لیے پیغام بھیجا انھیں اپنی کنیز کے ساتھ بے حد پیار تھا اس کا بہت خیال رکھا کرتی تھی۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ وہ زچگی کے ایام یہاں گزارے۔

٭٭٭

پیغام بھیجے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آپ کی کنیز خیرۃ اپنے ہاتھوں پہ نومولود اٹھائے گھر پہنچ گئی۔ جب حضرت اُم سلمہؓ کی نگاہ بچے کے معصوم چہرے پر پڑی تو وفورشوق سے آگے بڑھیں اور اسے اپنی گود میں لے کر پیار کیا۔ یہ بچہ کیا تھا قدرت کا انمول ہیرہ’ اتنا خوبصورت’ گل رخ’ ماہ جبیں اور صحت مند کہ کیا کہنے! ہر دیکھنے والا قدرت کے اس شہکار کو دیکھتا ہی رہ جاتا۔

حضرت اُم سلمہؓ نے اپنی کنیز سے پوچھا: اے خیرۃ! کیا بچے کا نام تجویز کرلیا ہے؟

اس نے کہا: امی جان ابھی نہیں۔ یہ میں نے آپ پر چھوڑ رکھا ہے جو آپ کو نام پسند ہو رکھ لیجیے۔فرمایا: ہم اس کا نام اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت سے حسن تجویزکرتے ہیں۔ پھر ہاتھ اٹھائے اور نومولود کے حق میں دعا کی۔

٭٭٭

حسن کی پیدائش سے صرف اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ کا گھر ہی خوشیوں کا گہوارہ نہ بنا بلکہ مدینہ منورہ کا ایک اور گھرانہ بھی اس خوشی میں برابر کا شریک ہوا اور وہ تھا کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کا گھرانہ وہ خوشی میں اس لیے شریک تھے کہ نومولود کا باپ یسار ان کا غلام تھا اور ان کے دل میں اپنے غلام کی بڑی عزت تھی اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

٭٭٭

حسن بن یسار نے جو بعد میں حسن بصری کے نام سے مشہور ہوئے، رسول اقدسؐ کے گھر یعنی آپ کی زوجہ محترمہ ہند بنت سہیل کی گود میں تربیت پائی جو اُم سلمہؓ کے نام سے مشہور تھیں۔

حضرت اُم سلمہؓ عرب خواتین میں سب سے بڑھ کر عقل مند’ سلیقہ شعار’ محتاط’ حساس اور پیکر حسن و جمال اور صاحبِ فضل و کمال تھیں۔ علم و ہنر اور تقویٰ و خشیت میں ممتاز مقام پر فائز تھیں’ آپ سے تین صد ستاسی احادیث مروی ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کا شمار ان نادر خواتین میں ہوتا تھا جو لکھنا جانتی تھیں۔

حضرت حسن بصریؒ کا تعلق اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ کے ساتھ صرف ان کی کنیز کے بیٹے کی حیثیت سے ہی نہیں تھا بلکہ اس سے بھی کہیں گہرا اور قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بسااوقات حسن کی والدہ خیرۃ حضرت اُم سلمہؓ کے کسی ضروری کام کو نپٹانے کے لیے گھر سے باہر جاتیں تو یہ بچپن میں بھوک پیاس کی وجہ سے رونے لگتے۔ حضرت اُم سلمہؓ اسے اپنی گود میں لے لیتیں’ ماں کی غیرحاضری میں بچے کو تسلی اور دلاسہ دینے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ کو لگاتیں۔ دودھ اُتر آتا بچہ جی بھر کر پیتا اور خاموش ہوجاتا۔ اس طرح حضرت اُم سلمہؓ کی حسن بصری کے ساتھ دو نسبتیں تھیں ایک اُم المومنین کے اعتبار سے ماں کی اور دوسری رضاعی ماں ہونے کی۔

٭٭٭

اُمہات المومنین کے باہمی خوشگوار تعلقات اور گھروں کے آپس میں قرب و ربط کی وجہ سے اس خوش نصیب بچے کو تمام گھروں میں آنے جانے کا موقع ملتا رہتا اور اس طرح سے اہلِ خانہ کے پاکیزہ اخلاق و اطوار اپنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں ازواج مطہرات کے گھروں میں میرے آنے جانے اور کھیل کود سے چہل پہل رہتی اور تمام گھر خوشیوں کا گہوارا بنے رہتے۔ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں اُچھلتا کودتا ہوا گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتا۔ مجھے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

٭٭٭

حضرت حسن بصری کا بچپن انوار نبوت کی چمکیلی اور معطر فضاؤں میں ہنستے کھیلتے گزرا اور یہ رشد و ہدایت کے ان میٹھے چشموں سے جی بھر کر سیراب ہوئے جو اُمہات المومنین کے گھروں میں جاری وساری تھے۔بڑے ہوئے تو مسجد نبوی میں کبار صحابہ کرامؓ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے اور ان سے علم حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔

اس طرح انھیں حضرت عثمان بن عفان، حضرت علیؓ بن ابی طالب، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک، اور حضرت جابر بن عبداللہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث روایت کرنے کا شرف حاصل ہوا لیکن سب سے بڑھ کر امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالبؓ سے پیار تھا۔ دینی مسائل میں ان کے مضبوط مؤقف’ عبادت میں گہری دلچسپی اور دنیاوی زیب و زینت سے بے رغبتی نے بہت متاثر کیا تھا۔ حضرت علیؓ کا سحر انگیز بیان’ حکمت و دانش سے لبریز باتیں’ مسجع و مقفی عبارتیں اور دل دہلا دینے والی نصیحتیں ان کے دل پر اثرانداز ہوئیں تو ان کے ہوکر رہ گئے۔ حضرت علیؓ کے تقویٰ و اخلاق کا رنگ ان پر چڑھا’ حضرت حسن بصری نے فصاحت و بلاغت میں حضرت علیؓ کا اسلوب اختیار کیا۔

حضرت حسن بصری جب اپنی عمر کی چودہ بہاریں دیکھ چکے تو اپنے والدین کے ہمراہ بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل رہائش اختیار کرلی۔ اس طرح حضرت حسن بصرہ کی طرف منسوب ہوئے اور لوگوں میں حسن بصری کے نام سے مشہور ہوئے۔

٭٭٭

جن دنوں حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ بصرہ میں آباد ہوئے بلادِاسلامیہ میں یہ شہر علوم وفنون کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی مرکزی مسجد صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ سے بھری رہتی تھی۔ مسجد کاہال اور صحن مختلف علوم و فنون کے حلقہ ہائے درس سے آباد تھا۔ حضرت حسن بصریؒ اُمت محمدیہ کے جید و ممتاز عالم دین’ مفسر قرآن کریم’ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے تفسیر’ حدیث اور تجوید کا علم حاصل کیا۔ فقہ’ لغت اور ادب جیسے علوم دیگر صحابہؓ سے حاصل کیے’ یہاں تک کہ یہ ایک راسخ عالم دین اور فقیہہ کے مرتبہ کو پہنچے۔ علم میں رسوخ کی وجہ سے عام لوگ دیوانہ وار ان کی طرف متوجہ ہوئے’ لوگ ان کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے ایسے مواعیظ سنتے جس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے اور گنہگار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے’ آپ کی زبان سے نکلنے والی حکمت و دانش کی باتوں کو لوگ سرمایۂ حیات سمجھتے ہوئے اپنے دلوں میں محفوظ کرلیتے اور آپ کی قابل رشک سیرت کو اپنانے کے لیے ہردم کوشاں رہتے۔

حضرت حسن بصریؒ کا نام پورے ملک میں مشہور ہوگیا۔ لوگ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکرخیر کرنے لگے۔ حکمران ان کی خیریت دریافت کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے’ شب و روز کے معمولات سے آگاہی کی دلی تمنا رکھتے۔خالد بن صفوان بیان کرتے ہیں کہ میں عراق کے ایک قدیم شہر حیرہ میں بنواُمیہ کے جرنیل اور فاتح قسطنطنیہ مسلمہ بن عبدالملک سے ملا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا۔ خالد’ مجھے حسن بصریؒ کے متعلق کچھ بتاؤ۔ میرا خیال ہے اسے جتنا تم جانتے ہو کوئی اور نہیں جانتا۔میں نے کہا: آپ کا اقبال بلند ہو۔ ہر دم کامیابی آپ کے قدم چومے۔ بلاشبہ میں ان کے متعلق آپ کو بہتر معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں کیونکہ میں ان کا پڑوسی بھی ہوں اور ہم نشین بھی’ بلکہ اہل بصرہ میں سب سے زیادہ میں اسے جانتا ہوں۔ اس نے کہا: ان کے متعلق کچھ مجھے بھی بتائیں۔میں نے کہا: اس کا باطن ظاہر جیسا ہے’ اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ جب وہ کسی کو نیکی کا حکم دیتا ہے’ پہلے خود اس پر عمل کرتا ہے’ جب کسی کو برائی سے روکتا ہے’ وہ خود بھی اس برائی کے قریب نہیں پھٹکتا ۔ میں نے دنیاوی مال و متاع سے اسے بالکل مستغنی و بے نیاز پایا جو اس کے پاس علم و تقویٰ کا خزانہ ہے۔ لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار اس کی طرف لپکتے ہیں’ وہ لوگوں کا محبوب نظر ہے۔ یہ باتیں سن کر جرنیل مسلمہ بن عبدالملک پکار اُٹھا:خالد اب بس کیجیے اتنا ہی کافی ہے۔ ‘‘بھلا وہ قوم کیسے گمراہ ہوسکتی ہے جس میں حسن بصریؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود ہو’’۔

٭٭٭

جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اور اس نے اپنے دور حکومت میں ظلم و تشدد کی انتہا کردی تو حضرت حسن بصریؒ ان معدودے چند اشخاص میں سے ایک تھے جنھوں نے اس کی سرکشی اور ظلم و جور کو آگے بڑھ کر روکا۔ اس کے بُرے کارناموں کی ڈٹ کر مخالفت کی اور حق بات ڈنکے کی چوٹ سے اس کے مونہہ پر کہی۔

حجاج بن یوسف نے واسط شہر میں اپنے لیے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہوگئی’ اس نے افتتاحی تقریب میں لوگوں کو دعوتِ عام دی تاکہ وہ عظیم الشان محل کو دیکھیں’ اس کی سیر کریں’ بزبانِ خود تعریف کریں اور دعائیہ کلمات سے نوازیں۔حضرت حسن بصریؒ کے دل میں خیال آیا کہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ وہ یہ نیت لے کر گھر سے نکلے کہ آج لوگوں کو نصیحت کریں گے۔ انھیں دنیاوی مال و متاع سے بے رغبتی اختیار کرنے کا درس دیں گے اور جو اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات ہیں انھیں حاصل کرنے کی ترغیب دیں گے۔ جب آپ موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس عالیشان اور بلندوبالا محل کے چاروں طرف جمع ہیں اور عمارت کی خوبصورتی پر دل فریفتہ اس کی وسعت پر انگشت بدنداں اور اس کی آرائش و زیبائش سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:ہمیں یہ معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ مضبوط’ خوبصورت اور عالیشان محلات تعمیر کیے تھے’ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیا اور اس کے محلات کو بھی تباہ و برباد کردیا۔ کاش حجاج کو یہ معلوم ہوجائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں اور زمین والوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔

وہ پورے جوش و ولولہ سے حجاج کے خلاف برس رہے تھے۔ ان کے مونہہ سے الفاظ تیروں کی طرح نکل رہے تھے’ مجمع ان کی شعلہ بیانی پر دم بخود تھا۔ یہاں تک کہ سامعین میں سے ایک شخص نے حجاج بن یوسف کے انتقامی جذبے سے خوف زدہ ہوکر حضرت حسن بصریؒ سے کہا: جناب اب بس کیجیے اتنا ہی کافی ہے کیوں اپنے آپ کو ہلاکت کے مونہہ میں دے رہے ہیں۔حضرت حسن بصریؒ نے اس نیک دل شخص سے کہا: میرے بھائی اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم سے یہ پیمان لیا ہے کہ وہ ظالم کے مونہہ پر بغیر کسی خوف کے حق بات کا پرچار کرتے رہیں گے اور کبھی اس راہ وفا میں جفا کا گزر نہیں ہونے دیں گے۔ یہی ہمیشہ حق والوں کا وطیرہ رہا ہے اور یہی فریضہ آج میں ادا کر رہا ہوں۔

٭٭٭

دوسرے روز حجاج گورنر ہاؤس میں آیا تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا تھا۔ اس نے غضب ناک انداز میں اہلِ مجلس سے کہا: لکھ لعنت ہے تمہارے وجود پر بزدلو’ کمینو’ میری آنکھوں سے دُور ہوجاؤ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بصرے کا ایک غلام ابن غلام مجمع عام میں بے لگام جو جی میں آتا ہے میرے خلاف کہہ جاتا ہے اور تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کی زبان کو روکے’ شرم کرو’ حیا کرو۔ اے گروہ بزدلان! اقلیم من کان کھول کر سنو! اللہ کی قسم! اب میں اس کا خون تمھیں پلا کر رہوں گا۔ اسے آج ایسی عبرتناک سزا دوں گا کہ دنیا انگشت بدندان رہ جائے گی۔ پھر اس نے تلوار اور چمڑے کی چادر منگوائی ۔ یہ دونوں چیزیں فوراً اس کی خدمت میں پیش کردی گئیں ۔ اس نے جلاد کو بلایا۔ وہ پلک جھپکتے ہی سامنے آکھڑا ہوا’ پھر پولیس کو حکم دیا کہ حسن بصری کو گرفتار کر کے لایا جائے۔پولیس تھوڑی ہی دیر میں انھیں پکڑ کر لے آئی۔ منظر بڑا ہی خوفناک تھا ۔ ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کی نظریں اُوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ ہر شخص مغموم تھا ’ دل کانپ رہے تھے۔ جب حضرت حسن بصریؒ نے تلوار’ جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو وہ زیرلب مسکرائے اور کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔جب وہ حجاج کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر مومن کا جاہ و جلال مسلمان کی شان و شوکت اور مبلغ کی آن بان کا عکس جمیل نمایاں تھا۔

جب حجاج بن یوسف نے ان کی طرف دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی’ غصہ کافور ہوگیا اور بڑی دھیمی آواز میں کہا : ابوسعید حسن بصری میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں آیئے تشریف رکھیے۔ میرے قریب بیٹھیں آپ بیٹھنے لگے تو کہا: ذرا اور قریب ہوجائیں یہاں تک کہ اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔ لوگ یہ منظرحیرت’ استعجاب اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔جب حضرت حسن بصریؒ بڑے اطمینان سے تخت پر بیٹھ گئے تو حجاج نے ان سے دینی مسائل دریافت کرنے شروع کر دیئے۔ حضرت حسن بصریؒ ہر سوال کا جواب بڑی دلجمعی ’ سحربیانی اور عالمانہ انداز میں دیتے رہے۔ حجاج بن یوسف ان کے جوابات سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا: ابوسعید تم واقعی علماء کے سردار ہو۔ پھر قیمتی عطر منگوایا اور ان کی داڑھی کو محبت بھرے انداز میں لگا کر الوداع کیا۔جب حضرت حسن بصریؒ دربار سے نکلے تو حجاج کا دربان بھی ان کے پیچھے ہولیا۔ تھوڑی دُور جاکر اس نے کہا: اے ابوسعید! حجاج نے آج آپ کو کسی اور غرض سے بلوایا تھا لیکن اس کی طرف سے یہ حسنِ سلوک دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ مجھے ایک بات بتائیں جب آپ گرفتار ہوکر دربار میں تشریف لائے تھے آپ نے تلوار’ جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو آپ کے ہونٹ حرکت کر رہے تھے وہ آپ کیا پڑھ رہے تھے؟حضرت حسن بصری ؒنے فرمایا: میں نے اس وقت یہ دعا کی تھی:

الٰہی تو مجھ پہ کی گئی نعمتوں کا والی ہے، ہر مصیبت کے وقت میرا ملجا و ماویٰ ہے، الٰہی ساری مخلوق کے دل تیرے قبضے میں ہیں، الٰہی حجاج کے غصے کو میرے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا کردے جس طرح تو نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا اورسلامتی والا کردیا تھا:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

میری دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور حجاج کا غصہ محبت میں بدل گیا۔

٭٭٭

حضرت حسن بصریؒ کو جابر و ظالم حکمرانوں کے ساتھ کئی مرتبہ اسی نوعیت کا پالا پڑا لیکن آپ ہر دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حکمرانوں کی نگاہ میں محترم اور ان کے دلوں پر اپنی عظمت و خودداری کے گہرے نقوش ثبت کر کے واپس لوٹے۔

اسی قسم کا ایک حیرت انگیز واقعہ اس وقت پیش آیا جب خداترس منصف مزاج’ سادہ منش’ پاک بیں’ پاک طینت’ خوش گہر اور پاکیزہ خو خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز کی وفات حسرت آیات کے بعد یزید بن عبدالملک مسندخلافت پر جلوہ گر ہوا۔ اس نے عراق کا گورنر عمر بن ہبیرۃ فزاری کو مقرر کیا۔ پھر اس کے اختیارات میں اضافہ کر کے خراسان کا علاقہ بھی اس کے ماتحت کردیا۔یزید بن عبدالملک نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جو سلف صالحین کے طرزِعمل کے بالکل برعکس تھا۔ وہ اپنے گورنر عمر بن ہبیرۃ کو کثرت سے خط لکھتا اور ان خطوط میں ایسے احکامات جاری کرتا جو بسااوقات حق کے منافی ہوتے اور انھیں فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیتا۔ایک دن عمر بن ہبیرۃ نے حسن بصری اور عامر بن شراحبیل کو مشورے کے لیے بلایا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین یزید بن عبدالملک کو اللہ تعالیٰ نے مسندخلافت عطا کی۔ جیساکہ آپ کو معلوم ہے اس نے مجھے عراق اور ایران کا گورنر مقرر کیا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے ایسے سرکاری خطوط ارسال کرتا ہے جن میں بعض ایسے اقدامات کرنے کا حکم ہوتا ہے جو میرے نزدیک مبنی برانصاف نہیں ہوتے۔ کیا ایسے احکامات سے پہلوتہی اختیار کرنے کا دینی لحاظ سے میرے لیے کوئی جواز نکلتا ہے۔حضرت عامر بن شراحبیلؒ نے ایسا جواب دیا جس میں خلیفہ کے لیے نرم رویہ اور گورنر کو خوش کرنے کا انداز پایا جاتا تھا لیکن حضرت حسن بصریؒ خاموش بیٹھے رہے۔گورنر عمر بن ہبیرۃ نے حسن بصری کی طرف دیکھا اور کہا: ابوسعید! آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: اے ابن ہبیرۃ! ہوسکتا ہے کہ آسمان سے ایک ایسا سخت گیر فرشتہ نازل ہو جو قطعاً اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا۔ وہ تجھے تخت سے اُٹھا کر اس محل کی وسعتوں سے نکال کر ایک تنگ و تاریک قبر میں ڈال دے’ وہاں تو یزید کو نہیں دیکھ سکے گا۔ وہاں تجھے وہ عمل ملے گا جس میں تو نے اپنے اور یزید کے رب کی مخالفت کی تھی۔اے ابن ہبیرۃ اگر تو اللہ کا ہوجائے اور ہر دم اس کی اطاعت میں سرگرم رہے وہ تجھے یقینا دنیا و آخرت میں یزید کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اور اگر تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے یزید کا ساتھ دے گا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی تجھے یزید کے ظلم و ستم کے حوالے کر دے گا۔ اے ابن ہبیرۃ خوب اچھی طرح جان لو’ مخلوق میں خواہ کوئی بھی ہو’ اس کا وہ حکم نہیں مانا جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پائی جاتی ہو’ یہ باتیں سن کر ابن ہبیرۃ اتنا روئے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہوگئی۔ پھر وہ حضرت عامر بن شراحبیل شعبی کو چھوڑ کر حضرت حسن بصری کی طرف مائل ہوئے اور حد درجہ ان کی عزت و اکرام بجا لائے۔جب دونوں بزرگ گورنر کی ملاقات سے فارغ ہوکر مسجد میں پہنچے۔ لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے اور ان سے گورنر کے ساتھ ہونے والی باتیں معلوم کرنے لگے۔

حضرت عامرؒ نے لوگوں کے سامنے برملا کہا: لوگو! ہمیں ہر حال میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کومخلوق پر ترجیح دینی چاہیے۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ آج حسن بصریؒ نے گورنر عمر بن ہبیرۃ کو کوئی ایسی بات نہیں کہی جسے میں نہ جانتا ہوں لیکن میں نے اپنی گفتگو میں گورنر کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھا اور حسن بصری نے اپنی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے گورنر کی نظروں میں گرا یا اور حسن بصریؒ کو اس کی نگاہوں میں محبوب بنادیا۔

٭٭٭

حضرت حسن بصریؒ اسّی برس زندہ رہے اور اس دوران میں دنیا کو اپنے علم و عمل’ حکمت و دانش اور فہم و فراست سے فیض یاب کرتے رہے۔ انھوں نے نئی نسل کے لیے جو عظیم ورثہ چھوڑا وہ ان کے رقت انگیز پندو نصائح ہیں جو رہتی دنیا تک خزاں گزیدہ دلوں کے لیے بہار بنے رہیں گے۔ ان کی نصیحتیں دلوں میں گداز اور ارتعاش پیدا کرتی رہیں گی’ ان کے رقت انگیز مواعیظ کے اثر کی بنا پر احساسِ ندامت سے آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں لگتی رہیں گی۔ بیتاب آنسو بہتے رہیں گے۔ پریشان حال لوگوں کو راہنمائی ملتی رہے گی اور غفلت شعار انسانوں کو دنیا کی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوتی رہے گی۔ ایک شخص نے حضرت حسن بصریؒ سے دنیا کے متعلق پوچھا: آپ نے فرمایا: مجھ سے آپ دنیا و آخرت کے متعلق پوچھتے ہیں سنو! دنیا و آخرت کی مثال مشرق و مغرب جیسی ہے’ جتنا زیادہ تم ایک کے قریب جاؤ گے اتنا ہی دوسرے سے دُور ہوتے جاؤ گے۔

تم کہتے ہو کہ میں دنیا کے اوصاف بیان کروں۔ میں تمھارے سامنے اس گھر کی کیا صفت بیان کروں۔ جس کا آغاز مشقت و تکلیف پر مبنی ہے’ اور جس کا انجام فنا و بربادی ہے ’ اس میں جو حلال ہے اس کا حساب لیا جائے گا اور جو حرام ہے اس کے استعمال پر سزا دی جائے گی’ جو اس میں تونگر و مالدار ہوا وہ فتنے میں مبتلا ہوا اور جو فقیرومحتاج ہوا وہ حزن و ملال کا شکار ہوا۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ سے حال دریافت کیا’ فرمایا:بھائی! میرا حال کیا پوچھتے ہو! افسوس ہم نے اپنی جانوں پر کتنے ظلم ڈھائے۔ ہم نے اپنے دین کو کمزور کر دیا اور دنیاوی حرص نے ہمیں موٹا کردیا۔ ہم نے اپنے اخلاق بوسیدہ کردیئے اور اپنے بستر اور کپڑے نئے بنوا لیے۔ ہم میں سے ایک اپنے بائیں پہلو پہ ٹیک لگائے مزے سے پڑا رہتا ہے اور غیروں کے مال بڑی بے پرواہی سے ہڑپ کیے جاتا ہے۔

پھر فرمایا: تیرا کھانا چھینے ہوئے مال سے’ تیرا دوسرے ناداروں سے کام لینا بیگار سے پھر تو نمکین کے بعد میٹھا کھانے کے لیے منگواتا ہے ’ ٹھنڈے کے بعد گرم پیتا ہے۔خشک کے بعد تر کھجوریں کھاتا ہے پاپی پیٹ میں درد اُٹھتا ہے اور قے آنے لگی ہے۔ پھر گھر میں شور مچاتا ہے کہ جلدی چورن لاؤ تاکہ کھانا ہضم ہوجائے۔

اے گھٹیا نادان! اللہ کی قسم تو اپنے دین کے سوا کچھ بھی ہضم نہیں کرسکے گا۔ ارے احمق! تیرا پڑوسی کہاں اور کس حال میں ہے؟ تیری قوم کا بھوکا یتیم کہاں ہے؟ وہ مسکین کہاں ہے جو تیری طرف دیکھتا رہتا ہے؟ وہ مخلوق کہاں ہے جس کی نگرانی اور دیکھ بھال کی اللہ تعالیٰ نے تجھے وصیت کی تھی؟ کاش تجھے علم ہوتا کہ تو محض ایک گنتی کا ہندسہ ہے۔ جب ایک دن کا سورج غروب ہوتا ہے تو تیری زندگی کا ایک دن کم ہوجاتا ہے۔

٭٭٭

یکم رجب ۱۱۰ ہجری جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب حضرت حسن بصریؒ نے اپنے رب کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کی۔ صبح کے وقت جب ان کی وفات کی خبر لوگوں میں پھیلی تو بصرے میں کہرام مچ گیا۔ آپ کو غسل دیا گیا’ کفن پہنایا گیا اور اس مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی گئی جس میں زندگی کا بیشتر حصہ عالم’ معلم اور داعی و مبلغ کی حیثیت میں گزارا۔ بصرہ کے تمام باشندے نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ اس روز بصرہ کی مرکزی مسجد میں نماز عصر کی جماعت نہیں ہوئی کیونکہ شہر میں نماز پڑھنے والا کوئی فرد باقی نہیں رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ اس خوش گہر’ پاکیزہ خو’ سادہ’ منش’ شیریں سخن’ پاک طینت’ پاک بین’ فرخندہ رو اور خندہ جبیں عظیم المرتبت شخصیت کی قبر کو منور کرے۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔

٭٭٭