"وہ جو راستہ دکھانے والے تھے"

مصنف : محمد حسن الیاس

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : مئی 2025

مشاہير اسلام

"وہ جو راستہ دکھانے والے تھے"

ڈاكٹر محمود احمد غازی ، ڈاكٹر ظفر اسحاق انصاری

حسن الياس

ابتدائی شعور کے دنوں میں جب فکر و احساس کے دریچے کھلنے لگے، خدا نے بعض ایسے بزرگوں کی صحبت نصیب فرمائی جن کی علمی شان اور فکری رفعت آج بھی یادوں میں روشن چراغوں کی طرح فروزاں ہے۔ان میں دو نام سب سے نمایاں ہیں: ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رحمہما اللہ-

میں اگرچہ اپنے پس منظر میں خالص دیوبندی تہذیب کا پروردہ تھا، لیکن ان بزرگوں کی رفاقت نے فکری دنیا میں نئے دریچے وا کر دیے۔میری کالج کی تعلیم اسلام آباد کے او پی ایف کالج میں ہوئی۔ ہم G-11 میں رہائش پذیر تھے، اور خوش نصیبی سے ہمارے پڑوس میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا گھر تھا۔ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات میرے پھوپھا، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ کی معیت میں ہوئی، اور پھر یہ تعارف بارہا کی علمی نشستوں میں ایک گہرے طالب علمانہ استفادے کے تعلق میں ڈھل گیا۔غازی صاحب نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم کراچی کے بنوری ٹاؤن مدرسے میں حاصل کی تھی۔ ان کے والد، جو ایک سرکاری افسر تھے، اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے ساتھ ہی یہاں منتقل ہو گئے تھے۔ اس نسبت سے ہمارے خاندان کے لیے ان کے دل میں فطری محبت اور شفقت پائی جاتی تھی۔ان کی شخصیت میں علم کا وہ سنجیدہ وقار نمایاں تھا، جو نہ رسمی خطابات کا عطیہ تھا، نہ دنیاوی مناصب کی بخشش؛ بلکہ وہ خالص علم اور گہرے تدبر کی روشنی میں دمکتا تھا۔ان سے مل کر یہ احساس ہوتا کہ علم انسان کو محض بلندی نہیں دیتا، بلکہ اس کے وجود میں تواضع، حکمت اور تحمل بھی راسخ کرتا ہے۔

ان دنوں، غالباً دعوۃ اکیڈمی میں، تدوینِ حدیث پر ان کی ایک لیکچر سیریز جاری تھی، جس میں شرکت نے ان کی علمی وسعت اور روایت سے گہرے شغف کا راز بھی کھولا۔خاص طور پر فقہ کے باب میں ان کا اندازِ نظر بہت نمایاں تھا۔ غازی صاحب نے فقہا کے کام کو محض مذہبی فتاویٰ کا مجموعہ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عالمی قانونی روایات کے ایک جاندار تسلسل کے طور پر پیش کیا۔ان کے نزدیک اسلامی فقہ انسانی تمدن کے ایک عظیم اور زندہ قانونی سرمایہ کی حیثیت رکھتی تھی، جسے آج کی دنیا میں عالمی سطح پر سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی، مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی جیسے اہلِ علم کے بارے میں ان کی متوازن اور فاضلانہ آراء نے میرے دل میں ان کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیا۔

ڈاکٹر غازی کا ایک نمایاں وصف ان کا ریاستی امور کا عمیق ادراک تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں قومی سلامتی کونسل کے رکن بھی رہ چکے تھے۔میرا مذہبی ذہن، جو اس وقت دینی حمیت سے لبریز تھا، اکثر حکومتی فیصلوں کو محض جذباتی انداز میں دیکھتا تھا۔مگر جب ڈاکٹر صاحب سے ان موضوعات پر گفتگو ہوئی تو پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ ریاستیں کن مجبوریوں، کس درجے کی پیچیدگیوں اور کس حکمتِ عملی کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔کچھ عرصے بعد میں کراچی لوٹ آیا اور جامعہ الرشید میں زیرِ تعلیم رہا۔یہاں قیام کے دوران یہ شرف بھی نصیب ہوا کہ جب کبھی ڈاکٹر غازیؒ صاحب کراچی تشریف لاتے، تو فقیر ان کی خدمت پر مامور ہوتا۔اسی زمانے میں زوار اکیڈمی کی علمی مجالس میں باقاعدگی سے حاضری کی سعادت ملی،جہاں سید عزیز الرحمن صاحب جیسے شفیق اور فہیم دوست کی صحبت نے فکر و نظر کو مزید جلا بخشی۔زوار اکیڈمی کی محافل مغربی افکار، روایت اور تجدیدِ فکر جیسے موضوعات پر سنجیدہ مکالمے کا مرکز تھیں۔

مجھے یاد ہے، غالباً 2008 میں، جب میں ڈاکٹر صاحب کو بنوری ٹاؤن لے گیا۔جوں ہی وہ اپنی پرانی درسگاہ کے ماحول میں داخل ہوئے، ان کی آنکھوں میں ایک پرانی محبت کی نمی تیرنے لگی۔اس لمحے شدت سے محسوس ہوا کہ انسان علم و فکر کی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے،اپنے ماضی اور اپنی روایت کے ساتھ اس کا جذباتی رشتہ ہمیشہ دل کے کسی گوشے میں سانس لیتا رہتا ہے۔

ایک مرتبہ میں نے ان سے مولانا مودودی اور دیوبندی حلقوں کے اختلاف پر سوال کیا کہ اس قضیے میں آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ڈاکٹر صاحب نے برجستہ اور معنی خیز انداز میں جواب دیا:"میں اعتدال کے ساتھ کھڑا ہوں۔"یہ ایک جملہ نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل مکتبِ فکر کا اظہار تھا۔

دوسری عظیم شخصیت جن سے حیات کے آخری دور میں بارہا ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا، وہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاریؒ تھے۔ان سے تعلق محترم خورشید ندیم صاحب کے توسط سے قائم ہوا، جب میں جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں زیرِ تعلیم تھا۔ مدرسے سے چند قدم پر انصاری صاحب کا دفتر تھا۔ڈاکٹر انصاری صاحب اپنے آخری ایام میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں پروفیسر ایمریٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

انصاری صاحب ان خوش نصیبوں میں تھے جن کی براہ راست تربیت مولانا مودودیؒ کی آغوشِ علم و تربیت میں ہوئی اور جو جماعت اسلامی کی صفِ دوم کے اکابر میں شمار ہوتے تھے.انھی دنوں ان سے متعدد علمی نشستوں میں حاضری اور استفادے کا موقع نصیب ہوا۔اسی دوران سید متین شاہ صاحب سے بھی قریبی تعلق قائم ہوا۔

یہ وہ وقت تھا جب میرا دل اور دماغ روایت اور تجدیدِ فکر کے سنگم پر تذبذب کا شکار تھا،اور سید صاحب اپنی محبت سے روایت کا جام کچھ اس انداز سے بھر کر پیش کرتے جیسے کوئی ساقی خلوص سے پیالہ بڑھا رہا ہو۔میں اپنی فکری بےچینیاں ان کے حضور پیش کرتا اور رہنمائی کا طلبگار رہتا تھا۔انہی نشستوں میں ایک دن ڈاکٹر انصاری نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا،جو دل کے سارے اندیشوں پر گویا سکون کا مرہم بن گیا۔

انہوں نے فرمایا :"جب تک آپ روایت کے دائرے میں رہ کر اس کی پیشکش میں بہتری کرتے رہیں گے، آپ قابلِ قبول رہیں گے؛لیکن جس دن آپ روایت کی بنیاد پر سوال اٹھائیں گے، روایت آپ کو اگل کر باہر پھینک دے گی۔"

ان کی باتوں میں علم کی گہرائی اور تجربے کی روشنی تھی۔

غامدی صاحب کے بارے میں بھی ان کے خیالات نہایت قدر شناس اور تحسین آمیز ہوتے۔انصاری صاحب جماعت اسلامی سے اپنی گہری علمی وابستگی کے باوجود، مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب جیسے اہل علم کے جماعت سے الگ ہو جانے پر ہمیشہ ایک دکھی اور افسردہ انداز میں گفتگو کرتے۔ان کی باتوں سے جھلکتا تھا کہ وہ اختلافات کے باوجود اہلِ علم کی قدر کرتے تھے اور دل میں روایت کے اس ٹوٹنے پر ایک گہری اداسی محسوس کرتے تھے۔ان کی ایک بات کا مفہوم ہمیشہ یاد رہ گیا:روایت شکنی نوجوان کی جرأت ہے،

مگر یہ جرأت حکمت اور دانائی کے سائے میں ہی بامقصد بنتی ہے۔

یہ انہی کی رہنمائی اور حوصلہ تھا جس نے مجھے فکری ارتقاء کی نئی راہوں پر قدم بڑھانے کا حوصلہ ملا۔آج جب کبھی پاکستان واپس لوٹتا ہوں تو دل شدت سے یہ احساس کرتا ہے کہ مفتی عبدالرحیم صاحب یا مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے چند اکابرین کے سوا،ایسی علمی رفعت، ایسی شخصی وسعت اور ایسی مشفقانہ شفقت رکھنے والی ہستیاں اب شاذ ہی کہیں نظر آتی ہیں۔