جواب: پہلی بیوی سے کیے گئے وعدے کی پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: واَوْفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔( بنی اسرائیل: ۳۴) ‘‘اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔’’
دوسری بیوی کو اتنی مالیت کی اشیا لے کر دینا اور دیگر مذکورہ مالی فوائد پہنچانا ضروری نہیں کیوں کہ پہلی بیوی سے وعدے دوسری کی آمد سے پہلے کے ہیں اس لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم دوسری سے نکاح کے بعد دونوں میں مساوات ضروری ہے۔ پہلی بیوی کو پہلے جو کچھ مل چکا ہے، وہ اسی کا استحقاق ہے، دوسری کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور بعد میں جو چیز بھی خریدی جائے گی اس میں دونوں بحصہ برابر شریک ہوں گی۔ اگرچہ پہلی کے پاس وہ شے موجود ہو، رضامندی سے دونوں میں رقم بھی تقسیم ہوسکتی ہے یا کوئی ایک اتنی قیمت لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب۔ اُنہی دلائل کی بنا پر لے پالک سے بھی وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ دوسری بیوی کی اولاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کی آپس میں مساوات ضروری ہے، لے پالک سے تعلق نہیں۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: دوسری عورت سے نکاح کے بعد حسبِ حیثیت شوہر برابر سلوک ہونا چاہیے اور جو پہلی بیوی کے پاس موجود ہے بموجب وعدہ وہ اسی کا حق ہے۔ اس کی رضا مندی کے بغیر جملہ اشیا میں تصرف ناجائز ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: اولاً تو دنوں بیویوں کا جیب خرچ برابر ہونا چاہیے تاہم باہمی رضامندی سے کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: خاوند کی اطاعت کا تعلق صرف اس کی اپنی ذات سے ہے، اور سسرالیوں کی خدمت پر خاوند مجبور نہیں کرسکتا ۔ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: بچے کی حضانت(تربیت) کی سب سے زیادہ حق دار یا ذمہ دار ماں ہوتی ہے، اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے بعد نانی حق دار ہوا کرتی ہے، اگر وہ بھی نہیں تو خالہ۔ اس لیے کہ نانی ماں سمجھی جاتی ہے اور خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اَلْخَا لَۃُ بِمَنْزِلَۃِالّاُمِّ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اگریہ رشتے دار نہیں تو دادی تربیت کرے گی، وہ بھی نہیں تو بہن اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھوپھی ۔ اگر ان میں سے بھی کوئی تربیت کے لیے موجود نہ ہو تو بچے کی حضانت باپ کی طرف منتقل ہوگی۔موجودہ صورت میں چونکہ بچی کی نانی موجود ہے لہٰذا تربیت کی وہی حقدار ہے۔ شاہ ولی اللہ المسویٰ میں فرماتے ہیں۔:‘‘فالام وام الام اولی بالحضانۃ من الاب۔’’‘‘بچے کی تربیت کی ماں اور نانی زیادہ حق دار ہے۔’’
پھر حضرت عمرؓ کے قصہ سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ایک انصاری عورت کوطلاق دی تو اس سے عاصم بن عمر تولد ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو لینا چاہا تونانی رکاوٹ بن گئی ۔ پھر ابو بکرؓ نے ماں کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔
بچی کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: وارزقواھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا ‘‘اور اس میں سے ان (اولاد) کو روزی دو اور لباس مہیا کرو اور ان کے لیے اچھی بات کہو۔’’
شوہر مرحومہ کے ترکے میں سے چوتھے حصے کا حق دار ہے اور آدھے کی بیٹی ہے، باقی دیگر ورثا کے لیے اپنے اپنے حصص کے مطابق ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)