جواب: اکٹھے خرچ میں تو مساوات بیگانوں میں بھی نہیں ہوسکتی، ایک گھر میں کس طرح ہوگی؟ مثلاً سفر میں دو شخص اپنا خرچ ایک جگہ کریں تو ضرور کمی بیشی ہوگی۔ ایک وقت ایک کو بھوک پیاس نہیں ہوتی تو اس کی خاطردوسرا بھوکا نہیں رہ سکتا، کبھی ایک شخص ایک روٹی کھاتا ہے تو دوسرا دو یا تین کھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیماری وغیرہ میں بھی پیسے کم وبیش خرچ ہوتے ہیں، سب سے احتیاط والی چیز یتیموں کا مال ہے، جس کے متعلق قرآن مجید میں سخت وعید بھی آئی ہے کہ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے یتیموں کا کھانا دانہ الگ کردیا مگر جب اس کا نبھانا مشکل ہوگیا تو ارشاد خداوندی ہوا:
وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ: ۲۰۰) ‘‘یعنی اگر ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو تمہارے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح کو خوب پہچانتا ہے’’۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اکٹھے خرچ میں مساوات کی کوئی صورت نہیں بلکہ ہر ایک کی ضرورت کے بقدر خرچ ہوتا ہے۔ کوئی کھانا زیادہ کھاتا ہے، کوئی کم اور کسی کے وجود پر کپڑے کا خرچ کم ہوتا ہے تو کسی کے وجود پر زیادہ، کیونکہ ان کے قدوقامت بھی برابر نہیں ہوتے۔ کسی کا وجود کمزور ہے، اس کو سردی میں زیادہ گرم کپڑے کی ضرورت ہے تو کسی کو ہلکا کافی ہے۔ کسی کے وجود پر کپڑا جلدی پھٹتا ہے اور وہ سال بھر میں کئی جوڑے چاہتا ہے، کوئی کم، بالخصوص لڑکیوں کے کپڑوں پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ان کے زیور کا خرچ بھی ہے۔
جیساکہ قرآن مجید میں بھی ہے: اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ (الزخرف:۱۸) ‘‘لڑکیوں کی پرورش زیورات میں ہوتی ہے’’۔ پھر بیماریوں وغیرہ کے موقع پر دواؤں اور حکیموں، ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایک انداز پر خرچ نہیں ہوتا۔ اس طرح بیاہ شادی پر مختلف خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح لڑکیوں کی شادی میں ایک قسم کے لڑکے نہیں ملتے اور نہ لڑکیاں ایک صفت، ایک لیاقت کی ہوتی ہیں تو پھر خرچ میں برابری کی کیا صورت ہے؟ اس طرح اولاد کی تربیت میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ ان کی لیاقت، استعداد اور ذہانت و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ کسی کو طبابت، ڈاکٹری، کسی کو انجینئرنگ، کسی کو تجارت اور کسی کو عالمِ دین بنا کر خادمِ اسلام بنا دیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو بھی ان کے حسب ِ حال تعلیم دی جاتی ہے تو ان کے خرچ و اخراجات برابر کس طرح ہوسکتے ہیں؟
یہی صورت حال بیویوں کے بارے میں بھی ہے کہ ان میں بھی برابری کا حکم ہے مگر اس قسم کے اُمور میں ان کے درمیان بھی تفاوت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مہر مختلف تھے، ولیمے مختلف اور ان سے بات چیت مختلف تھی۔ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کو سفر میں ساتھ لے گئے مگر رات کو اپنی سواری حضرت عائشہؓ کی سواری کے ساتھ رکھتے اور انہی سے بات چیت کرتے۔ حضرت حفصہؓ کو اس بات سے بڑی غیرت محسوس ہوئی۔ چنانچہ یہ لمبا قصہ صحیح بخاری میں باب القرعۃ بین النساء اذا أرادا سفرًا میں موجود ہے۔ اس طرح محبت میں بھی برابری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اختیاری شے نہیں بلکہ طبعی ہے۔ ایسے ہی جب تک طبعی میلان نہ ہو، مباشرت وغیرہ بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ہرگھر میں باری باری جانا اختیاری شے ہے، اس لیے رسولؐ اللہ باری تقسیم کرنے کے بعد فرماتے: اللھم ھذہ قسمتی فیما أملک فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک (ترمذی: ۱۱۴۰) ‘‘یااللہ! یہ میری تقسیم ہے، اس شے میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں، پس جس کا تو اختیار رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ فرما’’۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حوائجِ ضروریات اور تربیت میں برابری ناممکن ہے بلکہ ان میں وہی یتیموں والا اصول مدنظر رکھنا چاہیے یعنی وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ:۲۲۰) ‘‘خدا مفسد کو اصلاح کرنے والے سے جانتا ہے’’۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ہر ایک کی اصلاح اور بھلائی کی کوشش ہونی چاہیے، آگے ان کے اور والدین کے حسب ِ حال کسی بات میں تفاوت ہوجائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔ البتہ حوائج اور ضروریات کے علاوہ زائد عطیہ میں ضرور برابری چاہیے۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں جو نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ:
سألت أمی أبی بعض الموھبۃ من مالہ ، ثم بدا لہ موھبھا لی فقالت: لا أرضی حتٰی تشھد النبی فأخذ بیدی وأنا غلام فأتی بی النبی فقال: ان أمہ بنت رواحۃ سألتنی بعض الموھبۃ لھذا قال: ألک ولد سواہ؟ قال: نعم قال: فأراہ قال: لا أشھد علی جور (بخاری: ۲۶۵۰، مسلم: ۱۶۲۳)
آپ کے فرمان لا أشھد علی جُور ‘‘یعنی میں ظلم پر شہادت نہیں دیتا’’ میں اسی قسم کے عطیہ کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ سوّوا بین اولادکم فی العطیۃ (بیہقی:۶؍۱۷۷) چنانچہ فتح الباری کے حوالہ سے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یعنی ضروریات کے علاوہ کوئی عطیہ دینا ہو تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اسی بنا پر علما نے لکھا ہے کہ اگر کوئی سبب ایسا پیدا ہوجائے جس سے بعض اولاد کو عطیہ دینا پڑے تو اس صورت میں بعض کو دینے میں بھی کوئی حرج نہیں، مثلاً کوئی دائم المرض یا مقروض ہو تو اس صورت میں ان کو خاص بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۴۶) میں اس کی تصریح کی ہے اور علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار (۵؍۲۴۲) میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ درحقیقت عطیہ نہیں بلکہ اولاد کی ضروریات میں داخل ہے کیونکہ دائم المرض اور مقروض ہونا ایک بڑی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضروریات تو کجا، اس عطیہ میں بھی برابری نہیں جو ضروریات میں داخل ہو۔
( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)
جواب۔ اُنہی دلائل کی بنا پر لے پالک سے بھی وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ دوسری بیوی کی اولاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کی آپس میں مساوات ضروری ہے، لے پالک سے تعلق نہیں۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)