رسول اللہ کی شگفتہ مزاجی

مصنف : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : دسمبر 2016

سیرت النبی رسول اللہ
رسول اللہ ﷺ کی شگفتہ مزاجی
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

 

دنیا میں ہزاروں پیغمبر آئے۔ انھوں نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا اور اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا، مگر کچھ عرصے کے بعد ان کی تعلیمات مٹ گئیں، یا ان میں بہت سی غلط باتوں کی آمیزش ہوگئی اور ان کی زندگی پر پردہ پڑگیا۔ یہ امتیاز صرف خاتم النبیین حضرت محمد ? کو حاصل ہے کہ آپ کا لایا ہوا پیغام قرآن مجید کی شکل میں حرف بہ حرف محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ اسی طرح آپ? کی حیات طیبہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی ولادت سے اور خاص طور پر نبوت سے وفات تک کے تمام واقعات، تمام جزئیات کے ساتھ معلوم ہیں۔ صحابہ کرام? نے آپ کی زندگی کے معمولی معمولی واقعات، آپ کے روز مرہ کے معمولات اور طبعی اوصاف کو بھی بیان کیا ہے۔ آپ کی خلوت و جلوت، نشست و برخاست، آمد و رفت، سفر و حضر ، خواب و بیداری، بول چال، کھانا پینا، چلنا پھرنا، پہننا اوڑھنا، غرض آپ کی زندگی کا کوئی پہلو پردہ میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ? کی نجی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ اپنے متعلقین اور اصحاب کے ساتھ لطف و کرم، محبت و مؤدت اورنرمی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ کے مزاج میں درشتی اور سختی نام کو نہ تھی۔ قرآن نے آپ? کے اس وصف کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے:
فَبِمَا رَح?مَ?ٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہْم? وَلَو? کْنتَ فَظّاً غَلِی?ظَ ال?قَل?بِ لاَنفَضّْوا? مِن? حَو?لِکَ۔ (آل عمران: 159)
(اے پیغمبر? یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔)
آپ ? ملنے والوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے، ان سے مسکراکر بات چیت کرتے، ان کی ظریفانہ مجلسوں میں شریک ہوتے، بسا اوقات ان سے لطیف مزاح بھی فرماتے۔ آپ? کا یہ برتاؤ تمام طبقات کے ساتھ تھا۔ اندرون خانہ ازواج مطہرات ہوں یا بچے، آپ? کے قریبی اصحاب ہوں یا اجنبی، سب آپ? کے بحر الطاف و عنایات سے فیض یاب ہوتے تھے۔ سیرت نبوی? کا یہ ایک ایسا باب ہے جس سے آپ کی نجی زندگی کے ایک اہم پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔
آں حضرت ? کے قریبی اصحاب کا بیان ہے کہ آپ? کے روئے اطہر پر ہمیشہ مسکراہٹ اٹکھیلیاں کرتی رہتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن حارث? فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ ? سے زیادہ کسی شخص کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (شمائل ترمذی، باب ماجاء4 فی ضحک رسول اللہ )
ام المومنین حضرت عائشہ? فرماتی ہیں:
’’میں نے کبھی رسول اللہ ? کو ٹھٹھا مارکر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ? صرف تبسم فرماتے تھے‘‘(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک، 6092)
آں حضرت ? ازواج مطہرات کے ساتھ لطف و کرم اور محبت کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ? ان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے اوران کے درمیان مسرت کے موتی بکھیرتے تھے۔ کبھی کوئی ہنسی کی بات آتی تو بے ساختہ مسکرادیتے تھے۔
حضرت عائشہ? بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی ? کے ساتھ سفر میں تھی، اس وقت تک میں ہلکی پھلکی تھی، فربہ بدن نہیں ہوئی تھی۔ آپ? نے لوگوں کو آگے بڑھ جانے کی ہدایت کی، پھر مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ میں آپ? کے ساتھ دوڑی اور آگے نکل گئی۔ آپ? خاموش ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر مجھے آپ کے ساتھ سفر میں جانے کا موقع ملا، اس وقت میں فربہ بدن ہوگئی تھی۔ آپ? نے اس موقع پر بھی اپنے اصحاب کو آگے بڑھ جانے کا حکم دیا، پھر مجھ سے فرمایا: ’’آؤ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘ میں آپ کے ساتھ دوڑی تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے۔ آپ ہنسنے لگے اور فرمایا: ’’یہ اْس دن کا بدلہ ہے‘‘۔ (مسند احمد، 6/264)
حضرت عائشہ? ایک دوسرا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی ? کی خدمت میں حریرہ (یعنی دودھ، گھی اور آٹے سے تیار کیا ہوا کھانا) لے کر آئی، جسے میں نے خود آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ وہاں حضرت سودہ? بھی تھیں، نبی ? میرے اور ان کے درمیان تھے۔ میں نے سودہ? سے کہا: ’’کھاؤ‘‘ انھوں نے انکار کیا۔ میں نے کہا : ’’کھاؤ، ورنہ تمھارے چہرے پر لتھیڑدوں گی‘‘۔ انھوں نے پھر بھی انکار کیا۔ میں نے حریرہ میں اپنا ہاتھ ڈالا اور ان کے چہرہ پر لیس دیا۔ نبی ? ہنسنے لگے۔ آپ? نے سودہ? سے فرمایا: ’’اس کے بھی چہرے پر لتھیڑدو‘‘ (دوسری روایت میں حضرت عائشہ? کا بیان یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنا گھٹنا نیچے کرلیا، تاکہ سودہ? مجھ سے بدلہ لے سکیں۔) چنانچہ انھوں نے بھی پلیٹ سے کچھ لے کر میرے چہرے پر لیس دیا اور رسول اللہ ? ہنستے رہے۔(مجمع الزوائد، ہیثمی ، 4/316)
آپ? کی خوش طبعی اور خندہ روئی کا یہ معاملہ بچوں کے ساتھ بھی تھا۔ آپ? ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے، ان سے پیار بھری باتیں کرتے اور کبھی کبھی لطیف مزاح بھی فرماتے۔
حضرت انس? بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ? کا ایک بچہ تھا، جس کا نام ابوعمیر? تھا، آں حضرت ? جب بھی ابوطلحہ? کے گھر تشریف لے جاتے، اس بچے سے ہنسی مذاق کرتے تھے۔ (مسند احمد، 3/115۔201)
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپ? کو کھانے کی دعوت دی آپ? ان کے یہاں جارہے تھے۔ راستے میں آپ? کے نواسے (حضرت حسن? یا حضرت حسین?) بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ملے۔ آپ? نے انھیں پکڑنا چاہا۔ وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ آپ? ہنستے ہوئے انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگے، یہاں تک کہ پکڑلیا۔ پھر اپنا ایک ہاتھ ان کی گدی پر اور دوسرا ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر بوسہ لے لیا۔ (مسند احمد، 4/172)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ? نے ارشاد فرمایا:
’’اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا بھی باعثِ اجر و ثواب ہے‘‘ (جامع ترمذی، ابواب البر والصل?، باب ما جاء4 فی صنائع المعروف،1956)
آپ? کی یہ تعلیم محض دوسرے لوگوں کے لیے نہ تھی، بلکہ خود آپ? نے اس پر عمل کرکے دکھایا۔ حضرت جریر بن عبداللہ البجلی? بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ? سے جب بھی میرا سامنا ہوتا آپ مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک، 3020)حضرت جابر? کا بھی ایسا ہی بیان ہے۔(شمائل ترمذی، باب ماجاء4 فی ضحک رسول اللہ)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب سے بھی لطیف مزاح فرمایا کرتے تھے۔ ایک بدوی صحابی تھی جن کا نام زاہر تھا۔ وہ دیہات کی چیزیں ا?پ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ دیہات کی کچھ چیزیں لاکر بازار میں فروخت کر رہے تھے۔ اتفاقاً ا?پ ? کا ادھر سے گزر ہوا۔ ا?پ نے پیچھے سے جاکر انھیں دبوچ لیا۔ انھوں نے کہا: کون ہے،چھوڑدو مجھے۔ مڑ کر دیکھا تو اللہ کے رسول تھے تو انھوں نے اپنی پیٹھ اور بھی ا?پ? سے چپکا دی۔ ا?پ ? نے ا?واز لگائی: کون اس غلام کو خریدتا ہے؟ بولے: اے اللہ کے رسول! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا وہ نقصان میں رہے گا۔ا?پ? نے فرمایا: لیکن تم اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہو۔‘‘(ترمذی، کتاب الشمائل)
ایک شخص نے خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: مجھے کوئی سواری عطا کیجیے۔ ا?پ? نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا۔ اس نے کہا: میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ ا?پ? نے فرمایا : کیا کوئی ایسا اونٹ بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو؟(ترمذی، کتاب الشمائل )
ا?پ ? حسب موقع خواتین سے بھی مزاح فرما لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون ا ?پ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت نصیب فرمائے۔ ا?پ? نے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔وہ روتی پیٹتی واپس ہونے لگیں تو ا?پ نے صحابہ سے فرمایا : ان کو بتادو کہ عورتیں بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائیں گی، بلکہ جوان ہوکر جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:?ِنَّا ا?َنشَا??نَاہْنَّ ?ِنشَاء4 اً فَجَعَل?نَاہْنَّ ا?َب?کَاراً (الواقع?:35۔36)’’ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنا دیں گے۔‘‘(ترمذی، کتاب الشمائل)
آں حضرت ? کا یہ برتاؤ صرف اپنے عزیزوں یا قریبی اصحاب کے ساتھ ہی نہ تھا، بلکہ آپ? کا یہ فیضان ان لوگوں کے لیے بھی وسیع تھا جو سماج میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھے جاتے تھے، یا جو آپ? کے ساتھ اکھڑپن اور عداوت سے پیش آتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ? سے ملنے آیا۔ اس وقت گھر میں حضرت عائشہ? موجود تھیں، آپ نے آہستہ سے فرمایا: ’’یہ برا آدمی ہے‘‘، پھر حضرت عائشہ? سے پردہ کراکے اس شخص کو اندر بلالیا اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کرنے لگے۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ? نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ نے اسے برا آدمی قرار دیا اور پھر اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں بھی کیں۔ آپ? نے جواب دیا: ’’سب سے برا آدمی وہ ہے جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے بچیں۔‘‘ (موطا، کتاب حسن الخلق، باب ماجاء4 فی حسن الخلق۔ صحیح بخاری، کتاب الادب، 6054)
اللہ کے رسول ? اپنے اصحاب کے درمیان کچھ ارشاد فرماتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ، صحابہ کچھ بیان کرتے تو آپ بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے، کوئی بات تفریح طبع کی ہوتی تو آپ? بھی اس سے پورا مزہ لیتے، صحابہ کسی بات پر ہنستے تو آپ بھی ان کا ساتھ دیتے۔ کسی صحابی کی کوئی ’حرکت‘ یا کوئی انداز آپ کے روئے انور پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا تھا۔
حضرت ابورمثہ? بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے باپ کے ساتھ رسول اللہ ? کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ? نے میری طرف اشارہ کرکے میرے باپ سے دریافت کیا: ’’یہ تمھارا بیٹا ہے؟‘‘ میرے باپ نے جواب دیا: ’’جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں، یہ میرا بیٹا ہے‘‘۔ ابو رمثہ? بیان کرتے ہیں: میری شباہت میرے باپ سے ملتی جلتی تھی، پھر بھی قسم کھاکر میرے باپ کے اس انداز سے جواب دینے پر اللہ کے رسول ? ہنس پڑے (سنن دارمی، کتاب الدیات، باب لایواخذ احد بجنای? غیرہ، حدیث: 2388، 2389)
ایک صحابیہ? نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ ان کے شوہر نے انھیں مارا ہے۔ آپ? نے ان کے شوہر کو بلاکر وجہ دریافت کی۔ انھوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ مجھے ستاتی ہے‘‘۔ حضور ? نے فرمایا: ’’سلمیٰ تم نے کیوں ستایا؟‘‘ صحابیہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول? ! میں نے ستایا نہیں ہے، بات یہ تھی کہ نماز پڑھنے کے دوران ان کی ریاح خارج ہوگئی تو میں نے کہا کہ اللہ کے رسول? نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی کی ریاح خارج ہوجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسے دوبارہ وضوکرنا چاہیے۔ بس اسی بات پر انھوں نے مجھے مارا۔ یہ سن کر اللہ کے رسول? کے روئے انور پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ا?پ نے فرمایا: ’’اے ابورافع?! اس نے تو تم سے اچھی بات کہی تھی‘‘۔ (مسند احمد، 6/272)
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات آں حضرت ? بغیر کسی بات کے، اچانک ہنس دیتے۔ وہاں موجود صحابہ ہنسی کی وجہ دریافت کرتے، یا دریافت نہ بھی کرتے، تب بھی آپ خود ہی اس کی وضاحت فرمادیتے اور کسی ایسی حکمت کی بات کی طرف اشارہ فرماتے جو درس و تعلیم سے پْر ہوتی۔
حضرت صہیب? بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ? تشریف فرماتھے۔ آپ کے ارد گرد صحابہ کی ایک جماعت تھی۔ اچانک آپ? ہنس دیے، پھر خود ہی صحابہ سے یوں مخاطب ہوئے: ’’کیا تم لوگ پوچھوگے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: ’’کیا بات ہے؟ اے اللہ کے رسول! ‘‘ فرمایا:
’’مومن کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیر ہے۔ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، تو اس میں اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر وہ صبر کرتا ہے تو اس صورت میں بھی وہ خیر کا مستحق ہوتا ہے‘‘۔(سنن دارمی، کتاب الرقائق، باب المومن یوجر فی کل شیئی، مسند احمد ، 6/16)
احادیث میں بعض ایسے مواقع کی تفصیلات بھی محفوظ ہیں جب اللہ کے رسول? کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ ذیل میں صرف ایک موقع کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔حضرت ابوذر? سے روایت ہے کہ آں حضرت ? نے فرمایا:
’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہ الٰہی میں لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا: اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو۔ اس وقت اس کے بڑے بڑے گناہ چھپالیے جائیں گے۔ پھر اس سے کہا جائے گا: تم نے فلاں دن یہ گناہ، فلاں دن یہ گناہ کیا تھا۔ وہ انکار نہ کرسکے گا، اقرار کرتا جائے گا۔ ساتھ ہی اسے یہ خوف بھی لاحق ہوگا کہ ابھی تو بڑے بڑے گناہوں کا حساب باقی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اسے اس کی ہر برائی کے بدلے ایک نیکی کا اجر دے دو۔ یہ الٰہی الطاف و عنایات دیکھ کر وہ بول اٹھے گا: ’’میرے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جو میں یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں‘‘
حضرت ابوذر? بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ یہ فرماتے ہوئے رسول اللہ ? کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء4 فی ضحک رسول اللہ)
یہ چند واقعات ہمارے سامنے سیرت نبوی? کا ایک دل کش باب وا کرتے ہیں، جہاں الفت و محبت ہے، لطف و کرم ہے، خوش طبعی اور خندہ روئی ہے، تفریح طبع او رمزاح لطیف ہے، مسکراہٹیں اور کھلکھلاہٹیں ہیں۔ یہ واقعات جہاں ایک طرف ہمارے سامنے آں حضرت ? کی نجی زندگی کا ایک پہلو روشن کرتے ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں زندگی گزارنے اور متعلقین کے ساتھ برتاؤ کرنے کا ایک اسوہ بھی دکھاتے ہیں اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ، بزرگی اور عظمت چہرے پر رعونت طاری رکھنے، پیشانی پر شکن ڈالنے، گردن ٹیڑھی کرکے بات کرنے، یا مہر بہ لب رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل زندگی خوشیاں بانٹنے اور مسکراہٹیں بکھیرنے سے عبارت ہے۔
 
133133۔ پوری تحریر مضامین ڈاٹ کام پر ملاحظہ فرمائیں:
http://mazameen.com/history/%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%84۔%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81۔%EF%B7%BA۔%DA%A9%DB%8C۔%D8%B4%DA%AF%D9%81%D8%AA%DB%81۔%D9%85%D8%B2%D8%A7%D8%AC%DB%8C.html