سیرت النبی
رسول اکرم کا سفر آخرت
محمدمظہر الہدی قادری
سورہ نصر کا نزول گویا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی اطلاع تھی ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ جب یہ سورہ ناز ل ہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اورمیرا وقت آن پورا ہوا۔ دوسری روایت جو حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے اْس میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سورہ کے نزول سے حضور ﷺنے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رْخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ (مسند احمد، ابن جریر، طبرانی، نسائی ، ابن ابی حاتم)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس بات سے کون واقف ہوسکتا تھا کہ ان کے دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے ، جب دین کی دعوت کا کام پورا ہوگیا اوردعوت وتبلیغ اپنے اتمام وکمال کو پہنچ گئی اور الوہیت الہٰی کے اثبات اوراس کے ماسوا کی نفی اوررسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر ایک جدید معاشرے کی تعمیر عمل میں آچکی اورعرب کی باگ دوڑ اسلام کے ہاتھ میں آگئی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی علامتیں نمودار ہونا شروع ہوئیں اور آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس ہوچلا کہ دنیا میں اب قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے اوراس فانی دنیا کو الوداع کہنے والے ہیں ، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر آخرت کی تیاری شروع کردی ۔ اللہ کی عبادت اورتسبیح وتہلیل میں پہلے بھی کمی نہ تھی اب اس میں اوربھی اضافہ ہوگیا۔ ہرسال رمضان میں دس روز اعتکاف کا معمولی تھا، ۱۰ھ کے رمضان میں بیس روز کااعتکاف فرمایا پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا۔آخری حج، حجۃ الوداع کے موقع پر جوخطبے ارشاد فرمائے ، اس جملے سے رْخصت اوروداع کا انداز نمایاں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، مجھے نہیں معلوم غالباً اس سال کے بعد اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا (بیہقی، کتاب الحج)
اوائل صفر ۱۱ ھ میں دامن احد تشریف لے گئے ، نماز جنازہ پڑھی ، ان سے اس طرح رْخصت ہوئے جیسے مرنے والا اپنے زندہ عزیزوں سے رْخصت ہوتا ہے پھر واپس تشریف لا کر منبر پر فروکش ہوئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا ، ’’ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر جارہا ہوں تا کہ اللہ کی بارگاہ میں تمہارے متعلق شہادت دوں، خدا کی قسم میں اس وقت اپنا حوض (حوض کوثر) دیکھ رہا ہوں ، مجھے زمین اورزمین کے خزانے کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں، مجھے یہ خوف قطعاً نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش شروع کردوگے۔‘‘ (متفق علیہ ، صحیح بخاری)
ایک روایت میں ہے کہ ایک روز آدھی رات کوآپ جنت البقیع تشریف لے گئے ، دیر تک آپ نے اہل بقیع کیلئے دعائے مغفرت کی فرمایا : اے قبر والو! تم پر سلام ! جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے غرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ برا ہے ، اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کوبشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔
پھر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جوآپ کی حالت صحت میں آخری خطبہ سمجھا جاتا ہے۔ فرمایا : مسلمانوں مرحبا۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ، تمہاری شکستہ دلی دور فرمائے ، تمہارا معاون ودستگیر ہو، تمہیں رزق اوربرکت دے ، تمہاری مدد کرے ، عزت ورفعت سے سرفراز رکھے، امن وعافیت سے شاد کام فرمائے ، میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں ، اللہ ہی کوتمہارا وارث بناتا ہوں ، اسی سے ڈراتا ہوں ، کیونکہ میں نذیر مبین ہوں، دیکھنا! اللہ کی بستیوں اور اس کے بندوں میں تکبر اور برتری اختیار نہ کرنا اللہ نے مجھے اورتمہیں حکم دیا ہے ،’’ یہ آخرت کا گھر ہے یہ ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جوزمین میں تکبرو برتری اورفساد کا ارادہ نہیں کرتے اورآخرت کی کامرانی صرف پرہیز گاروں کیلئے ہے۔‘‘ (سورہ قصص : آیت نمبر۸۳)
پھر فرمایا : ’’ کیا متکبروں اورمغروروں کا ٹھکانہ دوزخ نہیں۔‘‘ (سورہ زمر آیت نمبر ۶۰)اورآخر میں یہ جملہ ارشاد فرمایا ’’ تم سب پر سلام اوران سب پر سلام جواسلام کے ذریعے میری بیعت میں داخل ہوں گے۔‘‘
آغازِ علالت
ماہِ صفر کے آخری یوم میں ایک جنازے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو بقیع سے واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہوگیا اورحرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر جوپٹی بندھی ہوئی تھی اس کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی ۔ اس روز ازواج مطہرات میں سے حضرت میمونہؓ کے ہاں قیام کی باری تھی ، ضعف اورنقاہت میں برابر اضافہ ہوگیا تھا ، یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا مگر آپ مسجد میں اسی حالت مرض میں برابر نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ ضعف میں اضافے کے باعث بغیر سہارے کے چلنا دوبھر ہوگیا اسی اثنا میںآپ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے کہ میں کل کہاں رہوں گا ، میں کل کہاں رہوں گا ۔ ازواج مطہرات آپ کے مقصود کوسمجھ گئیں اوراجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں توآپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے اس حالت میں کہ ایک طرف حضرت عباس اور دوسری طرف حضرت علی نے جسم اطہر کا بیشتر بوجھ اْٹھا رکھا تھا اورپائے اقدس زمین پر گھسٹ رہے تھے ۔ بخاراس قدر تیز تھا کہ آپ نے جوموٹی چادر اوڑھ رکھی تھی اصحاب رسول کواس کے اوپر سے شدید حرارت محسوس ہورہی تھی۔ عبداللہ ابن مسعود نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ کو تو شدید بخار ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تمہارے دو آدمیوں کو، عرض کیا ، یا رسول اللہ آپ کا اجربھی دو گنا ہوگا ! فرمایا : اس ذ ات کی قسم جس کے قبضے میں میر ی جان ہے روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں جسے مرض یا کسی اوروجہ سے تکلیف پہنچے اوراللہ اس کے گناہ اس طرح کم نہ کرتا ہوجس طرح خزاں میں درختوں کے پتے گرتے اور کم ہوتے ہیں۔‘‘
امامت صدیق
اس حالت میں بھی آپ نماز کیلئے مسجد تشریف لے جاتے رہے اور خود ہی نماز پڑھاتے رہے ۔آخری نماز جو آپ نے پڑھائی وہ مغرب کی نماز تھی ۔ اس کے بعد غشی طاری ہوگئی عشاکا وقت ہوا تو دریافت فرمایا نماز ہوچکی عرض کیا گیا کہ سب کو حضور کا انتظارہے ۔آپ نے لگن میں پانی بھروا کر غسل فرمایا۔ پھر اْٹھنا چاہا کہ غش آگیا ۔ افاقہ ہوا تو پھر پوچھا ، نماز ہوگئی لوگوں نے وہی پہلا جواب دیا ۔آپ نے پھر غسل فرمایا اورجب اْٹھنا چاہا توغش گیا افاقہ ہوا تو پھر دریافت فرمایا ، وہی جواب ملا پھر سہ بارہ وہی بات پیش آئی بالاخر آپ نے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھائیں۔ جوشخص یہ حکم لے کر مسجد میں پہنچا تو اسے ابوبکر نظر نہ آئے تو حضرت عمر سے کہا کہ آپ نماز پڑھا دیجئے ۔ ادھرعمرنماز پڑھانے لگے تو تکبیر کی آواز آپ نے سن لی توفرمایا: نہیں نہیں ابوبکرنماز پڑھائیں۔(صحیح بخاری)
ایک دن یا دو دن پہلے ظہر کے وقت بیماری سے ذرا افاقہ محسوس ہوا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھ پر سات مشک پانی بہاؤ۔‘‘ پھر حضرت عباس اورحضرت علی کے سہارے مسجد آئے ، ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ، آہٹ پا کر ابوبکر پیچھے ہٹے ، آپ نے اشارہ سے روکا اور ان کے پہلومیں بیٹھ کر نماز پڑھائی ، اس طرح حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کررہے تھے اور صحابہ کرام کو تکبیر سنارہے تھے۔ ( صحیح بخاری) اس کے بعد ایک خطبہ ارشادفرمایا جوعموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ سمجھا جاتا ہے ، خطبے کا آغاز ان الفاظ سے ہوا : ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی چمک دمک اورزیب وزینت میں سے جوکچھ چاہے لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول کرلے اس بندے نے وہی قبول کیا جوخدا کے پاس ہے۔‘‘ ( یعنی عالم آخرت) ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رونے لگے اورکہا ہمارے ماں باپ آپ پر قربان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا کے رفیق کورونے سے منع کیا ، فرمایا : ’’ ابوبکر! اپنے آپ پررحم کر۔ پھر مخاطب ہوئے ’’میں تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر ابوبکر کے مال اورافاقت کا ممنون ہوں اگر اپنے رب کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ لیکن اسلامی اخوت ومحبت کا رشتہ کافی ہے دیکھو مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔‘‘ (متفق علیہ ، مشکوٰۃ ، صحیح بخاری )
قبر کو سجدہ گاہ نہ بناو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ ، ام سلمہ اورسودہ انہوں نے حبش میں ماریہ نام کا گرجا دیکھا تھا اوراس کے نقش ونگار کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا’’ ان لوگوں میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کی قبر کو عبادت گاہ بنالیتے ہیں قیامت کے دن ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بدترین خلائق میں سے ہوں گے۔ یہو د ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کومسجدیں بنالیا۔ (صحیح بخاری، موطا امام مالک) آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’ تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔‘‘ (موطا امام مالک) پھر آپ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اورفرمایا جس شخص کے جسم کوکوئی تکلیف پہنچی ہو یا آبرو پر حرف رکھا ہو تومَیں حاضر ہوں بدلہ لے لے یا کسی کے مال میں مجھ سے نقصان ہوا ہو تو یہ میرا مال ہے وہ لے لے ،تاکہ میں اپنے رب سے ملوں تو تمام حقوق سے پاک اور بری الذمہ ہوکر ملوں۔ آپ کے ارشاد فرمانے کے بعد ایک شخص نے کہا آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں آپ نے فضل بن عباس سے فرمایا انہیں ادا کردو۔
اس کے بعد فرمایا کہ میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیوں کہ وہ میرے قلب وجگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی مگر ان کے حقوق باقی ہیں۔ رحلت سے ایک روز قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلام کو آزاد کردیے ۔آپ کے پاس سات دنیار موجودتھے انہیں صدقہ کردیا ، اپنے ہتھیار مسلمانوں کوہبہ فرمادیے۔ اس رات میں چراغ جلانے کیلئے حضرت عائشہ نے پڑوسن سے تیل ادھار لیا۔
حیات طیبہ کا آخری دن، یوم وفات
مرض میں شدت اور تخفیف ہوتی رہتی تھی ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے اورابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے حجرے کا پردہ اْٹھایا ، اورصحابہ کرام پر جوصفیں باندھے نماز میں مصرو ف تھے نظر ڈالی ، آپ مسرت سے تبسم ریز ہوئے ، ادھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ایڑ ی کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں ، انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نماز کیلئے تشریف لانا چاہتے ہیں ، آپ کے اس اچانک ظہور سے مسلمان اس قدر خوش ہوئے ، فرط مسرت سے قریب تھا کہ لوگوں کی نمازیں ٹوٹ جائیں آپ نے اشارے سے روک دیاحجرے کیاندر تشریف لے گئے اورپردہ گرادیا۔ اس کے بعد آپ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
جوں ہی دن چڑھا آپ کی تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا بیٹی فاطمہ آئیں تو ان سے کچھ سرگوشی کی حضرت فاطمہ رونے لگیں ، آپ نے دوبارہ سرگوشی کی تووہ ہنسنے لگیں ، وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے بتایا پہلے مجھے خبردی تھی کہ میرے خیال میں اس مرض میں میری وفات ہوگی، یہ سنتے ہی مجھے بے اختیار رونا آگیا پھر آپ نے فرمایا کہ میرے گھروالوں میں سب سے پہلے تو مجھ سے ملے گی یہ سن کر میں خوشی کے مارے ہنس پڑی اوریہ بشارت بھی دی کہ میں اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ حالت بیماری میں مرض نے جوشدت اختیار کی تو حضرت عائشہ آپ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپ پر دم کرتی رہتی تھیں اورآپ کے دست ہائے مبارک جسم اطہر پر پھیرتی رہتی تھیں۔
طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تورحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ پاس رکھوالیا اس میں ہاتھ تر کرکے چہرہ مبارک پر پھیرتے ۔ آپ کی اس شدت کرب کو دیکھ حضرت فاطمہ فرط غم میں پکار اْٹھیں وَاَکرَبَ اَبَاہْ ہائے ابا جان کی تکلیف ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آج کے بعد تیرا باپ بے چین نہ ہوگا۔ (صحیح بخاری ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن حسین کوبلاکر چوما اوران کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی ، پھر ازواج مطہرات کو بلایا اورانہیں نصیحت کی۔
طبیعت نے شدت اختیار کی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونے لگا جسے آپ کوخیبر میں دیا گیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شدت مرض میں صحابہ کرام کوبھی وصیت فرمائی ، فرمایا اَلصَّلوٰۃاَلصَّلوٰۃ وَمَا مَلَکَت اَیمَانْکْم ، نماز ، نماز او ر تمہارے زیردست یعنی لونڈی غلام۔ (صحیح بخاری)
حیات طیبہ کا آخری وقت
حالت نزع کے وقت حضرت عائشہ نے آپ کواپنے اوپر سہارا دے کر ٹیک لیا ، آپ کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں میری باری کے دن میرے سینے پر وفات پائی اورآپ کا لعاب اورمیرا لعاب موت کے وقت یکجا کردیا ، اس کی صورت یہ ہوئی ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر تشریف لائے ان کے پاس مسواک تھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں ، میں سمجھی کہ آپ مسواک چاہتے ہیں ، میں نے کہا آپ کیلئے لے لوں! آپ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں میں نے مسواک لے کر آپ کودی تو آپ کوکڑی محسوس ہوئی میں نے کہا اسے آپ کیلئے نرم کردوں؟ آپ نے کہا ہاں ، میں نے مسواک نرم کردی اورآپ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی، مسواک سے فارغ ہوتے ہی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اورتین مرتبہ کہا بل الرفیق الاعلیٰ۔ بس اب اور کوئی نہیں صرف رفیق اعلیٰ درکار ہے ،تیسری بار یہ جملہ ادا ہوا اورہاتھ جھک گیا اور آپ رفیق اعلیٰ سے جاملے اورروح پاک عالم قدس میں پہنچ گئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ کی عمر شریف بوقت وصال تریسٹھ سال ۴ دن یا کچھ کم تھی، وصال ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ بروز پیر بوقت چاشت ہوا۔ اس حادثہ کی خبر فوراً سب کو پہنچ گئی ، مدینہ والوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ، ان کی دنیا تاریک ہوگئی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صحابہ کرام اوروقت کی اسلامی دنیا پر جوقیامت گزری ہوگی اس کا آج تصور کرنا بھی مشکل ہے اس ناگہانی ضر ب نے بعض کو انتہائی پریشانی اور غیر معمولی اضطراب میں مبتلا کردیا ۔آپ کی وفات پر حضرت فاطمہ نے فرطِ غم سے فرمایا: آہ! پیارے باپ نے پروردگار کی دعوت قبول کرلی،آہ پیارے باپ نے الفردوس کوٹھکانہ بنایا ہائے ابا جان ہم جبرئیل کو آپ کی وفات کی خبر سناتے ہیں آہ! پیارے باپ اپنے پروردگار سے کس قدر قریب ہوگئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ کو ہنستے نہ دیکھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسری ازواج مطہرات کی کیفیت الفاظ میں نہیں سماسکی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک صرف خصائص نبوت کی ترجمانی کیلئے وقف تھی۔ آہ! وہ نبی جس نے تمول پر فقیری کوترجیح دی ، جس نے تو نگری کوٹھکرادیااورمسکینی کوقبول کیا۔ آہ! وہ دین پر ور رسول جوامت عاصی کے غم میں پوری ایک رات بھی آرام سے نہ سویا۔ آہ! وہ صاحب خْلق عظیم ، جومسلسل نفس سے جنگ آزمارہا۔ آہ! وہ رحمۃ اللعالمین ، جس کا بابِ فیض فقیروں اور حاجتمندوں کیلئے ہر وقت کھلا رہتا تھا جس کا رحیم دل اورپاک ضمیر دشمنوں کی ایذا رسانی سے کبھی غبار آلود نہ ہوا۔ آہ! وہ نبی جس کے موتی جیسے دانت توڑے گئے مگر اس نے پھر بھی صبر سے کام لیا ، جس کی نورانی پیشانی کوزخمی کیا گیا ، مگر اس نے دامن عفو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ دوسری طرف صحابہ کرام میں جو بے چینی پھیلی، وفات کی خبر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہوش اڑادیئے اورآپ یہ ماننے کوتیار نہیں تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے بلکہ عمر نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ ادھر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے مکان سْخ سے تشریف لائے دیکھا حجرہ عائشہ میں قیامت برپا ہے ، سیدھے حضرت عائشہ کے حجرے میں گئے ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا ، رْخ انور سے چادر ہٹائی اسے بوسہ دیا اورروئے ، پھر فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ، اللہ آپ پر دو موت جمع نہیں کرے گا جوموت آپ کیلئے لکھی جاچکی تھی، اس کا ذائقہ آپ نے چکھ لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حجرہ عائشہ سے باہر تشریف لائے، حضرت عمر لوگوں سے بات کررہے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ! عمر بیٹھ جاؤ ، پھر منبر پر چڑھے اور بعد حمدو ثنا کے فرمایا ، سورہ زمر کی ایک آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ آپ کی بھی وفات ہونی ہے اوران سب کوبھی مرنا ہے۔‘‘ (سورہ زمرآیت :۳۰) پھر فرمایا : ’’ تم میں سے جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو(وہ جان لے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہوچکی ہے اورجو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقیناً اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ، کبھی نہیں مرے گا۔ ارشاد الٰہی ہے ’’اورمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں اگروہ وفات پاجائیں یا ان کوشہید کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے اورجوبھی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور جلد ہی اللہ شکر گزاروں کوبہتر بدلہ عطا فرمائے گا۔‘‘ ( سورہ آل عمران ، آیت نمبر ۱۴۴)
صحابہ کرام جن کے درمیان کہرام مچا ہوا تھا سب فرط غم سے حیران تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس مختصر مگر جامع خطبے نے سب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین دلایا اورلوگوں کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو کہا، میرے پاؤں ٹوٹ گئے اورکھڑے رہنے کی تاب مجھ میں نہ رہی ، یقین ہوگیا کہ واقعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رْحلت فرما گئے۔ (ابن ہشام ، ( صحیح بخاری)
تجہیز وتکفین
ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے قریبی عزیز مجھے غسل دیں گے اوروہی قبر میں اتاردیں گے۔ چنانچہ منگل کے روز آپ کوکپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا ۔ حضرت عباس ، حضرت علی اور عباس کے صاحبزادوں نے آپ کوغسل دیا۔ آپ کے آزاد کردہ غلام شقران اوراسامہ پانی بہار ہے تھے اور حضرت اوس نے آپ کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا ، اس کے بعد تین تین سفید یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔
آپ کی آخری آرام گاہ
قبر کے متعلق صحابہ کرام میں مشہور ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی وہیں دفن ہوتا ہے جہاں سے اْٹھایا گیا۔ تو آپ کو حجرہ عائشہ میں دفن کیا گیا۔ طبقات ابن سعد میں جنازہ کے متعلق بھی آپ کا ارشاد گرامی منسوب ہے فرمایا :’’ غسل اور کفن کے بعد میرا جنازہ قبر کے کنارے رکھ دینا اورتھوڑی دیر کیلئے باہر ہوجانا۔ کیونکہ سب سے پہلے جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت (عزرائیل ) ملائکہ کے ساتھ نماز جنازہ ادا کریں گے، پھر اس کے بعد دس دس صحابہ کرام باری باری حجرہ مطہرہ میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی ، کوئی امام نہ تھا ، سب سے پہلے میرے عزیز مرد نماز پڑھیں پھر ان کی عورتیں اوران کے بعد بچوں نے نماز جنازہ سے فراغت کے بعد بدھ کی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو سپر د خاک کیا گیا۔