حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ،‘‘ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا شوہر صفوان ،جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتا ہے،جب روزہ رکھتی ہوں تو تڑوا دیتا ہے۔اور فجر کی نماز اُس وقت پڑھتا ہے ،جب کہ سورج نکلنے والا ہوتا ہے۔راوی کا بیان ہے کہ اُس وقت دربارِ اقدس میں صفوان بھی موجود تھے۔آپ ؐ نے اُن سے حقیقت حال دریافت فرمائی۔اُنہوں نے عرض کی یا رسول اللہ !اِس کا یہ کہنا کہ جب وہ نماز پڑھتی ہے تو میں مارتا ہوں ،اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ(نفل) نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہے۔اور میں اس کوایسا کرنے سے منع کرتا ہوں۔(لیکن باز نہیں آتی،تو میں مارتا ہوں)راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنا کافی ہے۔ پھر صفوان بن معطل نے عرض کی،اس کا یہ کہنا کہ روزہ رکھتی ہے تو میں تڑوا دیتا ہوں ،اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب (نفل) روزے رکھنا شروع کرتی ہے تو متواتر رکھتی چلی جاتی ہے۔اور روزے کو ترک نہیں کرتی۔اور میں ایک نوجوان آدمی ہوں نہ تو زیادہ صبر کر سکتا ہوں (اور نہ ہی رات کو وظیفہ ادا کر سکتا ہوں کیونکہ میں رات کو اپنے کام پر ہوتا ہوں)اس لیے کبھی کبھی روزہ تڑوا دیتا ہوں۔یہ سن کر حضور صلی اللہ علی وسلم نے ارشاد فرما یا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیرنفل روزہ نہ رکھے۔اِ س کے بعد صفوان نے عرض کی،اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج نکلنے کے وقت نماز پڑھتا ہوں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ رات کو کام کرتے ہیں اور ہم لوگوں کی یہ عادت پڑ گئی ہے کہ سورج نکلنے کے وقت بیدار ہوتے ہیں۔رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ،صفوان جس وقت آنکھ کھلے،نماز پڑھ لو’’
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا ۔جب وہ حاضر ہوئے تو پوچھا ،‘‘اے عثمان !تم میرے طریقے کو پسند نہیں کرتے کیا؟؟’’بڑا ہی سخت سوال تھا جو رسول محترم نے اپنے صحابی سے کیا تھا۔وہ تو یقیناً کانپ گئے ہوں گے۔سیدنا عثمان نے عرض کی ،‘‘نہیں نہیں ،یا رسول اللہ ،ایسا کیسے ممکن ہے،خدا کی قسم ،اللہ کے رسول،ایسا ہرگز نہیں ہے۔ (کہ میں آپ کے طریقے کو نا پسند کروں) بلکہ میں تو آپ کے طریقہ کی تلاش میں رہتا ہوں۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،میں تو سوتا بھی ہوں اور نماز بھی ادا کرتا ہوں،(نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا اورعورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔(اور نکاح کے بعد کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتا ہوں)
اے عثمان ! اللہ سے ڈرو ،تمھاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے ،تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے ،اور خود تیرے اپنے نفس کا بھی تم پر حق ہے....لہٰذا.........روزہ رکھو ...اور... ناغہ بھی کرو۔نماز پڑھتے رہا کرو اور سویا بھی کرو’’(سنن ابو داؤد)
ہمارا دین نہایت سادہ، سہل اور آسانیاں فراہم کرنے والا ہے۔اس میں باہمی حقوق و فرائض کاتعین بھی کر دیا گیا ہے اور اُن کی ادائیگی کی ترغیب و تبلیغ بھی کی جاتی ہے۔سنن ابو داؤد کی اس روایت میں ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید راوی بات پوری بیان نہیں کر پائے ہے۔سیدنا عثمان بن مظعون ؓ کو خصوصی طور پر طلب کر کے اللہ کے رسول ﷺ نے اس انداز سے بات کیوں فرمائی ؟شاید وہ نفل عبادات میں اس حد تک منہمک رہتے تھے کہ ان کی سماجی اور خانگی ذمہ داریوں میں فرق پڑ رہا تھا۔ مسند احمد کی اسی قسم کی ایک روایت میں تفصیل مذکور ہے جس سے بات صاف ہو جاتی ہے اور معاملہ یہی واضح ہوتا ہے جس کا شک ہم نے اُوپر ظاہر کیا ہے۔امام احمد بن حنبلؒ روایت کرتے ہیں کہ،یہاں بھی،ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہی سے، یہ قصہ نقل کیا گیا ہے۔وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن خویلہ بنت حکیم، جو عثمان بن مظعون ؓکی زوجہ محترمہ تھیں، میرے پاس آئیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو بہت ابتر حال میں دیکھا۔آپ ؐ نے مجھ سے پو چھا ،اے عائشہ ! خولہ کیوں اس طرح ،ابتر حال میں ہے ؟سیدہ عائشہ نے عرض کیا یہ اپنے شوہرعثمان کی شکایت لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ان پر توجہ نہیں دیتے۔ساری ساری رات نوافل پڑھتے رہتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔اور کئی کئی ماہ تک متواتر روزہ رکھتے چلے جاتے ہیں۔آپ انھیں سمجھائیں۔’’یہ سُن کر حضور اکرم ﷺ نے انھیں طلب کیا اور وہ کچھ ارشاد فرمایا جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔اور کس خوب صورت انداز سے آپ نے انھیں اپنے گھر والوں ، آئے گئے مہمانوں اور خود اپنی جان کے حقوق کو پورا کرنے کی ترغیب دی اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرما یا کہ یہی میرا طریقہ ہے۔یہی میری سنت ہے۔