ہمارے ہاں مذہبی طبقات دین کو جس طرح پیش کرتے ہیں اُس میں ایک طرح کی کرختگی پائی جاتی ہے گویامذہب نام ہی سختی، پابندی اور آدم بیزاری کا بن چکا ہے اور بعض اوقات مذہبی لوگ اپنے ماحول اور قریبی لوگوں کے لیے بجائے رحمت کے زحمت بن جاتے ہیں۔‘یہ کرو،یہ نہ کرو،یوں اُٹھو اور یوں بیٹھو’ ان کا تکیہ کلام بن جاتا ہے اور ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ،غصہ و جھنجھلاہٹ،اور عدم التفات ان لوگوں کا وطیرہ بن جاتاہے۔تقویٰ کا ایک مصنوعی خول ہوتا ہے جو ان لوگوں نے اپنے اوپر چڑھا رکھا ہوتا ہے۔ان کے ہاں عام لوگوں کے لیے شفقت،رافت،اخلاص و محبت،دل سوزی اور رحمدلی کے جذبات کوئی وجود نہیں رکھتے۔البتہ اپنے گروہ اورمسلک کے اندر اور ان کے کارکنوں کے لیے ان میں کسی حد تک نرمی، محبت اور التفات پایا جاتا ہے۔عامۃ الناس کے لیے ،مسکراہٹ ،قہقہہ،گرم جوشی اور اظہار ِ خوشی کے دیگر مظاہر مفقود نظر آتے ہیں۔ایسا کیوں ہے مذہبی طبقات تو بطور مثال تھے ہمارے ہاں تو اب عام طو رپر پورے معاشرے ہی میں یہ بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔
طبائع میں سنجیدگی اور وقار کا ہوناکوئی عیب نہیں اور نہ ہی حالات کے باعث وقتی طور پر معاملات میں نیم دِلی اور بیزاری کا پا یا جا نا کوئی قابل ِ گرفت بات ہے۔لیکن عمومی رویہ کرخت ہو،تقویٰ کا خول چڑھا ہو اور انسان ہر وقت بندوں کے عیوب پر ہی نظر رکھے ہوئے ہو،یہ چیز بہر حال قابل مذمت ہے۔ یہ رویہ مذہبی طبقات کاہو یا دیگر طبقات کا ، اس کی تائید خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے اُسوہ حسنہ سے نہیں ہوتی۔ آئیے سطور ِ ذیل میں اس پہلو سے نقشِ محبوب ﷺکا مطالعہ کرتے ہیں۔
گھر میں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چپل کو خود درست فرما لیا کرتے تھے۔اپنے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے گھر میں اسی طرح سب کام کاج خود کر لیا کرتے تھے جس طرح تم سب لوگ کر لیتے ہو۔اور فرماتی تھیں آپ بھی ایک بشر ہی تھے۔اپنی بکری کا دودھ نکال لیتے اور اپنی ضروریات کو خود انجام دے لیتے تھے۔ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۲۳۶بحوالہ ترمذی)
سیدنا اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا، آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں آ کر کیا کیا کرتے تھے۔انھوں نے فرمایا ،(آپ گھر تشریف لا کر) اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری فرماتے تھے۔مگر جہاں نماز کا وقت آتا بس اسی وقت نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ۲۳۷بحوالہ بخاری )
گھر سے باہر
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے جن کے مزاج میں ظرافت تھی،ایک دن اپنی بات کرتے ہوئے بیان کیا کہ ایک بار میں لوگوں کو ہنسا رہا تھااورحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان موجود تھے۔ اس اثنا میں آپ نے ایک لکڑی ( بے تکلفی میں )میری کوکھ میں ذرا سی چبھو دی۔تومیں نے کہا کہ میں تو بدلہ لوں گا۔آپ نے فرمایا اچھا لے لو۔انہوں نے کہا ،آپ کے جسم پر تو قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہ تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنی قمیص اُٹھا دی۔پھر کیا تھا وہ آپ سے لپٹ گئے۔اور آپ کے پہلو کو بوسہ دیتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے یا رسول اللہ میری دیرینہ تمنا تو بس یہ تھی۔’’ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۳۹۹،بحوالہ ابو داؤد)
سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا ،کیا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے؟انھوں نے کہا کہ ہاں،بہت مرتبہ۔آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے تو طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے نہیں اُٹھتے تھے،اور جب سورج نکل آتا تو آپ اُٹھ جاتے۔( اس دوران میں )صحابہ کرام باتوں میں مشغول ہوتے اورزمانہ جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ باتوں میں شریک رہتے اور تبسم فرماتے جاتے تھے (مسلم،کتاب الفضائل)
خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ چند لوگ ان کے والد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ہمیں آنحضرت ﷺ کی کچھ باتیں سُنا دیجیے۔انھوں نے فرمایا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوسی تھا۔ جب آپ پر وحی آتی تو آپ مجھے بُلا بھیجتے۔میں جا کر لکھ دیتا تھا۔اور جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوتے۔اور جب ہم آ خرت کاذکر کرتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ آ خرت کا ذکر فرمانے لگتے۔پھر جب ہم کھانے پینے کا تذکرہ کرتے تو آپ اس میں شریک رہتے۔ یہ ساری باتیں میں تم سے حضور ہی کی بیان کر رہا ہوں۔ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۲۳۶بحوالہ ترمذی) ابو حازم روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کچھ بات کی تو وہ مارے خوف کے کانپنے لگا۔آپ نے فرمایا ،‘‘ارے بھائی! گھبراؤ مت،میں کوئی بادشاہ تو نہیں،میں تو ایک قریشی عورت کا لڑکا ہوں جو سوکھا ہوا گوشت بھی کھا لیا کرتی تھی۔’’ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۲۳۶بحوالہ ترمذی)
ان احادیث سے واضح ہوا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی نہایت سادگی،بے تکلفی اور شریک ِ کار کے طور زندگی گزارتے تھے۔رکھ رکھاؤ،ہٹو بچو،تصنع اور بناوٹ اور بے جا غرور و پندار سے کوسوں دور تھے۔آپ کے ارد گرد کاماحول شگفتہ شگفتہ رہتا تھا۔احباب کی باتوں میں شریک رہتے ،چھوٹے چھوٹے ذاتی اور گھریلو کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ فرماتے۔اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا اور اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو میں شریک رہنا سنتِ پیغمبر ہے اورسنت پیغمبر پر عمل ہی تقویٰ ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا وہ نوجوان مرد تھا( راوی کو اس میں شک ہے) ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو( کچھ دن) نہ دیکھا تو اس کے متعلق صحابہ سے دریافت فرمایا۔لوگوں نے کہا کہ اس کا تو انتقال بھی ہو گیا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا تم نے مجھ کو اس کی خبر کیوں نہ کی۔راوی کہتا ہے کہ گویا لوگوں نے ایسی عورت کی موت کا معاملہ بہت معمولی سمجھا تھا (کہ اس کی اطلاع حضور کو دی جائے) اس پر آپ نے فرمایا مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے۔چنانچہ آپ کو اس کی قبر بتائی گئی۔آپ نے اس پر نماز ادا کی اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ان قبروں میں تاریکی در تاریکی تھی،اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔میری نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو روشن اور منور فرما دیا (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۲۷۰بحوالہ بخاری مسلم)
ملاحظہ کیجیے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی شان و عظمت اور کار ِ رسالت میں بے پناہ مصروفیت کے باوجود ، چھوٹی چھوٹی باتوں کا کس قدر دھیان رکھتے تھے اور اپنے قریب رہنے والے چھوٹے چھوٹے آدمیوں کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔مسجد میں جھاڑو دینے والے کی غیر حاضری کو بھی محسوس فرمایا۔اور اس کے بارے میں استفسار فرمایا ۔جب یہ معلوم ہوا کہ وہ فوت ہو چکی ہے تو اطلاع نہ کیے جانے پر اظہار ِ ناراضی فرمایا ۔سبحان اللہ !پھر تمام تر علو ِ مرتبت سمیت اس مسکین اور غریب ،جھاڑو دینے والی کی قبر پر تشریف لے گئے۔اور اس کے لیے دعا فرمائی۔آپ ؐ کے اس عمل سے آپ کی عظمت کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور سرکار کے طرز ِ زندگی کے کئی گوشے نمایاں ہوتے ہیں۔اور یہ سبق ملتا ہے کہ آس پاس رہنے والا ،خواہ کتنا ہی حقیر کام کرتا ہو اُس کی غیر حاضری کو محسوس کرنا اُسوہ پیغمبری ہے۔
سفر میں
جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگ سے واپسی پر میرا اُونٹ کچھ ُسست پڑ گیا ۔اور میں قافلے سے پیچھے رہ گیا۔اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ ملے اور پو چھا،جابر ،اُونٹ کا کیا ہوا ؟میں نے عرض کی ،شاید تھک گیا !۔آپ ؐ نے فرمایا ، اِسے بٹھا دو اور خودنیچے اُتر آؤ۔ آپ ؐ نے خود بھی اپنا اُو نٹ بٹھا دیا اور نیچے تشریف لا کرجابر بن عبد اللہ کے اونٹ کو اپنے عصا مبارک سے ٹھوکے دیے اور دعا فرمائی، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ یہ کمزور اونٹ اب ہوا کی رفتار سے دوڑنے لگا۔اب حضرت جابرؓ اور سیدی سرکار مدینہؐ برابر برابر چل رہے ہیں۔اور باتیں بھی کرتے جا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،جابر یہ اُو نٹ ہمیں دے دو۔ہم قیمتاًلیں گے۔سیدنا جابرؓ قدرے ہچکچائے لیکن حضور ﷺ کا اصرار جاری رہا۔آ خر وہ کہنے لگے ،کتنی رقم دیں گے؟آپ ؐ نے فرمایا ،ایک درہم۔حضرت جابر نے عرض کی ،یا رسول اللہ ،یہ تو بہت کم ہے۔واللہ سراسر نقصان ہے۔کچھ قیمت بڑھائیں اور یہ بھی ہے کہ اونٹ مدینہ پہنچ کر ہی آپ کو دوں گا۔پھر آپ ؐ نے قیمت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔کرتے کرتے ایک اوقیہ تک دام لگا دیے۔ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔حضرت جابر یہ قیمت سُن کر بہت خوش ہو گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے ،اتنے پر یہ اُو نٹ آپ کا ہوا۔
ذرا ملاحظہ کیجیے،آپس میں کتنی دوستی اور بے تکلفی کی فضا ہے۔سفر بھی کٹ رہا ہے اور عام دُنیاوی با تیں بھی ہو رہی ہیں۔کیا خوب صورت لمحات ہوں گے!!! عام دنیوی باتیں اور ہنسی مذاق ،کیا خلاف ِ تقویٰ ہے؟نہیں قطعا نہیں ،بشرطیکہ اس میں ناشائستہ باتیں اور غیبت نہ ہو۔ کم از کم ،خیر البشر ﷺ کا اُسوہ مبارک یہی بیان کر رہا ہے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد ،حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پھر گویا ہوئے۔رسول ِ رحمت نے اپنے اس نوجوان دوست سے پوچھا،جابر!کیا شادی کر لی ہے؟عرض کی ،جی ہاں ،یا رسول اللہ ﷺ۔پوچھا ،کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟عرض کی،شوہر دیدہ سے۔نبی مہربان ﷺ نے فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے شادی کی ہوتی،وہ تم سے لطف اندوز ہوتی اور تم اُس سے کھیلتے!!
کیا شانِ رفاقت ہے! کیسی بے تکلفی ہے اور کیا عمدہ دل لگی ہے !!حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ،میں آپ پر قربان جاؤں،بات یہ تھی کہ ابا جان جنگ ِ احد میں شہید ہوگئے تھے۔میری نو (۹)جوان بہنیں ہیں۔جن کا اکیلا میں بھائی ہوں۔سوچا کہ جہان دیدہ اور عمر رسیدہ بیوی لاؤں تا کہ بہنوں کی دیکھ بھال آسان ہو بھلے میرے ارمان پورے ہوں یا نہ ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،ما شا اللہ!تم نے درست فیصلہ کیا۔خدا تمہیں اپنی بیوی سے خوش رکھے۔مدینہ واپس پہنچ کر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ساری گفتگو اپنی بیوی کو بتلائی۔وہ نیک دل خاتون کہنے لگی کہ، ان باتوں کو یاد رکھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کرو۔سبحان اللہ ! بیوی نے کیا ہی اعلیٰ نصیحت کی!صبح ہوئی تو جنابِ جابر اپنا اونٹ لے کردر ِ اقدس پر حاضر ہو گئے۔سرور کائنات اپنے کاشانہء مبارک سے باہر تشریف لائے تو پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے؟حضرت جابر حاضر خدمت ہو کر عرض گزار ہوئے کہ حضور یہ آپ کا ہے اور یہ غلام لایا ہے۔آپ ؐ نے تبسم فرمایا اور اپنے میر منشی، سیدنا بلال کو حکم دیا کہ جابر کو ایک اوقیہ رقم دے دو۔محسن ِ انسانیت کی شان ِ سکندری ملاحظہ کیجیے،جب جابر جانے لگے تو انھیں بلایا اور فرمایا ،او برادر زادے ! یہ اونٹ بھی لے جاؤ اور ا س کی قیمت بھی۔ دونوں تمھارے ہوئے۔
لاکھوں سلام آپ پر ،کروڑوں درود آپ پراے رسولِ مہربان! اللہم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم علیہ۔