‘‘اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ، ــ‘‘ ایک دن کچھ صحابہ ہمارے دروازے پر تشریف لائے۔آپ ﷺ ان سے ملنے کے لیے گھر سے باہر جانا چاہتے تھے۔گھر میں ایک چھاگل میں پانی تھا۔آپ اس پانی میں سے جھانک کر اپنی داڑھی مبارک اور مقدس بالوں کو سنوارنے لگے۔میں نے عرض کیا،یا رسول اللہﷺ آپ بھی ایسا کرتے ہیں۔(یعنی اپنے آپ کو سنوارتے ہیں)آپ نے فرمایا ،ہاں،جب کوئی شخص اپنے بھائیوں سے ملنے جائے تو اپنے آپ کو تیا ر کر کے جائے،کیونکہ اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔’’
کیا خوب صورت بات ہے!اپنے دوستوں سے ملنے،گھر سے باہر تشریف لے جاتے ہوئے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال سنوارنے کے لیے پانی کو بطور آئینہ استعمال کرتے ہیں۔گویا اپنے آپ کو سنوارنا ،آئینہ دیکھنا ،بال کنگھی کرنا اورحتی الوسع خوب صورت نظر آنا اسوۂ پیغمبر ہے۔سنت رسول ہے اورسنت رسول پر عمل ہی تقویٰ ہے۔یہی تزکیہ ہے۔اور یہی شرفِ آدمیت ہے۔
ہر وقت گندہ رہنے،صفائی سے دُوری اختیار کرنے اور اپنی آ رائش و زیبائش سے اجتناب کرنے میں ہرگز دین داری نہیں ہے۔بلکہ ہمارے دین نے تو صفائی سے بھی آگے پاکیزگی اور طہارت کا تصور دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ،‘‘نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص کے دِل میں ایک ذرہ برابر بھی تکبر ہوگاوہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ایک شخص نے عرض کیا،یا رسول اللہ ،ایک آدمی چاہتا ہے کہ اُس کے کپڑے اچھے ہوں،اور اُس کا جوتا اچھا ہو( تو کیا یہ بھی تکبر ہوگا؟)آپ ﷺ نے فرمایا اللہ جمیل (خوب صورت )ہے اور حسن و سلیقہ سے محبت کرتا ہے۔تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے ۔’’ (مسلم نمبر ۹۱)
امام احمد کی روایت کردہ حدیث میں یہ شخص اس طرح عرض کرتا ہے کہ،‘‘یا رسول اللہ ،مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ میرے کپڑے دھلے ہوں،اور میرے سَر میں تیل لگا ہو اور میرا جوتا نیا ہو۔اُس نے اسی طرح کی اور بھی چیزیں ذکر کیں،حتیٰ کہ اپنے چابک کی ڈوری اور اپنی جوتی کے تسمے کا بھی ذکر کیا اور پوچھا،یا رسول اللہ کیا یہ سب کچھ تکبر سے ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا ،نہیں !یہ جمال ہے۔اپنے آپ کو سنوارنا ہے۔بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔لیکن تکبر حق کا انکار کرنا اور دوسروں کو حقیر جاننا ہے۔ َ’’
رب ِ کریم کی عنایت سے آدمی کے حالات اور اُس کی حیثیت اجازت دیتی ہو،اُسے اعلیٰ لباس میسر ہواور اُسے نفاست و نظافت سے رہنا نصیب ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے،یہ کسی طور بھی غیر دینی عمل نہیں ہے۔اور یہ طرزِ زندگی کسی طرح بھی خلافِ تقویٰ نہیں ہے۔سادگی اور کفایت شعاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی گندہ رہے۔بے ترتیبی اور بد نظمی کا نام فقر نہیں ہے۔گھٹیا اور کمتر مال و اسباب پر کفایت کرنے کا نام مذہب نہیں ہے۔سید البشر ﷺ کی تعلیمات میں کہیں بھی ترک ِ دُنیا کی ترغیب نہیں ہے۔بلکہ غرقِ دُنیا ہونے کی نفی ہے۔یہ تصور ِ تقویٰ کہ جس میں پراگندگی اور ترکِ زینت کا حکم دیا گیا ہو،تعلیمات نبوی کے بالکل خلاف ہے۔ہمارا دین رہبانیت نہیں سکھاتا۔تقوی ٰ کسی مخصوص لباس،مخصوص روپ اور کسی مخصوص ماحول کو اختیار کرنے کا نام نہیں ہے۔بلکہ یہ دِ ل کی اُس کیفیت کا نام ہے ،جس میں انسان اپنے کریم آقا کی عنایات پرشکر کے جذبات سے لبریزہواور اس کی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہو۔
نیکی سینے میں ہوتی ہے اور اُس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہے۔دِل صوفی ہونا چاہیے۔تکبر،غرور اور خود پسندی سے پاک دِل ہی ، حقیقت میں تقویٰ اورزہد کی علامت ہے،یہی وہ تعلیم ہے جو ان احادیث میں پیش کی گئی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،ایک دِ ن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر تھے کہ ایک شخص کو دیکھا،جس کے بال غبار آلوداور پراگندہ و منتشر تھے۔آپ ؐ نے اُس کو دیکھتے ہوئے فرمایا ،کیا اس کو کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنے بالوں کو سنوار سکے۔اسی طرح ایک اور شخص کو دیکھا جو میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا،آپ ؐ نے فرمایا کیاا س شخص کو پانی میسر نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑوں کو دھو سکے۔’’گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں تھا کہ کسی کو سہو لت حاصل ہو اور پھر بھی وہ اس کو استعمال نہ کرے اور پراگندہ رہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا کی چیزیں ہمارے استعمال کے لیے بنائی ہیں ،ان کا ترک کسی درجے میں بھی دین میں مطلوب نہیں ہے۔جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ دراصل دنیا اور اس کے سازوسامان کو آ خرت پر ترجیح دینا اور مال و دولت کے بل بوتے پر اپنے جیسے دیگر انسانوں کو کم تر جاننا ہے۔
مسلم کی روایت ہے جس میں حضرت ابو الاحوص کے والد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،‘‘ میں ایک دِن انتہائی معمولی کپڑوں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔مجھے دیکھ کر آپﷺ نے پوچھا تمھارے پاس مال ہے؟میں نے عرض کیا ،جی ہاں ،ہے !!فرمایا کون سا مال ہے؟میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بکریاں ،گھوڑے اور غلام دیے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو اللہ کی عنایات اور رحمت و کرامت کا اثر تم پر دکھائی دینا چاہیے۔’’یعنی تمھارے جسم پر عمدہ اور صاف لباس ہونا چاہیے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ تم آسودہ حال ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عادت مبارک کیا تھی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی میلے کپڑوں میں نہیں دیکھا۔آپ کبھی کبھی تیل لگانا پسند کرتے تھے۔اور سر میں کنگھی کرتے تھے۔سفر حضر میں، کنگھی،تیل ،مسواک اور آئینہ اپنے ساتھ رکھتے۔اپنے جسم ، لباس اور ماحول کی صفائی پر ہمیشہ دھیان رکھتے۔اور رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میلے کپڑوں اور پراگندہ بالوں کو نا پسند کرتا ہے۔اس کے مقابلے میں رب تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بندے ( کے ظاہر)پراپنی نعمت ِ دنیاوی کا اثر دیکھے۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن کے اعتبار سے ،آپ کا لباس نہایت عمدہ، نفیس اور صاف ستھرا ہوتا۔آپ ؐ عموماًسفید لباس زیب ِ تن فرماتے۔روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ایک ہزار درہم کی چادر اوڑھ کر تشریف لے گئے۔اس لیے فقہا نے تصریح کی ہے کہ خوب صورت اور قیمتی لباس پہننا مستحب ہے کہ یہ رسول اللہ کا اسوہ ہے۔
آج ہم اکیسویں صدی عیسوی میں سانس لے رہے ہیں۔جب بے پناہ سائنسی ترقی کے باعث ،انسان کے طرزِ بود و باش،ذرائع نقل و حمل،وسائل ِ رابطہ و تعاون،اور صنعت و حرفت میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو چکاہے۔ایسے میں محسن ِ انسانیت ﷺ کا اُسوہ ،مبارک ہمیں یہ رہنمائی دیتا ہے کہ اپنے وسائل کے مطابق،آپ ان چیزوں کو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں۔صفائی ،پاکیزگی،آرائش و زیبائش اور سلیقہ مندی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ تقویٰ اور خدا ترسی کے خلاف نہیں ہے۔رکاوٹ اور پابندی جس چیز پرہے وہ غرور اور تکبر ہے۔خود پسندی و خود نمائی ہے۔ریا کاری اور نمود و نمائش ہے اور اللہ کے دیگر بندوں کو حقیر جاننا ہے۔
چیتھڑوں میں ملبوس،فرش پر ڈیرہ ڈالے یا کسی جھونپڑی میں بیٹھا شخص،اگر غرور و تکبر میں مبتلا ہے،دِ ل کے اندر خدائی کا دعویٰ لیے بیٹھا ہے،اور اپنی پارسائی اور تقویٰ کا زبانِ حال سے ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے،تو اُس کے لیے یہ سادگی اور ترک ِ دُنیابھی جہنم کا باعث بن سکتی ہے ۔اس کے مقابلے میں ،اگر کوئی شخص بظاہر دنیاوی آسائش و آرام میں ہے،اعلیٰ قسم کے ملبوسات اور عمدہ قسم کے مکانات میں ہے،لیکن اُس کا دِ ل و دماغ اپنے اللہ کی نعمتوں کے شکرانے سے لبریز ، اپنے جیسے انسانوں کے لیے راحت و آرام کا باعث اور کبر و غرور سے کوسوں دور ہے تو اس کی آسودگی اوردولت بھی اس کے لیے جنت میں جانے کا سبب بن سکتی ہے۔
فلسفہ دین کے نقطہ نظر سے یہ دنیا اور اس کی زندگی بجائے خود لعنت نہیں ہے۔بلکہ اس کے لعنت یارحمت ہونے کا تعلق انسان کے رویہ سے ہے۔اگر انسان ان حدود کے اندر زندگی گزارے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں تو اس دنیا کی حیات ِ چند روزہ اس کے لیے آ خرت کی ابدی بادشاہی کی ضامن ہے۔اور اگر وہ ان حدود سے بے پروا ہو کر خودکو اس کا معبود بنا بیٹھے اور اس کی لذتوں میں کھو جائے تو یہ اس کے لیے ابدی لعنت بن جاتی ہے۔