.رائے ونڈ تبلیغی مرکز کے امام مولانا محمد جمیل صاحب، خدا بخشے، بہت نیک آدمی تھے اور سوائے ارائیں ہونے کے ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور مجھے نہایت بے تکلف بھی کر رکھا تھا۔ کبھی ملتے تو گپ شپ میں رانگھڑی راؤ صاحبی پر کوئی چوندا چوندا لطیفہ ضرور سناتے اور جواب میں مجھے ارائیوں کے درجات بلند کرنے کا موقع دیتے۔ دین کو جتنا آسان اور عملی کرکے انھوں نے سمجھایا، اس کی کوئی مثال دور نزدیک تک نہیں ملتی۔ خدا بہت مغفرت فرمائے۔
سنہ 2002 کے حج کے سفر میں مجھے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھ کے نکلنے لگے تو بہت سے لوگوں نے نمازیوں کے آگے سے گزرنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا کہ مولانا، آج سمجھ آئی کہ حرم میں نمازی کے سامنے سے گزرنے کا گناہ کیوں نہیں ہے۔ کہنے لگے نہیں، یہ حکم صرف حرمین کے لیے نہیں ہے بلکہ کہیں بھی کوئی نمازی گزرگاہ پہ نماز پڑھنے لگے تو اسے ہٹا دینا چاہیے، اور اگر وہ نہ ہٹے تو اس کے آگے سے گزرنے کا گناہ نمازی کو ہوگا نہ کہ گزرنے والے کو۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اب میں پاکستان جاکر لوگوں کو بتاؤں گا کہ مجھے امام صاحب نے مسجدِ نبوی میں روضہ اقدس کے سامنے فرمایا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزر جانا چاہیے کیونکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ نمازی کو ہوتا ہے۔ مولانا رہ رہ کر ہنستے رہے۔
پھر فرمانے لگے کہ حافظ جی، مذہبی کہانیاں اسی طرح بنتی ہیں۔ کوئی اللہ والا کسی کو سمجھانے کے لیے کوئی بات بتا دیتا ہے تو لوگ اس میں چار نئی چیزیں ملاکر پورا قصہ گھڑ لیتے ہیں۔ ایک نسل گزرتی ہے تو وہ قصہ کتابوں میں لکھا ملتا ہے اور اس کے بعد وہ فرائضِ دین میں شامل ہوجاتا ہے۔
میں نے مولانا کو بتایا کہ میں نے اپنے بچوں کو قصص القرآن اور قصص النبیین والی کہانیاں سنانا شروع کیں تب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ تاریخی واقعات میں رنگ آمیزی کس طرح ہوتی ہے۔ مثلًا جب میں چیونٹی کا قصہ سناتا کہ وہ اپنی قوم کو آتے لشکر کے پاؤں تلے روندے جانے سے بچنے کا کہنے گئی تو میں لشکر کے آنے کی آوازیں اور گھن گرج کا ماحول پیدا کرکے سناتا تھا کہ اس طرح اس چیونٹی کے دل میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں اور ان کے فیڈر پیتے بچوں کا درد پیدا ہوا۔ میں بچوں کو بتاتا کہ جب کسی چیونٹی کی ٹانگ پر کسی فوجی کا پاؤں آتا تو وہ کس طرح روتی تھی۔ میرا بیٹا مجھ سے پوچھتا تھا کہ زخمی چیونٹیوں کو ڈسپنسری لے جانے لیے ایمبولینس بھی آتی تھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ بس جب مجھ پہ خود یہ حال گزرا تب احساس ہوا کہ کہیں کسی باخدا انسان نے قرآن کی بات سمجھانے کے لیے کوئی منظر کھینچ دیا جسے سننے والوں نے اصل جان کر اور اس میں چار باتیں مزید ملاکر آگے چلا دیا۔ سنانے والے کی نیت ٹھیک تھی لیکن سننے والے کم فہم تھے اور لکھنے والے اور بھی لاپروا۔ بس یونہی کام آگے سے آگے چل پڑا۔ چنانچہ مذہبی متون کی اصل کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ قرآن کا ایک قصہ گرم علاقوں میں اور طرح سمجھایا جائے گا اور سرد علاقوں میں اور طرح۔ بس یہ بات سمجھنی چاہیے بجائے اس کے کہ کسی پہ توہینِ قرآن و اسلام لگائی جائے۔ خدا سمجھ دے۔