فضائل و برکاتِ حج و عمرہ
۱- نماز و روزہ صرف بدنی عبادات ہیں اور زکوٰۃ صرف مالی، جبکہ حج و عمرہ مالی و بدنی ہر قسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔
۲- اسلام کے پانچ ارکان میں سے حج ایک اہم رکن ہے۔ (صحیح بخاری:۸)
۳- ایمان و جہاد کے بعد حجِ مبرور افضل ترین عمل ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۶)
۴- دورانِ حج اگر کسی سے کوئی شہوانی فعل اور کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو تو حاجی گناہوں سے یوں پاک ہوکر لوٹتا ہے، جیسے آج ہی وہ پیدا ہوا ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۵۲۱)
۵- حجِ مبرور کی جزا جنت ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۷۷۳)
۶- حج عورتوں کا جہاد ہے۔ (بخاری: ۱۸۶۱) جس میں کوئی قتال بھی نہیں۔ (مسندا حمد: ۶؍۱۵۶)
۷- حج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ (نسائی: ۲۶۲۶)
۸- حاجی کی زندگی قابلِ رشک اور وفات قابلِ فخر ہوتی ہے کہ اگر وہ احرام کی حالت میں فوت ہوجائے تو قیامت کے دن وہ لبیک پکارتا اُٹھایا جائے گا۔ (صحیح بخاری: ۱۲۶۵)
۹- رمضان میں کیے گئے عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۷۸۲)
۱۰- ایک عمرہ دوسرے عمرے تک گناہوں کا کفارہ ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۷۷۳)
فرضیت ِ حج اور تارکِ حج کے لیے وعید
۱۱- لوگوں پر اللہ کا یہ حق (فرض) ہے کہ جو اس کے گھر (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ اس کا حج کریں اور جو کوئی اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ (سورۃ آلِ عمران: ۹۷)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم حج کرو۔ ایک صحابی (اقرع بن حابسؓ) نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال حج کریں؟ اُنھوں نے تین بار یہ سوال دہرایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور بالآخر فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ پاتے۔ (صحیح مسلم: ۱۳۳۷)
۱۲- حج کی استطاعت حاصل ہوجائے تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرنا ضروری ہے۔ (مسنداحمد: ۱؍۲۱۴)
۱۳- اگر توفیق ہو تو پانچ سال میں ایک مرتبہ حج کرلینا چاہیے۔ (ابن حبان: ۹۶۰، بیہقی: ۵؍۲۶۲)
۱۴- جو استطاعت حاصل ہوجانے کے باوجود مشاغلِ دنیا میں مصروف رہے اور اسی حالت میں حج کیے بغیر موت آجائے تو اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرا جی چاہتا ہے کہ طاقت کے باوجود جن لوگوں نے حج نہیں کیا ، میں ان پر غیرمسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس (جزیہ) نافذ کردوں۔ اللہ کی قسم! وہ مسلمان نہیں ہیں’’۔ (تلخیص الحبیر: ۲؍۲۲۳)
مفہومِ استطاعت
۱۵- استطاعت کے مفہوم میں زادِ راہ (البقرہ: ۱۹۷) اور سواری (یا مکہ آنے جانے کے لیے اس کے اخراجات) شامل ہیں۔ (سنن ابن ماجہ: ۲۸۹۶)
۱۶- اسی طرح اہلِ علم نے راستوں کے پُرامن ہونے کی شرط بھی عائد کی ہے۔ (الفتح الربانی ۱۱؍۴۲، ۴۳) اور عورتوں کے لیے ساتھ ہی کسی محرم کا ہونا بھی شرط ہے جو حج اور کسی بھی سفر (بخاری: ۳۰۰۶) خصوصاً ایک دن اور ایک رات (بخاری: ۱۰۸۸) یا زیادہ سے زیادہ تین دنوں اور تین راتوں کے ہر سفر کے لیے شرط ہے۔ (صحیح مسلم)
۱۷- استطاعت کے مفہوم میں ہی جسمانی استطاعت بھی شامل ہے، اگر کوئی شخص پیدل تو کجا، سواری پر بھی نہ بیٹھا رہ سکتا ہو تو اس کا حج کے سفر پر نکلنا واجب نہیں۔ (بخاری: ۱۵۱۲)
حجِ بدل
۱۸- ضعیف العمر یا لاغر و مریض شخص اپنی طرف سے کسی کو ‘حجِ بدل’ کروا سکتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۵۱۳)
۱۹- حجِ بدل عورت، مرد کی طرف سے (صحیح بخاری: ۱۵۱۳) مرد، عورت کی طرف سے (صحیح بخاری: ۶۶۹۹) عورت، عورت کی طرف سے (صحیح مسلم: ۱۱۴۹) اور مرد مرد کی طرف سے کرسکتے ہیں۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۱۱)
۲۰- حجِ بدل کرنے والے کے لیے شرط ہے کہ وہ پہلے اپنا فریضۂ حج ادا کرچکا ہو۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۱۱)
سفرِ حج و عمرہ پر روانگی
۲۱- تقویٰ و پرہیزگاری کو اختیار کریں کہ یہی بہترین زادِ راہ ہے۔ (البقرہ:۱۹۷)
۲۲- پورے سفرِحج کے دوران بیہودہ و شہوانی افعال و اقوال، لڑائی جھگڑے اور فسق و فجور سے بچیں۔ (البقرہ: ۱۹۷)
۲۳- روانگی سے قبل خلوصِ نیت سے سابقہ تمام گناہوں سے توبہ کرلیں۔ (النور:۳۱) اس طرح سابقہ تمام گناہوں سے پاک ہوجائے گا۔ (سنن ابن ماجہ: ۴۲۵۰)
۲۴- اگر آپ کے ذمے کسی کا کوئی حق یا امانت ہو تو وہ ادا کردیں۔ (النساء:۵۸)
۲۵- خلوص و للّٰہیت اختیار کریں کہ یہ قبولیتِ عمل کی بنیادی شرط ہے۔ (البینۃ:۵)
۲۶- مالِ حلال سے حج و عمرہ کریں، ورنہ قبولیت ناممکن ہے۔ (البقرہ: ۱۷۲، المومنون: ۵۱)
۲۷- سفرِحج و عمرہ کے دوران خصوصاً اور عام حالات میں عموماً ممنوع زیب و زینت مثلاً داڑھی منڈوانا (بخاری: ۵۸۹۲، ۵۸۹۳) اور مردوں کا سونے کی انگوٹھی یا چین وغیرہ کا استعمال کرنا (بخاری: ۵۸۶۴) حرام و فسق ہے۔
۲۸- زندگی بھر عموماً اور سفرِحج وعمرہ میں خصوصاً اپنے آپ کو اعمال کے برباد کردینے والے شرک (الانعام:۸۹، الزمر:۶۵) اور فتنہ و دردناک عذاب کا باعث بننے اور جہنم لے جانے والی بدعات (النور:۶۳ و صحیح مسلم) کی تمام الائشوں سے پاک رکھیں۔
۲۹- سفرِحج و عمرہ پر کسی بھی دن نکل سکتے ہیں،ا البتہ مسنون و مستحب دن جمعرات (صحیح بخاری: ۲۹۴۹) اور صبح کا وقت (ابوداؤد: ۲۶۰۶) یا پھر کم از کم دوپہر و زوالِ آفتاب کا وقت ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۰۸۹)
۳۰- کسی موحد، متبع سنت اور بااخلاق انسان کو اپنا رفیقِ سفر بنا لینا چاہیے۔ (صحیح بخاری: ۲۹۹۸)
۳۱- آغازِ سفر پہ گھر میں دو رکعتیں پڑھنے کا صحیح احادیث سے ثبوت نہیں ملتا۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور ابن عساکر وغیرہ والی مرفوع حدیث ضعیف ہے (‘سوئے حرم، از مؤلف: ص ۱۱۰، ۱۱۲)۔ البتہ حضرت ابن عمرؓ والا موقوف اثر سنداً صحیح ہے جس میں ان کا سفر پر نکلنے سے پہلے مسجد میں جاکر دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ سفر سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر گھر میں داخل ہونا ثابت ہے۔ (صحیح بخاری: ۴۴۳)
۳۲- سفر سے واپس آکر گھر میں دن کے وقت یا سرِشام داخل ہونا چاہیے (بخاری: ۱۸۰۰)۔ طویل سفر سے واپسی پر اطلاع کیے بغیر رات کو اپنے گھر آنے سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (صحیح بخاری: ۵۲۴۶)۔ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ (فتح الباری ۹؍ ۳۳۹ تا ۳۴۱)
۳۳-گھر سے نکلتے وقت یہ دعا کریں:
بسم اللّٰہ توکلت علٰی اللّٰہِ ، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ (سنن ابوداؤد: (۵۰۹۵)
‘‘اللہ کا نام لے کر اور اس پر توکل کرکے (گھر سے نکل رہا ہوں) اور اس کی توفیق کے بغیر نہ نیکی کرنے کی ہمت ہے، نہ برائی سے بچنے کی طاقت’’۔
۳۴- مسافر کو الوداع کرنے والے یہ کہیں:
استودعُ اللّٰہ دینک وامانتک وخواتیم عملک (سنن ابوداؤد: ۲۶۰۰)
‘‘میں تیرے دین و امانت اور خاتمۂ عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں’’۔
۳۵- مسافر جوابی دعا یوں کرے:
استودِعکم اللّٰہ الذی لا تضیعُ ودائعہُ (سنن ابن ماجہ: ۲۸۲۵)
‘‘میں تمہیں اس ذاتِ الٰہی کے سپرد کرتا ہوں، جس کے سپرد کی گئی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی’’۔
۳۶- سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھیں:
اللّٰہُ اکبر ، اللّٰہُ اکبرُ ، سبحان الذی سخرلنا ھٰذَا ومَا کُنا لہٗ مقرنین وانا الٰی ربنا لمنقلبون (الزخرف: ۱۳، ۱۴)
‘‘اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کیا، ورنہ ہم میں اس کی طاقت نہ تھی اور ہم سب اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں’’۔ (صحیح مسلم: ۱۳۴۲)
۳۷- محض زیادہ ثواب کی نیت سے طویل سفر پیدل کر کے حج و عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جانا بعض وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ سواری اللہ کی نعمت ہے۔ استطاعت ہو تو اسے استعمال کرلینا چاہیے اور یہی افضل ہے، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ (صحیح بخار: ۱۸۶۵)
مواقیتِ حج و عمرہ
۳۸- عمرہ کے لیے سال کے کسی بھی ماہ اور کسی بھی وقت اِحرام باندھا جاسکتا ہے (الفتح الربانی ترتیب و شرح مسنداحمد، ۱۱؍۵۱ تا ۵۸)۔ البتہ حج کے اِحرام کے لیے مہینے مقرر ہیں (البقرہ: ۱۸۹، ۱۹۷) جو کہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ (صحیح بخاری تعلیقاً، مسندشافعی، مستدرک حاکم، دارقطنی، بیہقی، معجم طبرانی اوسط و صغیر)
۳۹-حج و عمرہ کے لیے جانے والوں کے اِحرام باندھنے کے مقامات یہ ہیں: مدینہ سے ہوتے ہوئے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفۃ (بئرعلی)، اہلِ شام اور اس راہ (اندلس، الجزائر،لیبیا، روم، مراکش وغیرہ) سے آنے والوں کے لیے جُحفہ (رابغ)، اہلِ نجد اور براستہ ریاض۔ طائف گزرنے والوں کے لیے قرن المنازل (السیل الکبیر یا وادئ محرم)، اہلِ یمن اور اس راستے سے (جنوبِ سعودیہ، انڈونیشیا، چین، جاوا، انڈیا اور پاکستان سے) آنے والوں کے لیے یَلَملَم (سعدیہ) اور ان مقامات سے اندرونی جانب رہنے والوں کے لیے ان کے اپنے گھر ہی میقات ہیں (صحیح بخاری و مسلم)۔ اہلِ عراق اور اس راستہ سے (ایران اور براستہ حائل) آنے والوں کا میقات ذاتِ عرق نامی مقام ہے (صحیح مسلم)۔ مصر کے لیے بھی شام والوں کا ہی میقات ہے۔ (نسائی، دارقطنی، بیہقی، نیز فتح الباری، ۳؍۳۸۴ تا ۳۹۱، الفتح الربانی،۱۱؍۱۰۵ ومابعد، المرعاۃ شرح مشکوٰۃ، ۶؍۲۳۲ ومابعد، فقہ السنہ)
۴۰- حج و عمر ہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے والا اگر اِحرام باندھے بغیر میقات سے گزر جائے تو واپس لوٹ کر میقات سے اِحرام باندھ کر جائے یا پھر اندر ہی کہیں سے اِحرام باندھ لے تو دَم (فدیہ کا بکرا) دے اور اس کا حج و عمرہ صحیح ہوگا۔ (الفتح الربانی والمرعاۃ)
۴۱- کسی ذاتی غرض، تجارت، تعلیم، علاج وغیرہ سے جائے اور حج و عمرہ کا ارادہ نہ ہو تو بلااِحرام حدودِ حرم میں داخل ہوسکتا ہے۔
۴۲-پاک و ہند سے ہوائی جہاز سے آنے والے لوگ اِحرام کی چادریں اور خواتین اِحرام کے کپڑے پہن کر چلیں اور جہاز کے عملے کے یہ بتانے پر کہ میقات سے گزرنے لگے ہیں، وہاں سے لبیک پکارنا شروع کردیں۔ ہوائی مسافروں کا جہاز میقات سے گزر کر جدہ آتا ہے، لہٰذا ان کے لیے جدہ میقات نہیں ہے۔ (تنبیہات علٰی انَّ جدۃ لیست میقاتًا للشیخ ابن حمید والمرعاۃ، ۶؍۲۳۵ تا ۲۳۸)
اِحرام باندھنے کا طریقہ
۴۳- غسل کر کے اِحرام باندھنا سنت ہے (جامع ترمذی: ۸۳۰)۔ حیض والی عورتیں بھی غسل کرلیں اور اِحرام باندھ لیں (صحیح مسلم: ۱۲۰۹)۔ کسی وجہ سے غسل نہ کرسکیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (شرح مسلم از نووی، الفتح الربانی: ۱۱؍۱۲۳)
۴۴- غسل یا وضو کر کے اِحرام کی نیت کرنے سے پہلے مردوں کا بدن پر خوشبو لگانا جائز ہے، چاہے اس کا اثر بعد میں دیر تک ہی کیوں نہ رہے۔ (صحیح بخاری: ۵۹۲۸)
۴۵- مرد، دو سفید چادریں لے لیں۔ عورتیں معمول کا صاف ستھرا اور موٹا و ساتر لباس ہی بطور اِحرام استعمال کرلیں۔ مرد سر کو ننگا رکھیں اور ایسا جوتا پہنیں جو ٹخنوں کو نہ ڈھانپے۔ عورتیں دستانے نہ پہنیں اور نہ ہی منہ پر نقاب باندھیں، البتہ غیرمحرم لوگوں کی موجودگی میں سر سے کپڑا لٹکا کر پردہ کریں۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۳۳)
۴۶- اِحرام کے لیے کوئی مخصوص نمازنہیں۔ فرض، اشراق، ضحی، تحیۃ الوضو یا تحیۃ المسجد کی رکعتیں پڑھ لیں تو وہی کافی ہیں۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۶؍ ۱۰۸، ۱۰۹) بعض احادیث کی رُو سے جمہور علما کے نزدیک یہ دو رکعتیں مستحب ہیں اور ان کا احترام اِحرام باندھنے کے بعد اور لبیک پکارنا شروع کرنے سے پہلے ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۵۵۴)
۴۷- صرف عمرہ یا حجِ تمتع کا عمرہ کرنے والے دل میں نیت کرلیں۔ یہ الفاظ کہنا بھی ثابت ہے: اللہم لبیک عمرۃً ‘‘اے اللہ! میں عمرہ کے لیے حاضر ہواہوں’’۔ اور حجِ قران کرنا ہو تو یہ کہیں: اللہم حجًّا وعمرۃً ‘‘اے اللہ! میں حج و عمرہ کے لیے حاضر ہوا ہوں’’۔
صرف حجِ مفرد (بلاعمرہ) کرنا ہو تو یوں کہیں: اللہم لبیک حجًّا ‘‘اے اللہ! میں حج کے لیے حاضر ہوا ہوں’’۔
۴۸- اور اس کے بعد تلبیہ کہنا شروع کردے جو یہ ہے: لبیک اللہم لبیک ، لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمد والنعمۃ لک والمُلک لا شریک لک ‘‘میں حاضر ہوں، اے میرے رب! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک ہر قسم کی تعریف، تمام نعمتیں اور ساری بادشاہی تیرے ہی لیے ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں’’۔ (صحیح بخاری:۱۵۴۹)
یا ساتھ ہی یہ کہتے جائیں: لبیک الٰہ الحق لبیک (سنن ابن ماجہ: ۲۹۲۰) ‘‘میں حاضر ہوں، اے معبودِ برحق! میں حاضر ہوں’’۔
تلبیہ بلندآواز سے کہنا چاہیے، حتیٰ کہ خواتین بھی اتنی آواز سے کہیں کہ ان کی ساتھی خواتین سن سکیں۔ دوسرے مردوں تک ان کی آواز نہ جائے۔ (منسک ابن تیمیۃ بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ از شیخ البانیؒ: ص ۱۸)
۴۹- میقات سے عمرہ کا اِحرام باندھیں اور عمرہ کر کے اِحرام کھول دیں اور معمول کے لباس میں رہیں اور ۸؍ذوالحجہ (یومِ ترویہ) کو پھر اپنی رہائش گاہ سے حج کا اِحرام باندھیں اور ۱۰؍ذوالحجہ کو قربانی کے بعد کھول دیں۔ یہ حجِ تمتع ہے جو کہ افضل ترین حج ہے۔ (بخاری ومسلم نیز دیکھئے نیل الاوطار، ۲؍۴؍۳۱۰ تا ۳۱۴، الفتح الربانی، ۱۱؍۹۵، ۹۶)
۵۰-میقات سے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھیں اور عمرہ کر کے اِحرام نہ کھولیں اور اسی حالت میں ۸؍ذوالحجہ کو منیٰ چلے جائیں اور۱۰؍ذوی الحجہ کو قربانی کے بعد اِحرام کھول دیں۔ یہ حجِ قران ہے۔ اگر قربانی کا جانور ساتھ لے لیا ہو تو پھر حجِ قران کرنا ہی سنت ہے۔
۵۱- میقات سے حج کا اِحرام باندھیں، مکہ پہنچ کر طوافِ قدوم سعی کریں اور اِحرام کھولے بغیر منیٰ چلے جائیں اور تمام مناسکِ حج پورے کر کے اِحرام کھول دیں۔ اس حج کے ساتھ قربانی واجب نہیں۔
محرماتِ اِحرام
وہ امور جو اِحرام کی حالت میں منع ہیں:
۵۲- اِحرام کی حالت میں بال کٹوانا، کاٹنا یا نوچنا حرام ہے (البقرہ:۱۹۶)۔ کسی عذر کی وجہ سے بال کٹوانے پڑیں تو اس پر فدیہ ہے جو کہ چھ مسکینوں کا کھانا یعنی تین صاع (ساڑھے چھے کلو) غلہ بانٹنا یا تین روزے رکھنا یا پھر ایک بکرا ذبح کرنا ہے۔ (صحیح مسلم: ۸؍۱۱۹- ۱۲۰)
۵۳- ناخن کاٹنا (مرد و زن)، سلے ہوئے کپڑے پہن لینا، جرابیں پہن لینا، سر ڈھانپنا (مردوں) اور خوشبو لگانا عورتوں اور مردوں کے لیے حرام ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۵۴۲)
۵۴-عورتوں کا دستانے پہننا اور نقاب (ڈھاٹا) باندھنا بھی منع ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۸۳۸) لیکن وہ سر کے پڑے سے غیرمحرم لوگوں سے پردہ کریں جیساکہ اُمہات المومنین اور صحابیات رضی اللہ عنہن نے کیا تھا۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۳۳)
۵۵- نکاح و منگنی کرنا بھی منع ہے۔ (صحیح مسلم: ۹؍۱۹۳)
۵۶- جنگلی جانوروں کا شکار کرنا (المائدہ: ۹۵، ۹۶) بھی منع ہے۔ اگر غلطی سے شکار کربیٹھے تو فدیہ دے (المائدہ:۹۵) نیل گائے کے بدلے پالتو گائے اور ہرن کے بدلے بکری ذبح کرے اور اگر مالی استطاعت نہ ہو تو ایسے جانوروں کی قیمت لگا کر اس کے برابر غلہ بنایا جائے اور پھر ہر ایک صاع (دوکلو) کے بدلے ایک روزہ رکھیں۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم اُردو، ۲؍۲۲ تا ۲۷)
بجّو کے شکار کے بدلے مینڈھا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان، ابن خزیمہ، دارقطنی، بیہقی، مستدرک حاکم، مسنداحمد، ابویعلی) خرگوش کے شکار پر بکری کا ایک سال سے چھوٹا بچہ (موطا مالک، مسند شافعی، بیہقی) جنگلی گدھے کے شکار پر گائے (بیہقی) کبوتر پر بکری (مسندشافعی) لومڑی اور گوہ پر بھی بکری کا ایک سال کا بچہ فدیہ ہے۔ (مسند شافعی، تلخیص الحبیر: ۱؍۲۸۱، ۲۸۸)
۵۷- جماع (ہم بستری) ، بوس و کنار، بدکاری و معصیت اور لڑائی جھگڑا بھی منع و حرام ہے (البقرہ: ۱۹۷)۔ جماع سے حج باطل ہوجاتا ہے اور بوس و کنار سے حج باطل نہیں ہوتا مگر اس پر دَم ہے۔ (المغنی، ۳؍۳۱۰، الفتح الربانی ۱۱؍۲۳۳، ۲۳۶)
۵۸- بلاکسی اہم ضرورت کے کنگھا کرنا مُکروہ ہے۔ (شرح مسلم نووی، ۴؍۸؍۱۴۰) اور اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے تو پھر جائز ہے۔ (بخاری: ۳۱۶، ۳۱۷، ۳۱۹، ۱۵۵۶)
آدابِ حرمین شریفین
۵۹- حدودِ حرمین میں اُگے ہوئے درخت، گھاس اور نباتات کاٹنا ہر حال میں منع ہے۔ البتہ اِذخر نامی گھاس، خود اُگائی ہوئی سبزیات اور سوکھے ہوئے درختوں یا گھاس پھوس کو کاٹنے کی اجازت ہے۔ (بخاری: ۱۸۳۴، نیز دیکھئے المغنی، ۳؍۳۱۵، ۳۱۶)
۶۰- اِحرام کی حالت کی طرح حدودِ حرم میں بھی شکار کرنا منع ہے۔ البتہ مرغی و بکری وغیرہ ذبح کرسکتا ہے اور ان کا گوشت بھی کھا سکتا ہے۔
۶۱- حدودِ حرم میں گری پڑی چیزوں کا اُٹھانا بھی منع ہے ، سوائے اس کے جو اعلان کروانا (یا ‘دفتر گم شدہ اشیا’ میں جمع کروانا) چاہتا ہو۔ (بخاری: ۱۸۳۴)
مباحاتِ اِحرام
وہ اُمور جو اِحرام کی حالت میں جائز ہیں:
۶۲- غسلِ جنابت کے جواز پر تو تمام علمائے اُمت کا اجماع ہے (فتح الباری ۴؍ ۵۵،۵۶، الفتح الربانی، ۱۱؍ ۲۱۰، ۲۱۳) اور محض ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے بھی جائز ہے (بخاری: ۱۸۴۰)۔ سر کو دونوں ہاتھوں سے مل کر دھو سکتے ہیں (بخاری: ۱۸۴۰)۔ دورانِ غسل اگر سر یا بدن کا کوئی بال خود بخود ٹوٹ کر گر جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (الفتح الربانی ۱۱؍۲۱۳، فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۶؍۱۱۶)۔ اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کرسکتے ہیں، البتہ احناف کے نزدیک اُس صابن کا خوشبودار نہ ہونا ضروری ہے (الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ۱؍۶۵۰- ۶۵۱، فقہ السنہ، ۱؍۶۶۶)۔ سر دھوتے یا نہاتے یا پانی میں غوطہ لگاتے ہوئے سر ڈھک جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں (مسندشافعی: ۱۱۷)۔ بوقتِ ضرورت اِحرام کا کوئی کپڑا بدلا یا دھویا جاسکتا ہے۔ (دارقطنی، بیہقی، امحلی ابن حزم)
۶۳-چھتری ، کپڑے، خیمے، درخت یا گاڑی کی چھت وغیرہ کے نیچے سائے میں بیٹھنا جائز ہے۔ (مسلم: ۸؍ ۱۷۰، ۱۹۶، نیز دیکھیے: فتاویٰ ابن تیمیہ ۲۶؍۱۱۲، فقہ السنہ ۱؍۶۶۷ تا ۶۶۹)
۶۴- بوقت ضرورت آنکھوں میں سرمہ یا کوئی دوا لگانا بھی گوارا ہے (صحیح مسلم: ۸؍۱۲۴) محض زینت کے لیے سرمہ لگانا مناسب تو نہیں لیکن اس پر کوئی فدیہ بھی نہیں۔ (المغنی، ۳؍۲۹۵)
۶۵- مچھلی وغیرہ کا سمندری شکار کرنا اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ (سورۃ المائدہ: ۹۶)
۶۶- بلاقصد و اِرادہ عورت سے چھو جانے میں کوئی مواخذہ نہیں (الفتح الربانی، ۱۱؍ ۲۳۶)۔ البتہ شہوت کے ساتھ چھونا اور بوس و کنار کرنا حرام ہے جس کی تفصیل محرماتِ اِحرام میں گزری ہے۔
۶۷- موذی جانوروں، سیاہ و سفید کوے، چیل، بچھو، چوہے اور کاٹنے والے پاگل کتے کو (اِحرام کی حالت میں اور حرم میں بھی) مارنا جائز ہے (بخاری: ۱۸۳۶)۔ شیر، چیتا، بھیڑیا بھی مار سکتے ہیں (دیکھئے فتٌ الباری ۴؍۳۶ تا ۳۸)۔ عام گھریلو کالا کوا اس حکم سے خارج ہے (فتح الباری، ۴؍۳۸، فقہ السنہ ۱؍۶۷۱)۔ مکھی، مچھر، کھٹمل، چیچڑی، چیونٹی اور جوئیں نکال کر پھینک سکتا ہے اور ماردے تو بھی کوئی حرج نہیں، البتہ مارنے سے پھینکنا اچھا ہے۔ (المحلّی ابن حزم، ۷؍۲۴۵، فتاویٰ ابن تیمیہ ۲۶؍۱۱۸، فقہ السنہ ۱؍۶۷۰)
۶۸- اِحرام کی حالت میں سر کا ڈھانپنا تو منع ہے، جیساکہ محرمات میں ذکر ہوا ہے، البتہ منہ ڈھانپ سکتے ہیں۔ (فتح الباری، ۴؍۵۴، ۵۵، شرح مسلم نووی ۸؍۱۲۶ تا ۱۲۹، فقہ السنہ ۱؍۶۶۶)
۶۹- پچھنے اور سینگی لگوانا یا فصد کروانا جائز ہے (بخاری: ۱۸۳۵)۔ سر یا جسم کے کسی حصے پہ احتیاط کے ساتھ خارش کر سکتا ہے (موطا مالک: ۱؍۳۸۵)۔ اس کے باوجود اگر کوئی بال گر جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ (مجموعہ رسائل کبریٰ ابن تیمیہ ۲؍۳۶۸ بحوالہ حجۃ النبیؐ، للالبانی، ص ۲۷)
۷۰-بیلٹ، گھڑی ، عینک لگانا، پرس باندھنا اور آئینہ دیکھنا، چادر کو گرہ لگانا، عورت کا کوئی بھی زیور پہننا اور مرد کا چاندی کی انگوٹھی پہن لینا جائز ہے۔ (فقہ السنہ ۱؍۶۶۸)
۷۱- پھول یا کسی بوٹی کی خوشبو سونگھنا، دانت داڑھ نکلوانا، مرہم پٹی کروانا، ٹوٹے ہوئے ناخن کو اُتار کر پھینکنا قابلِ مؤاخذہ نہیں ہے (بخاری، موطا مالک، بیہقی، محلّی، نیز دیکھئے فقہ السنہ ۱؍۶۶۷)۔ بوقتِ ضرورت سر پر کچھ اُٹھا لینے سے سر ڈھک جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (فقہ السنہ۱؍ ۶۶۶)
آدابِ دخول مکہ و مسجد ِ حرم
۷۲- ممکن ہو تو دخولِ مکہ سے قبل کہیں غسل کریں، دن کو شہرمکہ میں داخل ہوں، اس دن سے پہلی رات مقامِ ذی طویٰ (آبارِ زاہد) پر گزاریں (بخاری: ۱۵۵۳، ۱۵۷۳)۔ مکہ میں بالائی جانب (ثنیہ کداء یا ثنیہ علیاء) سے داخل ہوں اور مکہ کی زیریں جانب سے نکلیں (بخاری: ۱۵۷۷)۔ اگر ممکن نہ ہو تو کسی بھی راستہ سے داخل ہوسکتے ہیں۔ (ابوداؤد: ۱۹۳۷)
۷۳- باب السلام سے ہوتے ہوئے باب بنی شیبہ کے راستے مسجدِحرام میں داخل ہوں (ابن خزیمہ: ۲۷۱۳)۔ مسجدِحرام میں داخلے کے وقت بھی دایاں قدم پہلے اندر رکھیں (بیہقی: ۲؍۴۴۲) اور یہ دعا کریں:
اللہم صل علٰی محمدٍ، اللہم افتح لی ابواب رحمتک (صحیح مسلم: ۵؍۲۲۵)
‘‘اے اللہ! حضرت محمدؐ پر درودو رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! میرے لیے رحمتوں کے دروازے کھول دے’’۔
۷۴- بیت اللہ شریف (کعبہ معظمہ) پر نظر پڑے تو اس وقت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کوئی دعا ثابت نہیں اور جو مشہور ہے، وہ ضعیف ہے۔ البتہ حضرت عمر فاروق اور سعد بن مسیب رضی اللہ عنہما یہ دعا کیا کرتے تھے: اللہم انت السلامُ ومنک السلامُ فحینا ربنا بالسلام ‘‘اے اللہ! تو سلام ہے اور تجھی سے سلامتی ہے، اے ہمارے رب! ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ’’ (مصنف ابن ابی شیبہ،)
۷۵- کعبہ شریف کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں ہاتھوں کو اٹھانا تو صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں عبداللہ بن عباسؓ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ (مناسک الحج والعمرۃ للالبانی،ص ۲۰)
مسائل و احکام اور طریقۂ طواف
۷۶- مسجدِحرام کا تحیہ طواف ہے لہٰذا یہاں داخل ہوتے ہی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں نہ پڑھیں بلکہ طواف شروع کر دیں۔ ہاں اگر کوئی فرض نماز رہتی ہے تو وہ پہلے پڑھ لیں۔ (المغنی، ۳؍۳۳۳، فقہ السنہ ۱؍۶۹۳)
۷۷- طواف کے لیے طہارت و وضو شرط ہے (بخاری: ۱۶۴۱، ۱۶۱۴)۔ حیض و نفاس کی حالت میں طواف نہ کیا جائے۔ (بخاری: ۳۹۴، ۳۰۵)
۷۸- سب سے پہلے حجراسود کے سامنے آئیں اور بسم اللّٰہِ واللّٰہ اکبر کہتے ہوئے اسے بوسہ دیں اور طواف شروع کردیں (بخاری و مسلم) اور اگر بوسہ نہ دے سکیں تو ہاتھ یا چھڑی لگا کر اسے بوسہ دے لیں (مسلم ۹:۱۷)۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دُور سے ہی تکبیر کہتے ہوئے اشارہ کریں اور طواف شروع کردیں (صحیح بخاری: ۱۶۱۳) صرف اشارے کی شکل میں ہاتھ کو بوسہ دینا ثابت نہیں ہے۔ یہ عمل طواف کے ساتوں چکروں میں سات مرتبہ دہرائیں (ابوداؤد: ۱۸۷۶)۔ یہاں دھکم پیل اور زورآزمائی جائز نہیں اور بوسہ دینے کے لیے کمزوروں کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ (مسنداحمد: ۱؍۲۸)
۷۹- طواف میں ہر چکر میں رکنِ یمانی کو بوسہ دینا ثابت نہیں نہ اشارہ کرنا۔ اگر ممکن ہو تو صرف ہاتھ سے چھونا روا ہے۔ (نیل الاوطار شوکانی، ۳؍۵؍۴۲، ۴۳۔ مناسک الحج والعمرہ للالبانی، ص ۲۲)
۸۰- صرف پہلے طواف کے ساتوں ہی چکروں میں مردوں کے لیے اضطباع (دایاں کندھا ننگا کرنا) اور ان میں سے صرف پہلے تین چکروں میں رَمَل چال (آہستہ آہستہ دوڑنا) ضروری ہے۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۸۴)
رَمَل سنت ِ رسولؐ ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۶۰۲)۔ مگر عموماً اس میں لاپرواہی کی جاتی ہے۔
۸۱- حجراسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی دیوار ‘ملتزم’ کے ساتھ چمٹنا،اس پر چہرہ ، سینہ، ہاتھ اور بازو لگانا اور دعائیں کرنا بھی مسنون عمل ہے (سنن ابوداؤد: ۱۸۹۹)۔ اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں، البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دخولِ مکہ کے وقت یعنی طواف کے ساتھ ہی کسی وقت کرلیتے تھے۔ (مناسک الحج والعمرۃص ۲۳)
۸۲- طوافِ حطیم (حجراسماعیلؑ کا نیم دائرہ) کے باہر سے گزر کر کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری: ۱۵۸۳، ۱۵۸۴) تاکہ پورے بیت اللہ کا طواف ہو جس کا حکم ہے۔ (الحج: ۲۹)
۸۳- حجراسود، رکن یمانی اور ملتزم کے سوا پورے بیت اللہ (کعبہ معظمہ) کے کسی بھی حصہ کو بوسہ دینا، چھونا یا اشارہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۶۰۹)
۸۴- دورانِ طواف بلاضرورت لایعنی گفتگو سے احتراز کریں کیونکہ طواف بھی نماز ہی ہے، البتہ اس میں جائز گفتگو گوارا ہے۔ (سنن ترمذی: ۹۶۰)
۸۵- رکنِ یمانی اور حجراسود کے درمیانی حصہ میں یہ دعا کریں:
ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الاخرۃِ حسنۃً وقنا عذاب النار
‘‘اے ہمارے رب! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے’’۔ (البقرہ:۲۰۲)۔ (سنن ابوداؤد: ۱۸۹۲)
باقی سارے چکر اور ساتوں ہی چکروں میں قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ کوئی بھی دعا کریں، چاہے اپنی اپنی زبان میں دعائیں مانگیں، کوئی حرج نہیں (ابن تیمیہ بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ، ص ۲۳)۔ اور سات چکروں کے لیے الگ الگ جو سات دعائیں تجویز کی گئی ہیں، ان کے ‘چکر’ میں نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
۸۶- بیت اللہ کے جتنا قریب ہوکر طواف کریں، اتنا ہی افضل ہے، البتہ بھیڑ کی وجہ سے جہاں بھی ممکن ہو، کرلیں۔ پوری مسجدِحرام (اور اس کی سب منزلوں) میں طواف صحیح و جائز ہے۔ (التحقیق والایضاح از شیخ ابن باز، ص ۳۱)
۸۷- اگر طواف کے چکروں میں شک ہوجائے تو تھوڑی تعداد پر اعتماد کر کے باقی تعداد کو پورا کرلیں۔ (حوالہ سابقہ)
۸۸-پیدل طواف افضل ہے، مگر کسی ضرورت و مجبوری کے تحت سوار ہوکر بھی جائز ہے۔ (صحیح مسلم: ۹؍۱۸، ۱۹)
۸۹- طواف کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے اور نہ ہی طواف والی دو رکعتوں کا کوئی وقتِ کراہت ہے، وہ بھی ہر وقت پڑھی جاسکتی ہیں۔ (ابوداؤد: ۱۸۹۴)
۹۰- استحاضہ ،بواسیر، سلسلِ بول اور سلسلِ ریح (ہوا) کی بیماری والے طواف و نماز ادا کرسکتے ہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۰۶)
۹۱- دورانِ طواف نماز کا وقت ہوجائے یا بول و براز کی حاجت ہوجائے تو اپنی نماز سے فارغ ہوکر جہاں سے طواف چھوڑا تھا، وہیں سے شروع کرلیں۔ (بخاری مع فتح الباری، ۳؍۴۸۴)
۹۲- طواف کے سات چکروں سے فارغ ہوکر مقامِ ابراہیم پر آجائیں اور یہ پڑھیں: واتخِذوا من مقامِ ابراہیم مصلّٰی (البقرہ:۱۲۵) ‘‘اور مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بناؤ’’۔
مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دو رکعت نماز پڑھیں (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰)۔ اگر اژدہام کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو پھر سارے حرم میں کہیں بھی یہ دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اگر بھول جائیں تو حرم یا خارج از حرم کہیں بھی ان کی قضا بھی ممکن ہے (فتح الباری: ۳؍۴۸۷)۔ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الکافرون اور دوسری میں سورۂ الاحد پڑھنا مسنون ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۳۰۷۴)
ایک حدیث میں پہلی رکعت میں الاخلاص اور دوسری میں الکافرون آیا ہے۔ (مسلم: ۹؍۱۷۰، ۱۹۶) مگر قرآنی ترتیب کے مطابق پہلی حدیث ہی ہے۔ یہ دو رکعتیں پڑھ کر وہیں بیٹھے بیٹھے خوب دعا کریں۔
۹۳- اب آبِ زمزم پئیں بشرطیکہ روزہ نہ ہو اور اپنے سر پر بھی پانی ڈالیں۔ (مسند احمد: ۳؍۳۹۴)
ایک حدیث میں چہرہ دھونے کا بھی ذکر ہے مگر وہ روایت ضعیف ہے۔ (اخبارِ مکہ فاکہی، تخریج سوئے حرم: ص ۲۸۹)۔ پورا وضو کرنے بلکہ نہانے اور اس میں کفن و نقدی بھگونے والے اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں۔ آبِ زمزم مریضوں کو پلانا اور ان پر چھڑکنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ (تاریخ کبیر از امام بخاری، ص ۳؍۱۸۹)
۹۴- زمزم پی کر پھر حجراسود کا استلام (حسب موقع بوسہ، چھونا یا اشارہ) کریں تاکہ طواف کا اول و آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح استلام پر ہی ہو اور پھر بابِ صفا کے راستے صفا کی طرف نکل جائیں۔ (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)
مسائل و احکام اور طریقۂ سعی
۹۵- سعی کا آغاز کرنے کے لیے صفا پہاڑی کے اُوپر تک چلے جانا مسنون و افضل ہے۔ وہاں یہ آیت پڑھیں: ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ (البقرہ: ۱۵۸) ‘‘بے شک صفا و مروہ اللہ کے شعائر و نشانیوں میں سے ہیں’’۔ اور ساتھ ہی یہ کہیں: ابداً بما بدأ اللّٰہُ بِہٖ (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶) ‘‘میں بھی وہیں سے سعی شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ نے (تذکرہ) شروع فرمایا ہے’’۔
صفا پر قبلہ رو کھڑے ہوکر تین مرتبہ اللّٰہُ اکبر ، اللّٰہُ اکبر، اللّٰہُ اکبر کہیں اور پھر تین مرتبہ ہی یہ ذکرِ الٰہی دہرائیں۔ لَا اِلٰہ الا اللّٰہُ وحدہٗ لا شریکَ لَہٗ لَہٗ المُلکُ وَلَہٗ الحمدُ یُحی ویُمیتُ وہو علٰی کُل شیءٍ قدیرٌ ……لَا الِٰہ الا اللّٰہُ وحدہٗ انجز وعدہٗ ونصر عبدہٗ وہزم الاحزاب وحدہٗ ‘‘اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہی اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہرچیز پر قادر ہے’’۔ ……‘‘اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے نے تمام سرکش جماعتوں کو شکست دی’’۔ (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)
۹۶- اب یہاں اپنے لیے خوب دعائیں کریں اور صفا سے نیچے مروہ کی جانب اُترنا شروع کردیں اور جب سبز ستونوں کے وسط میں پہنچیں تو آہستہ آہستہ دوڑیں یہاں تک کہ اگلے سبز ستون آجائیں، پھر آہستہ چلنے لگیں اور مروہ تک پہنچ جائیں۔ (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)
۹۷- صفا و مروہ کی سعی کے دوران بھی طواف کی طرح صرف ایک دعا ہی مرفوعاً ضعیف مگر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہے، جو یہ ہے: رب اغفر وارحم ، انک انت الاعزُّ الاکرمُ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۴؍ ۶۸ ۶۹) ‘‘اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، تو غالب اور صاحب ِ کرم ہے’’۔
صفا کی طرح ہی مروہ کے بھی اُوپر چڑھ جائیں اور وہاں بھی صفا والا ذکر اور دعائیں کریں (صحیح مسلم: ۸؍۱۹۶، ۱۷۰)۔ صفا سے مروہ تک ایک اور مروہ سے صفا تک دو اور اسی طرح سات چکر مروہ پر مکمل ہوں گے۔ طواف اور سعی کے چکروں میں یہ فرق ہے۔ (مسلم: ۱۷۰، ۱۹۶)
۹۸- صفا و مروہ کی موجودہ صورت حال میں حیض و نفاس والی عورت کا سعی کرنا مناسب نہیں لگتا، کیونکہ یہ ساری جگہ ہی حرم میں شامل لگتی ہے۔ بہرحال اصل مسئلہ یہ ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کے لیے طہارت و وضو شرط نہیں ہے (صحیح مسلم: ۸؍۱۴۶)۔ گویا باوضو افضل ہے، مگر بلاوضو بھی جائزہے۔
۹۹- طواف کی طرح ہی سعی بھی پیدل ہی افضل ہے، مگر بوقتِ ضرورت سواری کا استعمال بھی جائز ہے۔ (مسلم: ۹؍۱۰، ۱۱)
۱۰۰- سعی مکمل کرکے مروہ سے باہر نکل جائیں اور صرف عمرہ یا حجِ تمتع کا عمرہ کرنے والے سر منڈوا لیں یا سارے سر کے بال ہلکے کروا لیں۔ صرف چند جگہوں سے قینچی سے بال کاٹ لینا جائز نہیں ہے۔ عورتیں چوٹی کے بال پکڑ کر اُنگلی کے پورے کے برابر کاٹ لیں۔ اس کے ساتھ ہی اِحرام کھول دیں، آپ کا عمرہ مکمل ہوا۔
۱۰۱- اگر کوئی قربانی ساتھ لایا ہے اور حجِ قران کر رہا ہے تو وہ عمرہ مکمل کرلے، بال نہ کٹوائے، نہ اِحرام کھولے، بلکہ بدستور اِحرام ہی میں رہے۔ وہ یومِ نحر کو قربانی کے بعد اِحرام کھولیں گے (بخاری و مسلم)۔ البتہ اگر کوئی قربانی ساتھ نہ لایاہو اور قران کی نیت کرلی ہو تو اسے عمرہ کر کے قربانی کی نیت فسخ کردینی اور تمتع کی نیت کرلینی چاہیے اور بال کٹوا کر اِحرام کھول دینا چاہیے، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حکم فرمایا تھا۔ (صحیح بخاری: ۱۵۵۶)
۱۰۲- اگر کسی عورت نے عمرہ کا احرام باندھا اور طواف سے پہلے ہی حیض آگیا یا زچگی ہوگئی تو وہ پاک ہونے تک طواف و سعی نہ کرے۔ خون بند ہونے کے بعد غسل کر کے طواف وغیرہ کرے اور اگر ۸؍ ذوالحجہ تک بھی پاک نہ ہو تو منیٰ چلی جائے۔ اس طرح اس کا یہ حجِ قران ہوجائے گا (التحقیق والایضاح، ص ۳۴)۔ ایسی عورت اور ہر قارن کے لیے صرف ایک ہی طواف و سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے (بخاری و مسلم)۔ اور اگر ایسی کوئی عورت حضرت عائشہؓ کی طرح تنعیم سے عمرہ بھی کرلیتی ہے تو اس کے لیے مثال موجود ہے (بخاری و مسلم)۔ یہ صرف ایسے لوگوں کے لیے ہے۔ اس سے ‘چھوٹا عمرہ’ کی لائنیں لگا دینا ثابت نہیں ہوتا۔ اور نہ ایک ہی سفر میں بکثرت عمرے سلف اُمت سے ثابت ہیں۔ (زاد المعاد، ۲؍۱۷۰)
مسائل و احکام اور طریقۂ حج
اِحرامِ حج اور منیٰ کو روانگی
۱۰۳- ۸؍ذوالحج (یومِ ترویہ) کو اپنی رہائش گاہ سے غسل کر کے بدن کو خوشبو لگاکر (لبیک، حجًّا اور پھر تلبیہ کہتے ہوئے) حج کا اِحرام باندھیں اور منیٰ کو روانہ ہوجائیں (بخاری: ۳؍۵۰۶) اور نمازِ ظہروعصر، مغرب و عشاء اور اگلے دن کی فجروہیں پڑھیں (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)۔ یہاں ظہروعصر اور عشاء قصر کر کے پڑھنا سنت ہے اور اس میں مقامی و آفاقی حجاج میں کوئی فرق نہیں (التحقیق والایضاح، ص ۲۷)۔ اگر کثرتِ حجاج اور اژدہام کی وجہ سے کسی کو منیٰ میں جگہ نہیں ملتی اور وہ منیٰ کے آخری حصے کے ساتھ ہی، مگر منیٰ سے باہر خیمہ لگا لیتا ہے تو اس کا حج صحیح ہے کیونکہ عذر کی وجہ سے منیٰ میں نہ رہ سکنے کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرانے والوں اور اپنے چچا حضرت عباسؓ کو پانی پلانے کی وجہ سے رخصت دے دی تھی۔ (فتویٰ شیخ عثیمین، مجلہ الدعوۃ، الریاض، شمارہ ۱۸۲۸، ۲۴؍ ذوالقعدہ، ۱۴۲۲ھ، ۷فروری ۲۰۰۲ء)
۱۰۴- ۹؍ذوالحج (یومِ عرفہ) کو سورج نکلنے کے بعد میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہوں (مسلم: ۹؍۴۰) ممکن ہو تو منیٰ سے پہلے وادئ نمرہ میں جائیں اور زوالِ آفتاب تک وہیں رہیں۔(صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)۔ اور زوال کے بعد ساتھ ہی اگلی وادئ عرنہ میں چلے جائیں، جہاں آج کل مسجد نمرہ بنائی گئی ہے۔ وہاں نمازِ ظہروعصر کی دو دو رکعتیں (قصر) ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر کے وقت میں جمع تقدیم سے پڑھیں اور پھرعرفات چلے جائیں۔ (صحیح مسلم: ۸؍ ۱۷۰، ۱۹۶)۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو سیدھے عرفات ہی چلے جائیں۔
۱۰۵- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبلِ رحمت کے دامن میں وقوف فرمایا۔ اس کے اُوپر نہیں چڑھے۔ (صحیح مسلم: ۸؍ ۱۷۰، ۱۹۶) اور فرمایا کہ ‘‘میں نے یہاں وقوف کیا ہے البتہ سارا میدانِ عرفات ہی جائے وقوف ہے’’ (صحیح مسلم: ۸؍۱۹۵)۔ حاجیوں کے لیے یومِ عرفہ کا روزہ جائز نہیں (بخاری: ۱۶۶۱)۔ البتہ ۹؍ذوالحج کا روزہ عام مسلمانوں کے لیے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے (صحیح مسلم: ۸؍۵۰، ۵۱)۔ میدانِ عرفات میں یہ دن ذکر اور دعائیں کرنے میں گزاریں۔ دعاؤں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ سینے تک (بیہقی، مسنداحمد، اخبارِ مکہ از فاکہی) اُٹھائے تھے۔ (نسائی: ۵؍۲۵۱، ۲۵۱)
۱۰۶- ‘‘کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے رہائی دے’’(صحیح مسلم: ۹؍۱۱۷)۔ ‘‘اس دن اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اہلِ عرفات پر فخر کرتا ہے اور فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتا ہے: میں نے اِن سب کو بخش دیا’’۔ (شرح السنہ از بغوی: ۱۹۳۱)
۱۰۷- ایک دعا کو یومِ عرفہ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منتخب فرمایا ہے، جو یہ ہے:
لا الٰہ الا اللّٰہُ وحدہٗ لا شریک لہٗ ، لہٗ الملکُ ولہٗ الحمدُ وھو علٰی کل شیی ءٍ قدیرٌ ‘‘اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، تمام بادشاہی اور ہر طرح کی حمدوثنا اسی کے لیے ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے’’۔ (ترمذی: ۳۵۸۵)
غرض یہ سارا دن قرآن و سنت سے ثابت شدہ مسنون اذکار و دعاؤں اور اللہ سے اپنی حاجتیں طلب کرنے میں گزارنا چاہیے۔
مزدلفہ کو روانگی
۱۰۸- غروبِ آفتاب کے بعد میدانِ عرفات سے (مغرب کی نماز پڑھے بغیر) تلبیہ و تکبیرات کہتے ہوئے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوجائیں، اور مزدلفہ میں مغرب و عشا جمع تاخیر اور قصر سے پڑھیں، ایک اذان اور دونوں کے لیے الگ الگ اقامت کہیں (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶) اور دونوں نمازوں کی فرض رکعتوں کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں کچھ بھی پڑھنا ثابت نہیں۔ (صحیح بخاری: ۱۶۷۴) علامہ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ تہجد بھی نہیں پڑھی (حجۃ النبیؐ، للالبانی، ص ۷۶)
صبح نمازِ فجر کے بعد مشعرالحرام کے پاس یا مزدلفہ میں کہیں بھی ذکرودعا میں مشغول رہیں اور روشنی خوب پھیل جانے مگر طلوعِ آفتاب سے تھوڑا پہلے منیٰ کو روانہ ہوجائیں (صحیح مسلم: ۹؍۲۷)۔ روانگی سے قبل اور فجر کے بعد جمرہ عقبہ پر رمی کے لیے سات یا کم و بیش کنکریاں چن سکتے ہیں (صحیح مسلم:۹؍۲۷)۔ اور اگلے دنوں میں روزانہ اکیس کنکریاں منیٰ سے لے کر رمی کرلینا بھی جائز ہے۔ (التحقیق والایضاح، ص ۴۲)
۱۰۹- صرف خواتین اور ضعیف لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ جاسکتے ہیں (مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶) مگر جمرۂ عقبہ عقبہ کی رمی طلوعِ آفتاب کے بعد ہی کرنا ہوگی۔ (ابوداؤد: ۱۹۴۰)
۱۱۰- مزدلفہ و منیٰ کے مابین وادی مُحسَّر بھی آتی ہے، جو منیٰ کا ہی حصہ ہے جہاں اَبرہہ اور اس کے لشکر کو اللہ نے ابابیلوں سے تباہ کروایا تھا۔ وہاں سے گزرتے وقت تیز تیز نکل جائیں۔ (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶، ترمذی: ۸۸۵)
یومِ نحر و قربانی اور اِحرام اُتارنا
۱۱۱- ۱۰؍ذوالحج (یومِ نحر) کو سب سے پہلے جمرۂ عقبہ(بڑے جمرہ) پر رَمی کریں، جو موٹے چنے سے ذرا بڑی سات کنکریوں سے ہوگی۔ کنکریاں ایک ایک کر کے ماریں اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہیں (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)۔ جمرات پر بڑے بڑے کنکر و پتھر اور جوتے مارنا رَوا نہیں ہے۔ اس جمرہ کے پاس کھڑے ہوکر دعا کرنا ثابت نہیں (مؤطا امام مالک: ۱؍۴۰۷)۔ اس جمرۂ عقبہ پر رَمی کرنے کے ساتھ ہی تلبیہ کہنا بند کردیں۔ (بخاری: ۱۵۲۳)
۱۱۲- منیٰ میں موجود حجاج کو نمازِ عید پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کی رَمی ہی عید کے قائم مقام ہوتی ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۲۶؍ ۱۷۰- ۱۷۱)
۱۱۳- رمی ٔ جمرہ کے بعد قربانی کریں (صحیح مسلم: ۸؍۱۷۰، ۱۹۶)۔ یہ حجِ تمتع (البقرہ: ۱۹۶) اور حجِ قران والوں کے لیے واجب ہے اور حجِ مفرد والوں پر قربانی واجب تو نہیں، لیکن کرلیں تو کارِ ثواب ہے (صحیح بخاری: ۱۶۹۱)۔ اُونٹ اور گائے میں سات سات حاجی شریک ہوسکتے ہیں (صحیح مسلم: ۹؍۶۶، ۶۷)۔
۱۱۴- قربانی کا مسنون وقت جمرۂ عقبہ کی رَمی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چار دنوں یومِ نحر و ایامِ تشریق (۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳) تک رہتا ہے۔ (صحیح ابن حبان: ۱۰۰۸)
۱۱۵- قربانی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو کر کے (بائیں پہلو پر) لٹائیں اور اس کے دائیں پہلو پر اپنا پاؤں رکھیں۔ (صحیح بخاری: ۳؍۵۴۲ مع الفتح) اور چھری چلا دیں۔
۱۱۶- اُونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں اس کے گھٹنے سے باندھ کر اسے تین ٹانگوں پر کھڑا رہنے دیں۔ (بخاری: ۱۷۱۳) اور اسے قبلہ رو کرلیں۔ (بخاری، تعلیقاً: ۳؍۵۴۲) اور اس کی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ کر اس کی رسی اس کی دُم سے باندھ دیں اور ذبح و نحر کی دعائیں کرتے ہوئے اس کی ٹانگوں کی جڑوں اور گردن کے آغاز میں موجود گڑھے میں خنجر یا برچھا مار دیں۔ وہ جلد ہی گر جائے گا۔ قرآن کریم میں ان کے اسی طرح زمین پر لگ جانے کا ذکر ہے (الحج :۳۶)۔ مستحب تو یہی طریقۂ نحر ہے البتہ اسے بیٹھے بیٹھے ذبح کرنا بھی جائز ہے۔ (نزہۃ الطالبین وعمدۃ المُفتین للنووی، ۳؍۳۰۷)
۱۱۷- قربان کو نحر یا ذبح کرتے وقت یہ اَذکار و دعائیں پڑھیں:
۱۱۸- قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے (الحج: ۳۶) یہ نبیؐ کی سنت ہے۔ (صحیح مسلم: ۸؍ ۱۷۰، ۱۹۶)
۱۱۹- اگر قربانی دینے کی طاقت نہ ہو تو تین روزے ایامِ حج (ایامِ تشریق میں یا اس کے بعد مکہ) میں اور سات روزے واپس اپنے گھر جاکر رکھ لیں(البقرہ:۱۹۶)۔ (صحیح بخاری: ۱۶۹۱)
۱۲۰- قربانی کے بعد سر منڈوا لیں یا بال چھوٹے کروا لیں (الفتح: ۲۷) البتہ سر منڈوانا افضل ہے (مسلم: ۹؍ ۵۳، ۵۴)۔ عورتوں کے لیے سر منڈوانا نہیں ہے (ابوداؤد: ۱۹۸۵ء، ۱۹۸۴ء)۔ وہ اپنی چوٹی کے بالوں کو اکٹھا کر کے آخر سے تمام بالوں کو اُنگلی کے پورے کے برابر (تقریباً پون اُنچ) کاٹ لیں۔ (المغنی لابن قدامہ، ۳؍۳۹۵) ناخن بھی کاٹ لیں تو بہتر ہے۔ (زاد المعاد، ۲؍۲۷۰)
۱۲۱- بال کٹوانے کے بعد اِحرام کھول دیں اور خوشبو وغیرہ لگائیں (صحیح بخاری: ۱۵۳۹)۔ یہ تحلل اوّل ہے۔ اب میاں بیوی کے تعلقات کے سوا تمام پابندیاں ختم ہوگئیں۔
۱۲۲- جو لوگ قربانی کے لیے کوپن لیے ہوئے ہوں، وہ جمرۂ عقبہ کی رَمی کے بعد بال کٹوائیں اور اِحرام کھول لیں۔
۱۲۳- ۱۰؍ذوالحج کو ہی سب سے اہم اور حج کا رکنِ اعظم ‘طوافِ افاضہ’ (طوافِ حج یا طوافِ زیارت) کرلیں تو یہی مسنون ہے (بخاری: ۱۵۶۱)۔ اگر بیماری یا حیض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ۱۰ ذوالحج کو ممکن نہ ہو تو ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳) میں کرلیں۔ ورنہ جب مجبوری زائل ہو تب ہی سہی اور اس تاخیر پر کوئی فدیہ و کفارہ بھی نہیں۔ (المغنی، ۳؍۳۹۶)
۱۲۴- اس طواف میں اِحرام، رمل اور اضطباع نہیں ہے (ابوداؤد: ۲۰۰۱)۔ حجِ تمتع کرنے والوں کے لیے اس طواف کے بعد صفا و مروہ کے مابین سعی بھی ضروری ہے اور قران و مفرد والوں کے لیے طوافِ قدوم یا طوافِ عمرہ کے ساتھ کی گئی سعی ہی کافی ہے (ترمذی: ۹۴۸)۔ طواف سے فارغ ہوکر مقامِ ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں (صحیح بخاری: ۳؍۴۸۴)۔ اس طواف و سعی کے بعد حاجی کو ‘تحللِ ثانی’ یا ‘تحللِ کلی’ حاصل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے تعلقات سمیت تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ (صحیح بخاری: ۱۶۹۱، ۱۶۹۲)
ایامِ تشریق اور قیامِ منیٰ
۱۲۵- طوافِ افاضہ کے بعد واپس منیٰ لوٹ جائیں اور ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں ہی گزاریں (ابوداؤد: ۱۹۷۳)۔ ان ایام کے دوران مکہ جانا اور زیارت و طوافِ کعبہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ (اُنظر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۲؍۴۵۶)
۱۲۶- ان دنوں میں تمام نمازیں ان کے اوقات پر مگر قصر کرکے باجماعت ادا کریں۔ (صحیح بخاری: ۱۰۸۴، ۱۶۵۷)
۱۲۷- ۱۱، ۱۲ اور ۱۳؍ ذوالحج کو زوالِ آفتاب کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریوں سے رَمی کرنا مسنون ہے (ابوداؤد: ۱۹۷۳)۔ صحابہ کا عمل بھی یہی تھا (بخاری: ۱۷۴۶)۔ پہلے چھوٹے پر رمی کریں اور فارغ ہوکر ایک طرف ہوجائیں اور قبلہ رو ہوکر دعا مانگیں، ایسے ہی درمیانے پر کریں، البتہ بڑے کے پاس دعا ثابت نہیں۔ (صحیح مسلم: ۹؍۴۷، ۴۸)
۱۲۸- اگر کوئی صرف ۱۱،۱۲ کی رمی کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہے تو اس کے لیے یہ جائز ہے (البقرہ:۲۰۳) ۱۲ ذوالحج کی رمی کرکے مغرب سے پہلے پہلے اپنی جگہ سے روانہ ہوجائیں اور اگر وہیں مغرب ہوگئی تو پھر اگلے دن ۱۳؍ذوالحج کی رمی کرنا ضروری ہوجائے گا (موطا امام مالک: ۱؍۴۰۷)۔ احناف اور جمہور علما کا بھی یہی مسلک ہے۔ (موطا امام محمد مع التعلیق المُمجد، ص ۲۳۳، المجموع للنووی، ۸؍۲۸۳، المغنی ۳؍ ۴۰۷)
۱۲۹- بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور عورتوں کے لیے اگر خود جاکر رمی کرنے کی گنجائش نہ ہو تو وہ اپنا وکیل مقرر کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض ضعیف احادیث بھی ترمذی، ابن ماجہ، مسنداحمد، مصنف ابن ابی شیبہ، معجم طبرانی اوسط میں ہیں۔ (نیل الاوطار، حوالہ سابقہ، فقہ السنہ ۱؍۷۳۵)
وکیل پہلے خود اپنی سات کنکریاں ایک ایک کر کے مارے،پھر مؤکلین کی بھی اسی طرح مارے، مٹھی بھر کر کنکریاں پھینک دیں تو یہ رمی شمار نہیں ہوگی۔ (المغنی، ۳؍۲۸۶)
۱۳۰- ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے (ابوداؤد: ۱۹۷۳)۔ البتہ بکریاں اور اُونٹ چرانے والوں (ابن حبان: ۲۹۷۵) اور حجاج کو پانی پلانے کی ذمہ داری نبھانے والوں (حضرت عباسؓ) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راتیں منیٰ میں نہ گزارنے کی رخصت دے دی تھی۔ (بخاری: ۱۶۳۵)
۱۳۱- اگر کسی نے اس واجب کو بلاعذر شرعی ترک کردیا تو اسے بعض ائمہ (مالک، شافعی، اور ایک روایت میں امام احمد) کے نزدیک دَم دینا پڑے گا جبکہ امام احمد کی مشہور روایت اور اَحناف کے نزدیک ترکِ قیامِ منیٰ پر فدیہ نہیں ہے۔ (نیل الاوطار: ۳؍۵؍ ۸۰)۔ لیکن اُنہیں رمی کرنا ہوگی، ایسے لوگ ایک دن بکریاں چرائیں اور ایک دن میں دونوں کی اکٹھی کنکریاں مار لیں۔ (ابن حبان: ۲۹۷۵)
بچوں کا حج و عمرہ
۱۳۲- بچوں کا حج صحیح ہے اور اس کا ثواب بچوں کے علاوہ اُنہیں حج کروانے والوں (والدین) کو بھی ہوتا ہے (صحیح مسلم: ۹؍۹۹، ۱۰۰)۔ عہدِنبویؐ اور دورِ خلفا رضی اللہ عنہم میں سات سال اور کم و بیش عمر کے نابالغ بچوں کو حج کروانے کے کئی واقعات کتب ِ حدیث میں موجود ہیں۔ (صحیح بخاری: ۱۸۵۸)۔ ان کا یہ حج نفلی شمار ہوگا اور بالغ ہونے پر اگر اللہ نے توفیق دے کر حج فرض کردیا تو فرض ادا کرنا ہوگا۔ (المُحلّٰی از ابن حزم، ۷؍۲۷۶)
۱۳۳- میقات پر اِحرام سے لے کر تمام مناسک اُنہیں اپنے ساتھ ساتھ پورے کروائیں، سوائے رمی کے، یہ آپ خود ان کی طرف سے کردیں۔ ناسمجھ بچوں سے اِحرام کے آداب پورے کروائیں، اُنھیں خوشبو نہ لگائیں، ان کے بال یا ناخن نہ کاٹیں اور اگر وہ کسی معاملہ میں کوئی کمی بیشی کردیتے ہیں تو ان پر کوئی دم یا گناہ نہیں ہے۔ (المحلّی، ۷؍۲۷۶- ۲۷۷)۔ سمجھ دار بچے کو اِحرام باندھیں اور ناسمجھ بچے کو معمول کے لباس میں رکھ کر اُنہیں (خواتین کی طرح) اِحرام کے حکم میں داخل کردیا جائے لیکن افضل و اَحوط اِحرام باندھنا ہی ہے۔ (فتح الباری، ۴؍ ۷۱ تا ۷۳)
۱۳۴- حج تمتع اور حجِ قران کرنے والے بچوں کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے۔ (الشرح الصغیر للدردیر، ۲؍۸)
طوافِ وداع
۱۳۵- مکہ مکرمہ سے اپنے شہر یا ملک جانے سے پہلے طوافِ وداع کرنا واجب ہے۔ البتہ حیض والی عورت یہ طواف کیے بغیر مکہ سے روانہ ہوسکتی ہے (مسلم: ۹؍۷۸، ۷۹)۔ طوافِ وداع میں نہ رمل ہے نہ اِحرام، نہ اضطباع اور نہ ہی اس کے ساتھ سعی ہے۔ طواف کریں، دو رکعتیں پڑھیں اور روانہ ہوجائیں۔ حرم شریف سے اُلٹے پاؤں باہر نکلنا سراسر خانہ ساز فعل ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (مناسک الحج والعمرۃ للالبانی، ص ۴۳)
اَحکام و آدابِ زیارتِ مدینہ منورہ
۱۳۶- مسجد نبویؐ میں نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کیا جائے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جس میں آپؐ نے مسجدِحرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے سوا کسی طرح بغرضِ ثواب رختِ سفر باندھنے سے منع فرمایا (بخاری: ۱۱۸۹)۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مسجدِنبویؐ میں جائیں، جہاں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے (بخاری: ۱۱۹۰)۔ جبکہ پچاس ہزار نماز کا ثواب والی حدیث (ابن ماجہ) ضعیف و ناقابلِ حجت ہے۔
۱۳۷- مسجد نبویؐ میں داخل ہوتے ہی دعائے دخول اور پھر تحیۃ المسجد پڑھیں اور اگر ممکن ہو تو ریاض الجنۃ میں پڑھیں جو قبرِشریف کے ساتھ ہی سفید ستونوں والی جگہ ہے اور جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘جنت کا باغیچہ’ قرار دیا ہے (صحیح بخاری: ۱۱۹۶، ۱۸۸۸)۔ اگر کسی فرض نماز کا وقت ہے تو باجماعت نماز ادا کرلیں۔
۱۳۸- فرض نماز یا تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمقدس کے پاس جائیں اور یوں سلام کریں: السلام علیک یارسولَ اللّٰہ ‘‘اے اللہ کے رسولؐ! آپ پر سلام ہو’’۔
پھر ساتھ ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی قبر پر اُنھیں یوں سلام کریں: السلامُ علیک یا ابابکر ‘‘اے ابوبکرؓ! آپ پر سلام ہو’’۔
اور پھر حضرت عمر فاروقؓ کی قبر پر ، اُنھیں یوں سلام کہیں: السلامُ علیک یاعمر ‘‘اے عمر! آپ پر سلام ہو’’۔ (موطا امام مالک: ۱؍۱۶۶)
۱۳۹- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے در ودیوار یا جالیوں اور پوری مسجدنبویؐ کے کسی بھی حصہ کو تبرک کی نیت سے چھونا، پھر ہاتھوں کو چہرے اور سینے پر پھیرنا اور چومنا ثابت نہیں ہے۔ امام غزالی، ابن تیمیہ، امام نووی، ابن قدامہ، ملا علی قاری، شیخ عبدالحق حنفی دہلوی اور مولانا احمد رضا خان (بریلوی) نے بھی ان اُمور کو منع قرار دیا ہے۔ (احیاء علوم الدین از غزالی، ۱؍۲۴۴)
۱۴۰- قبرشریف کے پاس شور پیدا کرنا یا طویل عرصہ تک رُک کر شور کا باعث بننا بھی درست نہیں کیونکہ یہ ادب گاہِ عالم ہے اور یہاں آوازوں کو پست رکھنا ضروری ہے (الحجرات:۲)۔ صلوٰۃ و سلام سے فارغ ہوجائیں تو قبلہ رو ہوکر دعائیں مانگیں نہ کہ قبرشریف کی طرف منہ کر کے۔ (التحقیق والایضاح: ص ۶۷)
۱۴۱- حرمِ مکی کی طرح ہی مسجدنبویؐ سے بھی اُلٹے پاؤں نکلنا ایک خود ساختہ فعل ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ: ص ۴۳)
۱۴۲- قیامِ مدینہ منورہ کے دوران کسی بھی وقت اقامت گاہ سے وضو کر کے جائیں اور مسجدِ قبا میں دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اس کا ثواب پورے عمرے کے برابر ہے۔ (نسائی: ۲؍۳۶)
مسجدِ قبا کی زیارت سنتِ رسولؐ ہے۔ (صحیح مسلم: ۹؍۱۶۹، ۱۷۰)
۱۴۳- بقیع الغرقد (جنت البقیع) کی زیارت کرسکتے ہیں اور وہاں عام قبرستان کی زیارت والی دعا کریں اور ان الفاظ کا اضافہ کردیں: اللہم اغفر لاھل بقیع الغرقَدِ ‘‘اے اللہ! اس بقیعِ غرقد کے آسودگانِ خاک کی مغفرت فرما دے’’۔
۱۴۴- شہدائے اُحد کی زیارت بھی جائز ہے اور وہاں بھی عام زیارتِ قبور والی دعا کریں۔
۱۴۵-مدینہ منورہ میں جتنا بھی قیام ممکن ہو، جائز ہے۔ چالیس نمازیں پوری کرنے کے لیے ہفتہ بھر رکنا کوئی شرط نہیں، کیونکہ اس موضوع پر بیان کی جانے والی مسند احمد و طبرانی اوسط والی روایت ضعیف و ناقابلِ استدلال ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی: ۱؍ ۳۶۶)
۱۴۶- دورانِ حج اگر کوئی شخص مقصد بنائے بغیر ضمنی طور پر کوئی تجارت یا مزدوری کرنا چاہے تو یہ جائز ہے (البقرہ:۱۹۸، الحج:۳۸، تفسیر ابن کثیر ، ۱؍۲۸۵، صحیح بخاری حدیث: ۱۷۷)۔ البتہ اس میں غیرقانونی اشیا غیرقانونی طریقوں سے لانا، ان کا کاروبار کرنا اور کسٹم میں دھوکا دہی کرنا جو کہ عام حالات میں بھی روا نہیں، وہ حج و حجاج کے لیے بھی جائز نہیں، ان سے بچیں۔ (جدید فقہی مسائل، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی: ص۱۳۰، ۱۳۱)
۱۴۷- مکہ مکرمہ کا اصل تحفہ آبِ زمزم اور مدینہ منورہ کا مبارک ہدیہ عجوہ کھجور ہے، کیونکہ آبِ زمزم ہر غرض و مرض کے لیے مفید ہے (مسنداحمد: ۲؍۳۰۵، ۳۵۶)۔ یہ کھانے کا کھانا (صحیح مسلم: ۲؍۱۴) اور بیماری کی دوا ہے (مسنداحمد: ۲؍۳۰۱، ۳۰۵) لیکن اس میں کفن یا نقدی کو بھگونا خانہ ساز فعل ہے (السنن والمبتدعات، ص ۱۱۳ و حجۃ النبی،ص ۱۱۹) اور عجوہ کھجور کے سات دانے صبح کھالیں تو اس دن زہر اور سحر (جادو) اثر نہیں کرتا (بخاری: ۵۴۴۵)۔ یہ شفا اور زہر کا تریاق ہے (صحیح مسلم: ۳؍۱۴)۔ یہ جنت کا پھل ہے (ترمذی: ۲۰۶۸)
۱۴۸-سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، یہ عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، لہٰذا کوئی شخص جب اپنا کام مکمل کرلے تو جلد اپنے اہل و عیال میں لوٹ جائے (بخاری: ۱۸۰۴) حاجی کا حج سے فارغ ہوکر اپنے اہل و عیال میں جلد لوٹ جانا ہی زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (دارقطنی: ۲؍۳۰۰)
۱۴۹- جب واپسی کا سفر اختیار کریں تو سواری پر بیٹھنے، راستے میں قیام کرنے، شہروں کو دیکھنے، اُونچائی پرچڑھنے اور زیریں جانب اُترنے وغیرہ کی دعائیں کرتے آئیں اور جب اپنا شہر نظر آجائیں تو یہ دعا کریں:
آئِبون تائبون عابدُونَ سَاجِدُون لربنا حاَمِدُون (بخاری: ۲۹۸۱، ۱۷۹۷) ‘‘ہم تو تائب ہوکر، سجدہ و عبادت گزاری کا عہد کرکے لوٹ آئے ہیں، اور اپنے رب کی تعریفیں کرتے ہیں’’۔
۱۵۰- اور اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ممکن ہو تو مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ لیں (بخاری و مسلم)۔ اور پھر یہ دعا کرتے ہوئے اپنے گھر داخل ہوجائیں:
اللہم انی اسئَلُک خیر المولجِ وخیر المخرجِ ، بسم اللّٰہ ولجنا وعلٰی ربنا توکلنا (سنن ابوداؤد: ۵۰۹۶)
‘‘اے اللہ! میں تجھ سے داخل ہونے، اور نکلنے کی جگہوں کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، تیرا نام لے کر ہم یہاں سے نکلے تھے اور اے ہمارے رب! تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے’’۔
(بشکریہ ، ماہنامہ محدث، لاہور،دسمبر ۲۰۰۷ء)