پانچ اکتوبر عالمی یوم استاد قرار پایا۔ اس حوالے سے ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہسپتال میں علاج اور سکول میں پڑھائی خالص تھی۔ معالج اور استاد حرص و طمع کے فیوض و برکات سے نا آشنا تھے۔ جب پیدل ڈاکٹر اور زنگ آلود سائیکل پر سوار استاد کوچہ و بازار سے گزرتا تھا تو ہر طرف سے ڈاکٹر صاحب سلام، استاد جی آداب کی آوازیں آتی تھیں۔ ہر راہ چلتا ایسا مؤدب ہوجاتا جیسے شاہی سواری گزر رہی ہو۔ڈاکٹر اور استاد دونوں مسیحا تھے۔اہلِ محلہ کے باپ تھے۔ دونوں کے دونوں طبقاتی اونچ نیچ سے قطع نظر بچے کی جسمانی و ذہنی صحت کے مسیحا و امین تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب کوئی بھی زن و مرد بچے کی انگلی پکڑے بے دھڑک استاد کے کمرے میں گھس جاتا تھا۔‘ماسٹر جی آج سے اس بچے کی چمڑی آپ کی اور ہڈیاں ہماری۔ بس اسے کسی قابل کردیجئے!’ اور استاد بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا: ‘آپ بے فکر ہو کر جائیں اب یہ بچہ ہماری ذمہ داری ہے۔’
پھر سب کچھ بدل گیا اور پچھلے برس میں ہی بدل گیا۔ تعلیم صنعت میں، استاد مشین میں اور بچے کرنسی نوٹ میں تبدیل ہوتے چلیگئے۔ اور ہاں! یہ ان دنوں کی بات ہے جب پانچ اکتوبر عالمی یومِ استاد قرار نہیں پایا تھا۔ اس دور کے استاد کے لئے ہر دن پانچ اکتوبر ہوتا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اساتذہ سکول کے بعد بھی شاگردوں کی جاسوسی کروایا کرتے تھے۔ بچے کی صحبت کیسی ہے ؟ سکول کے بعد سیدھا گھر گیا یا آوارہ گردی میں پڑ گیا؟ گھر میں اس کی خوراک و صحت کا کتنا خیال رکھا جارہا ہے ؟ زیادہ لاڈ پیار سے بگاڑا تو نہیں جا رہا؟ کس کس بچے نے کونسی کلاس اٹینڈ نہیں کی؟ بھگوڑے بچوں کی باقاعدہ فہرست بنتی تھی اور اگلے روز صبح ہی صبح سکول کی اسمبلی کے سامنے انہیں ہتھیلی پر دو دو ڈنڈوں اور تضیحک کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ یونیفارم کے میلے ہونے، ناخن نہ کاٹنے اور ہوم ورک مکمل نہ ہونے پر والدین کو سکول میں طلب کرلیا جاتا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچہ صرف کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اسباق کا قیدی نہیں بنا تھا۔ اسے یا تو ہفتہ وار بزمِ ادب کی کسی تحریری و تقریری سرگرمی میں یا پھر فٹ بال، والی بال، ہاکی، کرکٹ یا بیڈ منٹن کی ٹیم میں نام لکھوانا پڑتا تھا۔ جو بچہ ہچکچاتا تھا وہ اپنے ہم جولیوں اور اساتذہ کی نظروں میں نکو بنتا تھا اور نکھٹو کہلاتا تھا۔ایسے کام چور اور پڑھائی میں کمزور بچوں کی سزا یہ ہوتی تھی کہ وہ علی الصبح یا اسکول کے بعد اضافی کلاس میں بیٹھیں۔ان کلاسوں میں اوور ٹائم اور تعریف سے بے پرواہ اساتذہ کمزور بچوں کو اپنے ذہین ساتھیوں کے برابر لانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کرتے تھے۔
جب ان پیلے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے بچے عملی زندگی میں کسی مقام پر پہنچتے تھے تو سب سے پہلے ایک ایک استاد کے پاس مٹھائی اور پھول لے کر جاتے اور استاد انہیں نمناک آنکھوں سے گلے لگا لیتے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب استاد کو اپنی تنخواہ کے حصول کے لئے سڑک پر پولیس کے ڈنڈے نہیں کھانے پڑتے تھے۔ جب ٹیچر کی تقرری کسی رکنِ اسمبلی یا وزیر کی پرچی یا مٹھی گرم کرنے پر نہیں بلکہ منشی فاضل، ادیب فاضل، پی ٹی سی، بی ایڈ اور ایم ایڈ کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ جب یہ مقابلہ نہیں تھا کہ کس ٹیچر کا ٹیوشن سینٹر کتنا رش لے رہا ہے۔ بلکہ یہ مقابلہ ہوتا تھا کہ کس استاد کی کلاس کے کتنے بچے فرسٹ ڈویڑن میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پھر سب کچھ بدل گیا اور پچھلے بیس پچیس برس میں ہی بدل گیا۔ تعلیم صنعت میں، استاد مشین میں اور بچے کرنسی نوٹ میں تبدیل ہوتے چلیگئے۔
اور ہاں! یہ ان دنوں کی بات ہے جب پانچ اکتوبر عالمی یومِ استاد قرار نہیں پایا تھا۔ اس دور کے استاد کے لئے ہر دن پانچ اکتوبر ہوتا تھا۔