نصیرالدین نے بتایا کہ جب چودہ اگست کی صبح جناح صاحب اور ماؤنٹ بیٹن سجے بنے اسمبلی کی طرف تشریف لا رہے تھے تو میں بھی سڑک کے کنارے کھڑے ان ہزاروں آبدیدہ لوگوں میں شامل تھا جو جناح صاحب کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے اور شکرگزار تھے کہ اس نے ایک ایسا ملک بنا دیا جس کی چھت سب کو خوف اور روز روز کے جھنجھٹ سے محفوظ رکھے گی۔میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور لالچی نگاہوں سے نصیرالدین کو دیکھنے لگا تاکہ اس کی باتیں ضائع ہونے سے پہلے لپک لوں۔پھر بابو جی جنرل ایوب آیا۔ہم سب لوگ بہت خوش ہوئے۔اس نے آتے ہی کہا کہ میں گندم اور چینی چھپانے والوں کو خود گولی ماروں گا۔کسی نے سڑک پر کچرا پھینکا تو کھال کھینچ لی جائے گی۔ڈاکوؤں اور چوروں کو اسی جگہ لٹکا دوں گا۔سب لوگ ملک کے لیے کام کریں۔ سب کو برابر کا پھل ملے گا۔ اس کے بعد نصیرالدین چپ ہوگیا۔ پھر کیا ہوا؟ میں نے بے صبری سے پوچھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بولتا رہے۔نصیر الدین ہنس پڑا۔بابو جی تمھیں تو سب معلوم ہے۔آگے کیا بتاؤں!اچھا نصیر الدین تم نے کبھی ووٹ ڈالا ؟جی ہاں ! ستر میں پہلی اور آخری دفعہ ڈالا تھا۔یہاں چوک میں تھڑے پر رات رات بھر بحثیں ہوتی تھیں۔بہت سوں کا خیال تھا کہ چلو دیر سویر سہی اب خدا نے سن ہی لی اور بھٹو کو بھیج دیا ہے۔ روٹی، کپڑے اور مکان کی تو بے فکری ہو ہی جائے گی۔بابوجی جب اس کے جیتنے کی خبر آئی تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ خوشی میں سامنے والی بلڈنگ پر چڑھ کر اڑنے لگوں، بھاگنا شروع کردوں کہ چیخوں۔یہاں چوک پر اتنی مٹھائی بٹی کہ حلوائی نے دوپہر کو ہاتھ اٹھا لیا اور دوکان بند کرکے چلا گیا۔ جب ضیاء الحق آیا تب بھی حلوائی کی دکان لٹ گئی۔جب بے نظیر آئی تب بھی دکان خالی ہوگئی۔مشرف کے ٹیم ( ٹائم) پر بھی یہی ہوا۔ بابو جی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری قوم اتنی پاگل کیوں ہو جاتی ہے۔ آنے پر بھی مٹھائی بانٹتی ہے اور جانے پر اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔۔ لیکن نصیر الدین تمہاری زندگی کا وہ کون سا دن تھا جب تم سب سے زیادہ خوش ہوئے تھے ؟سچی بات بتاؤں بابو جی ! میرا خیال ہے کہ جب میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنے بچے کی انگلی پکڑ کر چودہ اگست سے آٹھ دن پہلے کراچی کے ریلوے سٹیشن پر اترا تھا تو اس دن جیسی میٹھی نیند آئی ویسی پھر نہیں آئی۔ایک سیٹھ نے مجھے اپنی مل میں مزدوری دی، رہنے کوکوارٹر دیا، تنخواہ کم تھی مگر گزارہ ہوجاتا تھا۔ تیرہ چودہ سال نوکری کی، پھر سیٹھ کا دوالہ پٹ گیا، بیوی مر مرا گئی، لڑکا نشے میں پڑ گیا۔ میٹرک کیا تھا اس نے۔ کہیں کورنگی میں ہوتا ہے۔کبھی کبھار ادھر بھی نکل آتا ہے۔سیٹھ کا دوالہ پٹنے کے بعد میں نے جونا مارکیٹ میں ریڑھا کھینچنا شروع کردیا۔اب آٹھ دس سال سے یہ بھی نہیں کر پارہا۔ آج نصیر الدین بیاسی تراسی برس کا ہوچکا ہے اور کراچی کے پاکستان چوک کی ایک بغلی گلی کی ایک کھولی میں زندگی کے دن گن رہا ہے۔محلے والے آتے جاتے کچھ نہ کچھ خاموشی سے دے دلا جاتے ہیں۔
باتوں باتوں میں نصیر الدین کو اچانک خیال آیا کہ میں تو مہمان ہوں۔اس نے جست کی ایک پرانی سی پلیٹ سے کپڑا ہٹا کر میرے سامنے رکھ دی۔ لو کھاؤ! ایک لونڈا زرداری صاحب کی خوشی میں مٹھائی کے یہ تین ٹکڑے دے گیا ہے۔۔۔۔۔۔اب جانے اگلی مٹھائی کب آئے۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر نصیر الدین نے اپنی ہی بات پر ہنسنا شروع کردیا۔اور پھر اس پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔۔۔۔