ایک انٹرنیشنل تعلیمی ادارے کے ایم اے ، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی محفل میں جب ڈاکٹر حمیداللہ کی شخصیت کا ذکر کیا گیا تو تقریباًسب نے پوچھاکہ وہ کون تھے؟اساتذہ کرام کی اس کم علمی پر سوائے تاسف کے کیا جا سکتا تھا۔ایسے ہی لوگوں کے لیے ہم ان صفحات میں مرحوم کامختصر تعارف شائع کر رہے ہیں ۔اصل میں ان کی شخصیت کا پورا تعارف ایک ضخیم کتاب کا متصاضی ہے۔اس زمانے میں امت مسلمہ جن مسائل اور المیوں سے دوچار ہے ان میں سے ایک خوفناک المیہ یہ ہے کہ امت کا ‘‘استاد’’کنویں کا مینڈک بن کر رہ گیا ہے۔وہ اپنے مضمون کے دو چار الفاظ کے علاوہ باقی تمام مضامین اور خصوصاً سوشل سائنسز سے جتنا نا بلد ہے اس نے اس امت کے زوال کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔امت کی تاریخ ،اقدار، اسلاف ، مشاہیراور علوم سے ناواقف استاد اپنے طلبا کو جو تعلیم دے گا اور جس قسم کی تربیت کرے گا ، اس کی سطحیت اور سنگینی کااندازہ ہر ذی شعور بخوبی کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ کی عبقری شخصیت سے علمی حلقہ کما حقہ متعارف ہے ۔ذیل کی سطور میں ان کا عمومی تعارف پیش کیا جارہا ہے تاکہ عام قارئین کو بھی ان کی اسلامی خدمات کا کسی قدر اندازہ ہو سکے ۔ان کی علمی خدمات اور کار ناموں کے ذکر سے پہلے آئیے ان کی ابتدا ئی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
ڈاکٹر موصوف نے ۱۹ ؍فروری ۱۹۰۸ کو حید ر آباد کے دینی گھرانے میں آنکھیں کھولیں ۔مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے جامعہ عثمانیہ سے بی اے ،ایل ایل بی اور ایم اے کے امتحانات فرسٹ ڈویژن سے پاس کئے ۔اس کے بعد وہ جرمنی یونیورسٹی میں عربی اور اردو زبان کے پروفیسر مقرر کئے گئے کچھ عرصہ بعد آپ فرانس آئے اور موربون یونیورسٹی سے ‘‘عہد نبوی اور بین الاقوامی سفارتکاری ’’کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ۔۱۹۳۵ میں آپ حیدر آباد واپس آئے اور جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں فقہ کے پرو فیسر مقرر ہوئے ۔
سقوط حیدرآباد کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ نے پیرس میں سکونت اختیار کر لی اور اسے اپنی علمی سر گرمیوں کا مرکز بنایا جہاں وہ تقریباً نصف صدی تک علمی خدمات اور فریضہ اشاعت دین انجام دیتے رہے ۔انھوں نے ترکی کی کئی جامعات میں بھی درس دیا ۔اسی طرح پاکستان کی بہاول پور یونیورسٹی میں بھی ان کے دروس ایک معرکے کی چیز ہیں۔ترکی کی کئی جامعات میں اسلامی علوم کے شعبے ان کی بدولت قائم ہوئے ۔وہاں ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جن میں کئی مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انھوں نے اپنی طویل عمر کو علمی کاموں میں صرف کیا ۔تحقیق و جستجو سے ان کو خاص شغف تھا وہ کثیر التعد اد کتابوں کے مصنف ہی نہیں بیشتر زبانوں کے ماہر بھی تھے ۔۴۰ برس کے عرصے میں انھوں نے سات زبانوں میں سو سے زائد کتابیں اور ایک ہزار سے زیادہ مضامین لکھے۔ وہ ۲۲ زبانیں جانتے تھے جن میں اردو ،عربی ،فارسی ،ترکی ،انگریزی ،فرانسیسی ،جرمن ،اطالوی ،ہسپانوی اور عبرانی شامل ہیں ۔ان زبانوں پر انہیں دسترس حاصل تھی ۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ فرانسیسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے ۔جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۵۹ میں پیرس سے شائع ہوا ۔اسے یورپ ،امریکہ اور افریقہ میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اب تک اس ترجمے کے تیس ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔فرانسیسی کے علاوہ انھوں نے انگریزی اور جرمن زبانوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے ۔انھوں نے فرانسیسی زبان میں سیرت طیبہ دو جلدوں میں لکھی ہے جس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔سیرت پر ان کا کام ایک یادگار حیثیت رکھتا ہے ۔انہیں سیرت رسول کریم ﷺ سے خصوصی لگاؤ تھا اس لیے ساری عمر یہ شعبہ ان کی تحقیق و تصنیف کا خصوصی مرکز رہا۔انھوں نے نادرونایاب مخطوطات کی دستاویزات بڑی کاوش سے جمع کرکے شائع کیں ۔اردو میں ان کی مشہور تصنیفات جنہوں نے اردو حلقوں میں ان کی علمی خدمات کا تعارف کرایا یہ ہیں :
(۱) رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی
(۲) عہد نبوی کے میدان جنگ
(۳) عہد نبوی کا نظام تعلیم
مغربی دنیا میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا جو کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے وہ قابل قدر ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے ۔ان کے ہاتھ پر ہزاروں فرانسیسی مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا اوریہ کام انہوں نے تن تنہا انجام دیا ۔انھوں نے ساری زندگی تجرد میں گزاری اور خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کیے رکھی ۔وہ ہمیشہ ماہرین فن و تحقیق سے علمی استفادہ کرتے رہے ۔ان کی تحقیقی کاوشوں کا اعتراف علماء جدید اور تعلیم یافتہ طبقہ نے بھی کیا ہے ۔انہوں نے مستشرقین کے اعتراضات کا عالمانہ اور محققانہ جواب دے کر حق وصداقت کو روشن کردیا ۔ حق تو یہ ہے کہ انہوں نے تحقیق کا حق اداکر دیا اس کا اعتراف مستشرقین کو بھی ہے ۔
۱۹۹۴ میں انھیں مینسل ایوارڈ کی پیشکش کی گئی جس کو بعض وجوہ کی بنا پر انہوں نے قبول نہیں کیا ۔پاکستان کی ہجرت کونسل کی طرف سے انہیں دس لاکھ روپے پیش کئے گئے جسے انھوں نے ایک اسلامی ادارہ کے حوالہ کر دیا انہوں نے اپنی کتابوں پر بھی کو ئی رائیلٹی نہیں لی اور اپنی زندگی کے پچاس برس پیرس کی ایک پرانی عمارت میں گزار دیے ان کی زندگی نہایت سادہ تھی ۔وہ بے حد خوش اخلاق اور متواضع تھے بلکہ سادگی اور منکسر المزاجی میں اسلاف کی تصویر تھے۔
۱۹۹۴ میں وہ شدید علیل ہوئے انہیں فلور یڈ ا(امریکہ) لے جایا گیا جہاں انہوں نے ۹۴ برس کی عمر میں ۱۷ ؍دسمبر ۲۰۰۲ کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ خدارحمت کندایں عاشقان ِپاک طینت را